aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "धमकी"
مگر یہ انوکھی ندا جس پہ گہری تھکن چھا رہی ہےیہ ہر اک صدا کو مٹانے کی دھمکی دئیے جا رہی ہے
دھمکی میں مر گیا جو نہ باب نبرد تھاعشق نبرد پیشہ طلب گار مرد تھا
سامنے ان دو کیکروں کے درمیان اپنی پوری رفتار سے دس چکر لگاؤ، پھر سو لمبی سانسیں کھینچو اور چھوڑ دو، تب میرے پاس آؤ، میں یہاں بیٹھتا ہوں، میں تھبہ سے جان بچانے کے لئے سیدھا ان کیکروں کی طرف روانہ ہو گیا۔ پہلے ایک بڑے سے ڈھیلے پر بیٹھ کر آرام کیا اور ساتھ ہی حساب لگایا کہ چھ چکروں کاوقت گزر چکا ہو گا، اس کے بعد آہستہ آہستہ اونٹ کی طرح کیکروں کے درمیا...
اس کوٹھڑی کا دروازہ بند پاتا تو جا کر کواڑ کھٹکھٹاتا کہ شاید انا اندر چھپی بیٹھی ہو۔ صدر دروازہ کھلتے سنتا تو انا انا کہہ کر دوڑتا۔ سمجھتا کہ انا آگئی۔ اس کا گدرایا ہوا بدن گھل گیا۔ گلاب کے سے رخسار سوکھ گئے۔ ماں اور باپ دونو ں اس کی موہنی ہنسی کے لیے ترس ترس کر رہ جاتے۔ اگر بہت گد گدانے اور چھیڑنے سے ہنستا بھی تو ایسا معلوم ہوتا دل سے نہیں محض دل...
धमकीدھمکی
threat, warning
دھمک
عبدالصمد
ایک رات مائی تاجو کو اس بات کا غصہ تھا کہ جب اندھیری شام تک راحتاں اس کی روزانہ کی روٹی نہ لائی تو وہ خود ہی لاٹھی ٹیکتی فتح دین کے گھر چلی گئی۔ فتح دین کی بیوی سے راحتاں کا پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ کسی سہیلی کی شادی میں گئی ہے اور آدھی رات تک واپس آئےگی۔ پھر اس نے روٹی مانگی تو راحتاں کی ماں نے صرف اتنا کہا، ’’دیتی ہوں۔ پہلے گھر والے تو کھا لیں۔‘‘راحتاں کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو فتح دین کے گھر والوں ہی میں شامل سجھتی تھی۔ اس لیے ضبط نہ کر سکی۔ بولی، ’’تو بی بی کیا میں بھکارن ہوں؟‘‘
اسے معلوم ہو گیا کہ سینہ پر پسینہ میں ڈوبے ہوئے گھنے بالوں سے جی کیوں نہیں گھبراتا اور پھکنی جیسی انگلیاں کیسی پھرتیلی ہوتی ہیں۔۔۔جنو کا بس چلتا تو وہ ان کے بھوکے کتوں کو اپنی بوٹیاں بھی کھلا دیتی۔ مگر کتنا کھاتے تھے، اس کے ذرا ذرا سے بہن بھائی! وہ موٹی سے موٹی روٹی خواہ کتنی ہی جلی اور ادھ کچری کیوں نہ ہو، چٹکیوں میں ہضم کر جاتے۔۔۔ کیا ایسا بھی کوئی دن ہوگا جب اسے روٹی نہ تھوپنی پڑے۔۔۔۔ رات بھر ماں آٹا پیستی اور اس بھدّی عورت سے ہو ہی کیا سکتا ہے۔ سال میں 365 دن میں کسی نہ کسی بچے کو پیٹ میں لیے کولہے پر لادے یا دودھ پلاتے گزارتی۔۔۔ ماں کیا تھی ایک خزانہ تھی جو کم ہی نہ ہوا تھا۔ کتنے ہی کیڑے اس نے نالیوں میں کشتی لڑنے اور غلاظت پھیلانے کے لیے تیار کر لیے تھے۔ پرویسی ہی ڈھیر کا ڈھیر رکھی تھی۔
اور وہ بحث کے دوران مزید کج بحثی سے کام لینے لگی۔ وقار بھی سنجیدگی کو چھوڑ کر غصّے سے کام لینے لگا تمھیں یہ نوکری چھوڑدینی ہوگی۔ ’’تم مجھے ایسی کوئی دھمکی نہیں دے سکتے۔‘‘ عذرا کے لہجے میں آنسو آنے لگے وہ اور بھی اپنے عقیدے پر سخت ہوتی گئی۔
پھر بھات روپے کا ایک پاؤ ہوا۔اور۔۔۔ پھر بھات معدوم ہو گیا۔
دھمکی نے کام کیا۔ لڑکی کی ماں بالآخر راضی ہوگئی۔ سب تیاریاں مکمل ہوئیں۔ بیس کو دلہن گھر میں تھی۔ باسط کو گو وہ پسند نہیں تھی لیکن وہ اس کے ساتھ نبھانے کا فیصلہ کر چکا تھا، چنانچہ وہ اس سے بڑی محبت سے پیش آیا۔ اس پر بالکل ظاہر نہ ہونے دیا کہ وہ اس سے شادی کرنے کے لیے تیار نہیں تھا اور یہ کہ وہ زبردستی اس کے سر منڈھ دی گئی ہے۔نئی دلہنیں عام طور پر بہت شرمیلی ہوتی ہیں لیکن باسط نے محسوس کیا کہ سعیدہ ضرورت سے زیادہ شرمیلی ہے۔ اس کے اس شرمیلے پن میں کچھ خوف بھی تھا جیسے وہ باسط سے ڈرتی ہے۔ شروع شروع میں باسط نے سوچا کہ یہ چیز دور ہو جائےگی مگر وہ بڑھتی ہی گئی۔ باسط نے اس کو چند روز کے لیے میکے بھیج دیا۔ واپس آئی تو اس کا خوف آلود شرمیلا پن ایک حد تک دور ہو چکا تھا۔ باسط نے سوچا ایک دو مرتبہ اور میکے جائے گی تو ٹھیک ہو جائے گی۔مگر اس کا یہ قیاس غلط نکلا۔ سعیدہ پھر خوف زدہ رہنے لگی۔
خالہ نے ہانپ کر کہا، ’’اپنی فر یاد تو سب کے کان میں ڈال آئی ہوں۔ آنے نہ آنے کا حال اللہ جانے؟ ہمارے سیّد سالار گہار سن کر پیڑسے اٹھ آئے تھے ۔کیا میرا رونا کوئی نہ سنے گا۔‘‘ الگو نے جواب دیا، ‘‘یوں آنے کو میں آجاؤں گا، مگر پنچایت میں منہ نہ کھولوں گا۔‘‘ ’’خالہ نے حیرت سے پوچھا کیوں بیٹا۔‘‘ الگو نے پیچھا چھڑانے کے لیے کہا، ’’اب اس کا کیا جواب؟ اپنی ا...
ظلم سہنے والوں کا صبر ختم ہوتا ہےصرف ایک دھمکی ہے پھیلتی ہے دہشت کیا
دو دن تک میں بستر میں پڑا تکلیف بھری کروٹیں لیتا رہا، مگر کوئی نہ آیا۔۔۔ آنا بھی کسے تھا۔۔۔ میری جان پہچان کے آدمی ہی کتنے تھے۔۔۔ دو تین یا چار۔۔۔ اور وہ اتنی دور رہتے تھے کہ ان کو میری موت کا علم بھی نہیں ہوسکتا تھا۔۔۔ اور پھروہاں بمبئی میں کون کس کو پوچھتا ہے۔۔۔ کوئی مرے یا جیے۔۔۔ ان کی بلا سے۔۔۔میری بہت بری حالت تھی۔ عاشق حسین ڈانسر کی بیوی بیمار تھی اس لیے وہ اپنے وطن جا چکا تھا۔ یہ مجھے ہوٹل کے چھوکرے نے بتایا تھا۔ اب میں کس کو بلاتا۔۔۔ بڑی نڈھال حالت میں تھا اور سوچ رہا تھا کہ خود نیچے اتروں اور کسی ڈاکٹر کے پاس جاؤں کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے خیال کیا کہ ہوٹل کا چھوکرا جسے بمبئی کی زبان میں ’باہر والا‘ کہتے ہیں، ہوگا۔بڑی مریل آواز میں کہا، ’’آجاؤ!‘‘ دروازہ کھلا اور ایک چھریرے بدن کا آدمی، جس کی مونچھیں مجھے سب سے پہلے دکھائی دیں، اندر داخل ہوا۔
میں ثقلین سے عمر میں تین برس چھوٹا ہوں۔ ظاہر ہے کہ میرا سگریٹ پینا اور وہ بھی بازاروں میں کھلے بندوں۔۔۔ ابا جی کسی طرح برداشت نہ کرتے۔ ثقلین کو تو انھوں نے صرف دھمکی دی تھی مگر مجھے وہ یقیناً گھر سے باہر نکال دیتے۔گھر میں داخل ہونے سے پہلے میں نے غسل خانے میں جا کرصدق دل سے دعا مانگی کہ اے خد!ا ابا جی کو میرے سگریٹ پینے کا کچھ علم نہ ہو۔ دعا مانگنے کے بعد میرے دل پر سے خوف کا بوجھ ہلکا ہوگیا اور میں اوپر چلا گیا۔
یہ سن کر سدھا بھی خاموش ہو گئی۔ اتنی دیر خاموشی رہی کہ موتی کو گمان گزرا کہ کہیں سدھا اندر ہی اندر رو رہی ہے۔ ’’سدھا۔‘‘ اس نے آہستہ سے اس کا شانہ ہلایا۔
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books