فیصلہ
وہ اپنے جسم سے کچھ عجیب سی بو محسوس کرنے لگا تھا۔وہ خوشبو ہے یا بد بو یہ فیصلہ اس سے نہیں ہورہا تھا۔
اس کشمکش سے اکتا کر اس نے بو پر قابو پانے کی کوشش کی لیکن جب بھی وہ کوئی پرفیوم ،کریم یا پاؤڈرلگاتا، تو اس کا بدن چھوتے ہی وہ چیزیں بے اثر ہو جاتیں،بس وہی بو اس کی شناخت بنتی جا رہی تھی۔
پہلے تو لوگوں کے قریب بیٹھ کر اس نے جاننے کی کوشش کی کہ وہ اس بو کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔لوگ منافق ہوتے ہیں اسی لیے تو ہمیں پیارے لگتے ہیں۔ سونگھ سانگھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔
ان کم بختوں کے نتھنے تو ان سے بھی بڑے منافق تھے کہ ذرا سن گن نہیں دیتے تھے۔
اس کی شناخت کا مسئلہ بڑھتا جارہا تھا۔اس نے سوچا اب خود ہی لوگوں سے پتا کیا جائے۔سو مجبوراً اسے اعلان کرنا پڑا کہ، ’’مجھے سونگھا جائے۔‘‘ وہ حقیقت تک رسائی چاہتا تھا۔
تو پھر کیا تھا پہلے تو،خوب ٹھٹھہ مذاق ہوا۔لوگوں نے طعنے دیے، فتوے لگائےلیکن حقیقت تک رسائی کے لیے ضروری تھا کہ وہ سونگھا جائے۔
اسے سب برا بھلا کہہ رہے تھےلیکن اندر سے ہر مرد و زن چاہتا تھا کہ چلو ذرا سا سونگھ بھی لیا جائے تو کیا فرق پڑتا ہے۔
پھرکچھ نڈر اور لبرل ایسے بھی تھے جنھوں نے،دوسروں کو چڑانے کے لیے اسے بیچ بازار سونگھنا شروع کر دیا۔ ان کی دیکھا دیکھی کچھ شرفا اسے بند کمرے میں آکر سونگھ جاتے تھے۔پھر مصروفیت اتنی بڑھی کہ لوگ اس سے وقت لینے لگے۔ بعض خواتین تو رات کا وہ پہر مانگتی تھیں جس میں گھر سے نکلنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔مگر آتی تھیں،سونگھتی تھیں،چلی جاتی تھیں،کسی کو پتا بھی نہ چلتا تھا۔
اس کی شہرت جو دیکھی تو اور بھی کئی اہل نظر بینر لگا کر بیٹھ گئے۔چند دنوں میں شہر ماہرو مشاق سونگھنے والوں اور سونگھانے والوں سے بھر گیا۔
وہ بے چارہ آج بھی وہیں کا وہیں کھڑا ہے۔اسے ابھی تک یہ پتا نہیں چل سکا کہ اس سے واقعی خوشبو آتی بھی ہے کہ نہیں؟
سید تحسین گیلانی اور مصنف کے شکریہ کے ساتھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.