aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شاہ دولے کا چوہا

سعادت حسن منٹو

شاہ دولے کا چوہا

سعادت حسن منٹو

MORE BYسعادت حسن منٹو

    کہانی کی کہانی

    مذہب کے نام پر گورکھ دھندہ کرنے والوں کی کہانی ہے۔ شاہ دولے کے مزار کے بارے میں یہ عقیدہ رائج کر دیا گیا تھا کہ یہاں منت ماننے کے بعد اگر بچہ ہوتا ہے تو پہلا بچہ شاہ دولے کا چوہا ہے اور اسے مزار پر چھوڑنا ضروری ہے۔ سلیمہ کو اپنا پہلا بچہ مجیب اسی عقیدے کے تحت مجبوراً چھوڑنا پڑا۔ لیکن وہ اس کا غم سینے سے لگائے رہی۔ ایک مدت کے بعد جب مجیب اس کے دروازے پر شاہ دولے کا چوہا بن کر آتا ہے تو سلیمہ اسے فوراً پہچان لیتی ہے اور تماشا دکھانے والے سے پانچ سو کے عوض اسے لے لیتی ہے۔ لیکن جب وہ پیسے دے کر واپس اندر آتی ہے تو مجیب غائب ہو چکا ہوتا ہے۔

    سلیمہ کی جب شادی ہوئی تو وہ اکیس برس کی تھی۔ پانچ برس ہوگئے مگر اس کے اولاد نہ ہوئی۔ اس کی ماں اور ساس کو بہت فکرتھی۔ ماں کو زیادہ تھی کہ کہیں اس کا نجیب دوسری شادی نہ کرلے۔ چنانچہ کئی ڈاکٹروں سے مشورہ کیا گیا مگر کوئی بات پیدا نہ ہوئی۔

    سلیمہ بہت متفکر تھی۔ شادی کے بعد بہت کم لڑکیاں ایسی ہوتی ہیں جو اولاد کی خواہش مند نہ ہوں۔ اس نے اپنی ماں سے کئی بار مشورہ کیا۔ ماں کی ہدایتوں پر بھی عمل کیامگر نتیجہ صفرتھا۔ ایک دن اس کی ایک سہیلی جو بانجھ قرار دے دی گئی تھی، اس کے پاس آئی۔ سلیمہ کو بڑی حیرت ہوئی کہ اس کی گود میں ایک گل گوتھنا لڑکا تھا۔ سلیمہ نے اس سے بڑے بینڈے انداز میں پوچھا،’’فاطمہ تمہارے یہ لڑکا کیسے پیدا ہوگیا؟‘‘

    فاطمہ اس سے پانچ سال بڑی تھی۔ اس نے مسکرا کر کہا، ’’یہ شاہ دولے صاحب کی برکت ہے۔ مجھ سے ایک عورت نے کہا کہ اگر تم اولاد چاہتی ہو تو گجرات جاکر شاہ دولے صاحب کے مزار پر منت مانو۔ کہو کہ حضور میرے جو پہلے بچہ ہوگا وہ آپ کی خانقاہ پر چڑھا دوں گی۔‘‘ اس نے یہ بھی سلیمہ کو بتایا کہ جب شاہ دولے صاحب کے مزار پر ایسی منت مانی جائے تو پہلا بچہ ایسا ہوتا ہے جس کا سر بہت چھوٹا ہوتا ہے۔ فاطمہ کی یہ بات سلیمہ کو پسند نہ آئی اور جب اس نے مزید کہاکہ پہلا بچہ اس خانقاہ میں چھوڑ کر آنا پڑتا ہے تو اس کو اور بھی دکھ ہوا۔

    اس نے سوچا کون ایسی ماں ہے جو اپنے بچے سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو جائے۔ اس کا سر چھوٹا ہو، ناک چپٹی ہو، آنکھیں بھینگی ہوں، لیکن ماں اس کو گھورے میں نہیں پھینک سکتی ،وہ کوئی ڈائن ہی ہوسکتی ہے۔ لیکن اسے اولاد چاہیے تھی اس لیے وہ اپنی عمر سے زیادہ سہیلی کی بات مان گئی۔

