خاندانی کک
پھوپھو ناظمہ کے کھانوں کی پورے خاندان میں دھوم مچی تھی۔
وہ کھانا پکانے میں بہت ماہر تھیں۔ حالانکہ انھوں نے کوئی کورس نہیں کیا تھا۔ کھانا پکانے کی کبھی کلاسز نہ لی تھیں۔ بس اوپر والے نے ان کے خمیر میں کچھ انوکھا اضافہ کر دیا تھاجو ان کے ہاتھ میں وہ ذائقہ چلا آیا کہ دال کی ہنڈیا میں کفگیر بھی چلا دیتیں تو واللہ، کمال ہو گیا۔ سب انگلیاں چاٹتے واہ واہ کرتےدال کھاتے۔ لوگ ان کا مہمان بننے اور ان کے ہاتھ کے بنے کھانوں کے لیے موقع ڈھونڈتے رہتے۔
خاندان میں کوئی بھی منگنی،شادی، عقیقہ، رسم، سالگرہ ہوتی۔ بریانی، قورمے، زردے کی دیگ پکتی تو پکانے والے کک کی نگرانی کرنے، انتظامات سنبھالنے کے لیے بھی پھوپھو ناظمہ سے درخواست کی جاتی۔ وہ بھی بخوشی یہ ذمہ داری لے کر کک کے سر پہ سوار رہتیں ،اس کے کاموں میں مین میخ نکال کر اسے زچ کیے رکھتیں (ان کا بس نہ چلتا کہ وہ دیگ خود پکا لیتیں) ان کے بتائے ٹوٹکوں پر بادل نخواستہ عمل کرنے کے بعد کک کو بھی لگتا کہ کھانے کی پوری تعریف پھوپھوسمیٹ کر لے گئی ہیں۔
خاندان کے اندر بھی ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ لوگ پھوپھوکا مقابلہ ان کی اپنی بہن سے کرتے تو بہن صاحبہ اچھے خاصے کھانے پکاتے ہوئے بھی مات کھا جاتیں۔ پھوپھو کے گھر مہمانداری بھی بہت تھی۔ وہ بذات خود بہت ملنسار خاتون تھیں۔ کتنے بھی مہمان آجائیں وہ سب انتظام سہولت سے سنبھال لیتیں۔ نہاری، پائے، دیگی قورمے، بریانی، مٹن، شب دیگ،حلیم، چکن کے علاوہ وہ پنجیری،مٹھائی، کیک، آئس کریم تک آرام سے بنا لیتیں اور داد وصول کرتیں۔۔۔ روایتی، دیس دیس کے کھانے، وہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ نیا کرتی رہتیں۔ پَر انھیں حسرت ہی رہی کہ کبھی چوہدری صاحب بھی ان کے کھانوں کی تعریف کر دیا کریں۔ لیکن شوہر کی طرف سے یہ کلمات نصیب نہ ہوتے۔ البتہ مہمانوں کی تعریف چوہدری صاحب کا قد ضرور بڑھا دیتی۔
پورا خاندان منتظر تھا کہ پھوپھو کے بعد ان کی ککنگ والی گدی کون سنبھالے گا۔۔۔؟
ان کے ہاتھ کا ذائقہ ورثہ کی طرح کس کے ہاتھ منتقل ہو گا۔۔۔؟
اور۔۔۔ پورا خاندان حیران رہ گیاجب پھوپھو ناظمہ نے اپنا باورچی خانہ چھوڑا تو ان کے ہنر کی وارث ان کی بیٹی تھی نہ بہوئیں۔۔۔ بلکہ ایک معمولی سی لڑکی تھی جسے ہر وقت کچن میں وہ اپنے ساتھ بطور مددگار رکھتی تھیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.