Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دھول

MORE BYشاہد جمیل احمد

    سورج کو چوبیسویں شفق رنگ جھوُلنے میں بیٹھ کر گئے کافی وقت ہو چکا تھا۔ گٹکے والی ٹرالی بھی چھنچھناتی اوران کے نیوکلیس دھڑکاتی گزر چکی۔ اب صرف آخری لاری کی بھاں بھاں اور پاں پاں کا انتظار تھا۔آسماں پرمشرق کی جانب چاند کی نیلگوں کاش نکل آئی۔ ماحول کا مصنوعی غوغا کم ہوا تو قصبے کے اڈے سے مُڑتی پہاڑی ببولوں میں گھری چھوٹی سڑک کے اکناف دھُول کے ذروں کو باہم گفتگُو کا موقع ملا۔صبح سے ببُول کے کانٹے کی نوک پر بیٹھے بیٹھے چانُو کی گدی میں مرچیں لگی تھیں اور وہ اوئی اوئی پکارتا تھا۔ دن میں جب ریڑھی کا ٹائر دھپ کر کے سڑک کے قریبی ٹوئے میں گرا تو چمپُواڑ کر اندھے بھکاری کی آنکھ کے لال لوتھڑے میں گِر کر نمک میں نہا گیا، تب بوڑھے بھکاری نے ملگجے کوٹ کے بازُو سے اسے اتنے زور سے رگڑا کہ وہ پرالی کے تنکوں پر آ رہا اور پھر رات تک اس کی نمکیں چَس ختم نہ ہوئی۔ چازُو تین دن سے کھجور کے ادھ کٹے تنے کے بالوں میں دبکا ہوا تھا، گاڑیوں نے بہتیرے فراٹے بھرے مگرمخالف رخ ہونے کی وجہ سے وہ گول تنکوں میں مزید دبتا چلا گیا۔

    چوفی کو آج رات ہی آخری بس نے زمیں سے اڑا کر نکاسِ آب کے لئے بنی پُختہ پُلی کی ٹِیپ سے بنی جھری میں ٹِکایا، اب اس کا مُکھ چاند کی دودھیا روشنی میں چم چم چمکتا تھا، چمکتا بھی کیوں نہ کہ وہ توتھا ہی بہت خوبصورت، ریت کے ہشت پہلُو شیشے کا ٹُکڑا۔ ایسے روشن موقع پر اسے ریگ کا گیت یاد آیا۔۔۔

    آئینہ مجھ سے ہے، میں آئینے سے ہُوں!

    میرا بدن لا ریب شفاف ہے!

    جو ٹوٹنے پر مزید آئنوں میں منقسم ہوتا ہے

    لیکن منہدم اور پراگندہ نہیں۔

    میں صدیوں سے اپنے آپ میں کائنات کو دیکھتا ہوں!

    کائنات مجھ میں صدیوں سے اپنا آپ دیکھتی ہے!

    میں کبھی ختم نہیں ہوتا!

    فقط ٹُوٹتا اور جُڑتا ہوں۔

    میں آئینہ ہوں، میں ریگ ہوں

    میں عدیم ہوں، میں ریگ ہوں۔

    گرد کے سارے ذروں نے جہاں جہاں تک چوفی کی آواز پہنچ سکتی تھی ریگ کا گیت رشک سے سنا۔ پھر چوفی نے چاند کی روشنی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دن کے وقت سڑک کنارے اپنے اندر منعکس اور منعطف نقوش کے البم پلٹنا شروع کئے۔ ایک البم میں ایک نوجوان بھکارن بجلی کے کھمبے کے پاس بچھی گُدڑی پر سردی کے موسم میں راہگیروں کو لبھانے کے لئے اپنے نو مولود بچے کے تیڑ کو ننگا کرکے تہذیب کے منہ پر تھوکتی تھی۔ ایک اور البم میں چوہدری کے گماشتے تانگے کی فرنٹ سیٹ خالی نہ رکھنے پر غریب کوچوان کو پِیٹ رہے تھے۔ تیسرے البم میں جُڑے ہوئے بالوں والی بچی اپنے گورے گورے ہاتھوں سے کالا کالا کُوڑا کرکٹ پھرولتی نظر آئی۔ پھر اچانک، چاشت کے وقت پتہ نہیں کیا ہوا، ایکا ایکی چوفی کو یوں محسوس ہوا جیسے اس کے سر میں کسی نے گھڑوں ہلکا گرم پانی انڈیل دیا ہو، کھائی میں گرتے ہوئے وہ اپنے شیشے میں صرف اتنا دیکھ سکا کہ ایک بھورا کُتا پتہر پلی کی اوٹ لے کر چلتا بنا!

    سید تحسین گیلانی اور مصنف کے شکریہ کے ساتھ

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے