Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آگہی

MORE BYمونا شہزاد

    ہاں مندھیرا ہی اس جنگل کی آن و بان تھا۔ مندھیرا مافوق الفطرت قوتوں سے مالا مال ایک نایاب پرندہ تھا۔ اس کے پَر اتنے وسیع وعریض تھے کہ ان سے آسمان ڈھک جاتا تھا، بادو باراں اور کڑک اس کے زیر نگرانی تھے۔ اس کے انہی اوصاف کے باعث وہ اپنے جنگل میں سب کو ہر دل عزیز تھا۔ اس کی ذہانت وفراست کا کوئی ثانی نہیں تھا۔

    اس خوبصورت، زندگی سے بھرے جنگل میں مندھیرا ہی مطلق العنان بادشاہ تھا۔ اس جنگل کی خاص بات یہ تھی کہ یہاں پر ہم آہنگی اور افہام و تفہیم کے مابین دوستانہ تھا ۔ اس وجہ سے اس جنگل میں انسان، حیوان، چرند، پرند سب مل جل کر رہ رہے تھے ۔ محبت یہاں کی مکین خاص تھی، ہر طرف سکون، شانتی اور امن و آشتیاز کا بسیرا تھا۔ اس خواب آور، پر سرُور فضا کی وجہ سے جنگل کی خوبصورتی کو چار چاند لگ گئے تھے۔ تتلیوں، پھولوں، پرندوں اور جگنووں کی محفلیں شاد و آباد تھیں۔ درختوں پر بیٹھے پرندوں کی چہکاریں، جنگل میں موسیقی کا فریضہ سرانجام دیتی تھیں۔

    پھر جانے کیا ہوا ۔۔۔ اچانک جنگل کو جانے کس کی نظر لگ گئی؟ اس کی فضاؤں میں بدلاو کا رنگ آنے لگا، پھولوں نے کملانا شروع کردیا ،سورج کی روشنی ماند پڑنے لگی ،خوف و دہشت کا عفریت آزاد ہوکر عریاں ناچنے لگا۔ جنگل کی امن و محبت کی فضا میں شکوک و شبہات کے سانپ رینگنے لگے۔۔۔ جن دلوں میں محبت کی چاندنی تھی اب وہ نفرت کی سیاہی سے کالے ہونے لگے۔ اب انسان تو انسان ،جانور بھی ایک دوسرے کے دشمن ہو گئے تھے۔ جنگل کی پرامن فضا کو گہن سا لگ گیا۔ آخر ایک رات نفرت کی آگ ایسی بھڑکی کہ پورا جنگل خاکستر ہوگیا۔ مندھیرا جنگل کے مکینوں سے اور ان کی نااہلیوں سے سخت خفا تھا، اس نے غیض و غضب سے برفانی ہواوں کو پکارا ! آنِ واحد میں برفانی ہواوں نے علاقے کو آ گھیرا، علاقے میں برف کی چادر تن گئی، سرد ہوا نے نفرت کے عفریت کو ٹھٹھرا دیا ! حیات جامد ہونے لگی، آبشاروں کا پانی جم گیا، ہر طرف برف کی حکمرانی ہوگئی، انسان، چرند، پرند سب مجبورا جنگل سے نقل مکانی کرنے پر مجبُور ہو گئے۔

    اب وہ اکیلا برف زار ہواوں کے سنگ تھا۔ اس نے چاہا کہ اس کا دل برفانی ہواوں سے منجمد ہوجائے اور وہ آگہی کے عذاب سے آزاد ہوجائے!!! مگر یہ نہ ہو پایا ۔۔۔ چاہتے ہوئے بھی اس کے دل سے آگہی کی دیوی نے رخصت نہ لی۔ اس کو اپنی خلقت کی یاد ستانے لگی، اس نے آخرکار اپنی مافوق الفطرت قوتوں کو استعمال کرتے ہوئے شنک ہواوں Chinook Winds کو حاضر ہونے کا حکم دیا۔ شنک کے آتے ہی جنگل سے آناً فاناً برفانی، طوفانی ہوائیں رخصت ہوگئیں، برف پگھل گئی۔ غنچے پھوٹنے لگے، ٹیولپس Tulips کے پھولوں نے سر اٹھایا، جنگل کی ہوا میں پائن کونز Pine Cones اور پھولوں کی خوشبو چاروں طرف پھیل گئی، بہت عرصے بعد انسانوں اور چرند پرند نے دوبارہ اپنی فردوسِ گُم گشتہ کا رخ کیا ۔۔۔ اس نے اطمینان سے ان کو واپس آتے دیکھا اور لمبی اڑان لے کر اپنا رخ نیلگُوں آسمان کی بیکراں وسعتوں کی جانب موڑ دیا!!!

    شاید ابھی بھی اسے انسانیت پر یقین تھا۔ قدرت ابھی بھی بانہیں پھیلائے انسان پر مہربان تھی۔ وہ آسمان کی وسعتوں میں گم ہوتے ہوئے نعرہء عشق لگاتے اور آگے اوپر کی پروان بھر رہا تھا ۔۔۔

    یا ۔۔۔آگہی

    یا ۔۔۔آگہی

    اس نے جان لیا تھا وہ خالق نہیں مخلوق ہے !!!

    سید تحسین گیلانی اور مصنف کے شکریہ کے ساتھ

    related content

    Uncategorized

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے