Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بوجھ مسیحائی

مونا شہزاد

بوجھ مسیحائی

مونا شہزاد

MORE BYمونا شہزاد

    سردیوں کی رات تھی، ہر طرف ہو کا عالم تھا۔ وہ تیز تیز قدم بڑھا رہا تھا۔ اس کا ملیشیا کا شلوار قمیص اور ایک سویٹر سردی روکنے کے لئے ناکافی تھے۔ اچانک اس کو محسوس ہوا کہ قرب و جوار میں کہیں کوئی بچہ رورہا ہے۔ شاید نزدیک ہی کچھ کتے سرگوشیوں کے انداز میں بھونک اور غرا رہے تھے یا پھر شاید اس کی سماعت دهوکا دے رہی تھی ۔

    مگر لاشعوری طور پر اس نے قدم آواز کی طرف بڑها دیئے۔ کچرا کنڈی کے اوپر کتوں کا ایک گروہ نظر آیا جو کسی گٹھڑی پر منہ مار رہے تھے۔ بے اختیار ہی اس نے ان کتوں کو لکڑی سے ڈرایا ، کتے چوں چاں کرتے بهاگ گئے۔ اس نے گٹھڑی کو اٹھایا اور ایک لمحے کے لئے وہ مبہوت ہوگیا اس گٹھڑی میں ایک گل گوتھنا سا خوبصورت شیرخوار بچہ تھا، جو شاید کچھ گھنٹے پہلے ہی اس ظالم دنیا میں آیا تھا۔ اگر اس کو پہنچنے میں ذرا سی بهی تاخیر ہو جاتی تو یہ نومولود کتوں کی خوراک بن جاتا۔ اس کے بدن میں ایک سنسناہٹ سی پهیل گئی۔ اس نے خاموشی سے اپنا سوئٹر اتارا اور بچے کو اپنے سویٹر میں لپیٹا اور گھر کی جانب چل پڑا۔

    ایک متوسط طبقے کے محلے میں ایک درمیانے سے گهر کے سامنے پہنچ کر اس نے کواڑ کهٹکهٹایا، دروازہ کهولنے والی خاتون نے بچے کو اس کے سویٹر میں لپٹا دیکھ کر کوئی سوال کئے بغیر بچے کو پکڑ لیا ۔وہ دبلا پتلا سا شخص ایک ٹھنڈی سانس بھر کر اندر داخل ہوگیا۔

    آج کے اخبار کی سب سے بڑی شہ سرخی یہی تهی کہ’’ اللہ کا پیارا اللہ کو پیارا ہوگیا ۔ جنازے پر لوگوں کا اژدہام تھا۔‘‘

    عاقب اور اس کے دوستوں کے اعزاز میں آج بہت بڑی دعوت کا اہتمام کیا گیا تها جامعتہ الازهر سے اپنی تعلیم مکمل کرکے پچهلے ہفتے ہی تو وه واپس وطن پہنچے تهے ۔ دعوت کے دوران ملک کے حالات، سیاسی قیادت، میڈیا اور بے حیائی کا فروغ ۔۔۔ غرض مختلف موضوعات پر گفتگو ہورہی تھی کہ اچانک کچھ لوگوں نے اس پیارے کے جنازے کا اور اس میں شامل ہو نے والی کثیر تعداد میں شریک خلقتِ خدا کا ذکر چهیڑدیا۔ ایک باریش شخص نے اپنی داڑھی پر ہاتھ پهیرتے ہوئے فرمایا :

    ×××× کے پالنے والے کی بخشش کیسے ہوگی؟ جہنم کا ایندھن بن گیا ہوگا۔

    بہت سے حاضرین محفل نے اس بات پر وجد میں سر دهنا۔ یہ سنتے ہی عاقب اور اس کے قریبی ساتھی بے اختیار کهڑے هوگئے اور قدم دروازے کی طرف بڑها دیئے۔ رانا صاحب نے ان کو آواز دے کر روکا اور کہا:

    عاقب صاحب! اب تو محفل میں ایک رنگ آیا ہے اور کام کی گفتگو شروع ہوئی ہے اور آپ قبلہ منہ پھیر کر اپنے ساتھیوں کی معیت میں چل دئیے۔

    رانا صاحب نے ہنس کر عاقب سے کہا:

    بھئی اس معاملے پر آپ بھی کچھ روشنی ڈالئے ۔

    عاقب نے حاضرین محفل کو دیکھا اور بولا:

    ہم سب کے اٹھنے کی وجہ یہ ہے کہ جس نیک روح کو آپ جہنمی قرار دے رہے ہیں انھی کا با سعادت نام ہم سب دوستوں کی ولدیت میں درج ہے۔۔ہماری جس دینی تعلیم کےحصول کی مبارکباد کے لیے آپ نے اس محفل کا انعقاد کیا ہے۔ اس تعلیم کا حصول انھی صاحب کے وسائل کے باعث ممکن ہوا ہے ،ان کی وجہ سے آج ہم اس مقام تک پہنچے ہیں۔ میرے اور میرے جیسے ہزاروں بچوں کی ولدیت کے خانے میں اُنہی صاحب کا نام درج ہے

    حاضرین محفل پر سکوت طاری ہو گیا۔ عاقب نے دروازے سے نکلتے ہوئے مڑ کر کہا :

    آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ میں ہی وہ پہلا بچہ ہوں جسے ان صاحب نے کچرہ کنڈی سے کتوں سے بچایا تھا اور میرے ملنے کے بعد ہی بےشمار مزید بچے انہوں نے گود لئے اور بے شمار نامعلوم بچوں کو شناخت دی ۔ایک معصوم کو رات کی تاریکی میں کچرے کے ڈھیر پر پهینکنا بہت آسان اور دن کی روشنی میں اس کو گلے لگانا اور اپنا نام دینا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ یہ معصوم بچے گناہگار ہیں یا وہ معاشرہ جس میں بسنے والے عزت کے نام نہاد ٹھیکیدار جو ان بچوں کی پیدائش کے ذمہ دار ہیں؟ میرا آپ سب سے معذرت کے ساتھ ایک سوال ہے:

    ان معصوم روحوں کے لئے تو آپ کی زبانوں پر حرامی کا لفظ ہے مگر پهینکنے والوں کے لئے؟ شاید ہم سب شیشے کے گھروں میں رہتے ہیں مگر ایک دوسرے پر سنگ باری سے گریز نہیں کرتے۔

    کون گناہ گار ہے اور کون بےگناہ اس کا فیصلہ قادر مطلق پر ہی چهوڑ دینا بہتر ہے۔ میں اتنا جانتا ہوں کہ ان حضرت کی بخشش کے طلبگار بےشمار ہاتھ ہیں۔ ان ہاتھوں میں ہمارے ہاتھ بھی شامل ہیں ۔آپ سب کو آزادی ہے کہ ہمیں جس نام سے مرضی پکاریں

    حاضرین محفل ندامت سے بغلیں جھانک رہے تھے۔شاید جہنمی مر کر بھی ان کی جنت بھرشٹ کرگیا تھا۔

    سید تحسین گیلانی اور مصنف کے شکریہ کے ساتھ

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے