Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

Filter : Date

Section:

کیا آپ کو معلوم ہے؟

بغیر ترنم کے شاعری سنانے کو "تحت الفظ" کہا جاتا ہے جس کو "تحت میں پڑھنا " بھی کہتے ہیں۔  شاعری کو ترنم سے پیش کیا جائے تو طرز اور پڑھنے والے کی آواز سامعین کو زیادہ تر متوجہ رکھتی ہے۔ جبکہ تحت اللفظ میں شوکت الفاظ، آواز کے اتار چڑھاو سے شاعری کا پورا لطف آتا ہے۔ مشاعروں میں غزلیں اور نظمیں تحت میں بخوبی  پڑھی ہی جاتی ہیں لیکن مجلس عزا میں تحت اللفظ مرثیہ پڑھنے والوں نے تو اسے ایک خآص ڈرامائ انداز کا فن بنادیا ہے۔  مشیور مرثیہ گو میر انیس کے ایک ہم عصر مشہور شاعر میر انیس کی مرثیہ گوئ کے قائل نہ تھے، انھوں نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ اتفاقاً انیس کی مجلس میں شرکت ہوئی مرثیے کے دوسرے ہی بند کی  بیت: 
ساتوں جہنم آتش فرقت میں جلتے ہیں
شعلے تری تلاش میں باہر نکلتے ہیں
" انیس نے اس انداز سے پڑھی کہ مجھے شعلے بھڑکتے ہوئے دکھائی دینے لگے اور میں ان کا پڑھنا سننے میں ایسا محو ہوا کہ تن بدن کا ہوش نہ رہا " 
جب نئی شاعری بصورت آزاد نظم  نمودار ہوئی تو مشاعروں میں اس کو سننے کے لیے کوئی آمادہ نظر نہیں آتا تھا۔ مشہور ایکٹر اور براڈکاسٹر ضیا محی الدین نے ن م راشد کی نظمیں مختلف تقریبوں میں سنانے کا تجربہ کیا۔ انھوں نے کچھ اس طرح یہ نظمیں سنائیں کہ جن سامعین کے لیے یہ نظمیں مبہم اور لایعنی اور شعری کیفیت سے دور تھیں وہ بھی اس پڑھت کے سحر میں آ گئے اور انھیں ان نظموں میں شاعری بھی نظر آرہی تھی اور معنی بھی۔

کیا آپ کو معلوم ہے؟

یہ محاورہ آپ نے ضرور سنا ہوگا 
دھوبی کا کُتا  نہ گھر کا نہ گھاٹ کا " اور یہ بھی  
 سوچتے ہوں گےکہ کُتے اور دھوبی کا کیا رشتہ ہے اور اس محاورے کے پیچھے کون سی کہانی چھپی ہے ۔ 
لیکن اس محاورے میں کُتا یعنی dog بلاوجہ ہی آگیا ۔ دراصل محاورہ ہے "دھوبی کا کّتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا " 
" اب آپ کہیں گے "کّتا"  کے کیا معنی ہیں ۔کّتا اس موٹے سے ڈنڈے کو کہتے ہیں جس سے پیٹ پیٹ کر دھوبی گھاٹ پر کپڑے دھویا کرتے تھے ۔ جس کو کتکہ بھی کہتے ہیں ۔اب دھوبی کے لئے  روز گھاٹ سے گھر جاتے وقت یہ وزنی ڈنڈا ساتھ لے جانا بھی مشکل اور اسے گھاٹ پر چھوڑ کر جانا بھی ٹھیک نہیں تھا ۔ اسلئے دھوبی وہ کتکہ راستے میں  کسی مناسب جگہ چھپا دیا کرتے اور اگلے دن نکال کر پھر استعمال کر لیا کرتے ۔  
 اب نہ جانے  دھوبی کا کّتا  کیسے اور کب کُتا بن کر اس محاورے میں آگیا ۔

کیا آپ کو معلوم ہے؟

لفظ 'پہر' اور 'پہرے دار' کا کیا تعلق ہے ۔ قدیم ہندوستان میں وقت ناپنے کا پیمانہ پہر ہوا کرتے تھے۔ دن رات کے آٹھ پہر تھے، اور ہر پہر تین گھنٹے کا ہوا کرتا تھا۔ 
 ہر پہر کے دوران پہرے دار چوکسی پر رہتے تھے اور ہر گھنٹہ پورا ہونے پر دھات کے بنے گھنٹے پر چوٹ دے کر اعلان کرتے تھے کہ وہ پہرے پر ہیں اور دوسرے یہ بھی پتہ چلتا تھا کہ وقت کیا ہوا ہے ۔ پہر سنسکرت لفظ پرہر سے بنا ہے ۔
اب تو پہرے دار کا مطلب صرف سنتری، محافظ یا چوکی دار رہ گیا ہے۔
 اردو شاعری میں 'آٹھوں پہر'، 'رات کا پچھلے پہر'  اور 'سہ پہر' کا بہت ذکر رہتا ہے ۔ 
سہ پہر ہی سے کوئی شکل بناتی ہے یہ شام 
خود جو روتی ہے مجھے بھی تو رلاتی ہے یہ شام 

'سہ' فارسی میں تین کو کہتے ہیں ۔ دن کے تیسرے پہر کو سہ پہر بھی کہتے ہیں۔

کیا آپ کو معلوم ہے؟

“چچا چھکن” ایک ناقابل فراموش مزاحیہ کردار ہے جو ہمارے اجتماعی شعور کا حصہ بن چکا ہے۔ اس اہم کردار کے خالق سید امتیاز علی تاج ہیں۔ ہوا یوں کہ انگریز مصنف جیروم  کے جیروم کے ناول “Three Men In A Boat” میں ایک مقام پر ''انکل پوڈگر'' کے تصویر ٹانکنے کا تذکرہ ظریفانہ انداز میں ہے۔ ۱۹۲۶ میں ''نیرنگ خیال'' کے مدیر نے امتیاز علی تاج سے فرمائش کی کہ وہ ان کے عید نمبر کے لئے اس منظر کا ترجمہ اردو میں کریں. امتیاز علی تاج نے بجائے ترجمہ کرنے کے انگریزی منظر سامنے رکھ کر اسے از سر نو اردو میں لکھ ڈالا، اور انکل پوڈگر کو اردو میں ''چچا چھکن'' کے نام سے موسوم کیا۔ اردو والوں کو یہ مضمون نیا اور دلچسپ معلوم ہوا، چنانچہ اسی قسم کے دوسرے مضامین لکھنے کی فرمائش ہونے لگی۔ اس طرح ''چچا چھکن'' کے مرکزی کردار کو سامنے رکھ کر تقریباً دس مضامین وجود میں آ گئے، جن میں چچا چھکن کی اندرون خانہ زندگی کے بعض پہلوؤں کا پر مزاح تذکرہ ہے۔ خیال رہے کہ اسی کردار کو سامنے رکھ کر پچھلے دنوں دانش اقبال صاحب نے ایک بہترین مزاحیہ ڈرامہ ''چچا چھکن'' ترتیب دیا جو کامیابی سے کئی بار اسٹیج کیا گیا۔

کیا آپ کو معلوم ہے؟

عید کے معنی ہیں خوشی کا وہ دن جو بار بار آئے۔ عید الفطر اسلامی تہوار ہے جسے ہندوستان میں اکثر میٹھی عید بھی کہتےہیں۔ رمضان کے روزوں کے بعد اسلامی مہینے "شوال" کی پہلی تاریخ کو یہ تہوار دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ اس دن مسلمان فطرہ یعنی غریبوں کو صدقہ یا دان دیتے ہیں، اس لئے اس کو عیدالفطر کہتے ہیں۔
اردو شاعری میں عید کا چاند دیکھنے اور عید کے دن گلے ملنے پر اتنے اشعار ہیں کہ پوری ایک کتاب بن سکتی ہے۔ 
عید کا چاند تم نے دیکھ لیا 
چاند کی عید ہو گئی ہوگی 
 عید کا چاند ہوجانا، یعنی بہت دنوں بعد ملنا، بول چال کا ایک عام محاورہ بھی ہے۔
 کیاآپ جانتے ہیں "عیدی" کیا ہوتی ہے؟ عید کے دن بچوں کو گھر کے سارے بڑے لوگ اور رشتے دار جو پیسے یا تحفے دیتے ہیں وہ تو عیدی ہوتی ہی ہے، اس کے علاوہ وہ نظم یا اشعار جو استاد لوگ بچوں کو عید سے ایک روز پہلے، کسی خوش نما کاغذ پر لکھ کر عید کی مبارک باد  کے طور پر دیتے تھے اور اس کے بدلے حق استادی  وصول کرتے تھے وہ بھی عیدی کہلاتی تھی، وہ خوش نما کاغذ جس پر عید کے اشعار یا قطعہ لکھتے تھے وہ بھی عیدی کہلاتی تھی۔ وہ میوہ، مٹھائی اور نقدی وغیرہ جو عید کے دن سسرال سے آئے یا سسرال میں بھیجی جائے اس کو بھی عیدی کہتے ہیں ۔

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے