aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

لچھمن

MORE BYراجندر سنگھ بیدی

    کہانی کی کہانی

    ایک کنوارے آدمی کے جذباتی استحصال کی کہانی ہے۔ لچھمن کاٹھ گودام گاؤں کا پچپن برس کا آدمی تھا، جسے گاؤں کی عورتیں اور آدمی شادی کا لالچ دے کر خوب خوب کام لیتے، اس کی بہادری کے تذکرے کرتے اور مختلف ناموں کی لڑکیوں سے اس کے رشتے کی بات جوڑتے۔ ایک دن وہ گوری کی چھت پر کام کرتے کرتے اچانک نیچے گرا اور مر گیا، اس کی چتا کو جب جلایا گیا تو گاؤں کے سب لوگ رو رہے تھے۔

    لچھمن نے کنوئیں میں سے پانی کی سترہویں گاگر نکالی۔ اس دفعہ پانی سے بھری ہوئی گاگر کو اٹھاتے ہوئے اس کے دانتوں سے بے نیاز جبڑے آپس میں جم گئے۔ جسم پر پسینہ چھوٹ گیا۔ اس نے داہنے ہاتھ سے نندو کی بہو،گوری کی گاگر کو تھاما اور چرخی پر اڑی ہوئی رسّی کو دوسرے ہاتھ سے اتارا۔ ایک دفعہ چوکسی اور بیم ورجا سے تیس فٹ گہرے کنوئیں میں جھانکا۔ اپنے شانوں کو جھٹکا دیا۔ جبڑوں کو دبایا تو گال کچھ پھول سے گئے۔ لچھمن نے پھر غور سے اپنے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو دیکھا۔ ہتھیلی میں سے ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ انگلیوں کے نیچے آج کچھ نئے نئے سرخ سے نشان بن رہے تھے۔ وہ جانتا تھا کہ وہ نشان آج دوپہر تک ابھرتے ہوئے ایذا رساں آبلے بن جائیں گے اور شرادھ کی کھیر کھانے کے لیے اس کی انگلیاں یک جا نہ ہو سکیں گی،تاہم نصرت کی ایک ہلکی سی سرخی اس کے چہرے پر پھیل گئی۔ اس نے کاٹھ گودام کی ان بہو بیٹیوں کی طرف دیکھا اور ہانپتے ہوئے بولا، ’’رام کالی۔آج شرادھ ہے کس کا؟‘‘

    نندو کی بہو آگے بڑھی۔ اس نے ایک ہاتھ سے گھونگٹ کو چوٹی کی طرف کھسکایا، کولھے پر سے دھوتی کا پلّو سرک گیا۔ اس نے احتیاط سے ایک پلّو سینہ پر ڈالا اور لجاتی ہوئی بولی۔ ’’میرے باوا کا۔اور کس کا ہو گا؟‘‘

    اور پھر سب عورتیں لچھمن کی تعریف کرنے لگیں۔ ’’بہت بہادر آدمی ہے لچھمن۔ راٹھور ہے نا، دوسری بولی۔ لچھمن کا بیاہ ہو گا۔ میں اس کی گھوڑی گاؤں گی۔گھوڑی کی باگ تھاموں گی۔ جوڑا گاؤں میں اس کی ماں کے میکے ہیں۔ میری ماں کے میکے بھی جوڑا گاؤں میں تھے۔ میں لچھمن کی بہن ہوئی نا۔ اور ایک کہنے لگی۔ ’’مجھے تو بھاوج کا رشتہ ہی پسند ہے۔ میں اس کی آنکھوں میں سلائی ڈالوں گی۔ میری گاگر بھری تو کیا احسان کیا؟ دیور، بھابیوں کے سینکڑوں کام کرتے ہیں۔ گوری بہو! چڑھے پوہ کوئی ساہا نکلے۔ گلابی سی سردی ہو۔ بڑا مزار ہے گا۔ اس سال نہ بھی ہو تو جلدی کاہے کی ہے۔ لچھمن بھائی کوئی بوڑھا تھوڑے ہی ہو گیا ہے۔‘‘

    اور لچھمن کی عمر پچپن برس کی تھی۔ سترہویں گاگر نکال چکنے کے بعد اس نے اپنے پھولتے ہوئے بازوؤں کی طرف دیکھا اور پھر کنکھیوں سے نندو کی بہو گوری کی طرف۔ کاٹھ گودام کے سب آدمیوں نے گوری کے حسن کی تعریف توسنی تھی،مگر لچھمن کے سوائے اسے جی بھر کر کسی نے نہ دیکھا تھا۔ اس کو دیکھ کر لچھمن کو یاد نہ رہا کہ اس کے ہاتھوں پر ان ہی بڑی بڑی، مست، نیم وا آنکھوں نے کوئلے سے دھر دیے ہیں اور وہ عورت جس کے جوڑا گاؤں ننہال تھے، اس کی ماں کو جب لچھمن کے باپ نے سالی کہا تھا، تو اچھا خاصا کوروکھشیتر چھڑ گیا تھا۔ اور اسی کنوئیں پر جب اس نے ایک دفعہ بھابی کا آنچل تھاما، تو بھائی نے اس کی ناک توڑ دی تھی۔دفعتاً لچھمن نے اپنے آپ کو ایک بڑی سی آنکھ بنتے دیکھا، جس میں گورے گورے بازو، جھنکارتے ہوئے پازیب، سرکتے ہوئے پلّو اور نہ جانے کیا کچھ سما گیا۔ اسے یوں محسوس ہوا جیسے یکے بعد دیگرے تیس بوجھل سے غلاف آہستہ آہستہ اس کے جسم پر سے اتر گئے ہوں۔ وہ اپنے آپ کو پچیس برس کا نوجوان سمجھنے لگا۔

    لچھمن نے سوچا۔ اوّل تو عورتیں بہادری کو پسند کرتی ہیں، کیونکہ ان میں اس مادّہ کا فقدان ہوتا ہے، اور دوسرے وہ اس مرد کی طرف مائل ہوتی ہیں جو عورت کے سامنے مرد کی فطری کمزوری کو ظاہر نہ ہونے دے۔ دوسرے لفظوں میں محبت میں بس کر بھی اظہارتعشق نہ ہو، کیونکہ دوسری طرح بات کچھ عام سی ہو جاتی ہے۔ آج کنوئیں پر چھوٹی بڑی اس کی بہادری کا سکّہ مان گئیں۔ آج تو وہ بالکل شبدسروپ ہو گیا تھا، تبھی تو سب رادھائیں اس کی طرف کھچی چلی آتی تھیں۔ مگر اس نے کمزور کم ظرف آدمی کی طرح ان کی طرف ضرورت سے زیادہ متوجہ ہو کر اپنے مردانہ وقار کو کم نہیں کیا اور۔سترہ گاگریں؟سمر سنگھ کی جان نکل جائے، گوری تو ضرور اٹھتی بیٹھتی یہی سوچتی ہو گی کہ میرا شوہر لچھمن کے مقابلہ میں کس قدر نالائق اور کمزور ہے۔کاش میں لچھمن کی بیوی ہوتی! اگرچہ آج ان عورتوں میں سے ایک خود بخود بہن اور دوسری بھاوج بن گئی ہے۔ اس وقت لچھمن پل بھر کے لیے بھی یہ نہ سوچ سکا کہ کوروکھشیتر، کس طرح بپا ہوا تھا اور اس کی ناک کیوں توڑ دی گئی تھی۔ لچھمن نے نہ جانا کہ وہ کھوکھلی سی آوازیں صرف گاگریں نکالنے کی قیمت ہیں۔ اگر گھونگٹ کو ذرا سا چُٹیا کی طرف سرکا دینے سے شرادھ کے لیے ساراپانی مل جاتا ہے، تو کسی کا بگڑتا ہی کیا ہے۔ عورتیں اپنی آنکھوں کی ہیرا پھیری سے سینکڑوں کام سدھ کر لیتی ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سترہ گاگریں تو اکیلی گوری کے حسن کی جھلک کی قیمت ہے اور محض ادنیٰ سی قیمت۔اور وہ مست آنکھیں! وگر نہ کون بھابی ہے اور کون دیور؟ گوری بھی ایک مایا ہے اور مایا ہی رہے گی۔

    کاٹھ گودام کے سبھی لوگ جانتے تھے کہ لچھمن کو بابا کے نام سے پکارنا کتنا خطرناک کام ہے۔ لچھمن بُری سے بری گالی برداشت کرنے کی قوت رکھتا تھا، مگر بابا کا لفظ اس کے دماغی توازن کو مختل کر دیتا۔ بابا کے جواب میں تو بابا، تیری ماں بابا، تیرا بابا بابا اور اس قسم کی ہذیان بکتا اور بڑے بڑے پتھر پھینکتا۔ وہ ابھی اپنے آپ کو چھوکرا کیوں سمجھتا تھا؟ اسے کھٹکا سا لگا ہوا تھا کہ اگر وہ بوڑھا ہو گیا تو کون اسے اپنی لڑکی کا رشتہ دینے چلے گا۔ چھوٹے چھوٹے لڑکے بابا لچھمن۔بابا لچھمن کہہ کر تماشا دیکھتے، مگر وہ اپنے تجربہ کی خوفناک نوعیت سے واقف تھے۔ زور سے بابا کہہ چکنے کے بعد وہ کاٹھ گودام منڈی کی بوریوں کے پیچھے یا اس کی تنگ گلیوں میں غائب ہو جاتے۔

    جب کوئی کہتا کہ مالک رام کے بیاہ کی تاریخ 15 پھاگن مقرر ہوئی ہے، تو لچھمن ایک اضطراب کے عالم میں سن باٹنی چھوڑ دیتا۔ اپنی لاٹھی کو اٹھا کر زور سے زمین پر پٹکتا اور کہتا، ’’ہاں بھائی! 15 پھاگن۔‘‘ دوسرا کہتا، ’’ہاں بھائی۔ہم نہ بیا ہے تو کیسے ساہے؟‘‘

    لیکن لوگ اسے خوش کرنا بھی جانتے تھے۔ کوئی کہتا، لچھمن!آج تو تیرے چہرے پر سولہ برس کے جوان کا روپ ہے۔ ارے بھائی! ردھیا کی چھوکری جوان ہو رہی ہے۔ ایسی ہی جوان ہے، جیسے تم ہو۔ خوب میل ہے، بڑا جوڑ ہے۔ اگر تم اسے حاصل کرسکو تو کتنا مزا رہے۔

    لچھمن جوانی میں حبسِ بے جا اور اغوا کی سزائیں کاٹ چکا تھا، اس لیے وہ خاموشی سے دو تین بار ردھیا کی بیٹی کا نام لیتا، اور ذہن میں سینکڑوں بار اٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے،ردھیا کی بیٹی، ردھیا کی بیٹی، دہرائے جاتا، حتیٰ کہ اس کی داڑھی میں کھجلی ہونے لگتی۔

    کاٹھ گودام ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ آٹھ نو سو کے لگ بھگ گھر ہوں گے۔ تحصیل سے ایک کچا راستہ کیکر اور شیشم کے تناور درختوں کے درمیان سانپ کی طرح بل کھاتا ہوا چند میل جا کر ایک بڑے سے بڑ کے نیچے یک دم رک جاتا۔ عام طور پر مسافر وہاں پہنچ کر ششدر رہ جاتے۔ انھیں یو نہیں دکھائی دیتا، گویا راستہ اس سے آگے کہیں نہ جائے گا۔ یعنی باوجود زمین کے گول ہونے کے کاٹھ گودام دنیا کا ٹرمینس ہے۔ بات دراصل یہ تھی کہ بڑ کی بڑی بڑی داڑھیوں میں سے ہو کر تین چھوٹی چھوٹی گلیاں گاؤں میں داخل ہو جاتی تھیں۔ چند خستہ حالت کے کچّے مکانوں، ایک آدھ چھوٹی اینٹ کی عمارت جس میں بورڈ کا ایک پرائمری اسکول تھا، شاہ رحیم کی قبر اور کالا بھیرو کے مندر کے گرد گھوم کر تینوں گلیاں پھر گاؤں کے مشرق کی طرف ایک کشادہ سی سڑک سے مل جاتی تھیں۔ کالا بھیرو کے مندر کے قریب کالے کالے کتے گھومتے رہتے تھے،اور ان کی آنکھوں سے غصّہ اور دانتوں سے زہریلا لعاب ٹپکتا تھا۔ کالا بھیرو شوجی مہاراج کے اوتار گنے جاتے ہیں۔ ان کی رفاقت میں ہمیشہ ایک سیاہ فام کتا رہا کرتا تھا، اس لیے کالا بھیرو مندر کے پجاری چپڑی ہوئی روٹیوں اور پوریوں وغیرہ سے سیاہ فام کتوں کی خوب تواضع کیا کرتے تھے۔ اس قسم کے کتّے بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، اور سرکاری آدمیوں کو انھیں ’’گولی‘‘ ڈالنے کی مجال نہ تھی۔ کُتے مفت کی کھاتے تھے اور موٹے ہوتے جا رہے تھے۔ کاٹھ گودام میں داخل ہونے والے راستہ کے پاس بڑ کے ایک تنے کے نیچے لچھمن بیٹھا کرتا تھا۔ وہ تین کام کرتا تھا۔ اوّل تو ہر ناواقف مسافر کو کالا بھیرو والے راستہ سے گزرنے کی ہدایت کر کے کتوں سے بچاتا۔ دوسرے اسے اپنے کنوئیں کا شیریں اور مصفا پانی پلاتا اور تیسرے زندگی کا گزارا کرنے کے لیے سن کی رسیاں باٹتا۔

    کبھی کبھی کوئی انجان مسافر بڑ کے نیچے لچھمن کو چہرے سے درویش صورت پاکر نہایت تپاک سے پوچھتا، ’’پانی پلاؤ گے بابا؟‘‘ تو لچھمن فوراً لاٹھی اٹھا لیتا اور کہتا، ’’بیٹی کا رشتہ تو نہیں مانگتا جو مجھے بابا سمجھتے ہو۔ اسی کنوئیں سے اس دن سترہ گاگریں پانی کی کھینچی تھیں۔ تمھارے گاؤں کی سب عورتوں کو اپنے دام میں گرفتار کرسکتا ہوں۔ سمجھتے کیا ہو۔ اس بات کو وشنو عطار جانتا ہے۔ سارا محلہ جانتا ہے، گاؤں جانتا ہے۔‘‘ اور کالا بھیرو کے تمام کتے مسافر پر چھوڑ دیتا۔ اس بیچارے کی خوب ہی آؤ بھگت ہوتی۔ حتیٰ کہ وشنو عطار یا بازار کا کوئی اور دکاندار مسافر کو اس کی غلطی سے آگاہ کر دیتا، اور اگر وہ اپنے گاؤں سے اس کے لیے کسی میگھو، جنک دلاری یا ردھیا کا رشتہ لا دینے کا خیال ظاہر کرتا تو اس کی مٹھی چاپی ہوتی۔ بستر بچھا بچھایا استراحت کے لیے مِل جاتا اور لچھمن پوچھتا، ’’گانجا لاؤں چاچا۔کالا بھیرو کا گانجا تو دور دور مشہور ہے۔ سبھی لوگ جانتے ہیں۔ تم نہیں جانتے کیا؟‘‘

    کبھی کبھی وشنو اور کاٹھ گودام کی چھوٹی سی منڈی کے لوگ دور سے کسی مسافر کو آتا دیکھتے، تو وہ کہتے ۔ لچھمن بھائی، دیکھو وہ کوئی تمھیں دیکھنے کے لیے آ رہا ہے۔ شاید سیتا موہری کا باپ ہے۔ سیتا موہری جوڑا گاؤں کے نمبردار کی لڑکی ہے۔ بہت خوبصورت۔ ذرا سنور جاؤ۔ ہاں! یوں، لچھمن پہلے تو گانجا کا کش لگاتے ہوئے کہتا۔ او بھائی۔لچھمن توجتی ہے۔ جتی ہونا کتنی اونچی اوستھا ہے۔مگر پھر فوراً ہی لچھمن اپنی دھوتی اور پٹکے کے بل درست کرنے لگ جاتا، اور عطار کی دکان پر دھوکر ٹنگی ہوئی قمیص پہن کر جلدی جلدی اس کے بٹن بند کر لیتا اور پھر باوجود نہایت ہوشیاری سے کام لینے کے، اس کی داڑھی میں کھجلی ہونے لگتی۔

    وشنو عطار کی وساطت سے لچھمن کو کالا تیل مل گیا تھا۔ کم از کم لچھمن کو اس دوائی کا نام کالا تیل ہی بتایا گیا تھا۔ اس میں خوبی یہ تھی کہ برف کی طرح سپید داڑھی چند ہی لمحوں میں اتّر سے آنے والی گھٹا کی طرح کالی ہو جاتی تھی۔ لچھمن تو عطار کی حکمت کا سکّہ مان گیا تھا۔ یہ وشنو ہی میں طاقت ہے کہ وہ پلک جھپکنے میں پچپن برس کے بڈھے کو بیس برس کا جوان بنا دے۔ لچھمن نے اس کے عوض کتنی ہی سَن کی رسّیاں باٹ کر وشنو کو سامان وغیرہ باندھنے کے لیے دی تھیں۔

    وشنو کی دکان پر کبھی گلقند کے لیے کھانڈ کا قوام پکایا جاتا اور کبھی عرق گاؤ زبان نکالا جاتا۔ ہر روز بھٹی جلتی تھی۔ کبھی کبھی بہت سے اپلوں کی آنچ میں کشتے مارے جاتے تھے اور کالے تیل کا غلام بنا ہوا لچھمن، وشنو کے سینکڑوں کاموں کے علاوہ بھٹی میں آگ بھی جھونکا کرتا تھا۔

    لچھمن تھوڑا بہت پڑھنا جانتا تھا۔ وہ کبھی کبھی حیرت سے وشنو کی دکان میں رکھے ہوئے ڈبوں پر جلی قلم سے لکھے ہوئے لفظوں کو پڑھتا۔ عقر قرحا، معجون سرنجان، خمیرہ آبریشم عناب والا، جوارش آملہ عنبری۔اس کے علاوہ اور بھی کئی بوتلیں تھیں۔کسی میں عرق برنجاسف تھا اور کسی میں بادیان۔ ایک طرف چھوٹی چھوٹی شیشیاں پڑی تھیں جن میں کشتہ سنگِ یشب، شنگرف وغیرہ رکھے تھے۔ ان چھوٹی شیشیوں پر لچھمن کی نظریں جمی رہتی تھیں۔

    چھٹے شرادھ کے دن لچھمن کو نندو کے ہاں پھر بلایا گیا۔ لچھمن نے کالا تیل ملا اور نندو کے ہاں جانے کی تیاری کرنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں گوری کی تصویر بجلی کی طرح کوند کوند جاتی تھی۔ اگرچہ اس کے ہاتھوں پر ابھی تک آبلے دہکتے ہوئے کوئلوں کی طرح پڑے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ مگر گوری کی موہنی مورت اس کے کلیجہ میں ٹھنڈک پیدا کر رہی تھی۔

    لچھمن نے ریشمی پٹکا باندھا۔ یہ اسے کالا بھیرو کے ایک پروہت نے دیا تھا۔ پروہت جی کے جسم پر آبلے پھوٹ جانے پر لچھمن نے ان کی بڑی سیوا کی تھی۔ جیٹھ، ہاڑ اور ساون تین مہینے سردائی، ٹھنڈائی وغیرہ رگڑ کر پلائی تھی۔ پروہت کو وہ پٹکا ان کی کسی معتقد عورت نے دیا تھا۔ پروہت کے ارد گرد عورتوں کا تانتا لگا رہتا تھا اور عورتیں انھیں تھالیوں میں سیدھا اور نہ جانے کیا کیا بھینٹ کرتیں۔ عقیدت ہی تو ہے۔

    لچھمن نے پٹکا باندھا اور غرور سے وشنو کی دکان کے شیشے میں اپنی پگڑی کو دیکھا۔ الماری میں لگے ہوئے شیشوں میں اسے اپنی شکل اور چند ایک گدھے دکھائی دیے۔ گدھے اس کی پیٹھ کی جانب کمہار کے برتنوں سے لدے جا رہے تھے۔ کاٹھ گودام کے تمام برتن پک کر تحصیل میں بکتے تھے۔ اور وہ گدھے تحصیل ہی کو جا رہے تھے۔ عطار کی الماری کے شیشے میں لچھمن کو اپنا عکس بہت ہی دھندلا سا نظر آتا تھا، مگر اس کے باوجود لچھمن جانتا تھا کہ یہ اس کا اپنا عکس ہے، اور وہ قریب تر کھڑے ہوئے گدھے کا۔وشنو نے لچھمن کی امتیاز کر لینے کی قوت کی جی کھول کر داد دی۔

