رد عمل
کہانی کی کہانی
یہ ایک نصیحت آمیز کہانی ہے۔ جلال ایک لا ابالی اور عیش پسند طبیعت کا مالک ہے۔ اس کے چچا مرض الموت میں اسے نصیحت کرتے ہیں کہ باہر ایک اندھا جارہا ہے۔اس کے راستہ پر نشیب و فراز دونوں ہیں، مگر اسے چنداں فکر لازم نہیں، اس کے پاس لاٹھی ہے۔ چچا کی موت کے بعد جلال اس جملہ کے مخلتلف معانی نکالتا ہے اور پھر وہ لہو لعب سے تائب ہو جاتا ہے۔
جلال کو بالآخر فرصت مل ہی گئی کہ وہ اپنی عیش و نشاط کی محفل کو چھوڑ اور دختِ رز سے رخصت لے کر اپنے مرتے چچا کو اس کی درخواست پر ایک دفعہ دیکھ لے۔
ابھی ابھی تھوڑا سا مینہ برسا۔ حبیب منزل کے سامنے پانی نشیب میں کھڑا ہو گیا۔ صرف گزرنے کے لیے ایک چھوٹی سی مخدوش پگڈنڈی رہ گئی۔ جلال نے اپنی پتلون کے پائنچوں کو احتیاط سے سنبھالتے، ایڑیاں اٹھا اٹھا کر قدم رکھتے اور خاموشی کی زبان میں اس اہم طلب کی وقعت کو غیر ضروری گردانتے ہوئے اپنے چچا کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ سکینہ، جلال کی چچازاد بہن نے دروازہ کھولا، اور پھیلتی ہوئی آنکھوں سے جلال کی طرف دیکھا، اور آنسو کا وہ قطرہ جو کہ پہلے آنکھ میں اٹکا ہوا تھا، اس کے چہرے پر ٹپک پڑا۔ کچھ حیرانی سے اس نے کہا، ’’جلال، تم آ گئے۔ ابّا جان کی امیدوں کے خلاف۔وہ تمھیں ابھی ابھی یاد کر رہے تھے۔‘‘ جلال نے بہن کی بات کو بے توجہی سے سُنا۔ برآمدے کے اندر داخل ہوتے ہوئے اس نے نیم بوسیدہ ٹاٹ سے اپنے بوٹوں کو نہایت اطمینان سے رگڑ رگڑ کر کیچڑ سے پاک کیا۔ ایک عام دنیا دار کی مانند جلال نے ظاہری اضطراب کا کوئی نشان چہرے پر ہویدا نہ ہونے دیا، نہ اس کی آنکھیں اپنے حلقوں میں گھبراہٹ سے پھیلیں، نہ اس کی رفتار میں خلافِ معمول سرعت آئی۔ چسٹر کو اتار کر کندھے پر ڈالتے ہوئے وہ برآمدے کے دائیں کونے کے دریچے میں، جو گلی میں کھلتا تھا، کھڑا ہو گیا۔ پھر اس نے ختم ہوتے ہوتے سگریٹ کا ایک لمبا کش لگایا اور اسے گلی میں پھینک دیا۔ سکینہ جو اپنی والدہ کو جلال کی آمد کی اطلاع دے کر آئی تھی، بولی، ’’جلال۔تم ابھی یہیں ہو بھائی؟‘‘
’’چچا کس کمرے میں ہیں، یہ تو تم نے بتایا ہی نہیں سکینہ؟‘‘
’’اس کمرے میں۔جس کے سامنے تم کھڑے ہو۔ جلال، جلدی پہنچو۔ تمھارے پہنچنے سے شاید ان کی مضمحل طبیعت کچھ بہل جائے۔‘‘
جلال نے آہستہ سے دروازہ کھولا۔ اندر داخل ہوتے ہی اس کی نظر ڈاکٹر پر پڑی۔ ڈاکٹر کے ہاتھ میں ایک پرانی سی سٹیتھوسکوپ تھی۔ دوسرے ہاتھ کی انگلی کولھوں تک لے جاتے ہوئے اس نے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ جلال ایڑیوں کے بل چلتا ہوا کمرے کے داہنی طرف ہولیا۔ وہاں سے اسے اپنے چچا حبیب احمد ادیب کا زرد چہرہ صاف طور پر نظر آ رہا تھا۔ اس پر تھکاوٹ کے آثار اچھی طرح سے نمایاں تھے۔ اس کا ہر ایک خط جو کسی نتیجہ خیز تجربہ زندگی کی نشانی تھا، زیادہ گہرا ہو گیا تھا۔ نقاہت کی وجہ سے ان کی آنکھیں مکمل طور پر بند نہ تھیں اور بے روشن، نیم وا آنکھوں کے دھندلے پن کو دیکھ کر دل کو ایک وحشت سی محسوس ہوتی تھی۔
’’یہ ہے زرد رو، جھریوں والا، کل انچاس برس کا محنتی بوڑھا، جس کی بابت ملک الشعرا نے کہا تھا کہ وہ مکمل آدمی ہے۔ ‘‘جلال نے دل میں کہا’’ کتنا بڑا خطاب دیا اس نے۔ مکمل آدمی ہونا کتنا بڑا امتیاز ہے۔ آج کون آدمی صحیح طور پر مکمل کہا جا سکتا ہے۔‘‘
معاً ادیب نے آنکھیں کھولیں اور اپنا منھ دائیں طرف موڑا۔ سامنے جلال کھڑا تھا۔ اس نے سلام کیا۔ لیکن ادیب نے صبر و سکون اور بے چینی کے مابین کش مکش کو محسوس کرتے ہوئے ماتھے پر تیور چڑھا کر آنکھیں بند کر لیں۔ان کے لب آہستہ آہستہ پھڑک رہے تھے۔ گویا ایک صدیوں سے آشنا، پُر حلاوت، جذبات سے لبریز ایک قسم کی ہسٹریکل (Hysterical) بوسے کے لیے مرتعش ہوں۔ اور جیسے ان کی روح عریاں ہو کر قلب کی اندروں ترین ماہیتوں میں ایک ایسے ہلکے ہلکے، میٹھے، مدہوش کن صورتِ ازل اور ایک ایسی خنک سی تجلّی کی متلاشی ہو جو اس مقام ہُو کی عمیق، بیکراں تاریکیوں میں اس کے لیے شمع بردار ہو جائے۔ اور اس کی رہنمائی کی وجہ سے وصلِ تمام ممکن۔
جلال نے اپنے بائیں طرف ادیب کی تصنیف کردہ کتابوں پر ایک چھچھلتی ہوئی نظر ڈالی۔ الماری کے پاس ہی اخروٹ کی لکڑی کا ایک ہشت پہلو میز دھرا تھا۔ اس میں کہیں کہیں سپید گلکاری کی ہوئی تھی۔ میز کے اوپر قلم دوات، چائے کی ایک پیالی اور ایک دہرا کیا ہوا کاغذ پڑا تھا۔ جلال نے کاغذ کو ہاتھ میں لے لیا۔ لکھا تھا،
’’بوڑھے کے آنسو چار سو بکھر ے پڑے تھے۔
اس نے ساری عمر کوئی ڈھنگ کا کام نہ کیا تھا۔
بوڑھے نے سر اٹھایا اور کہا۔
زندگی کے اسباب بکھرے پڑے ہیں،
سخی معشوق کی مسکراہٹوں کی مانند،
کسی غریب کے دل کی جمعیت کی مانند،
صرف ایک سبق رہ گیا ہے۔ پشیمانی کا،
آ موت! وہ بھی سکھادے۔‘‘
’’حبیب‘‘
جلال کی طبیعت پریشان سی ہو گئی۔ وہ بے پروا ضرور تھا، مگر ایک لطیف ذہن اور ایک حساس دل کا مالک تھا۔ اس کے مزاج کی مستقل دیوار متزلزل ہو گئی۔ اسے یوں محسوس ہوا جیسے کئی زرد، سرخ، مبہم سے حلقے ایک دوسرے میں خلط ملط ہو کر اس کی آنکھوں کے پاس کن پٹی سے چھوکر، انواع و اقسام کی اقلیدسی اشکال پیدا کرتے ہوئے فضا میں دور و نزدیک پھیل رہے ہیں۔ اس کے ذہن میں آہستہ آہستہ ایک خلجان سا پیدا ہوا۔ ایک غنودگی یا نیم غشی کی سی حالت میں اس کے قلب میں یک لخت ایک تحریک، ایک زبردست سی رو پیدا ہوئی اور اس نے چاہا کہ وہ اپنے سامنے میز پر پڑی ہوئی پیالی کو اوندھا کر دے۔ یہ بے مطلب، لا حاصل خواہش کیوں پیدا ہوئی، جلال نہ جان سکا۔ وہ صرف اس بات سے واقف تھا کہ ایک اندرونی طاقت اسے ایسا کرنے پر مجبور کر رہی تھی۔ ایک لمحہ کے لیے اس نے دل کے ساتھ تصفیہ کر لیا کہ وہ ہرگز ہرگز پیالی کو اوندھا کرنے کے فضول خیال کو عملی جامہ نہیں پہنائے گا۔بلکہ اس قسم کے خیال پیدا ہونے پر اس نے اپنی کمزور طبیعت کو کوسا۔ لیکن تھوڑی دیر کے بعد اس نے دیکھا کہ جب تک وہ پیالی کو اوندھا نہ کر لے گا، اس کے لیے زندہ رہنا مشکل ہو جائے گا۔مشکل، نا ممکن۔ اور سب کے دیکھتے ہوئے اس نے پیالی کو اوندھا کر دیا۔ تھوڑی سی چائے میز پر سے بہتی ہوئی فرش پر گر گئی۔ سب حیرت سے جلال کی طرف دیکھنے لگے۔ اس کے فوراً بعد ہی اسی قسم کا خیال پیدا ہوا کہ وہ رو دے۔ اس وقت جلال نے اپنی ذہنی تحریک کے خلاف جانا بالکل بے سود سمجھا۔ وہ جانتا تھا کہ اب نہ رونا اس کے بس کا روگ نہیں۔ اس وقت اس نے اپنے آپ کو مکمل طور پر اندرونی حکم کے تابع کر دیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
محفل عیش و انبساط سے نکل کر اس فوری درد و کرب کی فضا میں، جہاں قہقہوں کی بجائے آنسو، جوانی کی بجائے بڑھاپا، ناکردہ گناہوں کی پشیمانی، موت گھوم رہی ہو، اس کا جی نہ لگا۔ جلال نے ایک عجب انداز سے شانے پھڑکائے۔ نئے جلائے ہوئے سگریٹ کی راکھ کو چٹکی سے گرایا اور دل میں کہا کہ کہیں سگریٹ کو باہر پھینک دینے کا خیال اس کے ذہن میں نہ پیدا ہو جائے۔ وہ کانپ اٹھا۔ برقی رو آنے سے پیشتر جلال ایڑیوں کے بل چلتا ہوا کھڑکی میں پہنچا۔ اور سگریٹ کو باہر پھینک دیا، دور۔ بہت دور، جتنی دور اس سے ممکن تھا اور روکھی سی مسکراہٹ لبوں تک لاتے ہوئے سوچنے لگا، بھلا ایک مکمل آدمی، محض ایک معمولی سی پشیمانی کی خاطر موت کو دعوت دیتا ہے۔ ناگاہ اسے یاد آیا کہ اسی نوعیّت کا ایک اور خیال بھی چچا نے اپنی کتاب ’رنگ و آہنگ‘ میں ظاہر کیا تھا کہ انسان اس قدر خود سر اور خود بیں ہے کہ اس پر آسمان کی گردش سے جتنی بھی بلائیں نازل ہو سکتی ہیں، یکسر نازل ہو جائیں، تو بھی انسان خود کردہ فعل کو غلطی یا گناہ کہنے اور صحیح طور پر پشیمان ہونے کی بجائے لچرباتوں سے دل کی تسلّی کے سامان بہم پہنچائے گا۔ وہ ہر وقت بچپن کے گناہوں کو طفلانہ پن، جوانی کے گناہوں کو جوانی نادانی پر اور بڑھاپے کے گناہوں کو انسانی ناتوانی اور کمزوری کے سر تھوپے گا۔ حتیٰ کہ حد سے زیادہ دیر ہو جائے گی اور موت اپنے تلخ جام کے ساتھ اس کے ہر رگ و ریشہ میں پشیمانی کا سبق سرایت کر دے گی۔ ایک عمیق اور تنقیدی نظر اپنی مختصر سی زندگی پر ڈالتے ہوئے جلال نے کہا، کس قدر درست بات ہے۔برس پندرہ یا کہ سولہ کا سن۔قیامت کب کسی نے دیکھی ہے۔یہی دن تو ہیں۔ اور اس کے اس قسم کے سینکڑوں کلمات اب تک ایتھر میں لہروں کی صورت گھوم رہے ہوں گے۔
’’میں جلال سے کچھ کہنا چاہتا ہوں‘‘ دفعتہ جلال کے چچا نے بہت نحیف آواز سے کہا، اور نہایت آرام و سکون سے اپنی آنکھیں اس طرف پھیر لیں۔ جلال تیزی سے چچا کی چارپائی کے نزدیک دو زانو ہو کر بیٹھ گیا۔ ’’سکینہ۔ سامنے دروازہ تو کھول دو۔مجھ تک ہوا آنے دو۔‘‘ ادیب نے پھر کہا۔
ایک لمحہ کے لیے چاروں طرف خاموشی چھا گئی۔ سکینہ نے دروازہ کھولا۔ ٹھنڈی ہوا ایک دم فراٹے سے اندر داخل ہوئی۔ سب نے ادیب کے چہرے پر نظریں جما دیں۔
’’باہر بارش اچھی ہو گئی ہے نا؟‘‘
’’جی چچا جان۔ کافی برس گیا، پانی۔‘‘
