پچھلے دنوں کے قومی ابتلا میں جس سے جو کچھ ہو سکا، اس نے دیا۔ کسی نے پیسے دیے، کسی نے کپڑے دیے، کسی نے مشورے دیے کہ اپنی جگہ ان کی بھی بڑی قیمت ہے۔ جس کو لکھنا آتا ہے ان میں سے کسی نے چیک لکھا، کسی نے تعویذ لکھا، کسی نے ہماری طرح کالم لکھا، یا حاجی کشمیر والا کی طرح اشتہار لکھا اور زیور طبع سے آراستہ کرا دیا۔ ان دنوں ہماری ڈاک میں سے طرح طرح کے کتابچے، پمفلٹ، اشتہار برآمد ہوئے۔ جن میں جنگ جیتنے کے طریقے بتائے گئے تھے۔ کچھ نظم میں، کچھ نثرمیں، کچھ ادب لطیف میں، جو صورت میں نثر اور سیرت میں نظم ہوتی ہے۔ لکھنے والوں میں عابد بھی تھے، زاہد بھی تھے، ہشیار بھی تھے، خاندانی حکیم اور ڈاکٹر بھی تھے اور مایوس العلاج بیمار بھی تھے۔
قوم کا درد رکھنے والوں میں دو طرح کے لوگ ہم نے پائے۔ ایک جو آپ کو ملت میں بری طرح یعنی پوری طرح گم کردیتے ہیں۔ اپنی ہستی کو مٹا دیتے ہیں۔ موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں، کے قائل ہوتے ہیں۔ دوسرے وہ جو اپنی خودی کو اسی طرح قائم رکھتے ہیں جیسے دال میں کوکڑو، کباب میں ہڈی وغیرہ۔ اس وقت ہمارے سامنے چار صفحے کا ایک ٹریکٹ ہے۔ جس کا عنوان ہے، ’’اے عظیم قوم آفریں۔‘‘ اس کے تین صفحات تو لکھنے والے نے، جو ایک ہومیو ڈاکٹر ہے، قوم کی نذر کیے ہیں۔ چوتھے پر کچھ اپنا خیال بھی رکھا ہے کیونکہ قوم آخر افراد ہی سے بنتی ہے۔ افراد نہ ہوں گے تو قوم کہاں سے آئے گی۔ پہلے تین صفحات کا مضمون وہی ہے جس سے آپ آشنا ہیں۔ اس میں،
بھنور سے لڑو، تند لہروں سے الجھو
نہیں شان مومن کنارے کنارے
وغیرہ قابل قدر اور ولولہ انگیز اشعار بھی ہیں اور ہمارے شاندار ماضی سے مثالیں بھی۔ تیسرے صفحے تک پہنچتے پہنچتے لکھنے والا (ہومیو ڈاکٹر رجسٹریشن نمبر ۲۳۲۸۶) دشمنوں کو للکارتا اور مومنوں کو پکارتا اس قسم کے اشعار پر آگیا ہے،
اے اہل ہند خوف سے تھراؤ ہمارے
ہم جوش میں آکر نہ کہیں خون بہا دیں
بے شک ان اشعار میں وزن نہیں ہے اور اگر ہے تو کم ہے لیکن جنگ کے دنوں میں ریلوے والے تک ٹریول لائٹ یعنی کم وزن والے کو سفر کرنے کی ہدایت کرنے لگتے ہیں۔ یہ تو پھر شاعری ہے۔ چوتھے صفحے کی شان البتہ الگ ہے۔ اب جگر تھام کے بیٹھو مری باری آئی۔ قبلہ ہومیو ڈاکٹر صاحب نے چوتھا صفحہ شروع تو، ’’عزیز ہم وطنوں‘‘ کی سرخی ہی سے کیا ہے اور آغاز میں فرمایا ہے کہ اس ہنگامی دور کا تقاضا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنی جگہ دشمن کے لیے ناقابل تسخیر مورچہ بن جائے لیکن اس کے بعد مطلب کی طرف گریز کرتے ہوئے فرماتے ہیں، ’’ہمیں دشمن سے مقابلے کے لیے اپنی قوم میں زیادہ سے زیادہ صحت مند افراد کی ضرورت ہے۔ آپ کو کیا بیماری ہے اور کب سے ہے؟ آپ اپنی پہلی فرصت میں خاکسار کے الحمد شفاخانہ (شہر کا نام ہم نہیں لکھتے ) سے علاج کرا کر تندرست ہو جائیے۔‘‘
یعنی جو بات محمود غزنوی، غوری اور ابدالی کے حوالوں سے شروع ہوئی تھی، آخر میں ڈاکٹر صاحب قبلہ کی ذات والا صفات پر آکر ختم ہوئی۔ ہمارے لیے یہ اشتہار مصرع طرح کا حکم رکھتا ہے۔ کیونکہ خالی ڈاکٹر صاحب موصوف ہی نہیں، ہماری قوم میں درد دل رکھنے والے اور بھی لوگ موجود ہیں۔ درد دل سے ہماری مراد اس درد سے نہیں جس کی بناپر ڈاکٹر صاحب کے الحمد شفاخانے سے رجوع کرنے کی ضرورت پڑے، بلکہ مراد جذبے سے ہے۔
تو بس لیجیے اب یہ پانی چلا۔
(۱) ’’میرے عزیز ہم وطنو! ہم اتنے سال سے آپ کو للکار للکار کر اپنے کینہ ور ہمسائے کے عزائم سے آگاہ کرتے رہے ہیں اور فلاح کا راستہ دکھاتے رہے ہیں لیکن آپ لہو و لعب میں پڑے رہے، کبھی ادھر توجہ نہ کی۔ اب تو آپ کی آنکھیں کھل گئی ہوں گی۔ اگر نہ کھلی ہوں تو ہمارے ہاں سے سرمہ نور چشم آشوب زمانہ وغیرہ کا شرطیہ علاج ہے۔ مسلسل استعمال سے عینک بھی چھوٹ جاتی ہے، بشرطیکہ لگی ہوئی ہو۔ قیمت چھوٹی شیشی پانچ روپے، بڑی شیشی نو روپے، محصول ڈاک معاف۔
(۲) شریمتی اندرا گاندھی نے پاکستان پر زیادتی کرنے کا جو الزام لگایا ہے، اسے سن کر ہمیں بے اختیار ہنسی آئی۔ شریمتی جی خود آپ کا دامن جارحیت کے دھبوں سے آلودہ اور داغدار ہے۔ پہلے اس کی طرف توجہ دیجیے۔ یہاں برسبیل تذکرہ ہم عرض کردیں کہ جارحیت کے تو خیر نہیں، باقی ہر طرح کے داغ دھبے، پان کے، اچار کے، سیاہی کے، ہماری دلکشا لانڈری بڑا میدان ناظم آباد میں گارنٹی سے دور کیے جاتے ہیں۔ ڈرائی کلینگ کے علاوہ سوتی کپڑوں کی بکفایت دھلائی کابھی معقول انتظام ہے۔ آزمائش شرط ہے۔ ۲۴ گھنٹے میں واپسی، پانچ روپے کے واؤچر پر ڈائری مفت۔
(۳) شری سورن سنگھ جی جنگ میں پہل کرنے کا الزام پاکستان کو دیتے ہیں۔ اس کا سلسلہ تارکین وطن سے ملاتے ہیں۔ یہ محض موشگافی ہے اور اس موشگافی کی حقیقت ہم سے بہتر کسے معلوم ہوگی۔ ہمارا خاندانی ہیرکٹنگ سیلون قیام پاکستان سے پہلے سہارنپور میں شہرت عام اور بقائے دوام حاصل کرچکا تھا۔ یہاں بھی خلیفہ امام الدین مضطر کی سرپرستی میں، جو ایک خوش گو شاعر بھی ہیں اور بے ضرر ختنے کے ماہر بھی، یہ خوش اسلوبی سے اپنے سرپرستوں کی خدمت کر رہا ہے۔ شیو، ہیرکٹنگ اور شیمپو کے دام مناسب لیے جاتے ہیں اور حمام کا بھی انتظام ہے۔
(۴) شکست و فتح تو قسمت سے ہے و لے میر۔ بھارت کو اپنی کامیابی پر اتنا بھی نہ اترانا چاہیے اور یاد رکھنا چاہیے کہ اسے مسلمانوں کے ہاتھوں کھیم کرن میں جوتے پڑچکے ہیں اور چند صدیاں پہلے پانی پت کے میدان میں جوتے پڑچکے ہیں۔ خوبصورت جوتاانسان کی شخصیت کی دلکشی میں اضافہ کرتا ہے اور سستے اور پائیدار جوتوں کے رسیا ہمیشہ ہماری دکان قومی شو اسٹور سے رجوع کرتے ہیں، زنانہ مردانہ، طفلانہ ہر طرح کا مال موجود ہے۔ آزمائش شرط ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.