    لچھمن نے گوری کے گھر جانے کے لیے قدم اٹھایا تو اس کا دل دھک دھک کرنے لگا۔ اسے یوں محسوس ہوا جیسے اس کے سارے جسم پر کوئلے ہی کوئلے دھر دیے گئے ہوں۔ کچھ دیر کے لیے ہاتھ کی جلن تو ختم ہو گئی، کیونکہ اس کا سارا جسم ہی ایک بڑا سا ہاتھ بن گیا تھا۔ لچھمن اٹھا، لڑکھڑایا، لیٹ گیا۔ چند لمحات کے بعد اس نے آنکھیں کھولیں۔ اسے یوں محسوس ہوا جیسے اس کے کنوئیں کی منڈیر پر سترہ گاگریں ایک قطار میں رکھی ہوں۔ اس نے آنکھوں کو ملا۔ دکان کے اندر لگے ہوئے جالوں، بھڑ کے دو تین چھتّوں اور ایک آرام سے لٹکتی ہوئی چمگادڑ کو دیکھا۔ اور پھر آنکھیں بند کر کے ہوا کو ایک چھوٹی سی گالی دی، کیونکہ وہ اس کے پٹکے سے چھیڑ چھاڑ کر رہی تھی۔

    گدھوں پر مزید بوجھ لادا جا رہا تھا۔ کمہار نے چھ ماہ کے عرصہ میں چار پانچ سو برتن، حقے کی چلمیں، راہٹوں کی ٹنڈیں بنا رکھی تھیں۔ پہیّہ اور پاؤں دن رات چلتے رہتے تھے، اور کمہار کے جھونپڑے سے گنگنانے، کھنکارنے، تھوکنے، حقے کی گڑ گڑاہٹ اور ٹھپ ٹھپ کی آوازیں پیہم سنائی دیتی تھیں۔ گدھے تو بوجھ محسوس ہی نہیں کرتے تھے۔ گویا سارے کا سارا کاٹھ گودام اٹھا لیں گے۔ لچھمن نے دل میں کہا، یقینا یہ گدھے مجھ سے زیادہ بوجھ اٹھا سکتے ہیں۔اگرچہ سترہ گاگریں۔۔۔

    اس وقت کمہار نے آواز دی، ’’او گدھے کے بچّے!‘‘

    لچھمن نے کہا، آخر وہ گدھے ہیں، اور میں آدمی ہوں۔ اگر یہ بات اونچے کہی جاتی تو شاید وشنو ایک دفعہ پھر اس کی امتیاز کرنے والی غیر معمولی قوت کی داد دیتا۔بازار میں ایک لڑکا، جسے کھانسی کی شکایت تھی، بڑے مزے سے کھڑا پکوڑے کھا رہا تھا، اور کھانسے جاتا تھا۔ اس کے پاس ہی ایک نسبتاً چھوٹا لڑکا قمیص کا کف منھ میں ڈال کر چوس رہا تھا۔ کئی چھوکرے تحصیل سے منگوائی ہوئی برف کے گولوں پر لال لال شربت ڈلوا کر انھیں چاٹ رہے تھے۔ گلی میں چند عورتیں باتیں کر رہی تھیں۔ ایک کہتی تھی جب میرا چندو پیدا ہوا تو اسی دن ہماری گائے نے بچھڑا دیا۔ اور وشنو پکوڑے والے سے پوچھ رہا تھا ،کیوں بھائی! اس دفعہ اردھ کمبھی پر نہ جاؤ گے؟ چھوکروں نے لچھمن کو دیکھا تو اس کا حلیہ عجیب ہی بنا ہوا تھا۔ ان کا لڑکپن کاک کی طرح تیر کر سطح پر آ گیا۔ لڑکے چلاّئے۔ ’’بابا لچھمن۔بابا لچھمن!‘‘

    لچھمن بوکھلا کر اٹھا۔ چھت پر چمگادڑ چکر لگانے لگے۔ دو تین بھڑیں بھنبھنانے لگیں۔ چارپائی کے پائے سے لچھمن کا گھٹنا ٹکرایا۔ اسے ایک بڑا سا چکر آیا۔ لچھمن نے ہوا کو ایک گالی دی، چھینکا اور رونے لگا۔

    گوری عرصہ تک نئے لچھمن کو دیکھ کر ہنستی رہی۔ اسے ایسے دکھائی دے رہا تھا، جیسے وہ لچھمن کے عجیب سے روپ کو دیکھ کر شرادھ تو کیا، اپنے پتروں تک کو بھول گئی ہے۔ بھیرواستھان کے پروہت بھی آئے ہوئے تھے۔ جب گوری ان کی تواضع کرتی تو لچھمن کے دل میں خلش سی محسوس ہوتی۔ پھر وہ اپنی کم ظرفی پر اپنے آپ ہی کو کوستا۔ جب پروہت چلا گیا تو گوری نے گھونگٹ چٹیا کی طرف سرکا دیا۔ عورتیں بچوں، ہجڑوں اور بوڑھوں سے پردہ اٹھا دیتی ہیں اور اس نے لچھمن سے پردہ اٹھا دیا تھا۔ لچھمن نے مشکوک نگاہوں سے گوری کو دیکھا۔ دل میں یہ فیصلہ کیا کہ محبت بھی تو کسی کو بے پردہ بنا دیتی ہے۔ گوری نزدیک آئی تو لچھمن نے یوں محسوس کیا جیسے اس کے وجود کا اسے قطعی علم نہیں، اور جوں جوں وہ بے اعتنائی ظاہر کرتا، گوری کھچی چلی آتی تھی۔ لیکن پھر سوچا کہ یہ سب کھچ کھچاؤ کالے تیل کی وجہ سے تھا۔

    روٹی سے فارغ ہونے پر محلہ بھر کی عورتیں لچھمن کے گرد ہو گئیں۔ گوری ان سب کی ترجمانی کرتی تھی۔ بولی، ’’سترہ گاگریں! بہن میں تو مان گئی لچھمن کو۔اپنے مرد تو بالکل کسی کام کے نہیں۔ دو گاگریں اتنے گہرے کنوئیں سے نہ نکال سکیں۔ لچھمن راٹھور ہے، آدمی تھوڑے ہے۔ان کے بڑوں نے ہماری تمھاری لاج رکھی تھی۔ اب کل کی ہی تو بات ہے۔ کتنی آن والے آدمی تھے راٹھور!‘‘

    لچھمن کا منھ کان تک سرخ ہو گیا۔ اس نے اپنی خوشی کو چھپانے کی کوشش کی، مگر ناکامیاب رہا۔ وہ عورت جس کے جوڑا گاؤں ننہال تھے اور جس سے گاگر کی بہن، کا رشتہ تھا۔ بولی ’’میں تو بھابی کے آنے پر خوب رنگ رلیاں مناؤں گی۔ ناچوں گی۔گاؤں گی۔

    سگری رین موہے سنگ جاگا۔

    بھور بھئی تو بچھڑن لاگا۔

    اور بھابی کتنی خوش ہو گی؟‘‘

    ’گاگر کی بھابی‘ بولی’’ میں نے تو اپنے لیے دیورانی ڈھونڈ بھی لی ہے۔‘‘ لچھمن کے کان کھڑے ہو گئے۔ جب بھابی نے کہا ،مجھے تو اس کا نام بھی معلوم ہے تو لچھمن بہت خوش ہوا۔ ضبط نہ کرسکا۔ بولا۔

    ’’کیا نام ہے بھلا اس کا؟‘‘

    ’’نام بڑا سندر ہے۔‘‘

    ’’کہو گی بھی؟‘‘

    ’’ذرا مزاج کی سخت ہے۔‘‘

    ’’میں جو نرم ہوں۔‘‘

    ’’گوری بھی جانتی ہے۔‘‘

    ’’کوئی کہے گی بھی؟‘‘

    ’’کاؤ دیوی!‘‘ گوری نے کہا۔

    ’’کاؤ دیوی؟‘‘ لچھمن نے پوچھا۔ دو دفعہ نام کو دہرایا اور ذہن میں سینکڑوں بار اس کا جاپ کیا ،حتیٰ کہ اس کی داڑھی میں کھجلی ہونے لگی۔

    گوری بولی ’’تم اعتبار نہیں کرتے، تو میں کالا بھیرو کی سوگند لیتی ہوں۔ کاؤ دیوی سے بیاہ کروانے کا میرا ذمہ۔ سارا خرچ میں اپنی گرہ سے دوں گی۔‘‘

    اب لچھمن کے پاؤں زمین پر نہ پڑتے تھے۔ شب و روز وہ نندو کے گھر کا طواف کرنے لگا۔ اس کے ذرا سے اشارے پر تحصیل چلا جاتا۔ کمہاروں کے گدھوں سے زیادہ بوجھ اٹھا لیتا۔ کالا بھیرو کے کتوں سے زیادہ شور مچاتا اور کاٹھ گودام کے پنڈتوں سے زیادہ کھاتا۔

    اس دفعہ برسات میں گوری کے گھر کا پرنالہ اوپر کی منزل پر بند ہو گیا تھا۔ گوری نے لچھمن کو کہا کہ وہ چھجے پر چڑھ کر پرنالہ تو صاف کر دے۔ لچھمن نے کوٹھے پر چڑھ کر دیکھا، تو پرنالے میں ایک کتے کا پلّہ مرا پڑا تھا اور پلّے کا سر پرنالے میں بے طور پھنس گیا تھا۔ اب پلّہ کالے رنگ کا تھا۔ اس کی عزّت ملحوظ خاطر تھی۔ مار کاٹ کر باہر نکالنا کالا بھیرو کی بے عزتی کرنا تھا۔ مگر پلّہ نہ اوپر آتا تھا نہ نیچے جاتا تھا۔

    لچھمن اپنے آپ میں ایک نئی جوانی پا رہا تھا، اور عنقریب ہی شادی کی خوشی میں اس نے جوان بننے کے لیے وشنو عطار کی کئی دوائیاں کھائیں۔ آج دوائی زیادہ کھا لینے کی وجہ سے اس کا سر پھٹ رہا تھا، اور اسے تمام جسم میں سے شعلے نکلتے دکھائی دیتے تھے۔ جوش میں وہ سب کام کیے جاتا تھا۔ تقریباً دو گھنٹہ تک وہ سخت دھوپ میں چھجے پر بیٹھا پرنالے کو صاف کرتا رہا۔ نیچے سے چند بچّوں اور عورتوں نے آوازیں دیں۔

    ’’بابا۔ بابا۔ کاؤ دیوی آئی۔‘‘

    لچھمن نے گھبرا کر چاروں طرف دیکھا۔ بچّوں کو گالیاں دیں۔ کتے کے پلّے کو دم سے پکڑ کر زور سے کھینچا، تو وہ جھٹکے سے باہر نکل آیا، مگر ساتھ ہی لچھمن کو اس زور سے جھٹکا لگا کہ وہ اوپر کی منزل سے زمین پر آ رہا۔

    سارے کا سارا کاٹھ گودام نندو کے گھر پل پڑا۔ لوگوں کو لچھمن کے یوں مجروح ہونے کا بہت افسوس تھا۔ خصوصاً جب کہ کاؤ دیوی سے اس کی شادی کا چرچا چھوٹے بڑے کی زبان پر تھا۔ نرم دل لوگوں نے بے چارے کی مصیبت پر آنسو بھی بہائے۔

    شام کے قریب خبر ملی کہ چوٹ ووٹ کی اب کوئی بات نہیں رہی۔ لچھمن شادی کے لیے بالکل تیار ہے۔ آج شام کو اس کی شادی ہو گی۔ ’’گاگر کی بھابی تو کہتی تھی، اتنی بھی جلدی کاہے کی ہے۔ لچھمن کوئی بوڑھا تھوڑے ہی ہو گیا ہے؟‘‘

    شام کو باجا بجنے لگا۔ کاٹھ گودام کے بہت سے آدمی براتی بن کر شادی میں شامل ہوئے۔ لچھمن کو بہت اچھے پہناوے پہنائے گئے۔ سہرے باندھے گئے۔ وہ اور بھی جوان ہو گیا تھا۔ لوگوں نے شمشان میں ایک بڑے پرانے پیپل کے پیڑ تلے نوجوان لچھمن کو رکھ دیا۔ ایک طرف سے آواز آئی۔ ’’ہٹ جاؤ۔دلہن آ رہی ہے‘‘۔ ایک آدمی چھکڑا گھسیٹتا ہوا لایا۔ چھکڑے میں سے لکڑیاں اتار کر زمین پر چتا کی صورت میں چُن دی گئیں۔ اوپر لچھمن کو رکھا اور آگ لگا دی۔یہ عجب شادی تھی جس میں سب براتی رو رہے تھے، اور جب نندو کی بہو گوری نے کاؤ کی ان تمام لکڑیوں کا خرچ اپنی گرہ سے دیا، تواس کی چیخ ہی نکل گئی۔

    مأخذ:

    دانہ و دام (Pg. 181-195)

    • مصنف: راجندر سنگھ بیدی
      • ناشر: مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1980

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے