پینٹنگ
15 مارچ کی شام۔۔۔!
ایک کامیاب ادبی ایونٹ شادباغ کے ہال میں منعقد ہوا۔ جس کا چرچا کئی روز سے اخباروں کی زینت بنا تھا۔ دور دور سے لوگ شرکت کے لیے آئے۔ نامی گرامی مصنفین کو مدعو کیا گیا۔ ایک فیس بک گروپ کی جانب سے پروگرام کا انعقاد تھا۔ ایک دو اخباری رپورٹر، فوٹوگرافر بھی موجود تھے۔ شاعری کی ایک کتاب کی رونمائی تقریب ہوئی۔ کچھ مہمانوں نے کتاب پر اپنا اظہار خیال پیش کیا۔ کچھ شعراء نے اپنا تازہ کلام سنایا۔ انتظامیہ نے نظم و نسق خوب سنبھالا۔ گروپ کے ایڈمن نےاختتامی موڑ دیتے ہوئے گروپ کا آئندہ کا لائحہ عمل واضح کیا۔ پروگرام بے حد کامیاب رہا۔ تین گھنٹے کا پروگرام چار گھنٹے لے گیا۔۔۔ مختلف انواع کے کیک، پیٹیز، سینڈوچز، برفی، گلاب جامن اورچائے کافی۔۔، تقریب کے آخر چائے کا بھی پُرتکلف اہتمام رہا۔۔۔ لوگوں کی گہماگہمی تقریبا ختم ہو چلی تھی۔ کیٹرنگ والے اپنا سامان سمیٹنے میں لگےتھے۔
زاہد چائے کے خالی کپ ٹرے میں لیے ہال سے منسلک کچن نما کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا جب اسکی نظر ایک طرف پڑی تو اسکے بڑھتے قدم رک گئے۔
’’ارے واہ، زبردست۔۔!‘‘ اچانک فضا میں بے ساختہ اسکی آواز ابھری ۔
’’یار ادھر آؤ دیکھو ذرا۔۔۔‘‘ اس نے اپنے باقی ساتھیوں کو متوجہ کیا۔
چند لمحوں میں اس کی ٹیم کےچھ سات لوگ اس کے پاس آن کھڑے ہوئے۔ ہال سے باہر نکلنے والےآخری لوگ بھی اِدھر متوجہ ہوئے۔ سب اس طرف دیکھنے لگےجدھر زاہد انگلی سے اشارہ کر رہا تھا۔ گولڈن فریم میں جڑی دیوارپرآویزاں ایک بڑے سائز کی خوبصورت پینٹنگ۔۔۔! سب کی توجہ کا مرکز بن چکی تھی۔ رنگوں میں رنگ ملا کرجن ہاتھوں نے برش تھاما تھا اس نے رنگوں کو زباں دے ڈالی تھی۔
پہاڑوں کے درمیان گھری اک حسین وادی۔۔۔ بلندی سے گرتی آبشار، جھاگ اڑاتا دودھیا پانی، دیکھتی آنکھوں کو اپنے سامنے بہتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ شام کا ملگجا اندھیرا۔۔ سرجھکائےکھڑے درخت، رات کی آمد۔۔ نیم تاریک فضا میں گھروں کی چمنی سے نکلتا دھواں، کھڑکیوں سے نظر آتی مدہم مدہم روشنی، دلکش فسوں جو دلوں پہ اتر کر اس جگہ کا مکین بننے پر اُکسارہا تھا۔ شہر کی ہنگامہ خیز زندگی سے دور۔۔۔ خواب کی وادی میں اڑتا من۔۔۔!
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی
وہ سب دیدہ دل وا کیے مبہوت کھڑے تھے۔ پینٹنگ۔۔۔ خالق اور ناظر کے درمیان ربط بنی ذوق نظر والوں کو اپنی اور کھینچ رہی تھی۔ مصور کا خوبصورت جاوداں شاہکار، خیال بن کرکینوس پہ بکھرا پڑا تھا۔ بے اختیار کچھ لوگ بول اٹھے۔
’’واقعی یار، اتنی منہ بولتی پینٹنگ!‘‘
’’سچ کہا،رنگوں کا بہترین استعمال کیا گیا ہے‘‘
’’بالکل حقیقی تصویر لگ رہی ہے۔‘‘
’’پینٹنگ لگانے والے کا ذوق بہت عمدہ ہے۔‘‘
’’اللہ جانے شوقیہ بنانے والے کی تخلیق ہے یا کسی پیشہ ورآرٹسٹ کی ؟‘‘
’’جو بھی ہے۔۔ بھئی جتنی تعریف کی جائے، کم ہے۔‘‘
’’جانے کس نے بنائی ہے۔ مصور کا نام کیا ہے؟‘‘
ایک نے آگے بڑھ کر پینٹنگ کے کسی کونے میں مصور کا نام ڈھونڈنا چاہا۔ تبھی ایک آواز آئی، ’’ارےچھوڑو یار۔۔ جس کسی نے بھی بنائی ہو۔ نام میں کیا رکھا ہے۔۔۔؟ میرا تو دل چاہتا ہے کہ بس پینٹنگ بنانے والے کے ہاتھ کی انگلیاں چوم لوں۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.