دھوپ کا دھواں
نہ جانے وہ کون تھی ، لڑکی تھی یا اپنے تابوت میں لوٹ جانے والی مر دہ عورت تھی ۔ دن بھر کے کام کاج ، دفتر، رجسٹر، کاپیاں ، پنسلیں ، جھڑکیاں اس کے دنوں میں بھری پڑی تھیں۔ وہ اپنی عینک، چپل ، نئے پرانے کپڑے ، آنکھوں کے نیچے اور ماتھے پہ مسلسل نمایاں ہونے والی جھریوں کو اٹھائے بس سٹاپ تک آتی تو یہاں ٹریکک کا شور اور دھوپ کا طوفان اسے اپنی لپیٹ میں لے لیتے ۔ ایسے میں وہ درختوں سے گرنے والے پتوں اور ان کے مرجھائے پھولوں کی جانب دیکھتی ۔ دوسری جانب دور کہیں پیاسی فاختائیں ، ناراض ہدہدیں ، روتے کوّے، اور چلاتی بلبلیں اسے بلاتیں۔ وہ دن بھر ان کا پیچھا کرتی رہتی۔
مگر جب شام ڈھلتی تو یہ سارے عجیب و غریب سیاہی مائل حیےر بنائے اس کے پیچھے سائے کی طرح چلنے لگتے۔ وہ اپنے تابوت کا تالہ کھولنے کے لیے چابی گھماتے سمے جب اپنے پیچھے آتی پورے دن کا نوحہ پڑھتی بلبلوں کو سنتی تو پیچھے مڑ کر دیکھتی تو یہ سبھی ہدہدیں ، کوّے ، فاختائیں ، مرجھائے پھول ، اس کی جھریاں ، اس کی عینک ، ٹریفک کا شور اور اس کی چپلیں ایک دھویں کا بھیس بدل کر اس کی کمر کے پیچھے یوں خاموشی سے چھپ جاتے جیسے شرارتی بچے کسی گھر کے گیٹ کی بیل بجا کر اسی گیٹ کے کونے میں کہیں دم سادھے چھپ جاتے ہیں ۔۔۔
وہ تالہ کھول کر اس تنگ و تاریک تابوت میں روتی ہوئی لیٹ جاتی ۔ لیٹتے ہوئے کبھی اس کے کندھے پہ تابوت کا کونا لگتا اور کبھی اس کے ٹخنے کا پچھلا حصہ جلدی میں لیٹنے کے باعث چِھل جاتا۔مگر وہ ان زخموں پر نہیں روتی تھی، وہ اس تابوت کا ڈھکن اپنے اوپر لیتی ، اوڑھتی اور روتی تھی کہ ایک تو اب ہوا کا گزر ممکن نہیں تھا اور دوسرا دن بھر کے شور کا دھواں اس کے تابوت کے باہر کھڑا رو رہا تھا۔
سید تحسین گیلانی اور مصنف کے شکریہ کے ساتھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.