جام جہاں نما
جمشید حضرت عیسی سے تقریبا آٹھ سوسال قبل پیش دادی خاندان کا چوتھا تاجدار، قدیم ایران کا بادشاہ اورطہمورث کا بیٹا تھا۔ اس کا عہد قدیم ایران کا عہد زریں کہا جاتا ہے۔ جمشید نے اپنے زمانے کے سائنسدانوں کی مدد سے ایک ایسا پیالہ تیارکرایا تھا جس میں وہ دنیا کے مختلف حصوں کا مشاہدہ کرتا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جمشید کی دولت وامارت اورعظمت وشوکت کے پیچھے اس جام کا بڑا دخل ہے۔ جمشید کے بعد یہ جام خسرو(کیخسرو کی سہل صورت) کے ہاتھوں ہوتا ہوا دارا کے دربارکی زینت بنا۔ اسی وجہ سے اس جام کو مخلتف ناموں سے پکارا گیا۔ جام جمشید، جام جہاں بیں، جام گیتی نما، جام جم، جام خسرووغیرہ۔ مندرجہ ذیل اشعار میں ان تلمیحی مرکبات کو استعمال کیا گیا ہے۔
اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
ساغر جم سے مرا جام سفال اچھا ہے
مراز غالب
جو کچھ دیکھا تو چاہے دیکھ لے دو قرط مے پی کر
بسان جام جم احوال جزووکل ہے شیشے میں
محمد رفیع سودا
جمشید جس نے وضع کیا جام کیا ہوا
وے صحبتیں کہاں گئیں کیدھروے ناؤ ونوش
میر تقی میر
سلطنت دست بدست آئی ہے
جام جم خاتم جمشید نہیں
مراز غالب
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.