حمام میں سب ننگے
وہ اپنے باپ کے قدم بہ قدم چل رہا تھا۔ اور باپ خاندانی روایات کے مطابق موسیقی و حسن کا دلدادہ تھا۔ کہا جا سکتا ہے کہ باپ اور بیٹا دونوں خاندانی روایات پر عمل کر رہے تھے۔ بیٹا جوان ہو گیا تھا لیکن باپ کو اس کی جانب سے کوئی غلط فہمی نہ تھی۔ باپ کہتا تھا کہ ہمارا زمانہ کیف و سرور اور شراب و شباب کا زمانہ تھا۔ آج کل کے لوگ یہ باتیں کیا جانیں انہیں بی، اے، ایم ،اے، لیڈری اور سنیما سے فرصت کہاں۔ بیٹا باپ کے ذوق کی داد دیتا اور رفتہ رفتہ باپ کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتا۔ آخر کار اسے بھی یہ سعادت حاصل ہوگئی۔ بازارِ حسن میں وہ بھی ایک جوہری کی حیثیت حاصل کرنے کی بازی کھیل رہا تھا۔
شہر میں ایک حسن صورت و سیرت کی ملکہ، ملکہ جان نازل ہوئی۔ جگہ جگہ جلسے ہوئے۔ کہیں کہیں باپ بیٹے مہمانوں کی حیثیت سے ساتھ ساتھ گئے۔ رفتہ رفتہ شہرت نے پرستارانِ حسن و خوش گلوئی کو کوٹھے پر کھینچ بلایا۔ پینتالیس سالہ باپ اور بیس سالہ بیٹا دونوں کو اس بارگاہ میں قربت حاصل تھی۔ دونوں اس فنکار ساحرہ کے متوالے تھے۔
ہونے والی بات ٹل نہیں سکتی۔ باپ بیٹے کی مڈبھیڑ ہو گئی۔
باپ نے خفگی سے پوچھا ’’تم!؟‘‘
بیٹے نے حیرت اور پشیمانی سے پوچھا ۔’’آپ!؟‘‘
باپ نے قابو پالیا۔ ’’ہاں میں اور تم دونوں مگر۔‘‘
بیٹے نے بات کاٹ کر کہا۔
’’مگر! میں۔‘‘
’’تم کیا۔۔۔کیا ہوا تمہیں؟‘‘
میں ملکہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’تم! ملکہ سے شادی؟‘‘
’’جی ہاں!‘‘
’’مگر وہ تم سے شادی نہ کرے گی وہ مجھ سے نکاح۔۔۔‘‘
ملکہ نے بات کاٹ کر کہا۔ ’’میں کسی سے نکاح شادی نہیں کروں گی۔‘‘
تماش بینوں نے قہقہہ لگایا۔
باپ نے بھی قہقہہ لگایا۔ بیٹا بھی متبسم ہوا۔ سب بیٹھ کر پھر گانا سننے لگے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.