نہ بے وفائی کا ڈر تھا نہ غم جدائی کا
نہ بے وفائی کا ڈر تھا نہ غم جدائی کا
مزا میں کیا کہوں آغاز آشنائی کا
کہاں نہیں ہے تماشا تری خدائی کا
مگر جو دیکھنے دے رعب کبریائی کا
وہ ناتواں ہوں اگر نبض کو ہوئی جنبش
تو صاف جوڑ جدا ہو گیا کلائی کا
شب وصال بہت کم ہے آسماں سے کہو
کہ جوڑ دے کوئی ٹکڑا شب جدائی کا
یہ جوش حسن سے تنگ آئی ہے قبا ان کی
کہ بند بند ہے خواہاں گرہ کشائی کا
کمان ہاتھ سے رکھ صید گاہ عرفاں میں
کہ تیر صید ہے یاں دام نارسائی کا
وہ بد نصیب ہوں یار آئے میرے گھر تو بنے
سمٹ کے وصل کی شب تل رخ جدائی کا
ہزاروں کافر و مومن پڑے ہیں سجدے میں
بتوں کے گھر میں بھی سامان ہے خدائی کا
تمام ہو گئے ہم پہلے ہی نگاہ میں حیف
نہ رات وصل کی دیکھی نہ دن جدائی کا
نہیں ہے مہر لفافہ پہ خط کے اے قاصد
یہ داغ ہے مری قسمت کی نارسائی کا
نقاب ڈال کے اے آفتاب حشر نکل
خدا سے ڈر یہ کہیں دن ہے خود نمائی کا
نہیں قرار گھڑی بھر کسی کے پہلو میں
یہ ذوق ہے ترے ناوک کو دل ربائی کا
مری طرف سے کوئی جا کے کوہ کن سے کہے
نہیں نہیں یہ محل زور آزمائی کا
کہا جو میں نے کہ میں خاک راہ ہوں تیرا
تو بولے ہے ابھی پندار خود نمائی کا
جنوں جو میری طرف ہو وہ جست و خیز کروں
کہ دل ہو ٹوٹ کے ٹکڑے شکستہ پائی کا
امیرؔ روئیے اپنے نصیب کو ایسا
کہ ہو سپید سیہ ابر نارسائی کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.