aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "नोट"
نوبہار صابر
1907 - 1984
شاعر
نٹ ہمسن
1859 - 1952
مصنف
نٹ انڈیا پبلشرز، جامعہ نگر، نئی دہلی
ناشر
ملا نوعی خبوشانی
نوکر نے جواب دیا،’’اندر کمرے میں؟‘‘’’اور کون ہے؟‘‘
اگلے دن میرے فیل ہونے والے ساتھیوں میں سے خوشیا کوڈو اور دیسو یب یب مسجد کے پچھواڑے ٹال کے پاس بیٹھے مل گیے۔ وہ لاہور جا کر بزنس کرنے کا پرو گرام بنا رہے تھے۔ دیسو یب یب نے مجھے بتایا کہ لاہور میں بڑا بزنس ہے کیونکہ اس کے بھایا جی اکثر اپنے دوست فتح چند کے ٹھیکوں کا ذکر کیا کرتے تھے جس نے سال کے اندر اندر دو کاریں خرید لی تھیں۔ میں نے ان سے بزنس کی...
خزانے کے تمام کلرک جانتے تھے کہ منشی کریم بخش کی رسائی بڑے صاحب تک بھی ہے۔ چنانچہ وہ سب اس کی عزت کرتے تھے۔ ہر مہینے پنشن کے کاغذ بھرنے اور روپیہ لینے کے لیے جب وہ خزانے میں آتا تو اس کا کام اسی وجہ سے جلد جلد کردیا جاتا تھا۔ پچاس روپے اس کو اپنی تیس سالہ خدمات کے عوض ہر مہینے سرکار کی طرف سے ملتے تھے۔ ہر مہینے دس دس کے پانچ نوٹ وہ اپنے خفیف طور پر...
جیسے جیسے وہ مال کے زیادہ با رونق حصے کی طرف پہنچتا جاتا تھا، اس کی چونچالی بڑھتی جاتی تھی۔ وہ منہ سے سیٹی بجا کے رقص کی ایک انگریزی دھن نکالنے لگا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے پاؤں بھی تھرکتے ہوئے اٹھنے لگے۔ ایک دفعہ جب آس پاس کوئی نہیں تھا تو یکبارگی کچھ ایسا جوش آیا کہ اس نے دوڑ کر جھوٹ موٹ بال دینے کی کوشش کی گویا کرکٹ کا کھیل ہو رہا ہو۔ راستے میں وہ س...
नोटنوٹ
note
بھوک
ناول
ترجمہ
جعلی نوٹ
فلمی نغمے
وکٹوریہ
نو مینس لینڈ
نریندر موہن
دھرتی کی خوشبو
نظم
زرد پتے
غزل
نوٹوں کی تلاش
محمد عاقل ایاز سیوہاروی
کارواں خیالوں کے
مجموعہ
شمارہ نمبر-003
عذرا اصغر
تجدید نو
دھنک رنگ
نوک نشتر
گوہر مرادآبادی
ڈرامہ
نوک قلم پر لہو
رؤف صادق
ارمغان تاشقند
سوزوکداژ
’’میں نے پوچھا کیا نام ہے ان صاحب کا؟‘‘ الماس کی تیکھی آواز پر وہ چونکی۔’’ کھور شیٹ عالم‘‘ پیروجا نے جواب دیا۔ چند لمحوں کے سکوت کے بعد اس نے گھبرا کر نظریں اٹھائیں، سیاہ ساری میں ملبوس، کمر پر ہاتھ رکھے سیاہ اونٹ کی طرح اس کے سامنے کھڑی الماس اس سے کہہ رہی تھی۔ ’’کیسا عجیب اتفاق ہے پیرو جا ڈئیر۔میرے منگیتر کا نام بھی خورشید عالم ہے۔ وہ بھی وائلن بجاتے ہیں اور وہ بھی پیرس سے آئے ہوئے ہیں، اور ان دنوں اپنے ملنے والوں سے ملنے کے لیے وطن گئے ہوئے ہیں۔‘‘
زبیدہ اپنے خاوند سے کہیں زیادہ متحیر ہوئی، ’’کیا ہمارے ہاں بچے نہیں۔۔۔ آپ بھی کیسی باتیں کرتے ہیں۔۔۔ ابھی اسکول سے واپس آتے ہوں گے۔۔۔ ان سے پوچھوں گی کہ یہ حرکت کس کی تھی۔‘‘علم الدین سمجھ گیا، اس کی بیوی کے دماغ کا توازن قائم نہیں۔ لیکن اس نے اپنی ساس سے اس کا ذکر نہ کیا کہ وہ بہت کمزور عورت تھی۔وہ دل ہی دل میں زبیدہ کی دماغی حالت پر افسوس کرتا رہا۔ مگر اس کا علاج اس کے بس میں نہیں تھا۔ اس نے اپنے کئی دوستوں سے مشورہ لیا۔ ان میں سے چند نے اس سے کہا کہ پاگل خانے میں داخل کرادو۔ مگر اس کے خیال ہی سے اسے وحشت ہوتی تھی۔
سُنار پالش کرنے کے بعد جھمکے بڑی صفائی سے کاغذ میں لپیٹتا ہے اور چرنجی کے ہاتھوں میں رکھ دیتا ہے۔ چرنجی کا غذ کھول کر جھمکے نکالتا ہے جب وہ جھُمر جھمر کرتے ہیں تو وہ مسکراتا ہے۔ بھئی کیا کاریگری کی ہے لالہ کروڑی مل۔ دیکھے گی تو پھڑک اُٹھے گی۔ یہ کہہ کر وہ جلدی جلدی اپنی جیب سے کچھ نوٹ نکالتا ہے اور سُنار سے یہ کہہ کر ’’کھرے کر لو بھائی‘‘ دکان سے با...
’’معلوم نہیں صاحب۔‘‘’’وہ بائی جی کہاں ہیں؟‘‘
اس دوران میں سب سے زیادہ باتیں حسب معمول عبدالرحیم نے کیں۔ پہلا گلاس ایک ہی سانس میں ختم کرکے وہ چلایا، ’’دھڑن تختہ!منٹو صاحب، وسکی ہو تو ایسی۔ حلق سے اتر کر پیٹ میں ’’انقلاب، زندہ باد‘‘ لکھتی چلی گئی ہے۔۔۔ جیو بابو گوپی ناتھ! جیو۔‘‘بابو گوپی ناتھ بے چارہ خاموش رہا۔ کبھی کبھی البتہ وہ سینڈو کی ہاں میں ہاں ملا دیتا تھا۔ میں نے سوچا اس شخص کی اپنی رائے کوئی نہیں ہے۔ دوسرا جو بھی کہے، مان لیتا ہے۔ ضعیف الاعتقادی کا ثبوت غفار سائیں موجود تھا جسے وہ بقول سینڈو اپنا لیگل ایڈوائزر بنا کر لایا تھا۔ سینڈو کا اس سے دراصل یہ مطلب تھا کہ بابو گوپی ناتھ کو اس سے عقیدت تھی۔ یوں بھی مجھے دوران گفتگو میں معلوم ہوا کہ لاہور میں اس کا اکثر وقت فقیروں اور درویشوں کی صحبت میں کٹتا تھا۔ یہ چیز میں نے خاص طور پر نوٹ کی کہ وہ کھویا کھویا سا تھا، جیسے کچھ سوچ رہا تھا۔ میں نے چنانچہ اس سے ایک بار کہا، ’’بابو گوپی ناتھ کیا سوچ رہے ہیں آپ؟‘‘
اس کے بعد جلسے کے دن تک میں نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اپنی ہونے والی تقریر کی تیاری میں صرف کردیا۔ طرح طرح کے فقرے دماغ میں صبح وشام پھرتے رہے۔’’ہندو اور مسلم بھائی بھائی ہیں۔‘‘
’’غیر ممکن۔‘‘’’کیا چالیس ہزار بھی ممکن نہیں؟‘‘
’’کیسے واہیات آدمی سے واسطہ پڑا ہے۔‘‘ ستیش نے کمرے کے اندر جاتے ہوئے کہا،’’کہتا ہوں میں روپا ووپا کو نہیں جانتا۔ مگر یہ خواہ مخواہ اسے میرے پلے باندھ رہا ہے۔۔۔ جاؤ جاؤ ہوش کی دوا کرو۔‘‘کمرے کا صرف ایک دروازہ کھلا تھا جس میں سے ستیش اندر داخل ہوا تھا۔ اندر داخل ہو کر اس نے یہ دروازہ بند کر دیا۔ نتھو نے دروازے کی لکڑی کی طرف دیکھا تو اسے ستیش کے چہرے اور اس میں کوئی فرق نظر نہ آیا۔نتھو نے اپنے سر کے بال مروڑنے شروع کر دئیے اور جب پلٹ کر اس نے روپا سے کچھ کہنا چاہا تو وہ جا چکی تھی۔۔۔ اور وہ اس کا پیچھا کرنے کے لیے بھاگا۔مگر وہ جا چکی تھی۔ باہر نکل کر اُس نے روپا کو بہت دور درختوں کے جھنڈ میں غائب ہوتے دیکھا۔ وہ اس کے پیچھے یہ کہتا ہوا بھاگا،’’روپا۔۔۔ روپا، ٹھہر جا۔۔۔میں ایک بار پھر اسے سمجھاؤں گا۔۔۔ وہی تیرا پتی ہے۔۔۔اس کا گھر ہی تیری اصل جگہ ہے۔
نہایت آہستہ آہستہ بڑے سکون سے، بڑی مشاقی سے وہ بھٹّے کو ہر طرف سے دیکھ دیکھ کر اسے بھونتا تھا، جیسے وہ برسوں سے اس بھٹّے کو جانتا تھا، ایک دوست کی طرح وہ بھٹّے سے باتیں کرتا، اتنی نرمی اور مہربانی اور شفقت سے اس سے پیش آتا گویا وہ بھٹا اس کا اپنا رشتے دار یا سگا بھائی تھا۔ اور لوگ بھی بھٹا بھونتے تھے مگر وہ بات کہاں۔ اس قدر کچے بد ذائقہ اور معمولی ...
گھر لوٹتے ہوئے آدھے راستے تک تانگے میں سوار ہو کر جانا ایک ایسا لطف تھا جو اسے مہینے کے شروع کے صرف چار پانچ روز ہی ملا کرتا تھا اور آج کا دن بھی انہی مبارک دنوں میں سے ایک تھا۔ آج خلاف معمول تنخواہ کے آٹھ روز بعد اس کی جیب میں پانچ روپے کا نوٹ اور کچھ آنے پیسے پڑے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ اس کی بیوی مہینے کے شروع ہی میں بچوں کو لے کر میکے چلی گئی تھی او...
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books