شکار
اس نے بہت مشکل سے ایک مچھلی پکڑ ہی لی تھی ، یہ مچھلی اس کی سوچ، خواہش اور ضرورت سے کہیں زیادہ حسین اور دلکش تھی۔ جب وہ کانٹا دریا میں ڈالے بیٹھا ہوا تھا تو دعا مانگ رہا تھا کہ ’’پروردگار کوئی ایک مچھلی پھنس جائے۔ مجھے تو پیٹ بھرنا ہے اور آگے کو جانا ہے۔‘‘
مگر یہ مچھلی کہاں سے آئی ، کس قافلے کو چھوڑ کر اس کے کانٹے کے پاس گھومنے لگی، کس مچھلی نے اس کے کانٹے کا کینچوا چھوڑا تھا جو اس نے منہ میں ڈال لیا تھا ۔ شکاری اس کو ہاتھ میں پکڑے یہ سب سوچتا رہا۔
اس نے مچھلی کو فوراً کاٹنے اور بھوننے کی بجائے اپنے قریب پڑے برتن میں پانی ڈالا اور اس کو پانی میں چھوڑ دیا۔ یہ مچھلی سنہری ، نارنجی پروں والی دھوپ میں جھلمل کرتی مسلسل اس برتن کے کناروں کے ساتھ ساتھ چکر لگاتی رہی ، معاً اس کی تیراکی میں تڑپ اور اضطرار شامل ہو گیا اور وہ شدت سے تڑپنے لگی ۔ شکاری جان گیا کہ ایک تو مچھلی نے دریا اور برتن کا فرق سمجھ لیا ہے اور جلد ہی یہ اپنا سر برتن کی دیواروں سے پٹخنے لگے گی۔
دوسرا یہ کہ بھوک نے شکاری کے لیے مچھلی کو بدصورت بنا دیا تھا، لہذا اس نے مچھلی کو برتن سے نکالا ، اس کے سنہری ، نارنجی پروں کو چھری سے اتارا۔ پھر جلدی جلدی فلسِ ماہی ادھیڑنے لگا ، ادھیڑتے ادھیڑتے جب وہ اس کی آنکھوں تک پہنچا تو وہ بولی ، ’’ تم تو میری آنکھیں بھی نکالنے لگے ہو، اگر تم نے یہ بھی نکال دیں تو میں اپنے قاتل کے خدوخال کیسے دیکھونگی ؟ اور کیسے دیکھوں گی فریاد بھری نم آنکھوں سے آسمان کی طرف۔۔۔؟
سید تحسین گیلانی اور مصنف کے شکریہ کے ساتھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.