بھیگے پیڑوں کی خوشبو
بس ذرا سا پردہ سرکا۔ میرے عین سامنے چودھویں کا چاند میری طرف منہ کیے لیٹا بالکل میری ہی طرح کیمو تھراپی کا عذاب قطرہ قطرہ اپنی رگوں میں اُنڈیل رہا تھا۔ اس کے لٹھّے کی طرح سفید چہرے پر کبھی سرخ و سپید صبحوں کا راج ہوتا ہوگا مگر اب وہاں موت کی پیلاہٹ چہرے کا تقریباً پورا علاقہ فتح کر چکی تھی۔ کچھ دیر پہلے اس کی نرگسی آنکھوں میں شاید کوئی کڑوی زرد سوچ زور سے چُبھی ہوگی کہ اچانک بے رنگ نمکین فاسد مادہ ان میں سے رِسنے لگا تھا!
یہ شہر کے معروف خیراتی کینسر ہسپتال کا کیمو تھراپی وارڈ تھا جہاں تین چار گھنٹے پر محیط کربناک دورانیے میں دونوں محاربین یعنی کینسر کا مُوذی مرض اور انسان دست بدست لڑائی لڑتے ہیں۔میری طرح کیمو تھراپی کرواتے کرواتے اس کے بھی سب بال جھڑ چکے تھے سو اپنے اپنے سر پر سوار موت کو مَیں نے ایک بڑے سے سفید رومال اور اس نے بلیک اینڈ وائٹ سکارف کے اندر بالکل اسی طرح بند کر رکھا تھا جسے دیہات میں بلیوں کے خوف سے لوگ دڑبے کے اندر اپنی مرغیاں بندکررکھتے ہیں!
جتنی دیر سِرکے ہوئے پردے پر نرس کا دھیان نہیں گیا تب تک حیرت انگیز طور پر ہم اجنبی ہونے کے باوجود زمانے، شرم، منطق اور جھجھک سے بالکل بے نیاز آنکھوں میں آنسو بھرے ایک دوسرے کے چہرے پڑھتے رہے، ان پر لکھے مشترکہ دکھوں کی پہیلیاں کہتے رہے اور ٹھیک ٹھیک انہیں بُوجھتے بھی رہے۔ جو سوالات مَیں نمناک آنکھوں سے خاموشی کی زبان میں اس سے پوچھ رہا تھا ان میں مُوسیٰ کی طرح اللہ کی حکمت و مصلحت سمجھ میں نہ آنے کا گِلہ ہمیشہ کی طرح بدرجۂ اُتم موجود تھا!
’’کیا تمہیں بھی سب نے چھوڑ دیا ہے جو اس سیشن میں میری طرح تمہارے سرہانے بھی کوئی نہیں ہے؟۔۔۔ نجانے اس مَیں اللہ کی کیا حکمت ہے!‘‘۔
’’میری طرح تم بھی بمشکل پینتیس کی ہوگی۔۔۔ یہ بھی بھلا دنیا چھوڑنے کی کوئی عمر ہے؟۔۔۔اس عمر میں ہی تو زندگی کی سخت گانٹھیں کھلنا شروع ہوتی ہیں۔۔۔ اب کوئی مجھے سمجھائے بھلا اس میں اللہ کی کیا مصلحت پوشیدہ ہو سکتی ہے!‘‘
’’اگر وہ دنیا اور انسانوں کے گھنے جنگل میں تمہاری اور میری زندگی کا ایک ایک شجر ہرا رہنے دیتا تو اس کا کیا چلا جاتا؟۔ ابھی تو ان دو پیڑوں نے نہ برسات دیکھی تھی اور نہ ہی بارش کے بعد بھیگے پیڑوں سے اٹھنے والی مسحورکن خوشبو کا لطف لیا تھا۔۔۔اب اس میں بھی اس کی کوئی حکمت یا مصلحت ہو سکتی ہے تو کم از کم یہ میری سمجھ سے تو بالاتر ہے!‘‘
سامنے ذرا سا پردہ سِرکا تو کُھلی کھڑکی سے بھیگے پیڑوں کی خوشبو میرے کمرے میں چلی آئی۔ پچھلی رات آسمان سے چھاجوں پانی برسا تھا اور میری کھڑکی کے سامنے ایستادہ پرانے اشجار پوری طرح بھیگ گئے تھے۔
’’گرما گرم چائے!‘‘ زینب نے مسکراتے ہوئے چائے کا کپ تپائی پر رکھتے ہوئے ایک لمبا سانس بھرا۔
’’آہ یہ خوشبو۔۔۔مجھے محبت بھیگے پیڑوں کی خوشبو کی طرح لگتی ہے۔۔۔پھیلے تو انسان کے لباس، بدن، دل اور روح کے ساتھ بہت زور سے لپٹ جاتی ہے!‘‘
یہ کہہ کر زینب میرے قدموں میں بیٹھ گئی اور اپنی آنکھیں موندتے ہوئے اس نے اپنا سر بہت پیار کے ساتھ میری گود میں رکھ دیا۔ میں کتنی ہی دیر اس کے جملے کو دل ہی دل میں سراہتا ہوا اس کے شانوں اور پشت پر پھیلے سیاہ، لمبے، چمکیلے اور ملائم بالوں کو نمناک آنکھوں سے دیکھتا رہا۔ جونہی میں نے اپنا ہاتھ اس کے ٹھنڈے بالوں پر رکھا تو نجانے کیوں برسوں بعد مجھے زینب کا اس روز پہنا اس کا وہ بلیک اینڈ وائٹ سکارف یاد آگیا جب برسوں پہلے شہر کے معروف کینسر ہسپتال کے اس کیمو تھراپی وارڈ میں میں نے اسے پہلی بار دیکھا تھا!!!
سید تحسین گیلانی اور مصنف کے شکریہ کے ساتھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.