لیوسڈ انٹرول
مادہ پیدا ہوتا ہے نہ فنا۔ ایک کاغذ کے پرزے کا وزن کرو اور اسے آگ لگا کرراکھ کو پھر تولو، وزن برابر آئے گا۔ اس کا مطلب مادہ کی شکل بدل گئی مگر وہ فنا نہیں ہوا۔
ایک تلخ و ترش آواز آئی
مادہ عدم سے وجود میں آیا ہے اورابد تک نہیں ہے، اسی لیے تو وہ کرسی پر متمکن ہے
دماغ سے اندر آکر ہلچل مچانے والی ایک اور زوردار آواز۔
سائیکی بغیر اعصاب کے ممکن نہیں جبکہ اسے اعصاب کی کیا ضرورت ہے؟
سب کو سانپ سونگھ گیا۔
آگے بڑھو، شاباش ،ویل ڈن ،خوب کہا۔۔۔
یہ پاور زبان نہیں رکھتی مگر بول سکتی ہے،کان نہیں رکھتی ، سن سکتی ہے۔ آنکھ نہیں رکھتی مگر دیکھ سکتی ہے۔یہ اسی خواب کی تعبیر ہے جو ہم آسمانی ادب میں بھی پڑھ چکے ہیں۔سمٹے تو مادہ، پھیلے تو توانای۔
پھر اس نے غائب کی آنکھ سے دیکھا کہ اسے چاروں طرف سے گھیر لیا گیا تھا۔ہجوم تھا کہ اس کی جانب بڑھتا ہی چلا آ رہا تھا۔لوگوں کے ہاتھوں میں ڈنڈے، پتھر ،بندوقیں تھیں اوران کے منہ سے جھاگ اور آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں۔
سالا خدا کو کیمرا کہتا ہے۔ مارو اسے، آگ میں ڈال دو۔اس پر دیوار گرا دو ۔ بے غیرت کہیں کا ۔
اس کےاندر سے آتی ایک اور آواز۔
جان بچانا فرض ہے اور ایسے موقع پر جھوٹ بولنے میں بھی کوئ مضائقہ نہیں۔
ٹھہرو،رکو بھائیو ،سورج کو ابھی مغرب سے نکلنے دو۔پھر دیکھیں گے۔
اب ہجوم کے غیض و غضب میں ٹھہراو آ گیا۔
اس کے میزبان ڈاکڑ نےبھی آگے بڑھ کر یاجوج ماجوج کے گرد بنی دیوار کی مانند اسے اپنے حصارمیں لےلیا ۔ جس سے وہ وقتی طور پر محفوظ ہو گیا،مگر تھوڑی ہی دیر بعد اس کے اندر کا لاوا پھر سے پگھلنے لگا اور اول فول بکنا شروع کر دیا ۔
نجانے کیا کیا آوازیں اس کے اندر سے نکل رہی تھیں۔ اسی اثنا ڈاکڑ نے آگے بڑھ کر اس کے دونوں گالوں پر زور زور سے تھپڑ مارنے شروع کر دئیے۔
یکایک وہ اپنے آپ سے باہر نکل آیا اور خدا کا شکر ادا کرنے لگا۔ ڈاکڑ نے بھی تھینک گاڈ کہا ۔ اس کی طرف مسکراتے ہوے دیکھا ،اور کہا،
میں اکیلا ان جنونیوں اور وحشیوں سے کیسے نمٹتا؟
اب وہ حیرت سے ڈاکڑ کی طرف دیکھ کر سوچنے لگا کہ تھپڑ ڈاکڑ کے دائیں یا بائیں گال پرمارے۔
سید تحسین گیلانی اور مصنف کے شکریہ کے ساتھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.