باسک ناگ
وہ بھی اسے ایک روز ویسے ہی مل گیا تھا جیسے شہزادی کو شہزادہ ملا ! سرِ راہے ، مقدر تئیں ، جذباتیت کے کارن ، سنجوگ کے طفیل۔ رستہ ہو ، قسمت ، جذباتیت یا سنجوگ سب کے سب اتفاقات کے ذرائع ہیں اور اتفاق سے تو کوئی بھی کسی کو کہیں بھی مل سکتا ہے ۔ یہ ملنا بھی کیا ملنا ہے کہ نہ خیالات میں ہم آہنگی اور نہ نظریات میں یکسانیت ، اِس کے باوجود وہ نہر کے دو کناروں کی طرح زندگی میں ساتھ ساتھ چلتے ہوئے بھی واضح دوری بر قرار رکھے ہوئے تھے ۔ کئی بار اس کا جی چاہا کہ وہ اسے اپنی۔۔۔ آ !نہیں ! باسک ناگ کی کہانی سنائے مگر کیسے؟ ، وہ تو اس کی عام بول چال سننے کی روادار نہ تھی چہ جائیکہ کہانی۔ مگر آج اس کی اکلوتی بیٹی نے اسے موقع فراہم کر دیا، رات کے کھانے کے بعد وہ اس کی گود میں سر رکھ کر بار بار اس سے کہانی سنانے کی فرمائش کر رہی تھی ۔ پہلے تو اس نے ہاں ہُوں کر کے اس کی بات ٹالنے کی کوشش کی لیکن جب وہ ضد کرنے لگی تو وہ اسے کہانی سنانے پر آمادہ ہوا، کہانی شروع کرنے سے پہلے اس نے اپنی آواز اور انداز ایسا رکھا کہ اس کی آواز بیڈ کی دوسری جانب لیٹی ہوئی سدا کی ناراض تک بھی پہنچ جائے۔
شہزادی سن عروس کو پہنچ چکی تھی اور تھی بھی بہت خوبصورت ! لامبے بال ، ستواں ناک ، نیلی آنکھیں اور گورے گال۔بادشاہ نے لاکھ کوششیں کیں ، دور و نزدیک سے پے بہ پے کئی شہزادوں کو دعوتوں پر مدعو کیا لیکن شہزادی کو کوئی بر پسند نہ آیا۔ ایک روز شہزادی اپنی سہیلیوں کے سنگ اپنے باغ کی سیر کر رہی تھی کہ اسے باغ کے بیچوں بیچ بچھے اپنے شاہی تخت پر کوئی مرد بے فکری سے سویا نظر آیا، پہلے تو اسے عجیب لگا اور اسے غصہ بھی آیا کہ اس کی اجازت کے بغیر کس نے اس کے تخت پر سونے کی جراَت کی لیکن جیسے ہی اس کی آنکھیں اس سے چار ہوئیں اس کا غصہ کافور ہو گیا اور وہ اسے دیکھتی چلی گئی۔ شہزادی نے اسے اپنے ساتھ لیجانا چاہا تو آدمی نے پہلے تو پس و پیش سے کام لیا اور پھر اِس شرط پر اس کے ساتھ جانے کو تیار ہوا کہ وہ کبھی بھی اس سے اس کی اصلیت یعنی یہ نہیں پوچھے گی کہ وہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے۔شہزادی نے وقتی طور اس کی شرط مان لی اور اسے شاہی محل لے آئی، اس کو نہلایا دھلایا ، شاہی لباس زیبِ تن کروایا اور مہمان خانے میں ٹھہرایا۔ اگرچہ شہزادی نے وقتی طور اس کی شرط مان لی تھی لیکن ایک دن اس کے اندر کا تجسس عود کر آیا اور اس نے آدمی کو مجبور کیا کہ وہ اسے آج ضرور بتائے کہ وہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے۔ آدمی نے اس کی بڑی منت کی لیکن شہزادیاں تو شہزادیاں ہوتی ہیں اور ان کی ضد ضرب المثل ہے، وہ اپنی ضد پر قائم رہی۔ تنگ آ کر آدمی نے اسے کہا چلو میں تمہیں بتاتا ہوں کہ میں کون ہوں اور اسے دریا کنارے لے آیا۔
وہ پانی میں جا کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا دیکھو میرے گھٹنوں گھٹنوں پانی آگیا ہے اب بھی باز آجاوٗ لیکن شہزادی اپنی بات پر اڑی رہی۔ اس نے پھر کہا دیکھو میری کمر تک پانی آ گیا ہے اب بھی مان جاوٗ لیکن نہیں! اس نے ایک بار پھر کہا دیکھو میری چھاتی چھاتی پانی آ گیا ہے اب ہی باز آجاوٗ لیکن شہزادی نے ایک نہ سنی۔آخری بار اس نے شہزادی سے التجا کی کہ اب تو پانی اس کے سر تک آ گیا ہے ، اب ہی باز آجاوٗ لیکن شہزادی نہیں مانی۔ اب کی بار اس نے پانی میں ڈبکی لگائی ! اپنا پھن پانی سے ایک بار باہر نکالا اور پھر یہ جا وہ جا۔
سید تحسین گیلانی اور مصنف کے شکریہ کے ساتھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.