Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

Filter : Date

Section:

کیا آپ کو معلوم ہے؟

اردو میں ملاح مانجھی یا جہاز چلانے والے کو کہتے ہیں۔ اس لفظ کا تعلق عربی  زبان کے لفظ 'ملح' یعنی نمک سے ہے۔ چونکہ سمندر کا پانی کھارا ہوتا ہے، پہلے تو سمندر سے نمک بنانے والوں کو 'ملاح' کہا گیا۔ پھر سمندر میں جانے والوں کو ملاح کہا جانے لگا۔ اب تو میٹھے پانی کی جھیل میں کشتی چلانے والے کو بھی ملاح ہی کہتے ہیں۔ لفظ 'ملاحت' بھی اردو ادب میں جانا پہچانا ہے۔ اس کا رشتہ بھی 'ملح' یعنی نمک سے ہے۔ یعنی سانولا پن، خوبصورتی۔ بہت سے اشعار میں اسے مختلف انداز سے برتا گیا ہے۔
کشتی اور پانی کے سفر سے متعلق ایک اور لفظ اردو شاعری میں بہت ملتا ہے۔ 'نا خدا' جو ناوؑ اور خدا سے مل کر بنا ہے، اور فارسی سے آیا ہے۔ یعنی کشتی کا مالک یا سردار۔
تمہیں تو ہو جسے کہتی ہے ناخدا دنیا 
بچا سکو تو بچا لو کہ ڈوبتا ہوں میں 
آسرار الحق مجاز

کیا آپ کو معلوم ہے؟

میر

میر تقی میر کے بارے میں عام تصور ہے کہ وہ دل شکستہ، دنیا سے بیزار انسان تھے جو درد و الم میں ڈوبے اشعار ہی کہتے تھے۔ لیکن دنیا کی دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ میر کو جانوروں سے بھی گہری دلچسپی تھی، جو ان کی مثنویوں اور خود نوشتی گھریلو نظموں میں بہت خلاقانہ انداز سے نظر آتی ہے۔ دوسرے شعرا نے بھی جانوروں کے بارے میں لکھا ہے، لیکن میر کے اشعار میں جب  جانور زندگی کا حصہ بن کر آتے ہیں تو ان میں انسانی صفات اور خصوصیات کا بھی رنگ آ جاتا ہے۔ میر کی  مثنوی 'موہنی بلی' کی بلی بھی ایک کردار ہی معلوم ہوتی ہے۔ 'کپی کا بچہ' میں بندر کا بچہ بھی کافی حد تک انسان نظر آتا ہے۔ مثنوی 'مور نامہ' ایک رانی اور ایک مور کے عشق کی المیہ داستان ہے، جس میں دونوں آخر میں جل مرتے ہیں۔ اس کے علاوہ  مرغ، بکری وغیرہ پر بھی ان کی مثنویاں ہیں۔
ان کی  مشہور مثنوی 'اژدر نامہ' جانوروں کے نام، ان کی عادات اور خصوصیات کے ذکر سے پُر ہے۔ اس میں مرکزی کردار اژدہے کے علاوہ  30 جانوروں کے نام شامل ہیں۔ محمد حسین آزاد نے لکھا ہے کہ میر نے اس میں خود کو اژدہا کہا اور دوسرے تمام  شعرا کو حشرات الارض مانا ہے۔ حالانکہ اس میں کسی کا نام نہیں لیا گیا ہے۔

کیا آپ کو معلوم ہے؟

محاورے کے اعتبار سے اردو بہت دولت مند زبان ہے۔ غزل کے شاعروں نے خاص طور پر محاوروں کو بہت استحکام بخشا ہے۔ ذرا سوچئے کہ صرف لفظ آنکھ سے تعلق رکھنے والے محاورے فرہنگ اصفیہ میں 45 صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں۔ اور ہر محاورے کے معنی سمجھانے کے لئے بہت سے اشعار بھی دئے گئے ہیں۔ اردو شاعری میں کچھ محاورے فارسی سے آئے ہیں، لیکن زیادہ تر خالص ہندوستانی ہیں۔ داغ نے روز مرہ اور محاورے کے استعمال کو آسمان تک پہنچا دیا۔ 'محاورات داغ' ( ولی احمد خاں 1944) کے نام سے ہزاروں اشعار پر مشتمل کتاب موجود ہے۔ اس کتاب میں سو سے زیادہ اشعار ایسے ہیں، جن میں آنکھ کے مختلف محاورے اپنی بہار دکھاتے ہیں۔ ایک ادب نواز ماہر امراض چشم اور سرجن  ڈاکڑ عبد المعز شمس نے چار سو صفحات کی کتاب 'آنکھ اور اردو شاعری'  (2018) شائع کی ہے۔ اس میں آنکھ کے محاوروں پر ایک باب میں مختلف شعرا کے متعدد اشعار شامل ہیں۔

