(۲) غالب کی میری
غالب نے میر سے بار بار استفادہ کیا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ غالب اور میر ایک ہی طرح کے شاعر تھے، یعنی بعض مظاہر کائنات اور زندگی کے بعض تجربات کو شعر میں ظاہر کرنے کے لیے دونوں ایک ہی طرح کے وسائل استعمال کرنا پسند کرتے تھے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ غالب کا اسلوب میر سے مستعار ہے، اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ زندگی کے کسی موقعے یا منزل پر غالب نے طرز میر کو اختیارکرنے کی کوشش کی۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ دونوں شاعروں کی ذہنی ساخت اور طرز فکر میں مماثلت تھی۔ عملی سطح پر اس ساخت اور طرز فکر کا اظہار اسلوب سے زیادہ رویے اور ان چیزوں کے انتخاب میں ہے جن کے ذریعے دونوں شاعروں نے مظاہر کائنات اور زندگی کے تجربات کو ظاہر کیاہے۔
میر نے فارسی شعرا سے استفادہ کیا ہے، لیکن ان کا استفادہ تحسین کی قسم کا ہے، یعنی اگر انھیں کسی شاعر کے یہاں کوئی مضمون یا گوشہ پسند آیا تو انھوں نے بھی اختیار کرلیا۔ اس کے برخلاف غالب نے میر کے ساتھ وہ برتاؤ کیا جو کوئی بڑا شاعر اپنے کسی بڑے پیش رو کے ساتھ کرتا ہے، یعنی انھوں نے میرکے تجربات اور وسائل اظہار کو اپنے لیے مشعل راہ بنایا۔ غالب اور میر کا وہی معاملہ ہے جو مثلاً از را پاؤنڈ (Ezra Pound) اور وسط لاطینی شعرا کا تھا، یعنی پاؤنڈ نے وسط لاطینی شعرا کی طرح سوچنے کی کوشش کی، لکھا مگر اپنی طرح۔ میر کو زبانی خراج عقیدت بہت پیش کے گئے ہیں۔ اس میں ناسخ بھی ہیں جنھوں نے میر سے کچھ خاص حاصل نہ کیا۔ ان میں آتش کے شاگرد رند بھی ہیں جو آتش، ناسخ اور خود کو طرز میرکا شاعر بتاتے ہیں، چنانچہ رند کا شعر ہے،
شیخ ناسخ خواجہ آتش کے سوا بالفعل رند
شاعران ہند میں کہتے ہیں طرز میر ہم
حالانکہ اصل صورت حال یہ ہے کہ رندکے یہاں ایک شعر بھی میرکی طرح کا نہیں۔ آتش نے میر کے مضامین بہت اڑائے لیکن نہ ان کا ذہن میرکا سا تھا، نہ تخیل، نہ مزاج، لہٰذا آتش کا کلام میر کے مضامین کا مقتل بن گیاہے۔ ناسخ نے خود میرکی تعریف کی ہے لیکن ناسخ نے میرکا طرز اختیار نہ کیا۔ طرز تو بعد کی بات ہے، ناسخ کو زبان پر اس طرح کی قدرت بھی نہ تھی جومیرکاخاصہ ہے۔ یہ بات عام طورپر کہی جاتی ہے کہ ناسخ یا رند یاذوق میرکی طرح کے شاعرنہ تھے، اس لیے ان کی تعریفوں کو رسمی کہہ کر نظرانداز کردیاجاتاہے، یعنی یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ ان لوگوں نے میرکا بھاری پتھر چوم کر چھوڑدیا اور ان کے تعریفی اشعار میر کی عظمت تو ثابت کرتے ہیں لیکن خود ان شعرا کے بارے میں ہمیں کچھ نہیں بتاتے۔
یہ بات ایک حد تک صحیح ہے، لیکن ناسخ، ذوق، رند وغیرہ کے تعریفی اشعار سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ ان لوگوں کی نظر میں ان کے اپنے رنگ کلام کا جواز میر کے یہاں مل جاتاہوگا یعنی وہ خود کو اسی شعریات کا پابند سمجھتے ہوں گے جومیر کی تھی۔ یہ نتیجہ بھی نکالا جاسکتاہے کہ ان لوگوں نے میر کا ذکر صرف خود کو’’عزت دار‘‘ بنانے کے لیے کیاہے۔ اگر وہ واقعی متبعِ میر ہوتے تو میر کا کچھ تو پرتو ان کے یہاں نظر آتا۔
لطف کی بات یہ ہے کہ غالب جنھوں نے میر سے واقعی استفادہ کیا، ان کو بھی میر کا رسمی خراج گذار سمجھ لیا گیا لیکن غالب کے بارے میں یہ بھی کہہ دیاگیا کہ اپنے آخری زمانے میں انھوں نے میر کا طرز اختیار کرنے کی کوشش کی، جیساکہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ غالب کا وہ شعر جس میں انھوں نے میر کے دیوان کو ’’کم از گلشن کشمیر نہیں ‘‘ کہا تھا، ان کے زمانہ نوجوانی کاہے اور وہ شعر جو گلشن کشمیر والے شعر سے زیادہ مشہور ہے، وسط عمر کا ہے، کیونکہ یہ غزل ۱۸۴۷ء اور ۱۸۵۰ء کے درمیان کی ہے۔ اس کی تحریر کے وقت غالب کی عمر پچاس سے کچھ کم یا زیادہ تھی۔ میری مراد اس مقطع سے ہے،
ریختے کے تمھیں استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
ان حقائق کے ساتھ ساتھ ہم اگر اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ غالب نے میر سے دل کھول کر استفادہ کیا ہے اور جن غزلوں نے غالب کو غالب بنایا، ان میں سے اکثر ایسی ہیں جو غالب نے تیس برس کی عمر کو پہنچنے سے پہلے لکھی تھیں اور غالب کا میر سے استفادہ تقلیدی نہیں بلکہ تخلیقی ہے تو یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ غالب کے تخلیقی سرچشمے میں جو دھارے آکر ملتے ہیں ان میں بیدل اور سبک ہندی کے بعض دوسرے ’’بدنام‘‘ شعراکے علاوہ میر کا دریائے ذخار بھی ہے۔ ہمیں حالی کا بیان کردہ واقعہ نہ بھولنا چاہئے جہاں غالب نے میر کو سودا پرترجیح دی تھی اور ذوق نے سودا کو میر پر۔
اس نظریے کی خارجی شہادت شاعری اور فن شعرکے بارے میں ان خیالات میں مل سکتی ہے جو میر اور غالب کی تحریروں میں منتشر ہیں، لیکن جن کو یک جا کرکے دیکھا جائے تو ان دونوں شاعروں کا نظریۂ شعر مرتب ہوسکتاہے۔ میر نے ’’نکات الشعرا‘‘ میں مختلف شاعروں کے بارے میں جو لکھاہے، اس سے بھی ان کا نظریۂ شعر ایک حد تک مستنبط ہوسکتا ہے، لیکن وہاں ضرورت استنباط واستخراج کی ہوگی، کیونکہ شعر یا شاعری کے بارے میں براہ راست بیان ’’نکات الشعرا‘‘ میں مشکل سے ملے گا۔ اس کے برخلاف میر کے کلام میں شعر اور شاعری کے بارے میں بعض براہ راست باتیں مل جاتی ہیں۔ ان اشعار سے یہ نتیجہ نکالنا غیرضروری ہے (اگرچہ یہ غلط نہ ہوگا) کہ میر کے اپنے شعروں میں وہ سب خوبیاں ضرور ہوں گی جن کاذکر انھوں نے شعر کے صفات اور محاسن کے طورپر کیا ہے۔ لیکن یہ اشعار ہمیں یہ ضرور بتاتے ہیں کہ میر کے خیال میں شعر میں کیا صفات ومحاسن ہونا چاہیے۔ یعنی میر کے کلام سے ان کا نظریۂ شعر تو برآمد ہوسکتاہے، لیکن یہ ثابت نہیں ہوسکتا کہ خود ان کا کلام اس نظریے پر پورا اترتا ہے۔
اسی طرح غالب کے خطوط میں شعر اور شاعری کے بارے میں جو منتشر اظہار رائے ہے، اس کو یک جاکرکے یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ شعر کے صفات ومحاسن کے بارے میں غالب کا نظریہ کیا تھا۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ خود غالب کاکلام ان کے نظریے پر پورا اترے۔ بہرحال ہمیں اس وقت اس بات سے براہ راست بحث نہیں کہ غالب اور میر کے نظریات شعر خود ان کے کلام پر کہاں تک صادق آتے ہیں۔ بحث اس وقت یہ ہے کہ ان کے نظریات کیا ہیں، اور اگر ان نظریات میں قرار واقعی مماثلت ہے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ دونوں شاعروں کا نظریہ بڑی حد تک یکساں تھا، اس لیے دونوں کی ذہنی ساخت اور طرز فکر میں مماثلت تھی، اور دونوں کو شاعری سے جو توقعات تھیں وہ بڑی حد تک یکساں تھیں۔
غالب نے بعض دوستوں اور ملاقاتیوں کے کلام کی رسمی اور مبالغہ آمیز تعریفیں کی ہیں، ان کو نظرانداز کرکے ان کے براہ راست نظریاتی خیالات پر توجہ کیجئے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ معنی آفرینی، شور انگیزی، مناسبت الفاظ اور رعایت فن کو بنیادی اہمیت دیتے تھے۔ میر نے بھی انھیں چیزوں کو اہمیت دی ہے۔
تفتہ کے نام خط میں غالب کا مشہور قول ہے، ’’بھائی شاعری معنی آفرینی ہے، قافیہ پیمائی نہیں ہے۔‘‘ سید محمد زکریا زکی کے نام سند میں غالب لکھتے ہیں، ’’معنی سے طبیعت کو علاقہ اچھا ہے۔‘‘ حاتم علی مہر کی تعریف کرتے ہوئے غالب معانی نازک اور اچھوتے مضامین کا ذکر کرتے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ اگر ہم نے پرانے لوگوں کی برائیاں ترک کیں تو ان کی اچھائیاں بھی ترک کردیں۔ چنانچہ اب ’’معنی آفرینی‘‘ کی اصطلاح اس قدر غریب ہوچکی ہے کہ اس کی وضاحت کے لیے مستند قول نہیں ملتا۔ پچاس برس پہلے بھی لوگ اس اصطلاح سے کتنے بے خبر تھے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ نیاز فتح پوری نے فراق گورکھ پوری جیسے تہی دامن شاعر کو بھی معنی آفریں لکھ دیا۔
دراصل معنی آفرینی سے مراد وہ طرز بیان ہے جس میں ایک ہی بیان میں کئی طرح کے معنی ظاہر یا پوشیدہ ہوں۔ اس اصطلاح پر بحث غزل ۴۵ میں دیکھئے۔ معنی آفرینی اور مضمون آفرینی ہی ہماری شعریات کی بنیاد ہیں۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی کے شعرا بار بار اور مضمون کا ذکر کرتے ہیں،
آبرو،
شعر کو مضمون سیتی قدر ہو ہے آبرو
قافیہ سیتی ملایا قافیہ تو کیا ہوا
حاتم،
متفق باللفظ وبالمعنی کہیں ہیں خوش خیال
مصرع برجستہ و دلچسپ سر تا پا تجھے
مومن،
گرچہ شعر مومن بھی نہایت خوب کہتا ہے
کہاں ہے لیک معنی بند مضموں یاب اپنا سا
واضح رہے کہ معنی آفرینی اور نازک خیالی الگ الگ چیزیں ہیں یعنی نازک خیالی اور معنی آفرینی ہم معنی نہیں ہیں۔ ہوسکتاہے کہ کسی شعر میں نازک خیالی اور معنی آفرینی دونوں ہوں یا محض نازک خیالی، یا محض آفرینی ہو۔ غالب نے مومن کے بارے میں کہا تھا کہ ان کی طبیعت معنی آفریں تھی۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ مومن کے یہاں معنی آفرینی سے زیادہ نازک خیالی ہے۔ خود غالب نے اپنے شعر،
قطرۂ مے بس کہ حیرت سے نفس پرور ہوا
خط جام سے سراسر رشتۂ گوہر ہوا
