aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "نارنجی"
نوح ناروی
1878 - 1962
شاعر
گوپی چند نارنگ
1931 - 2022
مصنف
ناجی شاکر
1690 - 1744
الکھ نرنجن
born.1983
شاہ حسین نہری
born.1941
افسر ناروی
نذیر احمد ناجی
born.1934
رئیس ناروی
نرنجن
مدیر
اسرار ناروی
قادری سید محمد ابراہیم نہری
نرنجن ازگرے
گوکل چند نارنگ
مترجم
این، ایل، شرما
نکھل بھارتیہ نرنجنی مہاسبھا، جے پور
ناشر
جس دن وہ ملنے آئی ہے اس دن کی روداد یہ ہےاس کا بلاؤز نارنجی تھا اس کی ساری دھانی تھی
سبز نارنجی سنہری کھٹی میٹھی لڑکیاںبھاری جسموں والی ٹپکے آم جیسی عورتیں
شانتا بائی کی بھوری ساڑھی ہے، جو چھٹے ساتویں ماہ تار تار ہو جاتی ہے۔ کبھی سات ماہ سے زیادہ نہیں چلتی۔ یہ مل والے بھی پانچ روپے چار آنے میں کیسی کھدری نکمی ساڑھی دیتے ہیں۔ ان کے کپڑے میں ذرا جان نہیں ہوتی۔ چھٹے ماہ سے جو تار تار ہونا شروع ہوتا ہے تو ساتویں ماہ بڑی مشکل سے سی کے، جوڑ کے، گانٹھ کے، ٹانکے لگا کے کام دیتا ہے اور پھر وہی پانچ روپے چار ا...
’’پھر کیا سوچا ہے تم نے؟ تمہاری امی کہتی ہیں نکاح ضروری ہے، رخصتی بہار میں ہو جائےگی۔ کیوں تم کیا کہتے ہو۔۔۔؟‘‘تین دن میں نکاح۔۔۔ اور بہار میں رخصتی۔۔۔ آڑو اور آلوچے کے شگوفوں کے ساتھ۔۔۔ جب کھٹے کے درختوں میں پھول لگتے ہیں۔۔۔ نارنجی اور سویٹ پنیر کے پھول کھلتے ہیں۔ خودرو گھاس کے تختوں پر بیٹھی ہوئی نئی نویلی دلہن ہریل طوطوں کو سوا انچ لمبی جھلملیوں میں چھپائے انار دانوں کو سرخ خواں پوش میں بند کیے۔۔۔ جھپاک سے سارا نفع تاجی کا ہو گیا اور وہ منہ تکتا رہ گیا۔
ریستوران کی فضا پرسکون اور خاموش تھی۔ بالکونی کے نیچے پلاٹ میں رنگین پھولوں کا جال سا بچھا ہوا تھا۔ ایک طرف سنگین بنچ کے اوپر ناشپاتی کے درخت پر جابجا سپید پھول چمک رہے تھے۔ ایک کمسن بچہ بڑی خاموشی اور انہماک سے گھاس پر گرے پڑے پھولوں کو اٹھا اٹھا کر بنچ پر جمع کر رہا تھا۔ پانچ سال پہلے جب میں اپنی رجمنٹ کے ساتھ قاہرہ جا رہا تھا، تو پال نے آخری رات اسی جگہ ڈنر دیا تھا۔ اس شام گوتما تتلی کے پروں ایسی رنگین ساری میں ملبوس تھی۔ اس کے نرم سیاہ بال بڑی خوبصورتی سے دولٹوں میں گندھے ہوئے تھے، اور بائیں کان کے اوپر چنبیلی کی تین کلیاں مسکرا رہی تھیں۔ ڈوبتے سورج کی نارنجی شعاعیں اس کے صندلیں جسم میں چکاچوند سی پیدا کر رہی تھیں۔ وہ ایک ایسا سنہری خواب معلوم ہو رہی تھی جو شروع رات کی ادھ پکی نیند میں دیکھا گیا ہو۔ پال بڑی مشکل سے نیلی سرج کے سوٹ میں ٹھسا ہوا تھا اور کئی بار کرسی پر پہلو بدل چکا تھا۔ وہ کولڈبیف کے ساتھ گرین کمل کے ہلکے گھونٹ چڑھا رہا تھا اور سگریٹ کے ساتھ سگریٹ سلگا رہا تھا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے یہ ڈنر اس نے اپنے اعزاز میں دیا ہو۔ ہمارے سروں پر ناشپاتی کی نازک ٹہنیاں اسی طرح سپید پھولوں سے لدی ہوئی تھیں۔
नारंजीنارنجی
Of orange; orange-coloured.
