قناعت
صبح اٹھ کر میں نے اپنی بالکنی میں رکھے اس بڑے کولر کا جائزہ لیا ۔۔۔جو پچھلے سال کی گرمیوں کے بعد سے یوں ہی پرانی بالٹی ۔۔۔پیتل کا لو ٹا اور دیگر الم غلم سامان کا اسٹور روم بنا ہوا تھا ۔۔۔
کافی مشقت کے بعد اپنے شوہر کی کتابوں سے بھری وزنی بوڑیوں کو ۔۔جو ہمیشہ جیون ساتھی کی طرح ہمارے ساتھ رہتی ہیں۔۔۔کو کنارے لگا کر کولر کو کھولنے کی کوشش میں کامیاب ہو گئی۔کولر کے نیچے جھانک کر دیکھا تو کبوتر نے گھونسلے بنائے ہوئے تھے اور دو سفید انڈے ادھر ادھر لڑھکے پڑے تھے ۔ ایسا محسوس ہوا کہ وہ بیکار ہو چکے ہیں اور کبوتر کا ان انڈوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔
میں نے کولر کا جائزہ لیا ۔۔۔اس پر لگی گھانس پر تنقیدی نگاہ ڈالی اور زیر لب بدبدائی۔۔۔یہ اتنی پرانی نہیں لگتیں ۔۔۔اسے دھوکر پھر سے لگایا جا سکتا ہے۔گرم پانی کا ایک بڑا گلاس حلق سے نیچے اتارنے کے بعد لگ بھگ دو گھنٹے کی ان تھک مشقت کے نتیجے میںکولر کی صفائی مکمل ہوئی ۔۔۔اس کے پنکھے اور پانی کے پمپ کو چیک کرنے کے بعد قلبی اطمینان ہوا کہ وہ ابھی کنڈیشن میں ہیں۔فائنلی کولر میں پانی بھر کر اس کو آن کیا اور اس کی ٹھنڈی ہوا جب میرے وجود سے ٹکرائی تو اللہ کا شکر ادا کیا
۔۔۔ کیونکہ ان دنوں دونوں بیڈ روم کے اے سی کی گیس لیک ہونے اور کورونا وائرس کی دہشت اور لاک ڈائون سے پیدا ہونے والے نا مساعد حالات کی وجہ سے کولر کے فنکشن میں آجانے پر بڑے سکون کی سانس لی اور لفظ ’’قناعت‘‘ جو آج ایک اجنبی کی حیثیت رکھتا ہے ‘ کا مفہوم بڑے دنوں بعد سمجھ میں آیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.