کے بارے میں یہ کہہ کر کہ اس شعر میں خیال ہے تو بہت دقیق، لیکن لطف کچھ نہیں، یعنی کوہ کندن وکاہ بر آوردن، معنی آفرینی اور نازک خیالی کا فرق اشاروں اشاروں میں بیان کردیاتھا۔ یہ شعر نازک خیالی کی انتہائی مثال ہے، لیکن معنی آفرینی سے خالی ہے۔ اگر اس میں معنی آفرینی کارفر ما ہوتی تو اس کا نتیجہ کوہ کندن وکاہ برآوردن نہ ہوتا، جیساکہ مومن کے شعروں میں اکثر ہوتاہے۔ غالب نے قدر بلگرامی کے مطلع پر اصلاح دیتے ہوئے اس کی جو توجیہ بیان کی، وہ بھی معنی آفرینی کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتی ہے۔ قدر کاشعر تھا،
لا کے دنیا میں ہمیں زہر فنا دیتے ہو
ہائے اس بھول بھلیاں میں دغا دیتے ہو
غالب نے ردیف (دیتے ہو) کو جمع غائب (دیتے ہیں) کردیا اور لکھا کہ ’’اب خطاب معشوقان مجازی اور قضا وقدر میں مشترک رہا‘‘ یعنی معنی کا اضافہ ہوگیا، لہٰذا وہ بیان جس میں معنی کے زیادہ امکانات ہوں معنی آفرینی کا حامل ٹھہرتا ہے۔
غالب کی طرح میر نے بھی نازک خیالی کا ذکر نہیں کیا ہے، لیکن معنی آفرینی اور پیچیدگی کا ذکر کیاہے۔ میرکے بعض شعر حسب ذیل ہیں،
نہ ہو کیوں ریختہ بے شورش و کیفیت و معنی
گیاہو میر دیوانہ رہا سودا سومستانہ
(دیوان اول)
زلف سا پیچ دار ہے ہر شعر
ہے سخن میر کا عجب ڈھب کا
(دیوان چہارم)
طرفیں رکھے ہے ایک سخن چار چار میر
کیا کیا کہا کریں ہیں زبان قلم سے ہم
(دیوان سوم)
ہر ورق ہر صفحے میں اک شعر شور انگیز ہے
عرصۂ محشر ہے عرصہ میرے بھی دیوان کا
(دیوان پنجم)
ان اشعار میں کثرت معنی، پیچ داری اور معنی کے مختلف الامکان ہونے یعنی شعرکے تہ دار ہونے کا ذکر ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب صفات معنی آفرینی کی ہیں۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ غالب اورمیر میں معنی آفرینی کا نظریہ مشترک ہے۔ پہلے اور آخری شعر میں ’’شورش‘‘ اور’’شور انگیزی‘‘ کا ذکر آیا ہے۔ اس اصطلاح کے بھی معنی ہم آج بھول گئے ہیں۔ لیکن غالب نے بھی اسے استعمال کیا ہے۔ علائی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں، ’’مغربی عرفا میں اور قدما میں ہے، جیسا کہ عراقی۔ ان کاکلام دقائق وحقائق تصوف سے لبریز۔ قدسی شاہ جہانی شعرا میں صائب وکلیم کا ہم عصر اور ہم چشم، ان کا کلام شور انگیز۔‘‘ غالب نے یہ اصطلاح جس طرح استعمال کی ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ شور انگریزی سے مراد جذبات، خاص کرشدیدجذبات کی فراوانی ہے۔ شور انگیزیکلام میں صوفیانہ دقائق وغوامض نہیں بیان ہوتے، لہٰذا اس میں وہ محویت یا سرمستی یا عارفانہ مضامین کی وہ باریکی نہیں ہوتی جو صوفیانہ شاعری کا خاصہ ہے۔ اس کے برعکس شعر شور انگیزمیں انسان، کائنات اور انسان وکائنات کے باہم تعلق پر شدید جذبے کے ساتھ اظہار خیال میں جذباتیت نہیں ہوتی، بلکہ جذبے، یامشاہدے یا فکر واحساس کی شدت ہوتی ہے۔ ایسے شعر کی بنا مضمون پر تو ہوتی ہے لیکن اس میں معنی کی بھی کارفرمائی ہوتی ہے، اگرچہ تہ داری نہیں ہوتی۔ اس اصطلاح پر بھی بحث غزل ۴۵ میں ہے۔
تفتہ کے ایک شعر کی تعریف کرتے ہوئے غالب نے لکھا تھا کہ، ’’چار لفظ ہیں اور چاروں واقعہ کے مناسب۔‘‘ اسی طرح ’’فسانۂ عجائب‘ ‘ کے سرنامے پر منتظر شاگرد مصحفی کے شعر کا حوالہ دے کر،
یادگار زمانہ ہیں ہم لوگ
یاد رکھنا فسانہ ہیں ہم لوگ
غالب تحسین کے انداز میں لکھتے ہیں کہ ’’یاد رکھنا‘‘، ’’فسانہ‘‘ کے واسطے کتنا مناسب ہے۔ الفاظ کو آپس میں مناسب ہونا چاہیے۔ یہ مناسبت لفظی بھی ہوسکتی ہے اورمعنوی بھی۔ رعایت اور مناسبت کے فرق پر بحث غزل ۲۸۰ میں دیکھیں۔ فن کی رعایت سے مراد ہے وہ چیزیں، فن جن کا تقاضا کرتا ہے، اور نھیں ’’رعایت‘‘ کہا جاسکتا ہے۔ ظاہر ہے اس رعایت سے مراد وہ تمام فنی ہتھ کنڈے اور بناؤ ہیں جن سے مناسبت لفظی ومعنوی کا اظہار ہواہے۔ میر ان نکات کو لفظ ’’اسلوب‘‘ سے ظاہر کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں ’’اسلوب‘‘ ہی فن کی پہچان ہے،
میرشاعربھی زورکوئی تھا
دیکھتے ہو نہ بات کااسلوب
(دیوان اول)
دیوان اول اور دیوان دوم کی دو ہم طرح غزلوں کے مقطعوں میں مناسبت کے تصور کو میر نے عملی طورپر ظاہر کیا ہے۔ دونوں شعروں میں ’’آب‘‘، ’’پانی‘‘ اور ’’روانی‘‘ کا تلازمہ اختیار کرکے ’’آب سخن‘‘ کی تعریف بہم پہنچائی ہے،
دریا میں قطرہ قطرہ ہے آب گہر کہیں
ہے میر موج زن ترے ہر یک سخن میں آب
(دیوان اول)
دیکھو تو کس روانی سے کہتے ہیں شعر میر
در سے ہزار چند ہے ان کے سخن میں آب
(دیوان دوم)
یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ اگر میر اور غالب کی شعریات میں اتنی مماثلت ہے تو ان کے اشعار میں مماثلت کیوں نہیں؟ اس کے کئی جواب ممکن ہیں۔ ایک تو وہی جومیں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ میر اور غالب کے بہت سے اشعار میں مماثلت ہے، یہ مماثلت کے تخلیقی استفادے کا ثبوت ہے اور اس کا اظہار رویے اور ان اشعار کے انتخاب میں ہوا ہے جن کے ذریعے دونوں نے کائنات وذات کے بارے میں اپنے تجربے کو بیان کیا ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ پھر غالب کاکارنامہ ہی کیا ہوتا؟ تیسرا جواب یہ ہے کہ میر نے شعر کی ایک اور خصوصیت کا ذکر کیاہے جسے ’’کیفیت‘‘ کہتے ہیں،
نہ ہو کیوں ریختہ بے شورش و کیفیت و معنی
غالب نے ’’کیفیت‘‘ کاذکہیں نہیں کیا ہے۔ اس اصطلاح کے بھی معنی اب گم ہوگئے ہیں، لیکن درحقیقت کیفیت اس چیز کا نام ہے جس کو ذہن میں رکھ کر بیدل نے اپنا مشہور فقرہ کہا ہوگا کہ ’’شعر خوب معنی نہ دارد۔‘‘ یعنی وہ صورت حال جب شعر میں کوئی خاص معنی نہ ہوں یا اس کے معنی پوری طرح فوراً ظاہر نہ ہوں، لیکن اس کاجذباتی تاثر یا محاکاتی اثر فوری ہو۔ بعض اوقات ایسے شعر کے معنی الفاظ میں بیان بھی نہیں ہوسکتے۔ لیکن اس کا جذباتی تاثر یا محاکاتی اثر دیرپا نہ ہو، یا بعض مخصوس سیاق وسباق کا محتاج ہو تو اس شعر میں کیفیت نہیں، بلکہ سحطیت ہوگی۔ میر نے اس نظریے کو اس طرح بھی بیان کیا ہے،
کس نے سن شعر میریہ نہ کہا
کہیو پھر ہائے کیا کہاصاحب
(دیوان دوم)
’’کہیو پھر‘‘ میں شعر کو صرف دہرانے کی درخواست نہیں ہے، بلکہ نکتہ یہ بھی ہے کہ ایسا شعر اور بھی کہو۔ غالب کے یہاں کیفیت کے شعر خال خال ہیں، لیکن میرکے یہاں ایسے شعر کثرت سے ہیں۔ فراق صاحب کے یہاں کم کم اورناصر کاظمی کے یہاں اکثر شعر کیفیت کے حامل ہیں، اسی لیے لوگوں کو خیال ہوتاہے کہ فراق اور ناصر کاظمی طرز میر کے شاعر ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کیفیت کے علاوہ شعر میرکی تمام تر خصوصیات غالب کے یہاں غالب کی اپنی تخلیقی شان کے ساتھ وارد ہوئی ہیں۔ ان کی شعریات کے کئی پہلوؤں میں مماثلت ان کے ذہنی اشتراک پر دال ہے۔
ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ غالب کے موضوعات میر کے مقابلے میں محدود ہیں۔ غالب کے یہاں استفہام کی فراوانی میر سے زیادہ ہے، اس لیے ان کا کلام میر سے زیادہ رنگا رنگ معلوم ہوتاہے، لیکن روز مرہ کی زندگی اور اس کے واقعات سے جتنا شغف میرکو ہے اتنا غالب کو نہیں۔ غالب تو غیرمعمولی واقعات کو بھی بعض اوقات ایک انداز بے پروائی سے بیان کرجاتے ہیں۔ ان کے برخلاف میر تمام واقعات کو واقعات کی سطح پر برتتے ہیں اور ان میں جذباتی یا تجرباتی معنویت اور اہمیت داخل کرتے ہیں۔ واقعات کی کثرت اور ان کی جذباتی معنویت کی بنا پر میر کی دنیا، غالب کی دنیا سے بہت مختلف نظر آتی ہے۔
انتظار حسین نے عمدہ بات کہی ہے کہ ان کو نظیر اکبر آبادی میں ایک افسانہ نگار ور میر میں ایک ناول نگار نظر آتا ہے۔ نظیر اکبر آبادی کی حد تک تو ان کی بات میں کلام ہوسکتا ہے، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ میر کی دنیا اپنی وسعت، واقعات کی کثرت، غزل کے روایتی کرداروں کو واقعاتی سطح پر برتنے کی خصوصیت، اور عام زندگی کے معاملات کے تذکرے کے باعث کسی بڑے ناول نگار کی دنیا معلوم ہوتی ہے۔
میر کا کلیات مجھے چارلس ڈکنس (Charles Dickens) کی یاد دلاتا ہے۔ وہی افراتفری، انوکھے اور معمولی اور روز مرہ اور حیرت انگیز کا امتزاج، وہی افراط، وہی تفریط، وہی بے ساختہ، مگر حیرت انگیز مزاح، وہی بھیڑ بھاڑ۔ معلوم ہوتا ہے ساری زندگی اس کلیات میں موج زن ہے۔ زندگی کا کوئی ایساس تجربہ نہیں، عارفانہ وجدان اور مجذوبانہ وجد سے لے کر رندانہ برہنگی تک کوئی ایسا لطف نہیں، ذلت، ناکامی، نفرت، فریب، شکستگی، فریب خوردگی، پھکڑپن، زہر خند، سینہ زنی سے لے کر قہقہہ، جنسی لذت، عشق کی خود سپردگی اور محویت تک کوئی ایسا جذبہ اور فعل نہیں، جس سے میر نے اپنے کو محروم رکھا ہو۔ ایسی صورت میں ذہنی ساخت اور رویے کی مماثلت کے باوجود دونوں کے کلام کا تاثر مختلف ہونا لازمی ہے۔
ممکن ہے آپ کو خیال آئے کہ غالب اور میر کے درمیان شعریات کا کم وبیش مشترک ہونا کوئی خاص بات نہیں اور اس کی بنا پر یہ رائے قائم کرنا کہ دونوں کی ذہنی ساخت ایک طرح کی تھی، جلد بازی ہوگا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہند ایرانی شعریات اردو کے تمام کلاسیکی شعرا میں مشترک ہے، کوئی وجہ نہیں کہ مثلاً ناسخ یا آتش کی بھی شعریات وہی نہ ہو جو غالب اور میر کی تھی۔
اس بات میں تو کوئی کلام نہیں کہ شاعری کے بارے میں بہت سی عمومی باتیں اردو کے تمام کلاسیکی شعرا میں مشترک ہیں اور ہونا بھی چاہیے۔ لیکن عام طورپر مشترک تفصیلات کے باوجود بنیادی جزئیات میں اختلاف ممکن، بلکہ ضروری ہے۔ یہ اختلاف کئی وجہوں کی بنا پر ہوسکتا ہے۔ ان میں سے ایک وجہ لاعلمی یا کم فہمی بھی ہوسکتی ہے، جیسا رند کے اس شعر سے ظاہر ہوا ہوگا، جو میں نے اوپر نقل کیا ہے، لیکن یہ اختلاف ذہنی ساخت کی بنا پر بھی ہوسکتا ہے اور بنیادی اتفاق کے باوجود دیگر کے چلن کی بنا پربھی۔ آتش کے بارے میں کہہ چکاہوں کہ وہ میر کے مضامین بے تکلف استعمال کرتے ہیں۔ اس بنا پر گمان گذر سکتا ہے کہ شاعری کے بارے میں ان کے خیالات میر سے مشابہ ہوں گے۔ بات بڑی حد تک صحیح ہے۔ ان کے دو شعر جن میں سے ایک بہت مشہور ہے، حسب ذیل ہیں،
کھینچ دیتا ہے شبیہ شعر کا خاکہ خیال
فکر رنگیں کام اس پر کرتی ہے پرواز کا
بندش الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں
شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا
(دیوان اول)
یہ آتش کا عجز نظم ہے کہ پہلے شعر میں concept یعنی تصورات ژولیدہ اور غیرقطعی ہیں۔ ’’خیال‘‘ اور ’’فکر رنگیں‘‘ کو اصطلاحوں کے طورپر برتاہے۔ لیکن ’’فکر رنگیں‘‘ مہمل ہے۔ یہ بات تو اہم ہے کہ معشوق کی شبیہ خیالی ہوتی ہے، یا معشوق ہی خیالی ہوتا ہے۔ لیکن یہ بات واضح نہیں ہوئی کہ شبیہ یار میں ’’پرواز‘‘ (یعنی جلال اور آرائش‘‘ کا کام فکر رنگیں کس طرح کرتی یا کرسکتی ہے۔ کیا ’’فکر رنگیں‘‘ سے تخیل مراد ہے؟ یا اس سے وہ صلاحیت مراد ہے جوایسے الفاظ حاصل کرلیتی ہے جن کا تاثر محاکاتی ہوتا ہے یا گوناگونی کا ہوتاہے؟ یہ غیرقطعیت آتش کی فکر کاقصور ہے، ورنہ بنیادی خیال وہی ہے جو میر کے یہاں ہے۔ دیوان سوم،
نقش کسو کا درون سینہ گرم طلب ہیں ویسے رنگ
جیسی خیالی پاس لیے تصویر چتیرے پھرتے ہیں
دوسرے شعر میں آتش نے مناسبت کا اصول بیان کیا ہے۔ نگ کتنے ہی خوش رنگ اور قیمتی کیوں نہ ہوں، اگر وہ مناسب ترتیب سے اور مناسب مقام پر نہیں ہیں اور رنگ ڈھنگ کے اعتبار سے ایک دوسرے سے ہم آہنگ نہیں ہیں تو زیور ناکام اور بدصورت ٹھہرے گا۔ یہی حال شعر کا ہے، کہ الفاظ نگینوں کی طرح ہیں، خود قیمتی اور خوبصورت ہیں لیکن ان کو مناسبت اور ہم آہنگی کے ساتھ استعمال نہ کیا جائے تو شعر کا مرتبہ گرجاتاہے۔
اب یہ اور بات ہے کہ آتش بہت اچھے شاعر نہیں ہیں، لہٰذا وہ خود ان اصولوں کی پابندی نہیں کرتے لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ آتش کی شاعری کو پرکھنے کے لیے اسی شعریات کی ضرورت ہے جس کو ہم میر کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو آتش کی شاعری کے بارے میں غلط نتائج نکلیں گے (جیساکہ اکثر ہوا بھی ہے۔)
اوپر میں نے غالب اور میر کے شعری کی دنیاؤں کا فرق ظاہر کرنے کے لیے لکھا تھاکہ میر کی دنیا روز مرہ کے واقعات سے بھری ہوئی ہے، اور ان واقعات کو وہ ایک جذباتی معنویت بخش دیتے ہیں۔ ان کے یہاں کرداروں کی کثرت ہے۔ غالب کی دنیا اگرچہ میرہی کے اتنی بھرپور ہے لیکن اس میں واقعات اور کرداروں کی یہ کثرت نہیں، اس لیے دونوں کا تاثر مختلف معلوم ہوتاہے۔ اس بات کو واضح کرنے کے لیے میر اور غالب کے ایک ایک شعر کا مطالعہ دلچسپ اور کارآمد ہوگا۔ دونوں شعروں میں مرکزی کردار، یعنی شاعر اور عاشق کی موت کا ذکر ہے،
میر،
جہاں میں میر سے کا ہے کو ہوتے ہیں پیدا
سنا یہ واقعہ جن نے اسے تاسف تھا
(دیوان سوم)
غالب،
اسد اللہ خاں تمام ہوا
اے دریغا وہ رند شاہد باز
میر کے یہاں ابہام اور کنایہ دونوں بہت خوب ہیں، ابہام اس لیے کہ ’’کاہے کو ہوتے ہیں پیدا‘‘ سے مراد بھی نکلتی ہے کہ میر جیسے لوگ شاذ ہی پیدا ہوتے ہیں اور یہ بھی کہ آخر میر جیسے لوگ (یعنی اتنے بدنصیب اور تکلف سے جینے مرنے والے لوگ) پیدا ہی کیوں ہوتے ہیں؟ ’’میر سے‘‘ میں بھی ابہام ہے کہ میر جیسے غیرمعمولی لوگ یامیر جیسے بدنصیب لوگ یا میر جیسے عاشق وغیرہ۔ کنائے کا حسن یہ ہے کہ موت کا ذکر براہ راست نہیں کیا، بلکہ ’’یہ واقعہ‘‘ کہہ کر اس کو ثابت کیا اور یہ ابہام بھی رکھ دیا کہ میر کی موت یا قتل قابل ذکر واقعہ ہے۔ روز مرہ کے ایک واقعے میں میر اس طرح جذباتی معنویت اور شدت بھر دیتے ہیں۔
اب کرداروں کی کثرت دیکھیے۔ ایک تو میر خود، ایک وہ شخص جو اس شعر کا متکلم ہے اور تیسرا بڑا گروہ ان لوگوں کا جنھوں نے یہ واقعہ سنا اور تاسف کیا پھر متکلم ایک نہیں بلکہ دو ہیں۔ ایک تو وہ شخص جو اس شعر میں بول رہا ہے یعنی جس کی زبان سے پورا شعر ادا ہواہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ پہلا مصرع کسی اور شخص نے بولاہے، اس کو سن کے تصدیق کے طورپر دوسرا شخص جواب دیتا ہے۔ بنیادی طورپر یہ شعر کیفیت کا شعر ہے لیکن یہ کیفیت بھی ان تہ در تہ باریکیوں سے پیدا ہوئی ہے۔
غالب کا شعر بھی ان کے بہترین اشعار میں سے ایک ہے۔ یہ شعر بھی بنیادی طورپر کیفیت کا شعر ہے، لیکن اس کی دنیا میں کردار صرف تین ہیں۔ ایک تو خود غالب اور دوسرے وہ دو شخص جو اس شعر کے متکلم ہیں یعنی ایک شخص پہلے مصرعے کا متکلم ہے دوسرا شخص دوسرے مصرعے کا۔ غالب کی شخصیت ’’رند شاہد باز‘‘ سے قائم ہوتی ہے اور بہت خوب قائم ہوتی ہے۔ لیکن اس میں مزید امکانات نہیں۔ ’’تمام ہوا‘‘ میں گہری سانس کھینچنے اور المیہ انجام کی کیفیت غیرمعمولی قوت کی حامل ہے۔ غالب کی پوری زندگی سامنے آجاتی ہے، محسوس ہوتا ہے کہ رندی اور شاہد بازی میں طفلانہ کھنڈرے پن کے علاوہ کسی گہری اندرونی کمی کو چھپانے کی کوشش بھی تھی۔ المیاتی کیفیت اور کردار کی پیچیدگی نے شعر کو عام واقعے کی سطح سے بہت بلند کردیا ہے۔ لیکن اس کی دنیا، اس کا لہجہ، اس کی زبان، یہ سب ایک نسبتاً محدود مقام locale سے متعلق ہیں۔ میر کی طرح غالب نے بھی دو متکلموں کا امکان رکھ دیا ہے کیونکہ ممکن ہے پورا شعر ایک ہی شخص نے بولا ہو، یا پہلا مصرع ایک شخص نے اور دوسرا کسی اور شخص نے، لیکن دوسرے مصرعے کا لہجہ چونکہ روز مرہ سے دور ہے، اس لیے مکالمے کا التباس اتنا مؤثر جتنا میرکے شعر میں ہے۔
غالب کے یہاں روز مرہ سے دوری کا ذکر مجھے میر کی اس خصوصیت کی طرف لاتا ہے جسے میں ان کے عظیم ترین کارناموں میں شمار کرتا ہوں یعنی یہ کہ میر نے روز مرہ کی زبان کو شاعری کی زبان بنادیا۔ یہ کام ان کے علاوہ کسی سے نہ ہوا، اور اس کی وجہیں متعین کرنا آسان نہیں۔ ’’روز مرہ‘‘ کی تعریف بظاہر مشکل معلوم ہوتی ہے کیونکہ روز مرہ شخص، طبقے اور علاقے کے ساتھ تھوڑا یا بہت بدلتا رہتا ہے۔ تاریخ بھی اس پر اثر انداز ہوتی ہے، حالانکہ میر کی حد تک تاریخ کوئی اہم بات نہیں کیونکہ ہم اس روز مرہ کا ذکر کررہے ہیں جو میر کے زمانے میں مروج تھا۔
کہا جاسکتا ہے کہ روزمرہ کا استعمال میر کے بہت سے ہم عصروں کے یہاں بھی ملتا ہے، پھر میر کی خوبی کیا ہے؟ اس کا جواب یہی ہے کہ میر کے ہم عصروں کے یہاں روز مرہ شاعری کی سطح پر نہیں، بلکہ اظہار خیال کی سطح پر برتا گیا ہے۔ جرأت، مصحفی اور میر کے سو سو شعروں کا موازنہ اس بات کو واضح کردے گا کہ جرأت اور مصحفی کے یہاں وہ تہ داری اور پیچیدگی نہیں ہے جو میر کے یہاں ہے۔ ان لوگوں کا روز مرہ محض روز مرہ ہے۔ اس میں زبان کا سطحی لطف ہے، شاعری نہیں ہے۔ میر کا جو شعر میں نے اوپر نقل کیاہے وہ اس بات کی مثال کے طورپر کافی ہے کہ میر نے روز مرہ کو شاعری کس طرح بنادیاہے۔
لیکن روز مرہ کی تعریف قائم کرنا ضروری ہے، ورنہ غالب کی زبان کو بھی روز مرہ کا درجہ کیوں نہ دیا جائے؟ آڈن (Auden) نے لکھا کہ عام زبان تو محض اس کام آسکتی ہے کہ اس میں زندگی کے عام سوال جواب ہوسکیں، مثلاً یہ کہ ’’اس وقت کیا بجا ہے؟‘‘ یا ’’اسٹیشن کا راستہ کون سا ہے؟‘‘ آڈن کہتا ہے کہ شاعر کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس زبان کو جو روز مرہ کے کاروبار میں لگ کر اپنی معنویت کھودیتی ہے، شاعری کے معنویت کوش کاروبار میں کس طرح لگائے۔ اردو کی حد تک یہ مسئلہ اتنا گمبھیر نہیں ہے کیونکہ اردو میں ادبی زبان اور روز مرہ کی زبان بڑی حد تک الگ الگ وجود رکھتی ہیں۔ محض اضافتوں کا ہی استعمال دونوں زبانوں کو الگ کرنے کے لیے کافی ہے۔ لیکن آڈن کے قول کی روشنی میں روز مرہ کی تعریف متعین کرنے کی کوشش ہوسکتی ہے۔
آڈن کے خیالات بڑی حد تک والیری (Valery) سے ماخوذ ہیں۔ والیری کہتا ہے کہ وہ زبان جو عام ضروریات کے لیے استعمال ہوتی ہے، وہ اپنا مقصد پورا کرکے ختم ہوجاتی ہے یعنی وہ بیان جس میں کسی عام، عملی ضرورت یا خیال کا اظہار کیاگیا ہو، اپنا مافی الضمیر اپنے مخاطب تک پہنچانے کے بعد بے کار ہوجاتاہے۔ زبان کے اس استعمال کو والیری عملی یا مجرد استعمال کہتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ ’’زبان کی عملی یا مجرد استعمالات میں بیان ناپائدار ہوتا ہے یعنی زبان کی ہیئت یا اس کا وہ طبیعیاتی، ٹھوس حصہ، جسے ہم گفتگو کا عمل کہہ سکتے ہیں، افہام کے بعد قائم نہیں رہتا۔ یہ روشنی میں گھل جاتا ہے یعنی وہ روشنی جو بیان کا منشا سمجھ لینے کے بعد حاصل ہوتی ہے۔) اس کا عمل پورا ہوچکا ہوتا ہے، اس نے اپنا کام انجام دے لیا ہوتاہے۔ اس نے کہنے والے کا مافی الضمیر واضح کردیا ہوتا ہے۔ اس کی زندگی پوری ہوچکی ہے۔‘‘
یعنی وہ بیانات جو عملی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کہے یا لکھے جاتے ہیں، اپنا مقصد پورا کرنے کے بعد غیرضروری اور بے معنی ہوجاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ عملی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے جو بیانات کہے یا لکھے جاتے ہیں، ان کی صورت روز مرہ کی ہوتی ہوگی یا ان کی حیثیت روز مرہ کی ہوتی ہوگی۔ والیری کاکہنا ہے کہ یہ زبان شاعری کے کام نہیں آسکتی۔ شاعری کی حیثیت زبان بنانی پڑتی ہے۔ عام زبان، جسے والیری ’’پبلک کی زبان‘‘ کہتا ہے، روایتی اور غیرعقلی ہیئتوں اورقاعدوں کا مجموعہ ہوتی ہے، ایسا مجموعہ جو بے ڈھنگے پن اور قاعدگی کے خلق کردہ، ملاوٹ سے بھرپور اور ’’لفظیات کے صوتی اور معنیاتی ردووبدل‘‘ کا آئینہ دار ہوتا ہے۔
والیری اسی بنا پر شاعری اور زبان اور نثر میں فرق کرتا ہے۔ وہ اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ شاعری میں بھی افکار وتصورات بیان ہوتے ہیں۔ ’’افکار‘‘ کی تعریف وہ یوں کرتا ہے، ’’فکر وہ کارگذاری ہے جو چیزوں کو ہمارے اندر زندہ کردیتی ہے، جو وجود نہیں رکھتیں۔۔۔ اور ہمیں اس بات پر قادر کرتی ہے کہ ہم جزو کو کل، صورت کو معنی سمجھ لیں، جو ہم میں التباس پیدا کرتی ہے کہ ہم اپنے بے چارے پیارے جسم سے الگ ہوکر بھی دیکھ سکتے ہیں، افعال کو عمل میں لاسکتے ہیں، دکھ اٹھا سکتے ہیں۔۔۔‘‘ والیری کہتا ہے کہ یہ خیال غلط ہے کہ شاعری کے تفکر کی گہرائی سائنس داں یا فلسفی کے تفکر کی گہرائی سے مختلف ہوتی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ شاعر کے شاعرانہ عمل میں تفکر اور تجرید فکر موجود ہوتی ہے، شعر کے باہر اسے تلاش کرنا فضول ہے۔
تھوڑا سا غور بھی اس بات کو واضح کردے گاکہ والیری جس قسم کے شاعر کا ذکر کررہا ہے، وہ غالب کی طرح کا شاعر ہے یعنی ایسا شاعر جو ایسی زبان سے گریز کرتاہے جو عام ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ والیری کا شاعر وہ شخص ہے جس کی شاعری ہی تجریدی فکر ہے، اس لیے اس کی زبان لامحالہ سطحی بیانات کے برعکس عمل کرتی ہے جو ٹھوس معلومات کی ترسیل اور ادبی زبان استعمال کرتاہے، ایسی زبان جو تجریدی فکر سے مملو ہوتی ہے۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ زبان جو تجریدی فکر سے مملو نہیں ہوتی اور جسے والیری عام ضرورت کو پورا کرنے کے مقصد کے لیے کام آنے والی زبان کہتاہے، روز مرہ کی زبان ہوگی۔ ایسی زبان تصورات سے عاری ہوگی، اس میں نازک یا باریک جذبات یا جذبات کے نازک یا باریک پہلوؤں کے اظہار کی بھی قوت نہ ہوگی۔ ایسی زبان میں آپ کھانے چائے کا آرڈر دے سکتے ہیں، ممکن ہے یہ بھی کہہ سکیں کہ ’’مجھے تم سے محبت ہے‘‘، لیکن اس زبان کو استعمال کرتے ہوئے آپ خدا کی واحدیت اور اس کی احدیت کا فرق نہیں واضح کرسکتے۔ اس زبان کو استعمال کرتے ہوئے آپ یہ بھی نہیں واضح کرسکتے کہ آپ کی محبت اور مجنوں کی محبت میں کیا مشابہت اور کیا مغائرت ہے، لہٰذا روز مرہ کی تعریف یہ ہوئی، وہ زبان جو تصورات (Concepts) اور نازک یا باریک جذبات (subtle emotions) کو ادا کرنے کی قدرت سے کم وبیش عاری ہو۔ ظاہر ہے کہ ایسی زبان میں بڑی شاعری نہیں ہوسکتی، بلکہ شاید شاعری ہی نہیں ہوسکتی۔
واضح رہے کہ والیری کی تہذیب میں ’’روز مرہ‘‘ نام کی کوئی اصطلاح نہیں ہے۔ والیری صرف شاعری اور غیرشاعری کی زبان میں فرق کرسکتاہے، اس نے روز مرہ کی تعریف نہیں بیان کی ہے۔ اس کے یہاں روز مرہ تھا ہی نہیں یعنی وہ مہذب، بامحاورہ زبان جو عوامی بول چال سے مختلف اور نفیس تر ہے، لیکن جس میں تصوراتی اور جذباتی تفریقات یعنی categories بیان کرنے کی قوت نہیں ہے، لیکن والیری اور آڈن کے خیالات کی روشنی میں روز مرہ کی تعریف قائم ہوسکتی ہے۔ چونکہ روز مرہ یا کم وبیش روز مرہ میں ہمارے یہاں بہت ساری شاعری لکھی گئی ہے، اس لیے ہمارے یہاں اس کی خاص اہمیت ہے۔ خاص کر اس لیے کہ اکثر لوگوں نے روز مرہ کی ناطاقتی کو ہی اس کی خوبی سمجھا اور اس کو ’’زبان کی شاعری‘‘ سے تعبیر کیا۔
شاعری تو ایک ہی ہوتی ہے۔ زبان کی شاعری اور تصورات کی شاعری کی تفریق مہمل ہے۔ وہ منظوم کلام جو ہمارے یہاں روز مرہ پر مبنی ہے، اس کا بڑا حصہ غیرشعر کی ضمن میں آتا ہے۔ اگر میر نے بھی اسی زبان پر اکتفا کی ہوتی جو ’’زبان کی شاعری‘‘ والوں کے یہاں ملتی ہے تو وہ بھی مصحفی، جرأت، قائم اوریقین وغیرہ کی طرح طبقہ دوم کے شاعر ہوتے۔ میر ’’روز مرہ‘‘ کے یا ’’زبان‘‘ کے شاعر نہیں ہیں۔ ان کی بڑائی اس بات میں ہے کہ انھوں نے روز مرہ کو شاعری کی زبان میں بدل دیا یعنی اس میں وہ قوتیں داخل کیں جو تصوراتی اور جذباتی تفریقات کا احاطہ کرسکیں، لیکن زبان کی جڑیں پھر بھی روز مرہ ہی میں پیوست رہیں۔ انہوں نے ناممکن کو ممکن کردکھایا اور اس طرح کہ آج تک اس کا بدل نہ ہوسکا۔
یہاں اس بات کی بھی وضاحت ضروری ہے کہ اگرچہ روز مرہ میں شخص، ماحول اور عہد کے اعتبار سے تبدیلی ہوتی رہتی ہے لیکن اس کی ایک بنیادی ہیئت ہرزمانے میں ہوتی ہے، چاہے وہ مثالی اور خیالی ہی ہو۔ ممکن ہے میر کا روز مرہ جرأت اورانشاء کے روز مرہ سے الگ رہا ہو، لیکن یہ تینوں ایک دوسرے کے روز مرہ کو روزمرہ کی اسی حیثیت سے تسلیم کرتے تھے۔ آج بھی میرا روز مرہ آپ سے مختلف ہوسکتا ہے، لیکن بنیادی صفات کے اشتراک کی وجہ سے ہم دونوں کو ایک دوسرے کی زبان سمجھ لینے اور اسے روز مرہ قرار دینے میں کوئی جھجک نہیں ہوتی، لہٰذا میر بھی اس مثالی اور خیالی روز مرہ کے دائرے میں ہیں جو ان کے زمانے میں رائج تھا۔ یہ اور بات ہے کہ میر نے روز مرہ کی بنیاد پر اپنی شاعری کی زبان تعمیر کی اور اس طرح شاعر کی زبان کے بارے میں بہت سے مفروضات کو بدلنے یا توڑنے کا عمل کیا۔
میر کے زمانے میں اردو میں ادبی اور علمی نثر کا وجود تھا لیکن بہت شاذ۔ النادر کالعدم کا حکم اس پر صادق آتا تھا، اس لیے ان کی زبان کا موازنہ صرف شاعروں کی زبان سے ہوسکتاہے، اور ان کے کارنامے کی عظمت کا پورا احساس آسانی سے نہیں ہوسکتا۔ ادبی نثر سے میری مراد وہ نثر ہے جس میں تصوراتی اور جذباتی تفریقات قائم کرنے کی صلاحیت ہولیکن جس میں جذباتی تفریقات کا حصہ زیادہ ہو، تصوراتی تفریقات کا کم۔ انشا پردازانہ نثر اور بیش تر بیانیہ نثر اور تھوڑی بہت تنقید کی بھی نثر اس ضمن میں آتی ہے۔ اس نثر میں روز مرہ کو بہت کم دخل ہوتاہے۔ ادبی نثر معلوماتی بھی ہوسکتی ہے۔ علمی نثر میں تصوراتی تفریقات کا عمل زیادہ ہوتا ہے، جذباتی تفریقات کا کم اور روز مرہ اس میں تقریباً نہیں کے برابر دخیل ہوتاہے۔
میر کے سامنے زبان کے وہی نمونے تھے جو شاعری میں دستیاب تھے۔ ممکن ہے ’’کربل کتھا‘‘ انھوں نے دیکھی ہو لیکن اس میں قدیم اردو اس قدر ان مل بے جوڑ تھی کہ وہ نمونے کا کام نہ دے سکتی تھی۔ غالب کا زمانہ آتے آتے اردو میں ادبی نثر وجود میں آچکی تھی۔ یہ زیادہ تر داستانوں کی شکل میں تھی۔ اس میں شاعری کی زبان کا التباس تھا، لیکن تہ داری نہ ہونے کی وجہ سے وہ شاعری میں بجنسہ کام نہ آسکتی تھی۔ تھوڑی بہت علمی نثر بھی لکھی جارہی تھی، اس میں تفریقات کو بیان کرنے کے لیے غیرفطری اردو کا استعمال نمایاں تھا۔
غالب کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ ایسی زبان بناناچاہتے تھے جو شاعری کی زبان ہو، یعنی جس میں علمی اور ادبی دونوں طرح کی زبانوں کی ساری قوتیں ہوں اور کم زوریاں کوئی نہ ہوں یا کم سے کم ہوں۔ غالب اپنی کوشش میں بڑی حد تک کام یاب ہوئے اور ان کی زبان آئندہ کے تمام شعرا کے لیے ایسا آئڈیل بن گئی جس کو حاصل کرنے کی سعی ہی ان شعراکی زندگی کا ماحصل ٹھہری۔ حسرت موہانی اور آرزو لکھنوی اور داغ اور آزاد انصاری اور عظمت اللہ خاں جیسے چھوٹے بڑے لوگوں نے ہزار زور مارا، یگانہ نے ہزار منھ ٹیڑھاکرکے گالیاں دیں، لیکن غالب جو زبان خلق کرگئے وہی اردو شاعری کی زبان رہی اور آج تک ہے۔
سودا نے اپنی مثنوی ’’سبیل ہدایت‘‘ اور عبدالولی عزلت نے اپنے دیوان پر جو دیباچے لکھے تھے، وہ اس عہد کی ادبی نثر کے معدودے چند نمونوں میں سے ہیں جو ہم تک پہنچے ہیں۔ دونوں کی شکل خاصی غیرفطری معلوم ہوتی ہے، لیکن ان کاکوئی فقرہ ایسا نہیں جو ان کی شاعری میں نہ کھپ سکے۔ انشا نے ’’دریائے لطافت‘‘ میں میر غفر غینی کی جو گفتگو درج کی ہے وہ بہت فطری معلوم ہوتی ہے، لیکن اس کے بہت کم فقرے ایسے ہیں جو میر کے کلام میں بجنسہ کھپ سکتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوسکتاہے کہ اس وقت کی مروج شعری زبان سے انحراف اور روز مرہ کو شاعری بنانے کا علم جو میر نے سرانجام دیا، وہ غالب کے کارنامے سے کم وقیع نہ تھا۔
غالب کے زمانے میں کم سے کم اتنا تو تھا کہ زبان کے بہت سے نمونے موجود تھے، لہٰذا غالب کو رد وقبول اور غور وخوض کے مواقع تو مہیا تھے۔ میر کے سامنے تو ایک ہی نمونہ تھا، یعنی اس وقت کی شعری زبان، جس کی مثالیں سودا اور حاتم وغیرہ کے یہاں ملتی ہیں۔ سوداکی زبان بیش تر ادبی تھی اور حاتم وغیرہ کی زبان پر روز مرہ کا اثر زیادہ تھا، لہٰذا وہ زبان اپنی مروج شکل میں میر کے کام کی نہ تھی۔ سودا کی شاعرانہ حیثیت میر سے پہلے قائم ہوچکی تھی، کیونکہ وہ میر سے کوئی دس سال بڑے تھے۔ درد البتہ تقریباً میر کے ہم عمر تھے، لیکن انھوں نے شاعری غالباً دیر میں شروع کی اور جو رنگ درد نے اختیار کیا وہ بالآخر غالب کے کام آیا۔ میر کو سودا کا رنگ منظور نہ تھا، کیونکہ ان کی افتاد مزاج اور ذہنی ساخت سودا سے بہت مختلف تھی، اس لیے میر کو اپنا راستہ خود بنانا پڑا، ان کے سامنے کوئی نمونے نہ تھے۔ اس وجہ سے میر کا لسانی کارنامہ غالب کے کارنامہ سے کم تر نہیں، بلکہ کچھ برتر ہی معلوم ہوتا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.