Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

قصور کس کا تھا؟

لبنی غزل

قصور کس کا تھا؟

لبنی غزل

MORE BYلبنی غزل

    ہسپتال کی انتظار گاہ، میرے لئے قتل گاہ ہی تو بن گئی تھی۔ ایک مانوس سی خوشبو، جو اب تک میری سانسوں سے جدا نہ ہوئی تھی۔اچانک پھر میری سانسوں سے ٹکرائی تھی۔اور اب وہ مجسم ہو کر،میرے سامنے چند لمحوں کے لئے ٹھہری اور پھر اس مرد کی بانہوں کے حصار میں سمٹ کر میری آنکھوں سے دور چلی گئی۔

    اس دشمنٍ جاں کا یوں اچانک نظر آ جانا حیران کن تو تھا ہی مگر اس کے چہرے پر ممتا کا پاکیزہ مقدس نور، آنکھوں میں زندگی سے بھر پور طمانیت کا احساس اور لبوں پر فاتحانہ مسکراہٹ ،جو اس نے ایک ادا سے میری طرف اچھالی تھی،مجھ پر حیرتوں کے مزید پہاڑ توڑ دینے کے لیے کافی تھی۔

    وہ جا چکی تھی مگر میری آنکھوں میں وہ پانچ سال مجسم ہو گئے تھے جو میں نے اس کے ساتھ گزارے تھے۔آج بھی ان قربتوں کے تمام مناظر میری آنکھوں میں زندہ تھے۔مگر یہ قربتیں کوئی پھول نہ کھلا سکی تھیں۔میری ماں کے خیال میں ،ملن کی وہ ساری ساعتیں بانجھ تھیں، جو ہم پر ایک ساتھ اتری تھیں۔میں ان کا اکلوتا بیٹا تھا۔وہ ایک ماں ہونے کے ناتےاپنے خواب اور خواہشیں ایک بانجھ زمین میں دفن نہ کر سکتی تھیں۔لہذا ان کا ایک ظالم فیصلہ طلاق کی صورت میں ہم دونوں کی پانچ سالہ محبت مگر بے ثمر رفاقت پر حاوی ہو گیا۔

    رخصت یار کی ان کٹھن گھڑیوں میں جب ہنستی ہوئی رات اس کی آنکھوں میں چھپ کر رو رہی تھی اور ایک ہی سوال ، آنسو بن کر اس کی آنکھوں سے ٹپک رہا تھا۔

    ”میرا کیا قصور تھا؟“

    یہ سوال ہمیشہ مجھے کچوکے لگاتا رہا۔

    ”مجھ سے بچھڑ کر وہ بھی زندگی نہ جی رہی ہو گی۔مجبورسانسیں اسے زندہ رکھے ہوئے ہوں گی۔“میں اس کے بارے میں یہی سوچتاتھا۔ مگرآج۔۔۔آج اسے دیکھ کر احساس ہوا کہ وہ بہاروں کی پوری رعنائی کے ساتھ جی رہی تھی۔

    اب احساس ہوامیری ماں کا فیصلہ غلط اور جلد بازی کا تھا۔اگر وہ کچھ اور انتظار کر لیتی تو ہمیں جدائی کی یہ سزا نہ ملتی۔

    ابھی میں اس درد بھری سوچ کی اذیت سے سنبھلنے بھی نہ پایا تھا کہ سامنے لیڈی ڈاکٹر کے کمرے سے نکلتی ہوئی میری دوسری بیوی بہت خوش دکھائی دی۔

    ”میری تمام رپورٹس نارمل ہیں۔“ اس نے خوشی سے بتایا۔

    میں بے دم ساکرسی پر ڈھے گیا۔

    ”تو اس سارے معاملے میں خرابی کہاں تھی۔؟ قصور کس کا تھا؟“میرے سامنے کئی سوالیہ نشان ناچنے لگے ۔

    سید تحسین گیلانی اور مصنف کے شکریہ کے ساتھ

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے