مجھ سے باتیں کرو!
اس واہیات گاؤں میں ویسے ہی گنتی کے چند بلب تھے جو کوتاہ قد دیواروں سے ذرا اوپر ٹِکے، سہمے سہمے انداز میں یوں جھانکتے تھے جیسے شریف زادیاں گلی سے گذرتے کسی وجیہہ اجنبی نوجوان کو سب سے نظریں بچا کر پردوں کی اوٹ سے جھانکتی ہیں۔ ایسے میں جونہی لائٹ گئی اندھیرا کسی مکروہ وِلن کی طرح بھیانک قہقہے لگانے لگا اور اس اماوس زدہ رات میں میرے اندر اندھیرے سے نفرت اور خوف کا جن گویا ’ہُوہا ہا ہا‘کرتا بوتل سے باہر آگیا۔ اندھیرے میں ٹھوکریں کھاتا مَیں ابھی اپنی قسمت کو کوس ہی رہا تھا کہ میرے جیسا شہری بابو اپنے پینڈو دوست کی شادی میں شرکت کرنے کے لیے اس نحوست زدہ گاؤں میں آخرکیوں چلا آیا ۔
کہ اچانک ایک لالٹین میرے چہرے کے عین سامنے ہَوا میں جُھولنے لگی!
’’سیدھے چلتے رہو۔وہ سامنے چارپائی ہے۔ اس پر بیٹھ جاؤ۔خبردار مُڑ کر میری طرف نہ دیکھنا ورنہ عمر بھر پچھتاؤ گے!‘‘ اس ممناتی مگر تحکمانہ و دہشت ناک آواز نے میری عین پشت پر میرے کانوں میں سرد سی سرگوشی کی۔ آواز ایسی تھی کہ مجھے لگا جیسے کسی نے برف کی ڈلی گردن کے پشت سے میرے کالر کے اندر سِرکا ڈالی ہو اور اب وہ ریڑھ کی ہڈی کی سیدھ میں آہستہ آہستہ خوف بن کر میرے وجود کے پاتال میں اُترتی چلی جا رہی تھی۔
’’مجھ سے باتیں کرو!‘‘
’’ کک۔کون سی باتیں۔مم۔مجھے باتیں نہیں آتیں۔ لوگ تو میری خاموش طبعی کی وجہ سے مجھ سے کوسوں دُور بھاگتے ہیں!‘‘ مَیں گھگھیاکر بولا۔
’’خاموش رہے تو بچ نہیں سکو گے۔ چلو باتیں کرو۔ عام سی باتیں۔ ڈھیروں باتیں۔ وہ جو تم اندر ہی اندر صرف اپنے آپ سے گھنٹوں کرتے ہو۔ اور کبھی کسی سے نہیں کرتے۔ ادھر تمہاری باتیں ختم ہوئیں۔سمجھو اُدھر تمہاری موت آئی!‘‘ اوراس آخری جملے نے تومیرے وجود کو برف کی سلِ میں بدل ڈالا!
ڈرتے ڈرتے میں نے عام، بے تکی اور بے ربط باتیں شروع کیں۔ بند کھلا تو دھیرے دھیرے روانی خود بخود بڑھنے لگی اورحیرت انگیز طور پر خوف و دہشت کا احساس بھی بتدریج کم ہونے لگا۔ذات کی خاموش جھیل میں گفتگو کا کنکر پہلی بار گرا تو دائرے سفر کرتے کرتے کناروں سے سر مارنے لگے حتی کہ میں یہی بھول بیٹھا کہ کہاں اور کس سے ہمکلام تھا۔ برسوں سے میرے اندر جمع باتیں ساون کی تیز برسات کی طرح برس رہی تھیں !!
اور پھربے خیالی میں مجھ سے سنگین غلطی ہو گئی۔ اور مَیں نے مڑ کر اپنی پشت پر بیٹھے اس اجنبی کو دیکھ لیا!
لالٹین تھامے میری عین پشت پر ایک دہشت ناک کھوپڑی ہنس رہی تھی!
نیچے پسلیوں کا گول سا مہیب پنجر، بازوؤں اور ٹانگوں کی طویل ہڈیوں کے سوا تن پر اورکچھ نہ تھا!
مگر نجانے کیوں مَیں اس ہیبت ناک ڈھانچے سے رتی برابر بھی خوفزدہ نہ ہوا۔ میری کیفیت کا بالکل درست اندازہ لگا کر وہ ڈھانچہ ہنسنے لگا!
اور جب ہنستے ہنستے بے حال ہوگیا تو سرما کی کسی شب کے پچھلے پہر کی طرح چپ ہوگیا!
’’دیکھا۔گفتگو چلی تو میں تمہارے اندر سے کتنی آسانی سے نکل گیا۔ورنہ بائیس برس لگے تھے تب کہیں جا کر صدیوں پہلے میرے بدن سے میری روح آزاد ہوئی تھی!‘‘
’’تم۔تم کیسے مرے تھے؟‘‘
’’خاموشی سے!!!‘‘
سید تحسین گیلانی اور مصنف کے شکریہ کے ساتھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.