اور اپنی دھندلی آنکھوں میں سے باہر دیکھتے ہوئے ادیب بولا۔
’’دنیا کس قدر وسیع ہے۔ رنگین اور بے رنگ بھی۔‘‘
’’جی ہاں۔ بہت وسیع ہے، رنگین اور بے رنگ بھی۔‘‘ جلال نے چچا کے تخیل کی رَو کو سرعت سے بدلتے ہوئے دیکھ کر حیرت سے دہرایا۔ ادیب کے اس طور باہر دیکھنے پر سب لوگ باہر کی طرف دیکھنے لگے۔ باہر کچھ بھی نہ تھا۔ صرف سخت سردی میں ایک اندھا لاٹھی ٹیکتا ہوا جا رہا تھا۔ جلال نے چچا کی طرف دیکھا۔ اس نے محسوس کیا کہ چچا کچھ کہنے کو تھے، مگر قوتِ ارادی کی ناتوانی کی وجہ سے کہہ نہ سکے۔ جلال نے دیکھا دوبارہ حد سے زیادہ زور لگاتے ہوئے چچا نے کہا، ’’دیکھو جلال بیٹا۔باہر ایک اندھا جا رہا ہے۔ اس کے راستہ پر نشیب و فراز دونوں ہیں۔ جنھیں وہ دیکھ نہیں سکتا، تاہم اسے چنداں فکر لازم نہیں۔ اس کے پاس لاٹھی ہے۔‘‘
ایسے معلوم ہوا جیسے یہ بات کہنے میں ادیب نے اپنی تمام قوت صرف کر دی ہو۔ ان کو دو ہچکیاں سی آئیں اور اس سے پہلے کہ فضا میں ہا و ہو کی آوازیں لرزش پیدا کر دیں، ان کا جسم ساکت ہو گیا اور برف کی مانند ٹھنڈا۔
چچا حبیب احمد کو کفنانے دفنانے کے بعد واپس لوٹتے ہوئے جلال ایک ارتعاشِ سوزاں محسوس کرتا ہوا بازار کی رونق میں سے گزر رہا تھا۔ سینتیس برس کی عمر میں خود کو چچا کے مقابلے پر لاتے ہوئے وہ اپنے آپ کو زیادہ معمر محسوس کرنے لگا اور شاید زیادہ تجربہ کار ۔لیکن اس کے خیال میں تلافی مافات کے لیے بہت دیر ہو چکی تھی۔بہت دیر۔اور وہ مفردات جو کہ انسان کی بہتری کے لیے جمع ہوتے ہیں، اپنی تخریب سے بدن میں کپکپی پیدا کر رہے تھے۔ یکایک اس کے رونگٹے کھڑے ہونے شروع ہو گئے اور اسے کانوں میں سائیں سائیں اور نفس کی نوع بہ نوع، موافق اور ناموافق سی آوازوں کے درمیان چچا کے آخری الفاظ گونجتے سنائی دیتے۔ ’’باہر ایک اندھا جا رہا ہے۔ اس کے راستے پر نشیب و فراز دونوں ہیں۔ جنھیں وہ دیکھ نہیں سکتا۔ تاہم اسے چنداں فکر نہیں۔ اس کے پاس لاٹھی ہے۔‘‘
’’کیا یہ الفاظ کسی تشبیہ ِ مجازی کے حامل تھے، یا یوں ہی ایک گزرتے ہوئے نابینا کو دیکھ کر ایک علیل دماغ کی واہی تباہی ۔؟‘‘جلال نے اپنے آپ سے سوال کیا۔ پھر جلال نے سوچا۔ ’’چچا استادِ استعارہ مانے جاتے تھے اور یہ کبھی ممکن نہیں کہ اپنے حواس کی موجودگی میں وہ الفاظ انھوں نے بے معنی طور پر اور اتفاقاً کہے ہوں گے۔پھر اس نے اپنی تمام تر علمیّت، جو کہ اب گزرے ہوئے زمانہ کی ایک حسین یادگار رہ گئی تھی، طلب کیا اور دل ہی دل میں ان الفاظ کی تفسیر و تشریح کرنی شروع کی۔
خوانچے والوں کی آوازیں، اخبار بیچنے والوں کا شور و غوغا، سنیما والوں کے ببانگِ دہل اعلان، ریڈیو مکینک کی دکان کے اندر ایمپلی فائر کی مدد سے بلند ہوتا ہوا گانا، خوبصورت نیو ماڈل کاروں کے ہارن، اس کے کانوں میں جگہ پانے سے قاصر رہے۔ اس کے پاس ہی سے ایک مونگے رنگ کی ڈاج سیڈان گزری، جس کو ایک مونگے رنگ کی وردی کا شوفر چلا رہا تھا۔ کار کے اندر ایک نازنین اسی رنگ کی ایک کریپ کی نہایت خوشنما ساڑھی پہنے بیٹھی تھی۔ گزرتے ہوئے لوگ رنگ کی اس مشابہت و مطابقت دیکھ کر دل ہی دل میں مسکرا رہے تھے۔ جلال، جو آنکھیں پھاڑپھاڑ کر کار کی آخری سیٹوں کو دیکھا کرتا تھا، اس نے صرف ایک نظر سے اس کار میں دیکھا۔ اس کے فوراً بعد ہی اس کی نظر چند بھک منگوں کی طرف چلی گئی اور اس نے محسوس کیا، جیسے کوئی کہہ رہا ہو ’’دنیا کس قدر وسیع ہے، رنگین اور بے رنگ بھی۔‘‘ اور جلال زمین پر نظریں گاڑے ہوئے وہاں سے گزر گیا۔
رٹزرسٹوران کے خانساماں نے اپنے گاہک جلال کو اپنے کیفے کے نزدیک رکتے ہوئے دیکھ کر کہا۔’’حضور، پیرس سے پنیر کے دو ورقے سموسے آئے ہیں۔ شامپین سے ان کا خاص۔۔۔‘‘ جلال نے ایک سخت نگاہ سے خانساماں کی طرف دیکھا اور کہا، ’’پیچھے ہٹ جاؤ۔ نامعقول۔‘‘ اور خود آگے بڑھ گیا۔
’’چچا آخر کتنا سادہ آدمی تھا‘‘ جلال نے سوچا اور نفس کش، صحیح معنوں میں کفایت شعار، خرچ کرنے کی جگہ خرچ کرنے والا۔ خاموش، سنجیدہ مزاج مگر بولنے کی جگہ جوشیلا مقرر۔حقیقت اور اصلاح کے لیے قدرت کی مثبت و منفی دو نو طاقتوں کا استعمال کرنے والا۔ آخر وہ مکمل آدمی تھا۔
ایک دفعہ پھر اس کے کانوں میں ادیب کے آخری الفاظ گزرے۔ جس طرح تمام روئے زمین پر پھیل چکنے کے بعد ایتھر میں پھر ایک معین وقفہ کے بعد لہر آتی ہے۔’’باہر ایک اندھا جا رہا ہے۔ اس کے راستہ پر نشیب و فراز دونو ہیں، جنھیں وہ دیکھ نہیں سکتا مگر اسے چنداں فکر لازم نہیں۔ اس کے پاس لاٹھی ہے۔‘‘
تمام پریشانیوں سے اپنی توجہ کو یک سو راغب کرتے ہوئے اب جلال نے مرحوم چچا کے آخری الفاظ کی تفسیر کرنی شروع کی۔ یکایک اس کی گالوں پر ایک ہلکی ہلکی سُرخی ،جو شفق پر سورج کی پہلی کرن نمودار ہونے یا حجلۂ عروسی میں پہلی مرتبہ متقابل جنس کے بازوؤں مین مستعفی ہونے سے دلہن کے چہرے پر ہویدا ہوتی ہے، نمودار ہونے لگی اور ایک تلخ سی مسکراہٹ، جو دوشیزگی کے وقار کو کھونے کے باوجود پیدا ہوتی ہے۔ مسکراتے ہوئے اس نے کہا، ’’آخر کتنا عمیق تھا چچا کا مطالعہ۔ انسان کی زندگی کے غیر ضروری، ناقابلِ توجہ واقعات سے وہ روزانہ سبق لیتے تھے۔ زندگی کی ہر لطیف جنبش سے انھوں نے کچھ نہ کچھ اخذ کیا، حتیٰ کہ موت سے پشیمانی۔ اس کی تفسیر اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ انسان اپنے مستقبل یعنی زندگی کے نشیب و فراز اور اونچے اونچے راستہ پر ایک بے خبری کے عالم میں جا رہا ہے کیونکہ وہ ہونے والے واقعات سے آگاہ نہیں۔ وہ اونچی نیچی جگہ کو دیکھ نہیں سکتا۔ جس طرح اندھا آدمی اپنی لاٹھی کی مدد سے اپنا راستہ نشیب و فراز، پانی اور کیچڑ وغیرہ میں سے نکال لیتا ہے، اس طرح آدمی اپنی دور اندیشی کی لاٹھی سے اپنی زندگی کو بے خطرہ اور استوار بنا سکتا ہے۔ جس اندھے کے پاس لاٹھی اور جس انسان کے پاس دوراندیشی نہیں، وہ دنیا کے نشیب و فراز، پانی اور کیچڑ میں منھ کے بل گرے گا۔
جلال نے کلائی پر سے چسٹر کی آستین ہٹاتے ہوئے وقت دیکھا۔ ساڑھے سات بجے تھے اور سردیوں میں ساڑھے سات بجے اچھا خاصا اندھیرا ہو جاتا ہے۔ دھند نے سورج کے غروب ہوتے ہی تمام شہر کو اپنی آغوش میں لے لیا تھا۔ اور یہ بلیرڈ کلب میں جانے کا وقت تھا۔
بلیرڈ کلب، سموکنگ کلب، پریل کلب یہ سب ایک ہی بات تھی۔ یہ سب مہذب، مرد عورتوں کی تفریح گاہیں تھیں۔ جلال نے اپنی جیب ٹٹولی ۔ پرسوں کی سویپ اور پریل میں اس نے تہتر روپے جیتے تھے۔ جلال کو وہ کھجلی سی محسوس ہونے لگی، جوہر ایک جیتے ہوئے کھلاڑی کو اور داؤ لگاکر سب کچھ گنوا دینے کے لیے اکساتی ہے۔ جلال ایک قدم رک گیا۔ چسٹر کی دونوں حبیبوں میں ہاتھ ڈالتے ہوئے اس نے فیصلہ کُن اقرار و دعوے سے کہا کہ وہ یقیناً ان روپوں کو کسی بہتر کام میں صرف کرے گا۔وہ اپنی بھُولی بسری بیوی کے لیے گرم ساڑھی لائے گا، یا اپنے بڑے بیٹے کے لیے جو ایک مقامی کالج میں ایف اے کا متعلم تھا،ایک چھوٹی سی لائبریری خریدے گا۔ وہ نظارہ اس کی آنکھوں کے سامنے پھر گیا۔ جب کہ اس کے بیٹے نے نہایت اشتیاق سے، کتابیں خرید کر لا دینے کی التجا میں انگلستان کے بڑے بڑے پبلشر انگلیوں پر گن ڈالے تھے۔
آج پھر جلال نے اپنی گزشتہ زندگی پر ایک نظر ڈالی۔ اس نے دیکھا کہ تمام گزشتہ وقت جوانی کا بیش قیمت زمانہ اس نے عیش و نشاط کی محفلوں، مہذب بدمعاشوں کی صحبتوں، طوطا چشم ایکٹرسوں کو طول و طویل چٹھیاں لکھ کر ان کی تصاویر منگوانے میں گنوایا تھا، اور خود کو اس اندھے کی مانند بنا دیا جس کے پاس لاٹھی نہ ہو اور جسے ہر طرح کا فکر لازم ہو، اور اب بھی وہ زندگی کے نشیب و فراز میں دوراندیشی کی لاٹھی کے بغیر بھاگا جا رہا تھا اور وہ بھی بے تحاشا! اس نے بازار میں گزرتے ہوئے تمام آدمیوں کو دیکھ کر انسانی فطرت کے مطابق اپنے دل کو تسلی دینی شروع کی۔ ’’ان میں سے کسی کے پاس لاٹھی نہیں ہے۔ اگر ان میں کوئی سنبھلا ہوا ہے بھی ،تو وہ شخص ہے جو کہ لاٹھی کے نہ ہوتے ہوئے بے تحاشا نہیں بھاگتا، بلکہ استقلال سے قدم بہ قدم چل رہا ہے۔‘‘
’’مجھے کم از کم بے تحاشا نہیں بھاگنا چاہیے۔‘‘ جلال نے دل ہی دل میں خود کو سمجھاتے ہوئے کہا۔ اس نے دیکھا کہ وہ خوبصورت استعارے کے زیر اثر خود بھی سست پڑ گیا ہے۔ اس کی رفتار ایک عام کاروباری آدمی کی رفتار سے بہت کم ہو گئی تھی۔ جلال نے اپنی رفتار تیز کر دی اور تیز چلتے ہوئے اس نے قدرے اونچی آواز سے کہا۔‘‘
’’اپنی وہ لاٹھی جو میں نے گھر کے ایک کونے میں پھینک رکھی ہے اور جس کی ہستی کو بھی بھول چکا ہوں، محنت اور کاوش سے ڈھونڈ نکالوں گا اور اسے استعمال کیا کروں گا۔‘‘
شہر کے قمار خانے کی شکل پیگوڈا سے مشابہت رکھتی تھی۔ بنکوک کے ایک اعلیٰ کاریگر نے اسے بنایا تھا۔ اس کے چاروں طرف پینتالیس سیڑھیاں تھیں اور صبح و شام شہر کے لوگ سمندر سے آنے والی ہوا سے لطف اندوز ہونے کے لیے وہاں جمع ہو جاتے۔ شراب کے متعلق ملک کے اس حصّے کا قانون سخت گیر نہ ہونے کی وجہ سے کئی شخص پینے کے بعد ایک سیڑھی پر بازو رکھ کر اسے تکیے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے باقی کا جسم نچلی سیڑھی پر رکھے پڑے رہتے تھے، جس طرح کسی بڑے دریا کے رتیلے کناروں پر گھڑیال دھوپ تاپنے کے لیے پاؤں پھیلا کر دنیا و مافیہا سے بے خبر پڑے رہتے ہیں۔ جلال حسب معمول ان انسان نما گھڑیالوں یا گھڑیال نما انسانوں سے بچتا بچاتا قمار خانے کے اندر داخل ہوا۔ اس کے ساتھی جو دو دن سے اس کا انتظار کر رہے تھے، نہایت خلوص سے اسے ملے۔ مگر جلال دردِ سر کا بہانہ کر کے ان سے معذرت کا خواہاں ہوا اور ایک آرام کرسی میں دھنس گیا۔
جلال صبح سے بھوکا تھا اور حالت گرسنگی میں آدمی لطیف سے لطیف خیالات تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔ جلال، جس کا پیٹ طرح طرح کے کھانوں کے علاوہ حرص و ہوا سے تنا رہتا تھا، آج اس قابل تھا کہ اسے دور کی سُوجھ سکے اور وہ گزشتہ زندگی اور روزمرہ کے واقعات کا تصوّر کر کے پریشان و پشیمان ہو۔ بظاہر اس کی آنکھیں قمار بازوں کے سر پر لٹکی ہوئی قندیل پر جمی ہوئی تھیں۔ مگر دراصل وہ نیم خفتہ و نیم بیدار حالت میں تھا۔ اسے مس میگی کا گھر دکھائی دیا۔ مس میگی شروع شروع میں ایک یوریشین سوسائٹی گرل تھی اور ایک بڑے بلند مرتبت خاندان کی چشم و چراغ۔ اسے پنٹنگ (Punting) کی لت پڑ گئی۔ بُک میکرز نے اسے خوب لوٹا۔ آہستہ آہستہ وہ اپنے آپ کو بیچنے لگی اور اب اس کے ہاں امیر آدمیوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔
تصوّر میں جلال نے اپنے آپ کو میگی کے دروازے پر کھڑا پایا۔ اسے دیکھتے ہی وہ دوڑی دوڑی اسے لینے کے لیے دروازے تک آئی۔ کیونکہ جلال مس میگی کا مستقل، مالدار اور قدر داں گاہک تھا، میگی نے اسی انداز سے جو شکایت سے تہی نہ تھی، پوچھا، ’’تم گذشتہ دو شب کہاں رہے جلال؟ تمھاری طبیعت مضمحل نظر آتی ہے کچھ۔‘‘ ایک اور سر و قد بت تھا، جو کہ میگی کے مقابل آ کر کھڑا ہو گیا۔ وہ بُت قدرے دھندلا سا دکھائی دیتا تھا اور معلوم ہوتا تھا کہ اس بت کے منھ میں زبان نہیں ہے۔ مگر پھر بھی کچھ کہنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یکایک اس بت نے بھی وہی الفاظ دہرا دیے۔ وہ بُت جلال کی بھولی بسری بیوی تھی۔ جلال نے اپنی بیوی اور مس میگی کے استفسار کا مقابلہ کیا۔ بیوی اسے اسی کے لیے چاہتی تھی اور کبھی کبھی شکایت کے آنسو گراتے ہوئے پوچھتی۔’’میں کہتی ہوں۔آپ دو رات کہاں رہے۔ میں یہاں اکیلی تڑپتی رہی ہوں۔‘‘ اور وہ آواز مطلق تصنع اور ناز و انداز کی حامل نہ تھی، بلکہ دل ہی سے دماغ سے مشورہ لیے بغیر اس کے خیالات لبوں تک آ جاتے۔ لیکن میگی، جلال کو جلال کے لیے نہیں، اس کی جیب کے لیے چاہتی تھی، جو عموماً نہیں بلکہ ہمیشہ معمور ہوتی تھی۔
’’فیراڈے۔ اس دفعہ پھر ہار گیا جلال۔ فیراڈے ہار گیا۔ ‘‘میگی نے جلال کو تاسف سے بھری ہوئی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا،’’ اسے ہمدردی چاہیے۔ ’’جلال نے جواب دیا‘‘ اور پھر بولا۔ ’’میرے عزیز چچا حبیب احمد کل فوت ہو گئے ہیں۔‘‘ اس وقت اس کی رحم طلب نگاہیں وہاں بیٹھے ہوئے دو ایک آدمیوں کی طرف اٹھ گئیں۔ تمام نے افسوس اور ہمدردی کا اظہار کیا۔ ان میں سے ایک نے یہ بھی محسوس کیا کہ جلال نے عیش و نشاط کے موقع پر یہاں آ کر اپنی افسردہ دلی سے تمام انجمن کو افسردہ کر کے اپنی کم فہمی کا ثبوت دیا ہے۔ میگی نے کئی ایک باتوں سے جلال کو تسلی دینی شروع کی اور یہ بھی کہا کہ اس کے نہ آنے سے کتنی بجلیاں تھیں، جو اس پر کوندیں۔ اور کتنے وسوسے تھے جو اس کے دل میں آئے۔
جوں جوں وہ یوریشین لڑکی خوشامد کرتی، توں توں جلال کا دل اس سے متنفر ہوتا۔اس نے ایک ہاتھ اپنی جیب پر رکھ لیا، جس کو بچانے کا صرف آج کے لیے ہی نہیں، بلکہ ہمیشہ کے لیے اس نے تہیّہ کر لیا تھا۔ میگی کے پیش کردہ ہاتھ کو پرے دھکیلتے ہوئے ایک روکھی پھیکی مسکراہٹ سے جلال نے کہا۔ ’’تمھیں ایک خبر سناؤں میگی۔چچا اپنی جائداد کا ایک بڑا حصّہ میرے نام چھوڑ گئے ہیں۔‘‘
’’سچ؟‘‘ میگی نے آنکھیں پھاڑتے ہوئے کہا۔ یہ بات صحیح معنوں میں اس کے لیے دل خوش کن اور دل نواز تھی۔ وہ اپنی خوشی کو فریبِ نظر کے دامن میں مستور نہ کرسکی،اگرچہ یہ اس کے پیشے کی خصوصیت ہوتی ہے اور وہ چھپاتی بھی کیسے؟جب کہ جلال کی نظر نہایت باریک بیں ہو گئی تھی اور اس وقت وہ فولاد کے آرپار بھی دیکھ سکتی تھی۔‘‘
’’علاوہ اور چیزوں کے چچا مجھے ایک لاٹھی دے گئے ہیں۔ تاکہ میں ٹٹول ٹٹول کر اپنا راستہ بنا لوں اور نشیب و فراز میں نہ گروں۔‘‘ جلال نے اپنے آپ کو کہتے ہوئے پایا۔
’’کیسی بہکی بہکی باتیں کرتے ہو جلال۔لو، پی کے بے نیاز ہو جاؤ‘‘۔ اور میگی نے سمجھا کہ یہ صرف چچا کی موت کا گہرا اثر ہے۔ جلال نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’تمھارا شباب زوروں پر ہے۔‘‘
میگی نے اپنے جسم پر ایک چھچھلتی ہوئی نگاہ ڈالی اور مسکرائی۔
’’کل ڈھل جائے گا۔‘‘
مِس میگی نے دوسری دفعہ اپنے جسم کی طرف دیکھا اور خون اس کے رخساروں اور کانوں کی طرف دوڑنے لگا۔
’’تم بوڑھی ہو جاؤ گی اور پھر تمھیں کوئی نہ پوچھے گا۔یہ جتنے بھی بیٹھے ہیں اور میں خود بھی۔‘‘ اس نے اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’تمھارے شباب کے خریدار ہیں۔ جوانی کی شام ہونے پر یہ سب لوگ اپنے اپنے گھروندوں میں جا گھسیں گے۔ تم کو کوئی نہ پوچھے گا۔ پھر تم کیا کرو گی میگی؟‘‘
یہ سوال تو میں عنقریب ہی تم سے کرتی۔ ’’کیا تم اس وقت میری خبر گیری نہ کرو گے۔‘‘
ایسا نہیں ہوا کرتا میگی۔ شباب کی رعنائیوں کے خریدار عمر کے ساتھ بوڑھی ہونے والی رعنائیوں کی کھوٹے داموں بھی قیمت ادا نہیں کرتے۔ اگر تم پنٹنگ میں تباہ ہونے کے فوراً بعد ہی شوہر کر لیتیں تو گو زندگی ظاہرا طور پر عیش سے نہ گزرتی، تب بھی تمھارا انجام خراب نہ ہوتا۔ عورت سے وابستہ وہ آدمی جسے شوہر کہتے ہیں، اپنے بڑھاپے میں معمر بیوی کی بوڑھی اور بھونڈی رعنائیوں کی بھی وہی قیمت ادا کرتا ہے،جو اس نے جوانی