کیا آپ کو معلوم ہے؟


ایک ضرب المثل ہے "ہاتھ کنگن کو آرسی کیا'' اس کا مطلب تو بعد میں سمجھیں گے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ آرسی بڑی سی انگوٹھی ہوتی تھی، جو پچھلے زمانے میں عورتیں اپنے ہاتھ کے انگوٹھے میں پہنا کرتی تھیں۔ اس میں نگوں کے بیچ  ایک گول آئینہ لگا ہوتا تھا۔ عورتیں اس  میں دیکھ کر اپنا سنگھار درست کر لیا  کرتی تھیں۔
آرسی پر بہت سے شعر ہیں 
 آئینہ سامنے نہ سہی آرسی تو ہے
تم اپنے مسکرانے کا انداز دیکھنا
ہاتھ کنگن کو آرسی کیا'' اس کا مطلب ہے  کہ ہاتھ میں  پہنے ہوئے کنگن کو دیکھنے کے لئے آرسی کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ تو نظروں  کے سامنے ہی ہے۔  یہ  ضرب المثل ایسے موقع پر بولی جاتی ہے  جب کوئی بات ظاہر اور بالکل سامنے کی ہو، جس کو بیان کرنے کی ضرورت ہی نہ ہو۔
یہ کہاوت بھی بہت مشہور ہے 
" ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، پڑھے لکھے کو فارسی کیا"

شادیوں میں ایک رسم بھی ہوتی ہے جو "آرسی مصحف کہلاتی ہے ۔" جس میں دولہا اور دلہن  کو آمنے سامنے بٹھا کر ان کے سر پر ایک دوشالہ یا دوپٹہ ڈال دیا جاتا ہے اور بیچ میں آٙئینہ رکھ دیتے ہیں، دونوں ایک  دوسرے کی شکل قرآن کی ایک سورة پڑھ کر دیکھتے ہیں۔ مصحف قرآن شریف کو کہتے ہیں۔

کیا آپ کو معلوم ہے؟

بغیر ترنم کے شاعری سنانے کو "تحت الفظ" کہا جاتا ہے جس کو "تحت میں پڑھنا " بھی کہتے ہیں۔  شاعری کو ترنم سے پیش کیا جائے تو طرز اور پڑھنے والے کی آواز سامعین کو زیادہ تر متوجہ رکھتی ہے۔ جبکہ تحت اللفظ میں شوکت الفاظ، آواز کے اتار چڑھاو سے شاعری کا پورا لطف آتا ہے۔ مشاعروں میں غزلیں اور نظمیں تحت میں بخوبی  پڑھی ہی جاتی ہیں لیکن مجلس عزا میں تحت اللفظ مرثیہ پڑھنے والوں نے تو اسے ایک خآص ڈرامائ انداز کا فن بنادیا ہے۔  مشیور مرثیہ گو میر انیس کے ایک ہم عصر مشہور شاعر میر انیس کی مرثیہ گوئ کے قائل نہ تھے، انھوں نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ اتفاقاً انیس کی مجلس میں شرکت ہوئی مرثیے کے دوسرے ہی بند کی  بیت: 
ساتوں جہنم آتش فرقت میں جلتے ہیں
شعلے تری تلاش میں باہر نکلتے ہیں
" انیس نے اس انداز سے پڑھی کہ مجھے شعلے بھڑکتے ہوئے دکھائی دینے لگے اور میں ان کا پڑھنا سننے میں ایسا محو ہوا کہ تن بدن کا ہوش نہ رہا " 
جب نئی شاعری بصورت آزاد نظم  نمودار ہوئی تو مشاعروں میں اس کو سننے کے لیے کوئی آمادہ نظر نہیں آتا تھا۔ مشہور ایکٹر اور براڈکاسٹر ضیا محی الدین نے ن م راشد کی نظمیں مختلف تقریبوں میں سنانے کا تجربہ کیا۔ انھوں نے کچھ اس طرح یہ نظمیں سنائیں کہ جن سامعین کے لیے یہ نظمیں مبہم اور لایعنی اور شعری کیفیت سے دور تھیں وہ بھی اس پڑھت کے سحر میں آ گئے اور انھیں ان نظموں میں شاعری بھی نظر آرہی تھی اور معنی بھی۔

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے