حد
“چلو تمھارے ساتھ چلتا ہوں!”
“کہاں تک چلو گے؟”
“جہاں تک تم چاہو!”
اگر میں کہوں کہ زمان و مکان کی آخری حد تک؟تو چلو گے ساتھ؟!”
“اگر تم کہو گی کہ مکاں سے لا مکاں تک ,,,,تو بھی چلوں گا!”
میں اس کے چہرے کی طرف مڑ کر اس کی آنکھوں کے رنگ کھوجنے لگی۔ نجانے اس کے لفظوں میں اور آنکھوں کے رنگ میں کوئی مطابقت بھی ہے کہ نہیں۔ کہیں کچھ پھیکا کسی مصنوعی مصالحے کا تڑکہ تو نہیں؟مگر وہاں سب کچھ یکساں تھا ایک دوسرے سے ملتا،ایک رنگ چمکتا،اس کے لبوں سے نظروں تک سب معانی سر اٹھائے کھڑے میری ٹکٹکی کا سامنا کرتے تھے۔میرے پیروں تلے نرم ملائم سبز گھاس مزید ملائم سی ہونے لگی،آس پاس خموش کھڑے پہاڑ شاید گنگنانے سے لگے اور وادی کے اوپر منڈلاتی بدلیاں جیسے پنجوں پر بیلے کا رقص کرنے لگیں۔ایک ایمان سا اس کے لہجے سے جھانکتا تھا اور میرا دنیا سے ستایا ہوا دل اس کے الفاظ پر لبیک کہنے سے ڈرتا تھا۔ اندیشوں کے جن یقین کامل نہ ہونے دیتے تھے۔پھر بھی میں نے اس پر یقین کیا۔
“بہت سخت منزلیں ہیں! تھک تو نہیں جاؤ گے ناں!”
میں نے چلتے چلتے پیر سے ایک پتے کو مسلا اور اس سے پوچھا تھا۔
“تھک جاؤں گامگر پھر بھی محبت بنکر کر ہمیشہ تمھارےساتھ رہوں گا!‘‘
یہ ایمان تھا ،گماں تھا کہ گیان تھا، مگر زمان و مکاں سے جب میں لامکان ہوی تو وہ میرے ساتھ نہیں تھا مگر وہ ایک ایماں کا، خوبصورت گماں کا ہاتھ، پتھروں سے ستاروں تک اور پھر بہاروں تک میرا ہاتھ تھامے ہر منزل پر میرے ہمراہ رہا تھا۔
سید تحسین گیلانی اور مصنف کے شکریہ کے ساتھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.