    وہ گجرات کی رہنے والی تو تھی ہی جہاں شاہ دولے کا مزار تھا۔ اس نے اپنے خاوند سے کہا،’’فاطمہ مجبور کررہی ہے کہ میرے ساتھ چلو۔ اس لیے آپ مجھے اجازت دے دیجیے۔‘‘ اس کے خاوند کو کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔ اس نے کہا، ’’جاؤ مگر جلدی لوٹ آنا۔‘‘ وہ فاطمہ کے ساتھ گجرات چلی گئی۔

    شاہ دولہ کا مزار جیسا کہ اس نے سمجھا تھا کوئی عہد عتیق کی عمارت نہیں تھی۔ اچھی خاصی جگہ تھی جو سلیمہ کو پسند آئی۔ مگر جب اس نے ایک حجرے میں شاہ دولے کے چوہے دیکھے، جن کی ناک سے رینٹھ بہہ رہا تھا اور ان کا دماغ بالکل ماؤف تھا تو کانپ کانپ گئی۔

    ایک جوان لڑکی تھی، پورے شباب پر، مگر وہ ایسی حرکتیں کرتی تھی کہ سنجیدہ سے سنجیدہ آدمی کو بھی ہنسی آسکتی تھی۔ سلیمہ اس کودیکھ کرایک لمحے کے لیے ہنسی مگر فوراً ہی اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ سوچنے لگی اس لڑکی کا کیا ہوگا۔ یہاں کے مجاور اسے کسی کے پاس بیچ دیں گے یا بندر بنا کر اُسے شہر بہ شہر پھرائیں گے۔ یہ غریب کی روزی کا ٹھیکرا بن جائے گی۔ اس کا سر بہت چھوٹا تھا۔ لیکن اس نے سوچا کہ اگر سر چھوٹا ہے تو انسانی فطرت تو اتنی چھوٹی نہیں۔۔۔ وہ تو پاگلوں کے ساتھ بھی چمٹی رہتی ہے۔

    اس شاہ دولے کی چوہیا کا جسم بہت خوبصورت تھا۔ اس کی ہر قوس اپنی جگہ پر مناسب و موزوں تھی۔ مگر اس کی حرکات ایسی تھیں جیسے کسی خاص غرض کے ماتحت اس کے حواس مختل کردیے گئے ہیں۔۔۔ وہ اس طریقے سے کھیلتی پھرتی اور ہنستی تھی جیسے کوئی کوک بھرا کھلونا ہو۔ سلیمہ نے محسوس کیا کہ وہ اسی غرض کے لیے بنائی گئی ہے۔ لیکن ان تمام احساسات کے باوجود اس نے اپنی سہیلی فاطمہ کے کہنے پر شاہ دولا صاحب کے مزار پر منت مانی کہ اگر اس کے بچہ ہوا تو وہ ان کی نذر کردے گی۔ ڈاکٹری علاج سلیمہ نے جاری رکھا۔ دو ماہ بعد بچے کی پیدائش کے آثار پیدا ہوگئے۔ وہ بہت خوش ہوئی۔ مقررہ وقت پر اس کے ہاں لڑکا ہوا، بڑا ہی خوبصورت۔ حمل کے دوران میں چونکہ چاند گرہن ہوا تھا اس لیے اس کے داہنے گال پر ایک چھوٹا سا دھبا تھا جو برا نہیں لگتا تھا۔

    فاطمہ آئی تو اُس نے کہاکہ اس بچے کو فوراً شاہ دولے صاحب کے حوالے کردینا چاہیے۔ سلیمہ خود یہی مان چکی تھی۔ کئی دنوں تک وہ ٹال مٹول کرتی رہی۔ اس کی ممتا نہیں مانتی تھی کہ وہ اپنا لختِ جگر وہاں پھینک آئے۔ اس سے کہا گیا تھا کہ شاہ دولے سے جو اولاد مانگتا ہے اس کے پہلے بچے کا سر چھوٹا ہوتا ہےلیکن اس کے لڑکے کا سر کافی بڑا تھا۔ فاطمہ نے اس سے کہا،’’یہ کوئی ایسی بات نہیں جو تم بہانے کے طور پر استعمال کرسکو۔ تمہارا یہ بچہ شاہ دولے صاحب کی ملکیت ہے تمہارا اس پر کوئی حق نہیں۔ اگر تم اپنے وعدہ سے پھر گئیں تو یاد رکھو تم پر ایسا عذاب نازل ہوگا کہ ساری عمر یاد رکھو گی۔‘‘

