ٹالرنس ورسز زیرو ٹالرنس
پون گھنٹے انتظار کے بعد ریسپشن پر بیٹھے نوجوان نے مسکرا کر مجھے ربیکا ڈیوڈ کے کمرے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اندر جانے کا عندیہ دے ہی دیا میں اپنے مسودوں کا پلندہ جو ایک کالے بیگ میں رکھا تھا اسے سمیٹنے لگی یہ بیگ میں نے بیس برس قبل ہانگ کانگ کے ڈاؤن ٹاؤن سے خریدا تھا شاید اسی لئے یہ اب تک میرا ساتھ دے رہا تھا۔ اپنے منتشر خیالات اور کاغذات کو ترتیب دیتے ہوئے میں کمرے میں داخل ہوئی تو سامنے بیٹھی ربیکا ڈیوڈ مجھے بہت اجنبی سی لگی
جی فرمائیے مسز گوش میں آپ کی کیا خدمت کر سکتی ہوں؟
ربیکا کے لہجے اور نگاہوں میں اجنبیت کی رمق صاف طور پر دکھائی دی، چوکور چشمہ لگائے اپنے پرانے ڈیانا ہئر کٹ میں، کالے رنگ میں نفاست سے سلا ہوا سلک کا چست کرتا پہنے وہ مجھے وہی پرانی مغرور سی ربیکا لگی جس کے ساتھ میں نے قریبا پینتیس برس قبل اپنا ہائی سکول کمپلیٹ کیا تھا۔
تم نے شاید مجھے پہچانا نہیں
(جبکہ میں تعارف کو بھیجی گئی پرچی پر سکول کا حوالہ لکھ چکی تھی ممکن ہے اس نے پڑھا ہی نہ ہو)
تشریف رکھئے، جی مجھے پہچا ننے میں کچھ دشواری ہے
میں کیتھرین ہوں بیکی، تمہاری کلاس فیلو کیتھرین ولیم، کیتھی
(میں نے اپنے کپکپاتے لہجے میں ہمت اور اعتماد کو بمشکل کسی نہ کسی طرح شامل کیا اور امید یہ تھی کہ بیکی اٹھ کر مجھے گلے لگا لے گی لیکن ایسا ہوا نہیں)
اچھاااااااا! اچھا تم کیتھرین ولیم، ناؤ آئی ریممبر!
سکول میں ہماری ٹک شاپ پر جو ولیم انکل اور میری انٹی ہوا کرتے تھے ان کی بیٹی، رائٹ؟
ہاں کہو کیسے آنا ہوا، میرا پتہ کیسے ملا؟
جی! جی جی
(ربیکا کے لہجے نے مجھے ایک لمحے میں ہی سمجھا دیا کہ اس کے اور میرے بیچ پینتیس برس کی دوری ہی نہیں بلکہ طبقاتی تفاوت کی ایک آہنی دیوار بھی موجود ہے)
وہ بیکی میں نے تمہاری تصویر دیکھی تھی فیسبک پر بلکہ میں تمہیں انسٹا اور ٹویٹر پر بھی فالو کرتی ہوں، میرا مطلب ہے آپ کی نئی بک لانچ کی تصویر تھی اور میں آپ کو اکثر ٹیلیوژن پروگرامز میں بھی سنتی رہتی ہوں تو میں نے سوچا کہ کیوں نا آپ سے مل لوں. آپ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ہی آفس کا حوالہ بھی موجود تھا اسی لئے میں یہاں آپ سے ملنے آگئی
ہمممممم ! رائٹ رائٹ، گڈ، تو؟
بیکی سپاٹ چہرہ لئے میری طرف دیکھتی رہی اور جملے کے آخر میں “تو” کہتے ہوئے وہ مجھے سوالیہ نگاہوں سے تکنے لگی جیسے کہنا چاہتی ہو اب اپنے آنے کا مقصد بتاؤ، اچانک مجھے اپنا آپ اجنبی سا لگا جیسے میں اس ماحول کا حصہ ہی نہیں ہوں۔ میں نے خدا جانے کس طرح ہمت مجتمع کی اور کہا میں ایک آن لائن ویب میگ کے لئے مضامین کی ایڈ یٹنگ کرتی ہوں، میری بات سن کر وہ پہلی بار مسکرائی اور اس کی نگاہوں میں ہلکی سی چمک بھی پیدا ہوئی، تم تو جانتی ہو میں بچپن ہی سے کہانیاں لکھتی تھی میں چاہتی ہوں کہ ان کہانیوں کو اب پبلش کروں کیا تم اس حوالے سے میری کچھ مدد کر سکتی ہو؟ بیکی! کیا تم اپنے پبلشر سے اس سلسلے میں بات کر سکتی ہو؟
او ڈئیر کیتھرین! زمانہ بہت آگے جا چکا ہے یہ تمہاری تیس برس پرانی کہانیاں آج کے قاری کے لئے ریلیونٹ نہیں رہیں اور یہ میرا بپلشر تو بہت ہی چوزی بندہ ہے تم کہاں اس کے سٹینڈرڈز کو میٹ کر سکو گی ہاں البتہ ہمیں آفس میں ایک ایڈیٹر کی ضرورت تو ہے تم چاہو تو میں تمہیں وہ جاب آفر کر سکتی ہوں۔
صبح کے وقت تو میں سکول میں پڑھاتی ہوں ایڈیٹنگ کا کام اپنے گھر سے ہی رات میں ہی کیا کرتی ہوں گھر کے تمام جھمیلوں کو نمٹانے کے بعد
(میں نے سر جھکائے ہوئے کانپتی آواز میں جواب دیا)
تم اپنے گھر سے بھی میرا کام کر سکتی ہو، تم تو جانتی ہو کہ میں انسانی حقوق اور حقوقِ نسواں جیسے موضوعات پر ناصرف کھل کر بات کرتی ہوں بلکہ جم کر لکھتی بھی ہوں۔ میں نے اپنی زندگی کا ایک ہی مقصد بنا رکھا ہے کہ اپنی عوام میں سیاسی اور علمی شعور پیدا کر سکوں تا کہ وہ اپنے حقوق کے لئے جابر حکمرانوں کے سامنے آواز اٹھا سکیں اور حکمران طبقے کو بھی یہ خوف رہے کہ لوگ ہم سے جواب طلبی کر سکتے ہیں اب مطلق العنانیت کے زمانے گئے!
میں نے اپنے تیس سال پرانے بیگ اور اس میں رکھے ہوئے کہانیوں کے پلندے کو کسی نوزائیدہ بچے کی طرح سینے سے لگا کر اپنی کمزور بانہوں میں سمیٹ لیا اور ربیکا سے کہا مجھے کیا کرنا ہو گا، اس بار مجھے خود میرا ہی لہجہ روبوٹک سا لگا
میری زندگی کا ایک ہی مقصد ہے کہ میں عوام میں آزادیِ رائے کی اہمیت کو پروموٹ کروں اور اس کے بر عکس سماج کے جابرانہ ایلیمنٹس اور اقتدار پر قابض حاکموں میں اپنے قلم اور کلام کے زور پر ٹالرنس اور برداشت کو فروغ پاتے دیکھوں. سو کیتھی ڈئیر! تمہارا کام محض اتنا ہی ہو گا کہ تمہیں میرے سوشل میڈیا اکاؤنٹس ہینڈل کرنے ہیں ان کے پاسورڈز تمہیں میرا اسسٹنٹ دے دے گا، تم ٹویٹس، فیس بک پیج اور انسٹا کے سٹیٹس اپ ڈیٹ کر دینا اور جو کالمز میں ہفتہ وار لکھ کر دوں گی ان سب کی ٹائپنگ اور املاء کی درستی وغیرہ کا اہتمام بھی تمہیں ہی کرنا ہو گا، یو نو کیتھرین شہر بھر میں ادبی محفلوں اور سیمینارز وغیرہ میں شرکت کے سبب میں بہت خود تو بہت بزی ہوتی ہوں ایسے میں جب کوئی نظم یا خیال اترتا ہے تو اسے فوری طور پر لکھنا چاہتی ہوں جو میں بہت چاہ کر بھی لکھ نہیں پاتی، میں تمہیں اپنا خیال یا نظم وائس نوٹس کی صورت بھیج دیا کروں گی اور تم اسے ٹائیپنگ کے بعد شئیر کر دینا آگے کا کام میری سوشل میڈیا ٹیم دیکھ لیتی ہے کہ کیسے اس پوسٹ کو وائرل کرنا ہے۔
اور ہاں ایک بات یاد رکھنا کہ میں کمنٹس آف ہی رکھتی ہوں کیونکہ آج کل نئی نسل کے یہ نوجوان بہت منہ پھٹ ہو چکے ہیں اگر ہمارا نیریٹیو انہیں پسند نہ آئے تو یہ اپنی رائے ہم پر انتہائی بدتمیزی اور دیدہ دلیری سے ٹھونسنے لگتے ہیں جبکہ میری طبیعت میں ایسی نان سینس باتوں کے لئے زیرو ٹالرنس ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.