خود کشی
رشید صبح اپنے کمرے میں مردہ پایا گیا۔ زہر کی ایک شیشی بستر کے بازو میں پڑی تھی۔
کل ہی اس کا دیوالہ نکل گیا تھا اور السی اورتل کامارکیٹ اس کی امید کے بالکل خلاف اتنا گر گیا تھا جس سے اسے خود اپنی زندگی کی ساری اور اپنے باپ کی کمائی ہوئی دولت تک سے ہاتھ دھو لینا پڑا تھا۔
تجارتی کاروبار کے سٹے کیا کچھ نہیں کر سکتے۔ کچھ کاروباریوں کو اس سے ہمدردی تھی اور وہ اسے مٹتا نہ دیکھنا چاہتے تھے۔ اس نے اپنے دوستوں سے کہا تھا کہ اب بے زر و بے پرزندہ رہنا بیکار ہے۔
سیٹھ بھنور مل رشید کی تجہیز وتکفین کے بعد مرحوم کی بیوہ سے جو ابھی چند دن پہلے بیاہ کر آئی تھی ہمدردی کرتے آئے۔ انہوں نے بتایا کہ رشید کی خود کشی شدید احساسِ غم کا نتیجہ تھی۔ بیوہ، نئی دلہن کیا جواب دیتی۔ بظاہر تو وہ غم سے نڈھال ہو رہی تھی۔
تیسرے دن جب مہمان رخصت ہو گئے اور گھر میں صرف رشید کی بیوہ اور بوڑھی ماں باقی رہ گئیں۔ تو گھرپر ایک ہوکا عالم طاری ہو گیا۔ رشید کی ماں ایک زندہ لاش دکھائی دیتی تھی جس پر جوانمرگ اکلوتے بیٹے کی یاد میں غم کے دورے پڑ رہے تھے اور ایک گوشہ میں پڑی سسک رہی تھی۔
نور جہاں پر بھی فضا کی اداسی نے اداسی طاری کر رکھی تھی لیکن بیوگی کے سفید دودھ لباس نے اس کے حسن پرکار کو سادگی کے زیور سے آراستہ کر کے اور ابھار دیا تھا۔ ہلکے قدموں کے ساتھ گھر میں وہ آج چلتی پھرتی اس دنیا کی نہیں بلکہ عالم بالا کی ایک مخلوق دکھائی دے رہی تھی۔
شام کی تاریکی کے ساتھ رشید کی ماں کا دل تاریکی میں ڈوبا جا رہا تھا اور نور جہاں گھڑی کی جانب بار بار نظر ڈال رہی تھی۔ٹھیک نو بجے رشید کے ڈرائنگ روم کا اندرونی دروازہ کھلا۔ نور جہاں کالا لباس پہنے اس میں داخل ہوئی۔ اندھیرے میں وہ اس طرح گھل گئی تھی کہ اس کا وجود محسوس کرنا بھی دشوار تھا۔ چند منٹ بعد باہر کا دروازہ انتہائی آہستگی سے کھلا اور سیاہ پوش نور جہاں ایک سیاہ پوش نوجوان کی آغوش میں چلی گئی۔ تین بجے رات تک دونوں وہیں رہے۔ یہ رشید کا سب سے زیادہ عزیز دوست منصور تھا۔ واپس ہوتے ہوئے منصور نے نور جہاں کے کان میں کہا۔
’’خبردار! کبھی اپنی کسی حرکت سے شبہ کا اظہار نہ ہونے دیتا۔ تم عورت ہو ایسا نہ ہو کبھی خوشی کے عالم میں راز فاش کردو۔ رشید کا دیوالہ ہمارے جرمِ قتل کا پردہ دار بن گیا ہے۔ قدرت نے ہماری مدد کی ہے۔ تم انسانیت کی غلطی پر قدرت پانا سیکھو۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.