Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دلت کی اولاد

ریاض توحیدی

دلت کی اولاد

ریاض توحیدی

MORE BYریاض توحیدی

    کالج کی چھٹیاں چل رہی تھیں۔وہ لان میں بیٹھ کر ناول پڑھ رہا تھا کیونکہ ایک دلت لڑکی گھر کی صفائی کررہی تھی۔گھر کے سبھی افراد دو چار دن کے لئے کسی رشتہ دار کی شادی میں چلے گئے تھے۔دلت لڑکی

    ہر روز گھر کی صفائی کرکے جلدہی وہاں سے چلی جاتی تھی۔وہ بدستور ناول پڑھ رہا تھا شاید کوئی رومانی ناول تھاکیونکہ اس کی نظریں بیچ بیچ میں گھرکے دروازے کی طرف اٹھتی رہتی تھیں۔لڑکی صفائی کرکے جب لان سے گزرتے ہوئے بولی کہ چھوٹے صاحب صفائی ہوگئی‘آپ اپنے کمرے میں چلے جائیں۔پتا نہی وہ ناول کے کس سین میں کھویا ہوا تھا کہ لڑکی کو اپنی بات دوبارہ دہراناپڑی۔آواز سنتے ہی اس نے لڑکی کی جانب دیکھا۔لڑکی اب مین گیٹ کی طرف جارہی تھی۔چند لمحے سوچ کر اس نے لڑکی کو آواز دے کر اپنے پاس بلایا۔ لڑکی واپس آکر سر نیچے کئے سامنے کھڑی ہوگئی۔وہ تھوڑی دیر تک لڑکی کو بغور دیکھتا رہا۔ناول کا رومانی کردار ذہن میں دوبارہ گھومنے لگا۔

    ’’سنا ہے کہ آپ کی شادی ہونے والی ہے۔لڑکا کیا کرتا ہے اور شادی کب ہورہی ہے۔‘‘وہ لڑکی کےخوبصورت چہرے کو تکتے ہوئے پوچھ بیٹھا۔

    لڑکی پہلے بات کرنے سے ہچکچائی لیکن جلد ہی بول پڑی کہ بس ایک دو مہینے رہ گئے ہیں چھوٹے صاحب۔

    ’’اچھا ٹھیک ہے۔‘‘وہ سر ہلاتے ہوئے بول پڑا۔’’شادی کے انتظامات پورے ہوچکے یا ابھی نہیں۔‘‘ ’’آہستہ آہستہ ہوجائیں گے۔‘‘

    ’’پیسوں کی ضرورت مت ہیں۔‘‘وہ کرسی سے اٹھتے ہوئے بول پڑا۔

    ’’ضرورت تو ہے۔‘‘

    ’’ضرورت پوری ہوجائیگی۔‘‘وہ گھر کی جانب قدم اٹھاتے ہوئے بول پڑا۔

    تھوری دیر کے بعد وہ بھی گھر کے اندر چلی گئی۔

    ’’آپ تو اونچی ذات کے ہیں۔وہ پیسے دیکھ کر بول پڑی؛

    ’’یہ جسم کی ضرورت ہوتی ہے ۔‘‘وہ مسکراتے ہوئے بول پڑا’’اس میں اونچ نیچ کا مألہ کہاں ہوتا

    ہے۔

    کئی دن تک صحرا سیراب ہوتا رہا۔

    شادی بھی ہوگئی اور چند مہینوں کے بعد ایک بچے کا بھی جنم ہوا۔وہ لگا تاراس گھر میں کام کرتی رہی۔کئی برسوں کے بعد صحن میں کھڑی گاڑی کا شیشہ گیند سے ٹوٹ گیا۔آواز سنتے ہی وہ گھر سے باہرآگیا۔ باہر آتے ہی اس کی نظر پانچ چھ سال کے بچے پر پڑی۔وہ اس کی صورت دیکھ کر تھوڑا ساحیران ہواکیونکہ اس کی آنکھیں اسے خود کی آنکھیں جیسی محسوس ہورہی تھیں۔اتنے میں دلت عورت بھی دوڑتے دوڑتے صحن میں چلی آئی۔گاڑی کا ٹوٹا ہوا شیشہ دیکھ کر وہ گھبرا سی گئی اوربڑی عاجزی سے معافی مانگتے ہوئے کہنے لگی۔

    ’’چھوٹے صاحب یہ میرابڑا بیٹا ہے‘ اسے معاف کردیجئے۔‘‘

    اس نے دوبارہ بچے کی آنکھوں کا جائزہ لیالیکن غصہ پر قابو پانے کے باوجود اس کے ہونٹوں سے نکل پڑا۔

    ’’دلت کی اولاد ‘‘

    سید تحسین گیلانی اور مصنف کے شکریہ کے ساتھ

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے