aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "ہتھیار"
جنگ کا ہتھیار طے کچھ اور تھاتیر سینے میں اتارا اور ہے
جب فریضے کو ادا کر چکے وہ خوش کردارکس کے کمروں کو بصد شوق لگائے ہتھیار
فتح و ظفر تھی مثلِ علی اختیار میںپنجے میں تھا وہی جسے تاکا ہزار میں
میرا ہتھیاراپنی وفا پر بھروسہ ہے اور کچھ نہیں
ساری سپر میں مہر نبوت کی شان تھیہتھیار ادھر لگا چکے آقائے خاص و عام
ناطق وجود ان لوگوں کو ملعون و مطعون گردانتے ہوئے اور گزشتہ واقعات کی افسوس ناک تصویر دکھاتے ہوئے اس بات کا طالب تھا کہ میں آئندہ سے اپنا دل پتھر کا بنا لوں اور محبت کو ہمیشہ کے لیے باہر نکال پھینکوں، لیکن جذباتی وجود ان افسوسناک واقعات کو دوسرے رنگ میں پیش کرتے ہوئے مجھے فخر کرنے پر مجبور کرتا تھا کہ میں نے زندگی کا صحیح راستہ اختیار کیا ہے۔ اس کی نظر میں ناکامیاں ہی کامیابیاں تھیں۔ وہ چاہتا تھا کہ میں محبت کیے جاؤں کہ یہی کائنات کی روحِ رواں ہے۔ تحت الشعور وجود اس جھگڑے سے میں بالکل الگ تھلگ رہا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس پر ایک نہایت ہی عجیب و غریب نیند کا غلبہ طاری ہے۔یہ جنگ خدا جانے کس نا مبارک روز شروع ہوئی کہ اب میری زندگی کا ایک جزو بن کے رہ گئی ہے۔ دن ہو یا رات، جب کبھی مجھے فرصت کے چند لمحات میسر آتے ہیں، میرے سینے کے چٹیل میدان پر میرا ناطق وجود اور جذباتی وجود ہتھیار باندھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور لڑنا شروع کردیتے ہیں۔ ان لمحات میں جب ان دونوں کے درمیان لڑائی زوروں پر ہو، اگر میرے ساتھ کوئی ہم کلام ہو تو میرا لہجہ یقیناًکچھ اور قسم کا ہوتا ہے۔ میرے حلق میں ایک ناقابل بیان تلخی گھل رہی ہوتی ہے۔
کیلے کو کاٹنا بھی اتنا آسان نہیں، جتنا کسان سے بدلا لینا۔ ان کی ساری کمائی کھیتوں میں رہتی ہے یا کھلیانوں میں،کتنی ارضی و سماوی آفات کے بعد اناج گھر میں آتا ہے اور جو کہیں آفات کے ساتھ عداوت نے میل کرلیا تو بے چارہ کسان کانہیں رہتا۔ جھینگر نے گھر آکر اور لوگوں سے اس لڑائی کا حال کہا تو لوگ سمجھانے لگے۔ جھینگر تم نے بڑا برا کیا۔ جان کر انجان بنتے ہو۔ بدھو کو جانتے نہیں کہ کتنا جھگڑا لو آدمی ہے۔ ابھی کچھ نہیں بگڑا، جاکر اسے منالو نہیں تو تمھارے ساتھ گاؤں پر آفت آجائے گی"۔ جھینگر کے سمجھ میں بات آئی، پچھتانے لگا کہ میں نے کہاں سے کہا ں اسے روکا۔ اگربھیڑیں تھوڑا بہت چرہی جاتیں تو کون میں اجڑا جاتا تھا۔اصل میں ہم کسانوں کا بھلا دب کر رہنے ہی میں ہے۔بھگوان کو بھی ہمارا سر اٹھا کر چلنا اچھا نہیں لگتا۔ جی تو بدھو کے یہاں جانے کو نہ چاہتا تھا، مگر دوسروں کے اصرار سے مجبور ہوکر چلا۔اگہن کا مہینہ تھا۔ کہرا پڑرہا تھا۔ چاروں طرف تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ گاؤں سے باہر نکلا ہی تھا۔ کہ یکایک اپنے ایکھ کے کھیت کی طرف آگ کے شعلے دیکھ کر چونک پڑا دل دھڑکنے لگا۔ کھیت میں آگ لگی ہوئی تھی بے تحاشا دوڑا۔ مناتاجاتا تھا کہ میرے کھیت میں نہ ہو۔ مگر جیوں جیوں قریب پہنچتا تھا۔یہ پر امید وہم دور ہوتا جاتا تھا۔ وہ غضب ہی ہوگیا جسے روکنے کے لیے وہ گھرسے چلا تھا۔ ہتھیارے نے آگ لگادی اور میرے پیچھے سارے گاؤں کو چوپٹ کردیا۔ اسے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ کھیت آج بہت قریب آگیا ہے گویا درمیان کے پرتی کھیتوں کووجود ہی نہیں رہا۔آخر جب وہ کھیت پر پہنچاتو آگ خوب بھڑک چکی تھی۔ جھینگر نے ہائے ہائے کرنا شروع کیا۔ گاؤں کے لوگ دوڑ پڑے اور کھیتوں سے ارہر کے پودے اکھاڑ کر آگ کو پیٹنے لگے۔ انسان و آتش کی باہمی جنگ کا منظر پیش ہوگیا۔ ایک پہر تک کہرام برپا رہا۔ کبھی ایک فریق غالب آتا، کبھی دوسرا۔ آتشی جانباز مر کر جی اٹھتے تھے اور دوگنی طاقت سے لڑائی میں مستعد ہوکر ہتھیار چلانے لگتے تھے۔ انسانی فوج میں جس سپاہی کی مستعدی سب سے زیادہ روشن تھی وہ بدھو تھا۔ بدھو کمر تک دھوتی چڑھائے اور جان کو ہتھیلی پر رکھے آگ کے شعلوں میں کود پڑتا تھا۔اور دشمنوں کو شکست دیتے ہوئے بال بال بچ کر نکل آتا تھا۔ بالآخر انسانی فوج فتحیاب ہوئی مگر ایسی فتح جس پر شکست بھی خندہ زن تھی گاؤں بھر کی ایکھ جل کر راکھ ہوگئی اور ایکھ کے ساتھ ساری تمنائیں بھی جل بھن گئیں۔
سن سینتالیس کے ہنگامے آئے اور گزر گئے۔ بالکل اسی طرح جس طرح موسم میں خلافِ معمول چند دن خراب آئیں اور چلے جائیں۔ یہ نہیں کہ کریم داد، مولا کی مرضی سمجھ کر خاموش بیٹھا رہا۔ اس نے اس طوفان کا مردانہ وار مقابلہ کیا تھا۔ مخالف قوتوں کے ساتھ وہ کئی بار بھڑا تھا۔ شکست دینے کے لیے نہیں، صرف مقابلہ کرنے کے لیے نہیں۔ اس کو معلوم تھا کہ دشمنوں کی طاقت بہت زیادہ ہے۔ مگر ہتھیار ڈال دینا وہ اپنی ہی نہیں ہر مرد کی توہین سمجھتا تھا۔ سچ پوچھیے تو اس کے متعلق یہ صرف دوسروں کا خیال تھا، ان کا، جنہوں نے اسے وحشی نما انسانوں سے بڑی جاں بازی سے لڑتے دیکھا تھا۔ ورنہ اگر کریم داد سے اس بارے میں پوچھا جاتاکہ مخالف قوتوں کے مقابلے میں ہتھیار ڈالنا کیا وہ اپنی یا مرد کی توہین سمجھتا ہے تو وہ یقیناً سوچ میں پڑ جاتا۔ جیسے آپ نے اس سے حساب کا کوئی بہت ہی مشکل سوال کردیا ہے۔
حاضر درِ دولت پہ ہیں، سب یاور و انصارکوئی تو کمر باندھتا ہے اور کوئی ہتھیار
دولت فرض کی اس خام کارانہ جسارت اور اس زاہدانہ نفس کشی پر جھنجھلائی اور اب ان دونوں طاقتوں کے درمیان بڑے معرکہ کی کش مکش شروع ہوئی۔ دولت نے پیچ و تاب کھا کھا کر مایوسانہ جوش کے ساتھ کئی حملے کیے۔ایک سے پانچ ہزار تک، پانچ سےدس ہزار تک دس سےپندرہ، پندرہ سے بیس ہزار تک نوبت پہنچی لیکن فرض مردانہ ہمت کے ساتھ اس سپاہ عظیم کے مقابلےمیں یکہ و تنہا پہاڑ کی طرح اٹل کھڑا تھا۔الوپی دین مایوسانہ انداز سے بولے، ’’اس سے زیادہ میری ہمت نہیں۔ آئندہ آپ کو اختیار ہے۔‘‘ بنسی دھر نےاپنے جمعدار کوللکارا۔ بدلو سنگھ دل میں داروغہ جی کو گالیاں دیتا ہوا الوپی دین کی طرف بڑھا، پنڈت جی گھبرا کر دوتین قدم پیچھے ہو گئے اور نہایت منت آمیز بے کسی کے ساتھ بولے۔ ’’بابو صاحب ایشور کے لیے مجھ پر رحم کیجیے میں پچیس ہزار پر معاملہ کرنے کو تیار ہوں۔‘‘
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کرقلم نکلےایک شعر سے پتہ چلتا ہےکہ ابنائے روزگار کی بے مہریوں سے تنگ آکر گدا گری بھی اختیار کی لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ اس حالت میں بھی عاشقی کو ترک نہیں کیا۔ کہتے ہیں،
بیٹھتے جب ہیں کھلونے وہ بنانے کے لیےان سے بن جاتے ہیں ہتھیار یہ قصہ کیا ہے
فرمانے لگے حضرت عباسؔ علمدارہاں غازیو اب تم بھی سجو جنگ کے ہتھیار
ہارنے والوں نے اس رخ سے بھی سوچا ہوگاسر کٹانا ہے تو ہتھیار نہ ڈالے جائیں
ہر دم خدا سے خیر کا ہوں میں امیدوارہاں ماں نہ جانے دے تو مرا کیا ہے اختیار
سجاد کو محسوس ہوا جیسے کسی نے لمبا سا ڈنڈا اس کی ہتھیلی پر عمودی رکھ کر اسے سیدھا رکھنے کی قید بھی لگا دی ہو۔ اس جھوک سنبھالنے میں اس کا بازو شل ہو گیا۔’’پھر آپ نے کیا سوچا ہے۔۔۔ امیا۔‘‘
جلیان والا باغ میں ہزاروں کا مجمع تھا اور سبھی نہتے تھے اور سبھی آزادی کے پرستار تھے۔ ہاتھوں میں لاٹھیاں تھیں نہ ریوالور، نہ برین گن نہ اسٹین گن۔ ہنڈ گری نیڈ نہ تھے۔ دیسی یا ولایتی ساخت کے بمب بھی نہ تھے مگر پاس کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی نگاہوں کی گرمی کسی بھونچال کے قیامت خیز لاوے کی حدّت کا پتہ دیتی تھی۔ سامراجی فوجوں کے پاس لوہے کے ہتھیار تھے۔ یہاں دل فولاد کے بن کے رہ گئے تھے اور روحوں میں ایسی پاکیزگی سی آگئی تھی جو صرف اعلیٰ و ارفع قربانی سے حاصل ہوتی ہے۔ پنجاب کے پانچوں دریاؤں کا پانی اور ان کے رومان اور ان کا سچا عشق اور ان کی تاریخی بہادری آج ہر فرد بشر بچے بوڑھے کے ٹمٹماتے ہوئے رخساروں میں تھی۔ ایک ایسا اجلا اجلا غرور جو اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب قوم جوان ہو جاتی ہے اور سویا ہوا ملک بیدار ہو جاتا ہے۔ جنہوں نے امرتسر کے یہ تیور دیکھے ہیں۔ وہ ان گروؤں کے اس مقدس شہر کو کبھی نہیں بھلا سکتے۔
جب تک کالج سر پر سوار رہا پڑھنے لکھنے سے فرصت ہی نہ ملی جو ادب کی طرف توجہ کی جاتی اور کالج سے نکل کر بس دل میں یہی بات بیٹھ گئی کہ ہر چیز جو دو سال پہلے لکھی گئی بوسیدہ، بدمذاق اور جھوٹی ہے۔ نیا ادب صرف آج اور کل میں ملے گا۔ اس نئے ادب نے اس قدر گڑبڑایا کہ نہ جانے کتنی کتابیں صرف نام دیکھ کر ہی واہیات سمجھ کر پھینک دیں اور سب سے زیادہ بیکار کتابیں جو نظر آئیں وہ عظیم بیگ چغتائی کی تھیں۔ گھر کی مرغی دال برابر والا مضمون۔ گھر کے ہر کونے میں ان کی کتابیں رلتی پھرتیں۔ مگر سوائے اماں اور دو ایک پرانے فیشن کی بھابیوں کے کسی نے اٹھا کر بھی نہ دیکھیں۔ یہی خیال ہوتا بھلا ان میں ہوگا ہی کیا۔ یہ ادب نہیں پھکڑ، مذاق، پرانے عشق کے سڑیل قصے اور جی جلانے والی باتیں ہوں گی۔ یعنی بے پڑھے رائے قائم، مجھے خود یقین نہیں آیا کہ میں نے عظیم بھائی کی کتابیں کیوں نہ پڑھیں۔ شاید اس میں تھوڑا سا غرور بھی شامل تھا اور خودستائی بھی۔ یہ خیال ہوتا تھا یہ پرانے ہیں ہم نئے۔ ایک دن یونہی لیٹے لیٹے ان کا ایک مضمون ’’یکہ‘‘ نظر آیا میں اور رحیم پڑھنے لگے۔ نہ جانے کس دھن میں تھے کہ ہنسی آنے لگی اور اس قدر آئی کہ پڑھنا دشوار ہو گیا ہم پڑھ ہی رہے تھے کہ عظیم بھائی آ گئے اور اپنی کتاب پڑھتے دیکھ کر کھل گئے مگر ہم جیسے چڑ گئے اور منہ بنانے لگے وہ ایک ہوشیار تھے بولے لاؤ میں تمہیں سناؤں۔ اور یہ کہہ کر دو ایک مضمون جو ہمیں سنائے تو صحیح معنوں میں ہم زمین پر لوٹنے لگے۔ ساری بناوٹ غائب ہو گئی۔ ایک تو ان کے مضمون اور پھر ان کی زبانی۔ معلوم ہوتا تھا ہنسی کی چنگاریاں اڑ رہی ہیں۔ جب وہ خوب احمق بنا چکے تو بولے،
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books