پطرس بخاری کے طنز و مزاح
ہاسٹل میں پڑنا
ہم نے کالج میں تعلیم تو ضرور پائی اور رفتہ رفتہ بی،اے بھی پاس کر لیا، لیکن اس نصف صدی کے دوران جو کالج میں گزارنی پڑی، ہاسٹل میں داخل ہونے کی اجازت ہمیں صرف ایک ہی دفعہ ملی۔ خدا کا یہ فضل ہم پر کب اور کس طرح ہوا، یہ سوال ایک داستان کا محتاج ہے۔ جب
کتے
علم الحیوانات کے پروفیسروں سے پوچھا، سلوتریوں سے دریافت کیا، خود سرکھپاتے رہے لیکن کبھی سمجھ میں نہ آیا کہ آخر کتوں کافائدہ کیا ہے؟ گائے کو لیجئے، دودھ دیتی ہے، بکری کو لیجئے، دودھ دیتی ہے اور مینگنیاں بھی۔ یہ کتے کیا کرتے ہیں؟ کہنے لگے کہ، ’’کتا وفادار
مرحوم کی یاد میں
ایک دن مرزا صاحب اور میں برآمدے میں ساتھ ساتھ کرسیاں ڈالے چپ چاپ بیٹھے تھے۔ جب دوستی بہت پرانی ہوجائے تو گفتگو کی چنداں ضرورت باقی نہیں رہتی اور دوست ایک دوسرے کی خاموشی سے بھی لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ یہی حالت ہماری تھی۔ ہم دونوں اپنے اپنے خیالوں میں
مریدپور کا پیر
اکثر لوگوں کو اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ میں اپنے وطن کا ذکر کبھی نہیں کرتا۔ بعض اس بات پر بھی حیران ہیں کہ میں اب کبھی اپنے وطن کو نہیں جاتا۔ جب کبھی لوگ مجھ سے اس کی وجہ پوچھتے ہیں تو میں ہمیشہ بات کو ٹال دیتا ہوں۔ اس سے لوگوں کو طرح طرح کے شبہات
سویرے جو کل آنکھ میری کھلی
گیدڑ کی موت آتی ہے تو شہر کی طرف دوڑتا ہے۔ ہماری جو شامت آئی تو ایک دن اپنے پڑوسی لالہ کرپا شنکرجی برہمچاری سے برسبیل تذکرہ کہہ بیٹھے کہ ’’لالہ جی امتحان کے دن قریب آتے جاتے ہیں، آپ سحرخیز ہیں، ذرا ہمیں بھی صبح جگادیا کیجیئے۔‘‘ وہ حضرت بھی معلوم
سنیما کا عشق
’’سینما کا عشق‘‘ عنوان تو عجب ہوس خیز ہے، لیکن افسوس کہ اس مضمون سے آپ کی تمام توقعات مجروح ہوں گی۔ کیونکہ مجھے تو اس مضمون میں کچھ دل کے داغ دکھانے مقصود ہیں۔ اس سے آپ یہ نہ سمجھئے کہ مجھے فلموں سے دلچسپی نہیں، یا سینما کی موسیقی اور تاریکی میں
میں ایک میاں ہوں
میں ایک میاں ہوں۔ مطیع و فرمانبردار۔ اپنی بیوی روشن آرا کو اپنی زندگی کی ہر ایک بات سے آگاہ کرنا اصول زندگی سمجھتا ہوں اور ہمیشہ اس پر کاربند رہا ہوں۔ خدا میرا انجام بخیر کرے۔ چنانچہ میری اہلیہ میرے دوستوں کی تمام عادات و خصائل سے واقف ہیں، جس کا
لاہور کا جغرافیہ
تمہید تمہید کے طور پر صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ لاہور کو دریافت ہوئے اب بہت عرصہ گزرچکا ہے اس ليے دلائل و براہین سے اس کے وجود کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ کہنے کی اب ضرورت نہیں کہ کُرے کو دائیں سے بائیں گھمائیے،حتٰی کہ ہندوستان کا ملک آپ کے
اردو کی آخری کتاب
ماں کی مصیبت ماں بچے کو گود میں ليے بیٹھی ہے۔ باپ انگوٹھا چوس رہا ہے اور دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ بچہ حسب معمول آنکھیں کھولے پڑاہے۔ ماں محبت بھری نگاہوں سے اس کے منہ کو تک رہی ہے اور پیار سے حسب ذیل باتیں پوچھتی ہے: ۱۔ وہ دن کب آئے گا جب تو میٹھی
بچے
یہ تو آپ جانتے ہیں کہ بچوں کی کئی قسمیں ہیں، مثلاً بلی کے بچے، فاختہ کے بچے وغیرہ۔ مگر میری مراد صرف انسان کے بچوں سے ہے، جن کی ظاہراً تو کئی قسمیں ہیں، کوئی پیارا بچہ ہے اور کوئی ننھا بچہ ہے۔ کوئی پھول سا بچہ ہے اور کوئی چاند سا بچہ ہے، لیکن یہ سب
میبل اور میں
میبل لڑکیوں کے کالج میں تھی۔ لیکن ہم دونوں کیمبرج یونیورسٹی میں ایک ہی مضمون پڑھتے تھے، اس ليے اکثر لکچروں میں ملاقات ہوجاتی تھی۔ اس کےعلاوہ ہم دوست بھی تھے۔ کئی دلچسپیوں میں ایک دوسرے کے شریک ہوتے تھے۔ تصویروں اور موسیقی کا شوق اسے بھی تھا، میں بھی
دوست کے نام
از لاہور اے میرے کراچی کے دوست! چند دن ہوئے میں نے اخبار میں یہ خبر پڑھی کہ کراچی میں فنون لطیفہ کی ایک انجمن قائم ہوئی ہے جو وقتاً فوقتاً تصویروں کی نمائشوں کا اہتمام کرے گی۔ واضح طور پر معلوم نہ ہوسکا کہ اس کے کرتا دھرتا کون اہل جنون ہیں لیکن
انجام بخیر
منظر: ایک تنگ و تاریک کمرہ جس میں بجز ایک پرانی سی میز اور لرزہ براندام کرسی کے اور کوئی فرنیچر نہیں۔ زمین پرایک طرف چٹائی بچھی ہے جس پر بےشمار کتابوں کا انبار لگا ہے۔ اس انبار میں سے جہاں جہاں کتابوں کی پشتیں نظر آتی ہیں وہاں شیکسپیئر، ٹالسٹائے، ورڈزورتھ