aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "इत्मिनान"
شام کو جب خدا بخش آیا تو سلطانہ نے اس سے پوچھا، ’’تم آج سارا دن کدھر غائب رہے ہو؟‘‘ خدا بخش تھک کر چور چور ہورہا تھا، کہنے لگا، ’’پرانے قلعہ کے پاس سے آرہا ہوں۔ وہاں ایک بزرگ کچھ دنوں سے ٹھہرے ہوئے ہیں، انہی کے پاس ہر روز جاتا ہوں کہ ہمارے دن پھر جائیں۔۔۔‘‘’’کچھ انھوں نے تم سے کہا؟‘‘
میں تھوڑی دیر کھجاتی رہی اور بیگم جان چپکی لیٹی رہیں۔ دوسرے دن ربو کو آنا تھا۔۔۔ مگر وہ آج بھی غائب تھی۔ بیگم جان کا مزاج چڑچڑا ہوتا گیا۔ چائے پی پی کر انہوں نے سر میں درد کر لیا۔میں پھر کھجانے لگی ان کی پیٹھ۔۔۔ چکنی میز کی تختی جیسی پیٹھ۔۔۔ میں ہولے ہولے کھجاتی رہی۔ ان کا کام کر کے کیسی خوشی ہوئی تھی۔
اشوک اٹھنے لگا۔ مہاراجہ گ نے اسے پکڑ کربٹھا دیا،’یہ فلم تمہیں پورے کا پورا دیکھنا پڑے گا۔‘‘ فلم چلتا رہا۔ پردے پر برہنگی منہ کھولے ناچتی رہی۔ مرد اور عورت کا جنسی رشتہ مادر زاد عریانی کے ساتھ تھرکتا رہا۔ اشوک نے ساراوقت بے چینی میں کاٹا۔ جب فلم بند ہوا اور پردے پر صرف سفید روشنی تھی تو اشوک کو ایسا محسوس ہوا کہ جو کچھ اس نے دیکھا تھا، پروجیکٹر کی ب...
استاد منگو نے پچھلے برس کی لڑائی اور پہلی اپریل کے نئے قانون پر غور کرتے ہوئے گورے سے کہا، ’’کہاں جانا مانگٹا ہے؟‘‘ استاد منگو کے لہجے میں چابک ایسی تیزی تھی۔ گورے نے جواب دیا۔ ’’ہیرا منڈی۔‘‘’’کرایہ پانچ روپے ہو گا‘‘۔ استاد منگو کی مونچھیں تھرتھرائیں۔
’’تو کیا کر رہے تھے؟‘‘’’کچھ۔۔۔ کچھ بھی نہیں؟‘‘
इत्मीनानاطمینان
satisfaction, repose
इत्मिनानاطمینان
satisfaction
گھر میں وہ بالکل اکیلا تھا۔ اس کی بہن مری میں تھی۔ ماں بھی اس کے ساتھ تھی۔ باپ مر چکا تھا۔ ایک بھائی، اس سے چھوٹا، وہ بورڈنگ میں رہتا تھا۔ سریندر کی عمر ستائس اٹھائیس سال کے قریب تھی۔ اس سے قبل وہ اپنی دو ادھیڑ عمر کی نوکرانیوں سے دو تین مرتبہ سلسلہ لڑا چکا تھا۔معلوم نہیں کیوں، لیکن موسم کی خرابی کے باوجود سریندر کے دل میں یہ خواہش ہورہی تھی کہ وہ پیپل کی چھاؤں میں بیٹھی ہوئی لڑکی کے پاس جائے یا اسے اوپر ہی سے اشارہ کرے تاکہ وہ اس کے پاس آجائے، اور وہ دونوں ایک دوسرے کے پسینے میں غوطہ لگائیں اور کسی نامعلوم جزیرے میں پہنچ جائیں۔
بارش میں کچھ دیر کھڑے رہنے کے باعث جب مسعود کے ہاتھ بالکل یخ ہوگیے اور دبانے سے ان پر سفید دھبے پڑنے لگے تو اس نے مٹھیاں کس لیں اور ان کو منہ کی بھاپ سے گرم کرنا شروع کیا۔ ہاتھوں کو اس عمل سے کچھ گرمی تو پہنچی مگر وہ نم آلود ہوگیے۔ چنانچہ آگ تاپنے کے لیے وہ باورچی خانہ میں چلا گیا۔ کھانا تیار تھا، ابھی اس نے پہلا لقمہ ہی اٹھایا تھا کہ اس کا باپ قبر...
چنانچہ اس نے دوسرے روز ایک طویل خط لکھا اور جب وہ کالج سے واپس آرہا تھا، ٹانگے میں یاسمین کو دیکھا۔ وہ اتر کر کرایہ ادا کر چکی تھی اور گھر کی جانب جارہی تھی، خط اس کے ہاتھ میں دے دیا۔۔۔ اس نے کوئی احتجاج نہ کیا۔ ایک نظر اس نے اپنے برقعے کی نقاب میں سے ظہیر کی طرف دیکھا اور چلی گئی۔ظہیر نے محسوس کیا تھا کہ وہ اپنی نقاب کے اندر مسکرا رہی تھی۔۔۔ اور ی...
’’مجھ‘‘ پر مضمون لکھ کر کیا کرو گے پیارے! میں اپنے قلم کی مقراض سے اپنا لباس پہلے ہی تار تار کر چکا ہوں۔ خدا کے لیے مجھے اور ننگا کرنے کی کوشش نہ کرو۔ میرے چہرے سے اگر تم نے نقاب اٹھا دی تو تم دنیا کو ایک بہت ہی بھیانک شکل دکھاؤ گے۔ میں ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ ہوں جس پر میرا قلم کبھی کبھی پتلی جھلی منڈھتا رہتا ہے۔ اگر تم نے جھلیوں کی یہ تہہ ادھیڑ ڈالی ...
اپنے والد سے رخصت ہو کر خالد اپنے کمرے میں چلا گیا۔ اور ہوائی بندوق نکال کر نشانہ لگانے کی مشق کرنے لگا تاکہ اس روز جب ہوائی جہاز والے گولے پھینکیں، تو اس کا نشانہ خطا نہ جائے۔ اور وہ پوری طرح انتقام لے سکے۔۔۔ کاش! انتقام کا یہی ننھا جذبہ ہر شخص میں تقسیم ہو جائے۔ اسی عرصے میں جبکہ ایک ننھا بچہ اپنے انتقام لینے کی فکر میں ڈوبا ہوا طرح طرح کے منصوبے باندھ رہا تھا، گھر کے دوسرے حصے میں خالد کا باپ اپنی بیوی کے پاس بیٹھا ہوا ماما کو ہدایت کر رہا تھا کہ وہ آئندہ گھر میں اس قسم کی کوئی بات نہ کرے جس سے خالد کو دہشت ہو۔
یہ سن کر وہ دونوں چپ ہو جاتیں اور اپنا کام کرتی رہتیں۔جب منشی کریم بخش کے گھر میں آموں کے ٹوکرے آتے تھے تو گلی کے سارے آدمیوں کو اس کی خبر لگ جاتی تھی۔ عبداللہ نیچہ بند کا لڑکا جو کبوتر پالنے کا شوقین تھا، دوسرے روز ہی آدھمکتا تھا اور منشی کریم بخش کی بیوی سے کہتا تھا، ’’خالہ میں گھاس لینے کے لیے آیا ہوں۔ کل خالو جان آموں کے دو ٹوکرے لائے تھے ان میں سے جتنی گھاس نکلی ہو مجھے دے دیجیے۔‘‘ ہمسائی نوراں جس نے کئی مرغیاں پال رکھی تھیں، اسی روز شام کو ملنے آجاتی تھی اور اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد کہا کرتی تھی،’’پچھلے برس جو تم نے مجھے ایک ٹوکرا دیا تھا، بالکل ٹوٹ گیا ہے۔ اب کے بھی ایک ٹوکرادے دو تو بڑی مہربانی ہوگی۔‘‘
اتفاق سے ایک روز دایہ کوبازار سے لوٹنے میں ذرا دیر ہو گئی۔ وہاں دو کنجڑنوں میں بڑے جوش و خروش سے مناظرہ تھا۔ ان کا مصور طرز ادا۔ ان کا اشتعال انگیز استدلال۔ ان کی متشکل تضحیک۔ ان کی روشن شہادتیں اور منور روائتیں ان کی تعریض اور تردید سب بے مثال تھیں۔ زہر کے دو دریا تھے۔ یا دو شعلے جو دونوں طرف سے امڈ کر باہم گتھ گئے تھے۔ کیا روانی زبان تھی۔ گویا کو...
’’تم جاتے کیوں نہیں ہو؟‘‘ موذیل کے لہجے میں چڑچڑاپن تھا۔ترلوچن نے آہستہ سے کہا، ’’اس کے ماں باپ بھی تو ہیں۔‘‘
تارا بائی کی آنکھیں تاروں کی ایسی روشن ہیں اور وہ گرد وپیش کی ہر چیز کو حیرت سے تکتی ہے۔ در اصل تارا بائی کے چہرے پر آنکھیں ہی آنکھیں ہیں۔ وہ قحط کی سوکھی ماری لڑکی ہے۔ جسے بیگم الماس خورشید عالم کے ہاں کام کرتے ہوئےصرف چند ماہ ہوئے ہیں۔ اور وہ اپنی مالکن کے شاندار فلیٹ کے ساز وسامان کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ دیکھتی رہتی ہےکہ ایسا عیش و عشرت اسے پہلے...
الیاسف نے اپنے بد ہیئت اعضاء کی تاب نہ لا کر آنکھیں بند کر لیں اور جب الیاسف نے آنکھیں بند کیں تو اسے لگا کہ اس کے اعضاء کی صورت بدلتی جا رہی ہے۔اس نے ڈرتے ڈرتے اپنے آپ سے پوچھا کہ میں، میں نہیں رہا۔ اس خیال سے دل اس کا ڈھینے لگا۔ اس نے بہت ڈرتے ڈرتے ایک آنکھ کھولی اور چپکے سے اپنے اعضاء پر نظر کی۔ اسے ڈھارس ہوئی کہ اس کے اعضاء تو جیسے تھے ویسے ہی ہیں۔ اس نے دلیری سے آنکھیں کھولیں اور اطمینان سے اپنے بدن کو دیکھا اور کہا کہ بے شک میں اپنی جون میں ہوں مگر اس کے بعد آپ ہی آپ اسے پھر وسوسہ ہوا کہ جیسے اس کے اعضاء بگڑتے جا رہے ہیں اور اس نے پھر آنکھیں بند کر لیں۔
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books