    بادل ناخواستہ سلیمہ کو اپنا پیارا گل گوتھنا سا بیٹا جس کے داہنے گال پر کالا دھبا تھا۔ گجرات جاکر شاہ دولے کے مزار کے مجاوروں کے حوالے کرنا پڑا۔ وہ اس قدر روئی۔۔۔ اس کو اتنا صدمہ ہوا کہ بیمار ہوگئی۔ ایک برس تک زندگی اورموت کے درمیان معلق رہی۔ اس کو اپنا بچہ بھولتا ہی نہیں تھا۔ خاص طور پر اس کے داہنے گال پر کالا دھبا۔ جس کو اکثر چوما کرتی تھی۔ چونکہ وہ جہاں بھی تھا بہت اچھا لگتا تھا۔

    اس دوران میں اس نے ایک لمحے کے لیے بھی اپنے بچے کو فراموش نہ کیا۔ عجیب عجیب خواب دیکھتی۔ شاہ دولہ اس کے پریشان تصور میں ایک بڑا چوہا بن کر نمودار ہوتا جو اس کے گوشت کو اپنے تیز دانتوں سے کترتا۔ وہ چیختی اور اپنے خاوند سےکہتی، ’’مجھے بچائیے ! دیکھئے چوہا میرا گوشت کھا رہا ہے۔‘‘کبھی اس کا مضطرب دماغ یہ سوچتا کہ اس کا بچہ چوہوں کے بل کے اندر داخل ہو رہا ہے۔ وہ اس کی دم کھینچ رہی ہے۔ مگر بل کے اندر جو بڑے بڑے چوہے ہیں انھوں نے اس کی تھوتھنی پکڑ لی۔ اس لیے وہ اسے باہر نکال نہیں سکتی۔ کبھی اس کی نظروں کے سامنے وہ لڑکی آتی جو پورے شباب پر تھی اور جس کو اس نے شاہ دولے صاحب کے مزار کے ایک حجرے میں دیکھا تھا۔ سلیمہ ہنسنا شروع کردیتی۔ لیکن تھوڑی دیر کے بعد رونے لگتی۔ اتنا روتی کے اس کے خاوند نجیب کو سمجھ میں نہ آتا کہ اس کے آنسو کیسے خشک کرے۔

    سلیمہ کو ہر جگہ چوہے نظر آتے تھے۔ بستر پر، باورچی خانے میں، غسل خانے کے اندر، صوفے پر، دل میں، کانوں میں۔ بعض اوقات تو وہ یہ محسوس کرتی کہ وہ خود چوہیا ہے۔ اس کی ناک سے رینٹھ بہہ رہا ہے۔ وہ شاہ دولے کے مزار کے ایک حجرے میں اپنا چھوٹا بہت چھوٹا سر اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھائے ایسی حرکات کررہی ہے کہ دیکھنے والے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے ہیں۔ اس کی حالت قابل رحم تھی۔ اس کو فضا میں دھبے ہی دھبے نظر آتے۔ جیسے ایک بہت بڑا گال ہے جس پرسورج بجھ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوکے جگہ جگہ جم گیا ہے۔

    بخار ہلکا ہوا تو سلیمہ کی طبیعت کسی قدر سنبھل گئی۔ نجیب بھی قدرے مطمئن ہوا۔ اس کو معلوم تھا کہ اس کی بیوی کی علالت کا باعث کیا ہے لیکن وہ ضعیف الاعتقاد تھا۔ اس کواپنی پہلی اولاد کو بھینٹ چڑھائے جانے کا کوئی احساس نہیں تھا۔ جو کچھ کیا گیا تھا وہ اسے مناسب سمجھتا تھا بلکہ وہ تو یہ سوچتا تھا کہ اس کے جو بیٹا ہوا تھا وہ اس کا نہیں شاہ دولے صاحب کا تھا۔

    جب سلیمہ کا بخار اتر گیا اور اس کے دل و دماغ کا طوفان ٹھنڈا پڑگیا تو نجیب نے اس سے کہا،’’میری جان! اپنے بچے کو بھول جاؤ۔ وہ صدقے کا تھا۔‘‘

    سلیمہ نے بڑے زخم خوردہ لہجے میں کہا، ’’میں نہیں مانتی۔۔۔ ساری عمر اپنی ممتا پر لعنتیں بھیجتی رہوں گی کہ میں نے اتنا بڑا گناہ کیوں کیا کہ اپنا لختِ جگر اس کے مجاورں کے حوالے کردیا۔ یہ مجاور ماں تو نہیں ہوسکتے۔‘‘

    ایک دن وہ غائب ہوگئی۔ سیدھی گجرات پہنچی۔ سات آٹھ روز وہاں رہی۔ اپنے بچے کے متعلق پوچھ گچھ کی۔ مگر کوئی اتا پتہ نہ ملا، مایوس ہوکر واپس آگئی۔ اپنے خاوند سے کہا،’’میں اب اسے یاد نہیں کروں گی۔ ‘‘یاد تو وہ کرتی رہی۔ لیکن دل ہی دل میں اس کے بچے کے داہنے گال کا دھبا اس کے دل کا داغ بن کر رہ گیا تھا۔

    ایک برس کے بعد اس کے لڑکی ہوئی۔ اس کی شکل اس کے پہلوٹھی کے بچے سے بہت ملتی جلتی تھی۔ اس کے داہنے گال پر داغ نہیں تھا اس کا نام اس نے مجیبہ رکھا کیونکہ اپنے بیٹے کا نام اس نے مجیب سوچا تھا۔ جب وہ دو مہینے کی ہوئی تو اس نے اس کو گود میں اٹھایا اور سرمہ دانی سے تھوڑا سا سرمہ نکال کر اس کے داہنے گال پرایک بڑا ساتل بنا دیا اور مجیب کو یاد کر کے رونے لگی۔ اس کے آنسو بچی کی گالوں پر گرے تو اس نے اپنے دوپٹے سے پونچھے اور ہنسنے لگی۔ وہ کوشش کرنا چاہتی تھی کہ اپنا صدمہ بھول جائے۔ اس کے بعد سلیمہ کے دو لڑکے پیدا ہوئے۔ اس کا خاوند اب بہت خوش تھا۔

    ایک بار سلیمہ کو کسی سہیلی کی شادی کے موقع پر گجرات جانا پڑا تو اس نے ایک بار پھر مجیب کے متعلق پوچھ گچھ کی مگر اسے ناکامی ہوئی۔ اس نے سوچا شاید مر گیا ہے۔ چنانچہ اس نے جمعرات کو فاتحہ خوانی بڑے اہتمام سے کرائی۔ اڑوس پڑوس کی سب عورتیں حیران تھی کہ یہ کس کی مرگ کے سلسلے میں اتنا تکلف کیا گیا ہے۔ بعض نے سلیمہ سے پوچھا بھی ، مگر اس نے کوئی جوا ب نہ دیا۔ شام کو اس نے اپنی دس برس کی لڑکی مجیبہ کا ہاتھ پکڑا۔ اندر کمرے میں لے گئی۔ سرے سے اس کے داہنے گال پر بڑا سا دھبا بنایا اور اس کو دیر تک چومتی رہی۔ وہ مجیبہ ہی کو اپنا گم شدہ مجیب سمجھتی تھی۔ اب اس کے متعلق سوچنا چھوڑدیا، اس لیے کہ اس کی فاتحہ خوانی کرانے کے بعد اس کے دل کا بوجھ ہلکا ہوگیا تھا۔ اس نے اپنے تصور میں ایک قبر بنا لی تھی۔ جس پر وہ تصور ہی میں پھول بھی چڑھایا کرتی۔

    اس کے تین بچے اسکول میں پڑھتے تھے۔ ان کو ہر صبح سلیمہ تیار کرتی۔ ان کے لیے ناشتہ بنواتی۔ ہر ایک کو بناتی سنوارتی۔ جب وہ چلے جاتے تو ایک لحظہ کے لیے اسے اپنے مجیب کا خیال آتا کہ وہ اس کی فاتحہ خوانی کرا چکی تھی۔ دل کا بوجھ ہلکا ہوگیا تھا۔ پھر بھی اس کو کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا کہ مجیب کے داہنے گال کا سیاہ دھبا اس کے دماغ میں موجود ہے۔

