Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

لغت

لفظوں کے معنی دیکھنے کے لیے سرچ باکس میں ٹائپ کیجیے

ریختہ ڈکشنری

اردو، ہندی اور انگریزی میں اردو الفاظ کے مفصل معانی تلاش کیجیے۔ الفاظ کو پسندیدہ کرکے اپنا ذاتی لفظ بینک بنائیے۔

آج کا لفظ

آفاق

  • aafaaq
  • आफ़ाक़

معنی

جہان، دنیا، کائنات

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا

تشریح

اسی مضمون کو انہیں پیکروں کے ساتھ دیوان اوّل میں ایک جگہ اور لکھا ہے؎

ہر دم قدم کو اپنے رکھ احتیاط سے یاں

یہ کارگاہ ساری دکان شیشہ گر ہے

لیکن ’’لے سانس بھی آہستہ۔۔۔‘‘ بہت بہتر شعر ہے، کیونکہ اس میں ’’سانس‘‘ کا لفظ شیشہ گری سے خاص مناسبت رکھتا ہے۔ (پگھلے ہوئے شیشے کو نلکی کے سرے پر رکھ کر پھونکتے ہیں اور اس طرح اسے مختلف شکلیں دیتے ہیں۔) زور کی ہوا چلے تو شیشے کی چیزیں گر کر یا آپس میں ٹکرا کر ٹوٹ جاتی ہیں، اور آفاق کی کارگاہ شیشہ گری میں ایسے نازک کام ہوتے ہیں کہ تیز سانس بھی ان کے لئے زور کی ہوا کا حکم رکھتی ہے۔ ’’ہردم قدم کو اپنے‘‘ میں لفظ ’’دم‘‘ کے ذریعہ سانس کی طرف اشارہ کیا ہے، اور ’’دم قدم‘‘ میں بھی ایک لطف ہے، لیکن یہ دونوں چیزیں ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ کے برابر بلاغت کی حامل نہیں ہیں۔ شعر کا مفہوم یہ ہے کہ صاحب نظر کائنات کو دیکھتا ہے تو اس کی رنگا رنگی اور پیچ در پیچ نزاکت کو دیکھ کر حیرت میں آ جاتا ہے۔ ہر چیز انتظام سے چل رہی ہے، کہیں کوئی انتشار نہیں، معلوم ہوتا ہے کوئی بہت ہی نازک اور پیچیدہ کارخانہ ہے۔ صاحب نظر کو محسوس ہوتا ہے کہ اگر زور کی سانس بھی لی تو یہ سب درہم برہم ہوجائے گا۔ یا شاید یہ سب کچھ ایک خواب ہے، جو ذرا سے اشارے پر برہم اور منتشر ہوسکتا ہے۔ اقبال کا مندرجہ ذیل شعر میر کے شعر زیر بحث سے براہ راست مستعار معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اقبال کا شعر غیر ضروری وضاحت اور خطابیہ انداز بیان کے باعث ناکام ٹھہرتا ہے؎

زندگی کی رہ میں چل لیکن ذرا بچ بچ کے چل

یہ سمجھ لے کوئی مینا خانہ باردوش ہے

(بانگ درا۔ حصہ سوم)

اقبال کے شعر پر قائم چاند پوری کے ایک شعر کا بھی پرتو نظر آتا ہے۔ ممکن ہے قائم نے بھی میر سے استفادہ کیا ہو، قائم؎

یہ دہر ہے کار گاہ مینا

جو پاؤں رکھے سویاں تو ڈر کر

میر کے شعرِ زیر بحث اور قائم کے مندرجہ بالا شعر پر میں نے ’’شعر غیر شعر اور نثر‘‘ میں بھی کچھ اظہار خیال کیا ہے۔ قائم نے ایک اور جگہ میرسے ملتا جلتا مضمون باندھا ہے؎

غافل قدم کو رکھیو اپنے سنبھال کر یاں

ہر سنگ رہگذر کا دکان شیشہ گر ہے

یہاں قائم کا خطابیہ لہجہ شعر کے زور میں مخل ہے اور مصرع ثانی کا انکشافی انداز بھی لفظ ’’غافل‘‘ کو سنبھالنے کے لئے ناکافی ہے۔

نثار احمد فاروقی نے یہ نکتہ پیدا کیا ہے کہ اگر اس شعر کو تصوف پر محمول کیا جائے تو اس میں ’’پاس انفاس‘‘ اور ’’ہوش دردم‘‘ کے اشارے دیکھے جا سکتے ہیں۔ لیکن یہ نکتہ دورازکار معلوم ہوتا ہے کیوں کہ پاس انفاس اور ہوش دردم صوفیانہ افکار و اعمال ہیں، ان کے حوالے سے آفاق کے کاموں کا نازک ہونا نہیں ثابت ہوتا۔

شمس الرحمن فاروقی

تشریح

اسی مضمون کو انہیں پیکروں کے ساتھ دیوان اوّل میں ایک جگہ اور لکھا ہے؎

ہر دم قدم کو اپنے رکھ احتیاط سے یاں

یہ کارگاہ ساری دکان شیشہ گر ہے

لیکن ’’لے سانس بھی آہستہ۔۔۔‘‘ بہت بہتر شعر ہے، کیونکہ اس میں ’’سانس‘‘ کا لفظ شیشہ گری سے خاص مناسبت رکھتا ہے۔ (پگھلے ہوئے شیشے کو نلکی کے سرے پر رکھ کر پھونکتے ہیں اور اس طرح اسے مختلف شکلیں دیتے ہیں۔) زور کی ہوا چلے تو شیشے کی چیزیں گر کر یا آپس میں ٹکرا کر ٹوٹ جاتی ہیں، اور آفاق کی کارگاہ شیشہ گری میں ایسے نازک کام ہوتے ہیں کہ تیز سانس بھی ان کے لئے زور کی ہوا کا حکم رکھتی ہے۔ ’’ہردم قدم کو اپنے‘‘ میں لفظ ’’دم‘‘ کے ذریعہ سانس کی طرف اشارہ کیا ہے، اور ’’دم قدم‘‘ میں بھی ایک لطف ہے، لیکن یہ دونوں چیزیں ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ کے برابر بلاغت کی حامل نہیں ہیں۔ شعر کا مفہوم یہ ہے کہ صاحب نظر کائنات کو دیکھتا ہے تو اس کی رنگا رنگی اور پیچ در پیچ نزاکت کو دیکھ کر حیرت میں آ جاتا ہے۔ ہر چیز انتظام سے چل رہی ہے، کہیں کوئی انتشار نہیں، معلوم ہوتا ہے کوئی بہت ہی نازک اور پیچیدہ کارخانہ ہے۔ صاحب نظر کو محسوس ہوتا ہے کہ اگر زور کی سانس بھی لی تو یہ سب درہم برہم ہوجائے گا۔ یا شاید یہ سب کچھ ایک خواب ہے، جو ذرا سے اشارے پر برہم اور منتشر ہوسکتا ہے۔ اقبال کا مندرجہ ذیل شعر میر کے شعر زیر بحث سے براہ راست مستعار معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اقبال کا شعر غیر ضروری وضاحت اور خطابیہ انداز بیان کے باعث ناکام ٹھہرتا ہے؎

زندگی کی رہ میں چل لیکن ذرا بچ بچ کے چل

یہ سمجھ لے کوئی مینا خانہ باردوش ہے

(بانگ درا۔ حصہ سوم)

اقبال کے شعر پر قائم چاند پوری کے ایک شعر کا بھی پرتو نظر آتا ہے۔ ممکن ہے قائم نے بھی میر سے استفادہ کیا ہو، قائم؎

یہ دہر ہے کار گاہ مینا

جو پاؤں رکھے سویاں تو ڈر کر

میر کے شعرِ زیر بحث اور قائم کے مندرجہ بالا شعر پر میں نے ’’شعر غیر شعر اور نثر‘‘ میں بھی کچھ اظہار خیال کیا ہے۔ قائم نے ایک اور جگہ میرسے ملتا جلتا مضمون باندھا ہے؎

غافل قدم کو رکھیو اپنے سنبھال کر یاں

ہر سنگ رہگذر کا دکان شیشہ گر ہے

یہاں قائم کا خطابیہ لہجہ شعر کے زور میں مخل ہے اور مصرع ثانی کا انکشافی انداز بھی لفظ ’’غافل‘‘ کو سنبھالنے کے لئے ناکافی ہے۔

نثار احمد فاروقی نے یہ نکتہ پیدا کیا ہے کہ اگر اس شعر کو تصوف پر محمول کیا جائے تو اس میں ’’پاس انفاس‘‘ اور ’’ہوش دردم‘‘ کے اشارے دیکھے جا سکتے ہیں۔ لیکن یہ نکتہ دورازکار معلوم ہوتا ہے کیوں کہ پاس انفاس اور ہوش دردم صوفیانہ افکار و اعمال ہیں، ان کے حوالے سے آفاق کے کاموں کا نازک ہونا نہیں ثابت ہوتا۔

شمس الرحمن فاروقی

بولیے