ادیب کون ہے؟
’’میں اس لئے بھوکا مرتا ہوں کہ ادیب ہوں۔‘‘
’’تم اس لئے بھوکے مرتے ہو کہ ادیب نہیں ہو۔‘‘
’’تم اس لئے ایسی باتیں کہتے ہو کہ بھوکے نہیں مرتے، فوج کا کوئی کپتان بھوکا نہیں مرتا۔ میں ادیب ہو اس لئے بھوکا مرتا ہوں۔‘‘
’’آج کل نہ فوج کا کپتان بھوکا مرتا ہے نہ ادیب! تم ادیب نہیں ہو اس لئے بھوکے مرتے ہو۔‘‘
’’جنگ ادب کی قاتل ہے۔ میں اس لئے بھوکا مرتا ہوں کہ ادیب ہوں آج کل جنگ ہے۔‘‘
’’آج کل جنگ ہے۔ جنگ نے ادیبوں کی بھوک مٹانے کے لئے نوٹ پیدا کر دیئے ہیں۔‘‘
’’تم ادیب نہیں ہو۔‘‘
’’نوٹ!نوٹ ادیب کے لئے نہیں۔ جنگ چلانے کے لئے ہیں، میں اس لئے بھوکا مرتا ہوں کہ ادیب ہوں۔‘‘
’’نوٹ! نوٹ جنگ کے لئے ہیں اور ادیب بھی جنگ کے لئے ہیں۔ تمہارے لئے نہ نوٹ ہیں، نہ تم جنگ کے لئے ہو۔ بھوکے مرتے ہو کیونکہ ادیب نہیں ہو۔‘‘
’’میں ادیب نہیں ہوں تو ادیب و شاعر کون ہے؟‘‘
’’ادیب و شاعر وہ ہے جو نیشنل وار فرنٹ کے جلسوں میں نظمیں پڑھتا ہے جو اخباروں میں جنگ کی حمایت کرتا ہے، جو ریڈیو پر جنگی خبر نامے سناتا ہے۔ جو جنگی فیچر لکھتا ہے۔ جو ڈھائی سو سے دو ہزار روپے تک کے نوٹ ماہانہ تنخواہ میں پاتا ہے اور جو بھوکا نہیں مرتا۔
’’تم ادیب نہیں ہو۔‘‘
سرمایہ دار
مزدور لیڈر نے سرمایہ دار دوست سے کہا
میرے پاس ایک کروڑ روپیہ ہو تو اسے اس بزنس میں لگاؤں ،اس کارخانے کو خرید لوں، فلاں ہل اسٹیشن پر کوٹھی بنواؤں، فلاں فلاں موٹریں رکھوں، دنیا کا سفر۔‘‘
سرمایہ دار دوست نے بات کاٹ کر کہا۔
’’ٹھیک ہے، تم میرے ہم خیال ہو، تم سرمایہ دار ہو۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.