بکنی
اس کے ہاتھ میں پکڑا پارسل اور اک معطر لفافہ غالبا لرز کر ہی تو رہ گئے جب وہ اک طویل ڈرائیو کے بعد اک دوست کی مدد سے یو کے کی ایک معروف سٹریٹ پر پہنچی۔
’’نہیں، نہیں یہ ایڈرس غلط ہوگا اس نے دوست کی طرف بےیقینی سے دیکھ کر کہا‘‘
اس بلوریں شوکیس میں بکنی میں ملبوس اک ہوش ربا فتنہ طراز ادائے دلربا دکھاتی، فحش اشاروں سے من گرماتی، عامیانہ اداوں سے راغب کرتی، قامت کے طرہ پیچ و خم کے پیچ در پیچ کھولتی، مدور ڈھلانوں کو ابھارتی داد عیش دیتے پایا۔
’’ہیلو۔۔‘‘ انگلی سے شیشے پر دستک دے کر اس قتالہ ہوش ربا کو مخا طب کیا۔ ’’یہ مسز خان نے آپ کے لیے بھیجا ہے۔۔۔‘‘ سمیتانے اس کے نیم برہنہ بدن سے نگاہیں چراتے ہوئے کہا۔ ’’اوہ۔۔۔‘‘ اس نے بےتابی سے پارسل کھولنا شروع کیا۔
’’یہ مری امی نے مجھے ڈیزائنر جوڑا بھیجا ہے۔۔۔‘‘ اس کی نشیلی آنکھوں میں نمی تیر گئی۔۔۔ دیار غیر میں کوئی ہم زباں مل جائے تو دل کی ایسی ہی حالت ہوتی ہے۔
ابا کے انتقال کے بعد گھر میں امی، پانچ بہنیں، ان کے سکول کالج کےتعلیمی اخراجات، کرایہ کا گھر سب اخراجات۔۔۔ ارے ہاں امسال اک بہن کا نکاح بھی کر دیا ہے۔۔۔ بس سب کو وقت پر رقم مل جاتی ہے۔ پیسوں کے ماتھے پر حلال حرام کچھ نہیں لکھا ہوتا۔۔۔ ضرورتیں پوری ہو جائیں تو کسی کو غرض نہیں پیسہ کہاں سے آیا۔۔۔ بس ا گر مری ماں کو پتہ چل جائے تو شاید وہ مر ہی جائے۔۔۔ اب تو اپنا نام بھی بھول گئی میں۔۔۔ ’’بکنی‘‘ پڑ گیا ہے مرا نام۔۔۔ بک، بک کے۔۔۔ اس کی آواز دور خلاوں سے آ رہی تھی اور مرے ذہن میں دیار غیر کے سراب ابھر اور ڈوب رہے تھے۔۔۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.