aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "कश्मीर"
اکبر حیدری کشمیری
born.1929
مصنف
کشمیری لال ذاکر
1919 - 2016
ہمدم کاشمیری
شاعر
جموں اینڈ کشمیر اکیڈمی آف آرٹ، کلچر اینڈ لیگویجز
ناشر
مکتبہ اردو ادب، جموں کشمیر
غنی کشمیری
ہندی وبھاگ کشمیر وشو ودیالیہ، سری نگر
اقبال انسٹی ٹیوٹ، کشمیر یونیورسٹی، سرینگر
چنار پبلیشگ ہاؤس، کشمیر
محسن کشمیری
born.1991
حامدی کشمیری
born.1932
رتن ناتھ کشمیری
راج محل پبلشرز، جموں، کشمیر
کاف پرنٹرس، سرینگر، کشمیر
جموں کشمیر پنجابی ساہتیہ سبھا، سرینگر
سلطانہ نے کانوں کے لیے بُندے خریدے۔ ساڑھے پانچ تولے کی آٹھ کنگنیاں بھی بنوالیں۔ دس پندرہ اچھی اچھی ساڑیاں بھی جمع کرلیں، گھرمیں فرنیچر وغیرہ بھی آگیا۔ قصہ مختصر یہ کہ انبالہ چھاؤنی میں وہ بڑی خوش حال تھی مگر ایکا ایکی نہ جانے خدا بخش کے دل میں کیا سمائی کہ اس نے دہلی جانے کی ٹھان لی۔ سطانہ انکار کیسے کرتی جبکہ خدا بخش کو اپنے لیے بہت مبارک خیال کرت...
چاند نے یہ سب کچھ اس کی حیران پتلیوں سے جھانک کے دیکھا پھر یکایک کہیں کسی پیڑ پر ایک بلبل نغمہ سرا ہو اٹھی اور کشتیوں میں چراغ جھلملانے لگے اور تنگوں سے پرے بستی میں گیتوں کی مدھم صدا بلند ہوئی۔ گیت اور بچوں کے قہقہے اور مردوں کی بھاری آوازیں اور ننھے بچوں کے رونے کی میٹھی صدائیں اور چھتوں سے زندگی کا آہستہ آہستہ سلگتا ہوا دھواں اور شام کے کھانے کی...
یہ کشمیر کی لڑائی بھی عجیب وغریب تھی۔ صوبیدار رب نواز کا دماغ ایسی بندوق بن گیا تھا جس کا گھوڑا خراب ہوگیا ہو۔پچھلی بڑی جنگ میں وہ کئی محاذوں پر لڑ چکا تھا۔ مارنا اور مرنا جانتا تھا۔ چھوٹے بڑے افسروں کی نظروں میں اس کی بڑی توقیرتھی، اس لیے کہ وہ بڑا بہادر، نڈر اورسمجھدارسپاہی تھا۔ پلاٹون کمانڈر مشکل کام ہمیشہ اسے ہی سونپتے تھے اور وہ ان سے عہدہ برآ ہوتا تھا۔ مگر اس لڑائی کا ڈھنگ ہی نرالا تھا۔ دل میں بڑا ولولہ، بڑا جوش تھا۔ بھوک پیاس سے بے پروا صرف ایک ہی لگن تھی، دشمن کا صفایا کردینے کی، مگر جب اس سے سامنا ہوتا، تو جانی پہچانی صورتیں نظر آتیں۔ بعض دوست دکھائی دیتے، بڑے بغلی قسم کے دوست، جو پچھلی لڑائی میں اس کے دوش بدوش، اتحادیوں کے دشمنوں سے لڑے تھے، پر اب جان کے پیاسے بنے ہوئے تھے۔
کشمیر کی وادی میں بے پردہ جو نکلے ہوکیا آگ لگاؤ گے برفیلی چٹانوں میں
اشوک نے سگریٹ سلگایا، ’’مزا آگیا فلم دیکھ کر۔‘‘’’اور دکھاؤں؟‘‘
کشمیر
कश्मीरکشمیر
name of city
भारत का एक प्रसिद्ध प्रदेश।।
جموں و کشمیر میں اردو ادب کی نشو و نما
برج پریمی
تنقید
کشمیر سلاطین کے عہد میں
محب الحسن
تاریخ
اقبال اور تحریک آزادی کشمیر
غلام نبی خیال
سیاسی تحریکیں
چراغ حسن حسرت
ہندوستانی تاریخ
050,051
مجید مضمر
بازیافت، کشمیر
اقبال اور کشمیر
جگن ناتھ آزاد
اقبالیات تنقید
کشمیر کے اولیاء
صدرالحسن قاسمی
کشمیر میں عربی شعروادب کی تاریخ
سید محمد فاروق بخاری
تاریخ ادب
سیر کشمیر
پنڈت کنہیا لال عاشق
سفر نامہ
رہنمائے کشمیر
محمد الدین فوقؔ
شرح کلام فیض
داؤد کشمیری
شرح
کشمیر گائیڈ
خواجہ جی ایم دین
صابر آفاقی
Article Collection
اسلام کی بنیادی تعلیمات
میرواعظ کشمیر مولانا محمد فاروق
اسلامیات
کشمیر میں اشاعت اسلام
محمد اسحاق خاں
وہ میرے پرکھوں کی جاگیرکراچی لاہور و کشمیر
راوی، یادگار غالب میں حالی لکھتے ہیں، ’’مرنے سے کئی برس پہلے چلنا پھرنا موقوف ہوگیا تھا۔ اکثر اوقات پلنگ پر پڑے رہتے تھے۔ غذا کچھ نہ رہی تھی۔‘‘ ۱۸۶۶ء میں خواجہ عزیز لکھنوی لکھنو سے کشمیر جاتے وقت راستے میں غالب سے ملے تھے، مرزا صاحب کے پختہ مکان میں ایک بڑا پھاٹک تھا، جس کی بغل میں ایک کمرہ اور کمرے میں ایک چارپائی بچھی ہوئی تھی۔ اس پر ایک نحیف ال...
اگر تم میری تمام تحریروں کو پیش نظر رکھ لیتے تو تمہیں یہ غلط فہمی ہرگز نہ ہوتی کہ میں کشمیر میں ایک سادہ لوح لڑکی سے کھیلتا رہا ہوں۔ میرے دوست تم نے مجھے صدمہ پہنچایا ہے۔وزیر کون تھی۔۔۔ اس کا جواب مختصر یہی ہو سکتا ہے کہ وہ ایک دیہاتی لڑکی تھی۔ جوان اور پوری جوان! اس پہاڑی لڑکی کے متعلق، جس نے میری کتاب زندگی کے کچھ اوراق پر چند حسین نقوش بنائے ہیں۔ میں بہت کچھ کہہ چکا ہوں۔
داؤ جی کی زندگی میں بے بے والا پہلو بڑا ہی کمزور تھا۔ جب وہ دیکھتے کہ گھر میں مطلع صاف ہے اور بے بے کے چہرے پر کوئی شکن نہیں ہے، تو وہ پکار کر کہتے، ’’سب ایک ایک شعر سناؤ‘‘ پہلے مجھی سے تقاضا ہوتا اور میں چھوٹتے ہی کہتا، لازم تھا کہ دیکھو میرا رستہ کوئی دن اور
اٹھو کھیلتے اپنی زنجیر سےاٹھو خاک بنگال و کشمیر سے
جب وہ اپنے گھرمیں داخل ہوگئی جو سڑک کے نیچے مکئی کے چھوٹے سے کھیت کے ساتھ بنا ہوا تھا، میں اپنی طرف متوجہ ہوا۔ میں اس کی محبت میں گرفتار ہو چکا تھا۔ اس احساس نے مجھے سخت متحیر کیا۔ میری عمر اس وقت اٹھارہ سال کی تھی۔ کالج میں اپنے ہم جماعت طلبہ کی زبانی میں محبت کے متعلق بہت کچھ سن چکا تھا۔ عشقیہ داستانیں بھی اکثر میرے زیرمطالعہ رہی تھیں۔ مگر محبت ...
مرزا کہنے لگے، ’’ذرا اس کو جھاڑپونچھ لینا اور تیل وغیرہ ڈلوا لینا۔ میرے نوکر کو فرصت ہوئی تو خود ہی ڈلوادوں گا، ورنہ تم خود ہی ڈلوا لینا۔‘‘ میں نے کہا، ’’ہاں ہاں، وہ سب کچھ ہوجائے گا۔ تم کل بھیج ضرور دینا اور دیکھنا آٹھ بجے تک یا ساڑھےسات بجے تک پہنچ جائے۔ ‘‘اچھا۔۔۔ خداحافظ۔‘‘
عبدالرحیم سینڈو کے باتیں کرنے کا اندازہ بالکل نرالا تھا۔ کنٹی نیوٹلی۔ دھڑن تختہ اور اینٹی کی پینٹی پو ایسے الفاظ اس کی اپنی اختراع تھے جن کو وہ گفتگو میں بے تکلف استعمال کرتا تھا۔ میرا تعارف کرانے کے بعد وہ بابو گوپی ناتھ کی طرف متوجہ ہوا جو بہت مرعوب نظر آتا تھا۔ ’’آپ ہیں بابو گوپی ناتھ۔ بڑے خانہ خراب۔ لاہور سے جھک مارتے مارتے بمبئی تشریف لائے ہیں...
جئیں تمام حسینان خیبر و لاہورجئیں تمام جوانان جنت کشمیر
’’کتابیں چھاپتا ہے، مضمون لکھتا ہے تاکہ دوسرے بھی یہ گیت سن سکیں۔ انگریزی زبان کے کئی رسالوں میں اس کے مضمون چھپ چکے ہیں۔ گیت اکٹھے کرنا اور پھر ان کو سلیقے کے ساتھ پیش کرنا کوئی معمولی کام نہیں۔ وہ بہت بڑا آدمی ہے امرت، بہت بڑا آدمی ہے اور دیکھو اس نے مجھے خط کیسا لکھا ہے۔‘‘یہ کہہ کر جوگندر سنگھ نے اپنی بیوی کو وہ خط پڑھ کر سنایا جو ہرندر ناتھ ترپاٹھی نے اس کو اپنے گاؤں سے ڈاک خانے کے پتے سے بھیجا تھا۔ اس خط میں ہرندرناتھ ترپاٹھی نے بڑی میٹھی زبان میں جوگندر سنگھ کے افسانوں کی تعریف کی تھی اور لکھا تھا کہ آپ ہندوستان کے ترقی پسند افسانہ نگار ہیں۔ جب یہ فقرہ جوگندر سنگھ نے پڑھا توبول اٹھا،’’لو دیکھو ترپاٹھی صاحب بھی لکھتے ہیں کہ میں ترقی پسند ہوں۔‘‘
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books