- کتاب فہرست 182593
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1913
طب851 تحریکات287 ناول4230 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1432
- دوہا65
- رزمیہ98
- شرح182
- گیت81
- غزل1015
- ہائیکو12
- حمد37
- مزاحیہ36
- انتخاب1527
- کہہ مکرنی6
- کلیات658
- ماہیہ19
- مجموعہ4740
- مرثیہ369
- مثنوی806
- مسدس54
- نعت520
- نظم1159
- دیگر67
- پہیلی16
- قصیدہ179
- قوالی19
- قطعہ57
- رباعی287
- مخمس17
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی28
- ترجمہ73
- واسوخت26
تمام
تعارف
ای-کتاب158
مضمون1
طنز و مزاح17
خاکہ1
شعر3
غزل14
نظم2
قصہ7
ویڈیو 3
گیلری 1
مزاحیہ شاعری1
نعت1
شوکت تھانوی کا تعارف
دھوکا تھا نگاہوں کا مگر خوب تھا دھوکا
مجھ کو تری نظروں میں محبت نظر آئی
اتنی مقبولیت کم شہ پاروں کو نصیب ہوتی ہے جتنی شوکت تھانوی کے مزاحیہ افسانے’’سودیشی ریل‘‘ کو نصیب ہوئی۔ مضحکہ خیز واقعات سنا کر ہنسانے کا فن انہیں خوب آتا ہے۔ ان کے یہاں گہرائی نہ سہی مگر عام لوگوں کو ہنسانے کا مواد خوب مل جاتا ہے۔ تقریباً چالیس کتابیں لکھ کر انہوں نے اردو مزاحیہ ادب میں بہت اضافہ کیا۔
ان کا اصلی نام محمد عمر، والد کا نام صدیق احمد، سال ولادت 1905ء اور جائے پیدائش بندرابن تھا کیوں کہ ا کے والد یہاں کوتوال کی حیثیت سے متعین تھے حالانکہ ان کا وطن تھانہ بھون ضلع مظفر نگر تھا۔ محمد عمر نے جب شوکت قلمی نام رکھا تو وطن کی مناسبت سے اس پر تھانوی اضافہ کیا۔ اردو، فارسی کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی اور بمشکل ہوئی کیونکہ وہ پڑھنے کے شوقین نہیں تھے۔
والد ملازمت سے ریٹائر ہوئے تو ان کے ساتھ بھوپال اور پھر لکھنؤ چلے آئے۔ والدین نے مستقل رہائش کے لئے اسی جگہ کا انتخاب کر لیا تھا۔ یہیں شوکت تھانوی کی تصنیفی صلاحیت کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ اپنی تخلیقات کے لئے انہوں نے ظرافت کا انتخاب کیا۔ 1932ء کے آس پاس مزاحیہ افسانہ’’سودیشی ریل‘‘ لکھا تو شہرت چاروں طرف پھیل گئی۔ اسی شہرت کے سبب آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت مل گئی۔ وفات سے پہلے پاکستان چلے گئے تھے۔ وہاں بھی ریڈیو کی ملازمت مل گئی تھی۔ لاہور میں 1963ء میں وفات پائی۔
لفظوں کے الٹ پھیر سے، لطیفوں سے رعایت لفظی سے، محاورے سے، املا کی ناہمواریوں سے اور زیادہ تر مضحکہ خیز واقعات سے شوکت تھانوی نے مزاح پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ان کے طنزومزاح میں گہرائی نہیں بلکہ سطحیت ہے۔ اعلیٰ درجے کی تخلیق بہت غوروفکر اور بے حد محنت کے بعد ہی وجود میں آسکتی ہے۔ شوکت تھانوی کے یہاں ان دونوں چیزوں کی کمی ہے۔ ان کی تصانیف کی تعداد چالیس کے قریب ہے۔ اتنا زیادہ لکھنے والا نہ سوچنے کے لیے وقت نکال سکتا ہے اور نہ اپنی تحریروں پر نظر ثانی کرسکتا ہے۔ ظرافت کو فنکارانہ انداز میں پیش نہ کیا جائے تو وہ ہنسانے کی ایک ناکام کوشش بن کے رہ جاتی ہے۔ شوکت ہنسانے میں تو کامیاب ہیں مگر قاری کو غوروفکر پر مجبور نہیں کرتے حالانکہ ان کی تحریروں میں مقصدیت موجود ہے۔ وہ سماجی خامیوں اور انسانی سیرت کی ناہمواریوں کو دور کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ان پر ہنستے ہیں اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ سودیشی ریل، تعزیت اور لکھنؤ کانگریس سیشن ان کی کامیاب کوششیں ہیں۔
موج تبسم، بحر تبسم، سیلاب، طوفان تبسم، سوتیاچاہ، کارٹون، بدولت، جوڑتوڑ، سسرال ان کی مشہور کتابیں ہیں۔ انہوں نے شاعری بھی کی، ریڈیو ڈرامے بھی لکھے اور ’’شیش محل‘‘ کے نام سے خاکوں کو ایک مجموعہ بھی پیش کیا۔مأخذ : تاریخ ادب اردوjoin rekhta family!
-
ادب اطفال1913
-