नारंगी के रंग का।।
ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات
تنقید
اردو کی نئی کتاب
نصابی کتاب
اردو زبان اور لسانیات
زبان
غالب
جدیدیت کے بعد
اردو غزل اور ہندوستانی ذہن و تہذیب
غزل تنقید
ہندوستان کی تحریک آزادی اور اردو شاعری
شاعری تنقید
ادبی تنقید اور اسلوبیات
ترقی پسندی جدیدیت مابعد جدیدیت
مضامین
اردو کی تعلیم کی لسانیاتی پہلو
منٹو: نوری نہ ناری
ممتاز شیریں
فکشن شعریات تشکیل وتنقید
فکشن تنقید
ساختیات پس ساختیات اور مشرقی شعریات
کلیات ہندوی امیر خسرو
کلیات
سانحۂ کربلا بطور شعری استعارہ
چھت ہے کہ کڑیاں رہ گئیں ہیں اور اس پر بارش! یا اللہ کیا مہاوٹیں اب کے ایسی برسیں گی کہ گویا ان کو پھر برسنا ہی نہیں۔ اب تو روک دو۔ کہاں جاؤں، کیا کروں۔ اس سے تو موت ہی آ جائے! تو نے غریب ہی کیوں بنایا۔ یا اچھے دن ہی نہ دکھائے ہوتے یا یہ حالت ہے کہ لیٹنے کو جگہ نہیں۔ چھت چھلنی کی طرح ٹپکے جاتی ہے۔ بلی کے بچوں کی طرح سب کونے جھانک لیے لیکن چین کہاں۔ ...
کلک۔۔۔ کلک۔۔۔ تصویر اتر گئی۔ ’’تصویر آپ کو شام کو مل جائے گی۔۔۔ تھینک یولیڈی۔۔۔ تھینک یوسر۔۔۔‘‘ فوٹو گرافر نے ذرا سا جھک کر دوبارہ ٹوپی چھوئی۔ لڑکی اور اس کا ساتھی کار کی طرف چلے گئے۔سیر کرکے وہ دونوں شام پڑے لوٹے اور سندھیا کی نارنجی روشنی میں دیر تک باہر گھاس پر پڑی کرسیوں پر بیٹھے رہے۔ جب کہرہ گر نے لگا تو اندر نچلی منزل کے وسیع اور خاموش ڈرائنگ روم میں نارنجی قمقموں کی روشنی میں آبیٹھے۔ نہ جانے کیا باتیں کررہے تھے جو کسی طرح ختم ہونے ہی میں نہ آتی تھیں۔ کھانے کے وقت وہ اوپر چلے گئے۔ صبح سویرے وہ واپس جارہے تھے اور اپنی باتوں کی محویت میں ان کو فوٹوگرافر اور اس کی کھینچی ہوئی تصویر یاد بھی نہ رہی تھی۔
ہاتھ میں لے کر سورج کا نارنجی البمشام وہ فوٹو کسے دکھانے لگتی ہے
ایک مہکتی ہوئی نارنجی شام میں جب ہوا کی خنکی بڑھ گئی تھی اور ہم لوگ مسوری کلب جانے کی تیاری کر رہے تھے، عائشہ اور میں کالے سنگِ مر مر کے شیروں والے چبوترے پر کھڑے سکینہ اور فاضل بھائی کا انتظار کر رہے تھے جو اپنے اپنے کمرے میں کپڑے بدلنے کے لئے گئے تھے۔ گئی تو عائشہ بھی تھی مگر اپنے کمرے سے جلدی نکل آئی تھی کیونکہ اس طرح سے ہم دونوں کو اکیلے میں س...
قریب پہنچ کر میں نے دیکھا کہ محراب کی پیشانی پر بالکل ویسی ہی دو مچھلیاں ابھری ہوئی ہیں جیسی میرے مکان میں استاد والے کمرے کے دروازے پر تھیں۔ مجھ کو حیرت ہوئی کہ اس درس گاہ میں اتنے دن تک آنے جانے کے باوجود ان مچھلیوں پر کبھی میری نظر نہیں پڑی۔ اب میں نے انہیں غور سے دیکھا۔ محراب کی شکستہ پیشانی کی مرمت کی جا چکی تھی۔ مچھلیاں بھی جگہ جگہ سے ٹوٹی ہ...
یہ ’’بہت ہی زیادہ‘‘ حمیدہ کے لیے کیا نہ تھا؟ اور جب وہ سیدھی سڑک پر پینتالیس کی رفتار سے کار چھوڑ کر وہی "I dreamt I dwell in marbel halls" گانا شروع کردیتا تو حمیدہ کو یہ سوچ کر کتنی خوشی ہوتی اور کچھ فخر سا محسوس ہوتا کہ رافے کی ماں موزارٹ کی ہم وطن ہے۔۔۔ آسٹرین۔ اس کی نیلی چھلکتی ہوئی آنکھیں، اس کے نارنجی بال۔۔۔ اُف اللہ! اور کسی گھنے ناشپاتی ...
عام حالات میں مجھے جب بھی یہ شعر یاد آتا تو ہلکی سی ہنسی بھی آتی۔ لیکن آج رونا آ رہا تھا۔ یہی نہیں، اپنا بچپن بھی اس وقت مجھے بڑی آرزو بھری ارمان انگیز گلابی نارنجی روشنیوں کے سائے میں گھرا ہوا دکھائی دے رہا تھا، حالانکہ دراصل میرا بچپن خاصا ناخوشی سے بھرا ہوا اور بھلا دینے کے لائق تھا۔کہتے ہیں ایک بار بسمل سعیدی نے جوش صاحب سے کہا کہ جوش صاحب آپ کے کلام میں سوزوگداز کی اک ذرا کمی نہ ہوتی تو آپ اور بھی بڑے شاعر ہوتے۔ جوش صاحب نے کہا، ’’ہرگز نہیں، میرے یہاں سوزوگداز کی کمی ہرگز نہیں۔ لو یہ شعر سنو:‘‘
اور سچ مچ افروز کو اس صبح محسوس ہوا کہ وہ بھی اپنی اس دنیا، اپنی اس زندگی سے انتہائی مطمئن اور خوش ہے۔ اس نے اپنی چاروں طرف دیکھا۔ اس کے کمرے کے مشرقی دریچے میں سے صبح کے روشن اور جھلملاتے ہوئے آفتاب کی کرنیں چھن چھن کر اندر آ رہی تھیں اور کمرے کی ہلکی گلابی دیواریں اس نارنجی روشنی میں جگمگا اٹھی تھیں۔ باہر دریچے پر چھائی ہوئی بیل کے سرخ پھولوں کی ...
عثمان جماہیاں لے رہا تھا۔ صبیحہ کچھ پڑھ رہی تھی اورمیں کشنوں پر کہنیاں ٹیکے اور پیر اوپر کو اٹھائے قالین پر لیٹی لیٹی بور ہو رہی تھی۔ اور اس وقت سامنے کے برآمدے کے اندھیرے میں کچھ اجنبی سے بوٹوں کی چاپ سنائی دی اور ایک ہلکی سی سیٹی بجی، ’’ہلو۔۔۔ کوئی ہے۔۔۔‘‘ اور جیسے سمندر کی موجوں کے ترنم کے ساتھ ریوڈی کوٹن کے آرکیسٹرا کی دھن گونج اٹھی، ’’اب اس ...
چند قدم اور آگے گیا تو ایک نہیں دو تین چار عورتیں ہلکے نیلے رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے شاپنگ کرتی پھر رہی تھیں۔ یہ تجربہ مجھے پہلی بار نہیں ہوا تھا، اس سے پہلے بھی ایک بار کرافورڈ مارکیٹ کے علاقے میں آنے جانے والی سب عورتوں نے دھانی لباس پہن رکھ تھا فرق تھا تو صرف اتنا کہ کسی کی اوڑھنی دھانی تھی اور کسی کی ساری اسکرٹ بھی دھانی تھی اور میں سوچتارہ گیا تھ...
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books