فیصل فہمی
تصویری شاعری 2
سنو خاموش ہی ہستی مری تم سے جدا ہوگی کہ اب ہر اک فریاد_عنایت بے_نوا ہوگی کسی فرد_محبت سے بھلا امید کیا رکھنا محبت بے_وفا تھی بے_وفا ہے بے_وفا ہوگی پرانے کاغذوں پہ درج میری شاعری شاید کسی مجروح دل کے زخم کی مائل ردا ہوگی کرو_گے ظلم کب تک مشورہ ہے باز آ جاؤ بہت پچھتاؤ_گے تم ظلم کی گر انتہا ہوگی تجسس چھوڑ دے تم قیس_و_لیلیٰ سی محبت کا کی دور_نو کی ہر تمثیل_الفت بے_وفا ہوگی
عشق کی آج انتہا کر دو روح کو جسم سے جدا کر دو ہے خلاصہ یہی محبت کا ہو جو اچھا اسے برا کر دو یہ جو آنکھوں سے خون جاری ہے اس کو ہاتھوں کی تم حنا کر دو وقت_رخصت گلے لگا لینا آخری بار یہ خطا کر دو تم مجھے چھوڑ کیوں نہیں دیتی اپنے حق میں تو فیصلہ کر دو شبنمی رات کے اندھیرے کو برہنہ جسم کی قبا کر دو اب اٹھا دو نقاب چہرے سے رات کو چاند سے خفا کر دو ہے کہ دشوار زندگی فہمیؔ خود کو بیمار با_خدا کر دو