    ایک دن اس کے تینوں بچے بھاگے بھاگے آئے اور کہنے لگے، ’’امی ہم تماشا دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘ اس نے بڑی شفقت سے پوچھا، ’’کیسا تماشا؟‘‘

    اس لڑکی نے جو سب سے بڑی تھی کہا،’’امی جان ایک آدمی ہے وہ تماشا دکھاتا ہے۔‘‘ سلیمہ نے کہا، ’’جاؤ اُس کو بلا لاؤ۔ مگر گھر کے اندر نہ آئے۔ باہر تماشا کرے۔‘‘ بچے بھاگے ہوئے گئے اور اس آدمی کو بلا لائے اور تماشا دیکھتے رہے۔ جب یہ ختم ہوگیا تو مجیبہ اپنی ماں کے پاس گئی کہ پیسے دے دو۔ ماں نے اپنے پرس سے چونی نکالی اور باہر برآمدے میں گئی۔ دروازے کے پاس پہنچی تو شاہ دولہ کا ایک چوہا کھڑا عجیب احمقانہ انداز میں اپنا سر ہلا رہا تھا ۔سلیمہ کو ہنسی آگئی۔

    دس بارہ بچے اس کے گرد جمع تھے جو بے تحاشا ہنس رہے تھے۔ اتنا شور مچا تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ سلیمہ چونی ہاتھ میں لیے آگے بڑھی اور اس نے شاہ دولے کے اس چوہے کو دینا چاہی تو اس کا ہاتھ ایک دم پیچھے ہٹ گیا۔ جیسے بجلی کا کرنٹ چھو گیا۔ اس چوہے کے داہنے گال پر سیاہ داغ تھا۔ سلیمہ نے غور سے اس کی طرف دیکھا۔ اس کی ناک سے رینٹھ بہہ رہا تھا۔ مجیبہ نے جو اس کے پاس کھڑی تھی، اپنی ماں سے کہا، ’’یہ۔۔۔ یہ چوہا۔۔۔ امی جان اس کی شکل مجھ سے کیوں ملتی ہے۔۔۔ میں بھی کیا چوہیا ہوں؟‘‘

    سلیمہ نے اس شاہ دولے کے چوہے کا ہاتھ پکڑا اور اندر لے گئی۔ دروازے بند کرکے اس کو چوما۔ اس کی بلائیں لیں۔ وہ اس کا مجیب تھا۔ لیکن وہ ایسی احمقانہ حرکتیں کرتا تھا کہ سلیمہ کے غم واندوہ میں ڈوبے ہوئے دل میں بھی ہنسی کے آثار نمودار ہو جاتے۔

    اس نے مجیب سے کہا، ’’بیٹے میں تیری ماں ہوں۔‘‘

    شاہ دولے کا چوہا بڑے بے ہنگم طور پر ہنسا۔ اپنی ناک کی رینٹھ آستین سے پونچھ کر اس نے اپنی ماں کے سامنے ہاتھ پھیلایا، ’’ایک پیسہ۔‘‘

    ماں نے اپنا پرس کھولا۔ مگر اس کی آنکھیں اپنی ساری نہریں، اس سے پہلے ہی کھول چکی تھیں۔ اس نے سو روپے کا نوٹ نکالا اور باہر جاکر اس آدمی کو دیا۔۔۔ جو اس کو تماشا بنائے ہوئے تھا۔ اس نے انکار کردیا کہ اتنی کم قیمت پر اپنی روزی کے ذریعے کو نہیں بیچ سکتا۔ سلیمہ نے اسے بالآخر پانچ سو روپوں پر راضی کرلیا۔ یہ رقم ادا کر کے جب وہ اندر آئی تو مجیب غائب تھا۔ مجیبہ نے اس کو بتایا کہ وہ پچھواڑے سے باہر نکل گیا ہے۔ سلیمہ کی کوکھ پکارتی رہی کہ مجیب واپس آجاؤ، مگر وہ ایسا گیا کہ پھر نہ آیا۔

    مأخذ:

    باقیات منٹو

      • سن اشاعت: 2002

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے