جھنگ روڈ
وہ کافی دیر سےجھنگ روڈ کے ایک لاری اڈے پر بیٹھی تھی۔ دور حدنظر تک لیٹی سُرمئی سڑک پر نظریں جمائے ہوئے۔۔۔ لاری اڈے پر کافی رونق تھی۔ گرم چائے، نان پکوڑے، آلو ٹکی، سموسے، رنگ برنگی مٹھائیاں، کھانے پینے کا بازار گرم تھا۔
مہکتی خوشبوئیں ہوا میں رچی بسی تھیں۔ ٹھیلے، سٹال جگہ جگہ لگےتھے۔ مسافروں کا آنا جانا لگا تھا۔ لڑکے کنو، مالٹے، نان کباب، برفی، پیڑے کے بڑے بڑے تھال کندھے پر رکھے ہر آنے والی بس کے ساتھ بھاگ کھڑے ہوتے اور پھرتی سےہر کھڑکی کے آگے آوازیں لگا کر مسافروں کو اپنی طرف متوجہ کرتے۔ کچھ مسافر سامان خوردونوش خرید لیتے باقی یونہی نظروں کو سیر کرتے ہوئے رُخ موڑ لیتے۔ بس چلنے کے بعد وہ دوبارہ اپنے سٹال، دکانوں کی جانب مڑ جاتے۔ وہ ایک سٹول پر بیٹھی شارٹ مووی کی طرح یہ ہنگامہ دیکھتی اور پھر دوسری طرف سڑک کی اورنظریں موڑ لیتی۔
قریب کا منظر دور ہوتا ہوا دھندلاجاتا۔ پھردھند کی دیوار کے پار جب کوئی بس نمودار ہوتی تو وہ چونک کر سیدھی ہو جاتی۔ بس کے ماتھے پہ جھومر کی طرح ٹکی اس کے نام و نموکی شیلڈ پڑھنے کی کوشش کرتی۔ مطلوبہ بس نہ پا کر بتول پھر ڈھیلی پڑ جاتی اوربڑبڑاتی،
’’نہ جانے کب آئے گی میری بس۔۔اور کتنا انتظار کرنا پڑے گا۔۔۔‘‘
دو چار بسیں مزید گزرنے کے بعد اس کو منزل مقصود تک پہنچانے والی بس نمودار ہوئی۔ جس کے ماتھے پہ واضح طور پر۔۔۔ پینسرا۔۔۔ لکھا ہوا تھا۔ وہ جوش سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ انتظار ختم ہو چکا تھا۔
بس آہستہ آہستہ چلتی لاری اڈے پر آ کر رک گئی۔ ڈرائیور سمیت کچھ مسافر نیچے اترے اور چائے کے ہوٹل کی طرف چل دئیے۔۔۔ وہ اپنا چھوٹا سا بیگ سنبھالتی بس کے اندر چلی آئی۔ پچھلی سیٹوں میں اسے ایک خالی سیٹ مل گئی۔ سیٹ پر بیٹھ کر اس نے ایک اطمینان بھری سانس لی۔
دس منٹ بعد مسافر دوبارہ بس میں آ بیٹھے اور بس چلنے لگی۔
وہ کھڑکی سے باہردیکھنے لگی۔۔ ہرے بھرے سرسبز کھیت۔۔۔
کھِلا کھِلا دن۔۔ نکھری نکھری فضا، موسم معتدل تھا۔ دیدہ زیب رنگوں بھری بس اندر باہر سے چمچماتی ہوئی لگ رہی تھی نئی نئی سی، جو بات سب سے متاثر کن لگی وہ مسافر تھے۔ کلف لگے صاف ستھرے لباس۔۔ سنورے بال۔۔۔ معطر خوشبوئیں ہر سو پھیلی تھیں۔ عورتیں اور بچے بھی نظر آ رہے تھے۔ ایک خاموشی کا عالم تھا جس سے سب گزر رہے تھے۔
ایک گھنٹہ گزر گیا۔
جب پیچھے بیٹھے ایک مسافر نے ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے نوجوان کو مخاطب کیا، ’’او بابر، اب ہم قریب آ گئے ہیں۔ سپیکر کھول دو اور کوئی اچھا سا گون (گانا) لگا دو۔۔۔‘‘
دو تین منٹ کے اندر گانے کی آواز سپیکروں کے ذریعے دور دور تک کھیت کھلیانوں اور ماحول میں پھیل گئی،
لے جائیں گے لے جائیں گے
دل والےدلہنیا لے جائیں گے
لے جائیں گے لے جائیں گے
تیرے باغ کی بُلبل لے جائیں گے
تبھی بتول بی بی پہ آشکارہ ہوا کہ وہ کسی بارات والی بس میں بیٹھ گئی تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.