آہنگ
’’آہنگ‘‘ کا پہلا اڈیشن اس شعر سے شروع ہوتا تھا،
دیکھ شمشیر ہے یہ، سازہے یہ، جام ہے یہ
تو جو شمشیر اٹھالے تو بڑا کام ہے یہ
مجاز کی شاعری انہیں تینوں اجزا سے مرکب ہے۔ غالباً اسی وجہ سے ان کا کلام زیادہ مقبول بھی ہے۔ ہمارے بیشتر شعراء نے ان عناصر میں ایک فرضی تضاد کی دیواریں کھڑی کر رکھی ہیں، کوئی محض سازوجام کادلدادہ ہے تو کوئی فقط شمشیر کادھنی، لیکن کامیاب شعر کے لیے (آج کل کے زمانے میں) شمشیر کی صلابت اور سازوجام کاگداز دونوں ضروری ہیں۔
دلبری باقا ہری جادو گری است
مجاز کے شعر میں یہ امتراج موجود ہے
اس امتزاج میں ابھی تک شمشیر کم ہے اور سازوجام زیادہ، اس کی وجہ یہ ہے کہ شمشیرزنی کے لیے ایک خاص قسم کے دماغی زُہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن مجاز کی طبیعت میں زہد کم ہے، لذتیت زیادہ، شمشیرزنی کو میں انقلابی شاعری کے معنوں میں استعمال کر رہا ہوں۔ دماغی زُہد سے میری مراد ہے ایک مخصوص انقلابی مقصد کے نشر واظہار میں کلی ذہنی اور جذباتی یکسوئی، تمام غیرمتعلق جذباتی ترغیبات سے پرہیز، یہ کٹھن اور محنت طلب عمل ہے، مجازؔ ہم سب کی طرح لااُبالی اور سہل نگار انسان ہیں۔ چنانچہ جب بھی انہیں ’ذوق پنہاں‘ کو کامرانی کا موقعہ ملے باز نہیں رہ سکتے۔
مجازؔ کے شعر کاارتقاء بھی ہمارے بیشتر سے مختلف ہے، عام طور سے ہمارے ہاں شعر یاشاعر کاارتقائی عمل یہ صورت اختیار کرتا ہے، سازوجام، ۔۔۔ سازوجام +شمشیر۔ شمشیر، مجازؔ کے شعر میں اس عمل کی صورت یہ ہے۔ سازو جام۔ شمشیر۔ سازوجام+شمشیر، اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ رجعت نہیں ترقی ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ شاعر کے مضمون اور تجربہ میں مطابقت اور موانست زیادہ گہری ہوتی جارہی ہے۔ شاعر کی طبیعت خارجی اور انقلابی مضامین کے اینٹ پتھرکو تراشنے اور جوڑنے جمانے میں زیادہ لذت محسوس کرنے لگی ہے۔
مجازؔ بنیادی طور پر اور طبعاً غنائی شاعر ہے، اس کے کلام میں خطیب کے نطق کی کڑک نہیں، باغی کے دل کی آگ نہیں۔ نغمہ سنج کے گلے کا وفور ہے، یہی وفور مجازؔ کے شعر کی سب سے بڑی خوبی ہے اور اس شعر کی کامیابی کا سب سے بڑا امین، بیچ کے ایک مختصرسے دور کے علاوہ مجاز ہمیشہ سے گاتا رہا ہے۔ اس کے نغموں کی نوعیت بدلتی رہی، لیکن اس کے آہنگ میں فرق نہ آیا۔ کبھی اس نے آغازِ بلوغت کی بھرپور بے فکرانہ خواب نما محبت کے گیت گائے۔
چھلکے تری آنکھوں سے شراب اور زیادہ
مہکیں ترے عارض کے گلاب اور زیادہ
اللہ کرے روزِ شباب اور زیادہ
نور ہی نور ہے کس سمت اٹھاؤں آنکھیں
حسن ہی حسن ہے تاحد نظر آج کی رات
اللہ اللہ وہ پیشانی سیمیں کا جمال
رہ گئی جم کے ستاروں کی نظر آج کی رات
وہ تبسم ہی تبسم کاجمالِ پیہم
وہ محبت ہی محبت کی نظر آج کی رات
کبھی اس خواب کی شکست پر آنسو بہائے
کچھ مجھ کو خبر ہے ہم کیا کیا، اے شورشِ دوراں بھول گئے
وہ زُلفِ پریشاں بھول گئے، وہ دیدۂ گریاں بھول گئے
اے شوقِ نظارہ کیا کہئے، نظروں میں کوئی صورت ہی نہیں
اے ذوق تصور کیا کیجیے، ہم صورت جاناں بھول گئے
کبھی اس خالص تخریبی اور مجبور پیچ و تاب کا اظہار کیا جو موجودہ حال کے متعلق ہر نوجوان کا اضطراری اور پہلا جذباتی ردِّعمل ہوتا ہے۔
جی میں آتا ہے کہ یہ مردہ چاند تارے نوچ لوں
اس کنارے نوچ لوں اور اس کنارے نوچ لوں
ایک دو کا ذکر کیا، سارے کے سارے نوچ لوں
اے غمِ دل کیا کروں، اے وحشتِ دل کیا کروں
بڑھ کے اس اندرسبھا کا سازو ساماں پھونک دوں
اس کا گلشن پھونک دوں، اس کا شبستاں پھونک دوں
تختِ سلطاں کیا میں سارا قصرِ سلطاں پھونک دوں
اے غم دل کیا کروں، اے وحشتِ دل کیا کروں،
کبھی اس تعمیری انقلاب کے اسباب و آثار کا تجزیہ کیا، جس کے نقوش صرف غور و فکر کے بعد دکھائی دینے لگتے ہیں،
اک نہ اک در پر جبین شوق گھستی ہی رہی
آدمیت ظلم کی چکی میں پستی ہی رہی
رہبری جاری رہی، پیغمبری جاری رہی
دین کے پردے میں جنگِ زرگری جاری رہی
ذہن انسانی نے اب اوہام کے ظلمات میں
زندگی کی سخت طوفانی اندھیری رات میں
کچھ نہیں تو کم سے کم خواب سحر دیکھا تو ہے
جب طرف دیکھا نہ تھا اب تک، ادھر دیکھا تو ہے
یہ کافی متنوع مرکب ہے لیکن اس میں کہیں بھی مجاز کا ترنم بے آہنگ، اس کی دھن پھیکی، یا اس کے سر بے سر نہیں ہوئے۔ مجاز کے کلام میں پرانے شعراء کی سہولت اظہار ہے۔ لیکن ان کی جذباتی سطحیت اور محدود خیالی نہیں۔ نئے شعراء کی تراکتِ احساس ہے، ان کی لفظی کھینچاتانی اور توڑ مروڑ نہیں۔ اس کے ترنم میں چاندنی کا سا فیاضانہ حسن ہے۔ جس کے پرتو سے تاریک اور روشن چیزیں یکساں دلکش نظر آتی ہیں۔ غنائیت ایک کیمیاوی عمل ہے، جس سے معمولی روزمرہ الفاظ عجب پراسرار، پرمعنی صورت اختیار کرلیتے ہیں، بعینہ جیسے عنفوانِ شباب میں سادہ پانی مے رنگین دکھائی دیتا ہے یا مَے رنگین کے اثر سے بے رنگ چہرے عنابی ہوجاتے ہیں۔ مجازؔ کو اس کیمیاوی عمل پر قدرت ہے۔
ہمدم یہی ہے رہگزرِ یارِ خوش خرام
گزرے ہیں لاکھ بار اسی کہکشاں سے ہم
ضوفگن روئے حسیں پر شب مہتاب شباب
چشمِ مخمور نشاطِ شب مہتاب لیے
نشۂ نازِ جوانی میں شرابور ادا
جسم ذوقِ گہر و اطلس و کمخواب لیے
سکون دیر، تقدیس کلیسا
گدازِامتِ خیرالبشر بھی
یہ تربت ہے امیر کارواں کی
یہ منزل بھی ہے شمع رہگزر بھی
یہی غنائیت مجاز کو اپنے دور کے دوسرے انقلابی اور رعنائی شاعروں سے ممیزکرتی ہے۔
مجازؔ کی غنائیت عام غنائی شعراء سے مختلف ہے، عام غنائی شعراء محض عنفوان شباب کے دوچار محدود ذاتی تجربات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ لیکن تھوڑے ہی دنوں میں ان تجربات کی تحریک، ان کی شدت اور قوتِ نمو ختم ہوجاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ عام غنائی شعراء کی شاعرانہ عمر بہت کم ہے۔ ان کا اوسط سرمایہ پانچ دس کامیاب عشقیہ نظمیں ہیں۔ بعد میں وہ عمر بھر انہیں پانچ دس نظموں کو دہراتے رہتے ہیں۔ یا خاموش ہوجاتے ہیں، مجازؔ کی غنائیت زیادہ وسیع، زیادہ گہرے، زیادہ مستقل مسائل سے متصل ہے، یہی وجہ ہے کہ اس میں ابھی تک ارتقاء کی گنجائش اور پنپنے کا امکان ہے، اس کے شباب میں بڑھاپے کا رنگ نہیں جھلکتا۔ عام نوجوان شعرا ءکی غنائیت زندگی سے بیزار اور موت سے وابستہ ہے۔ انہیں زندگی کی لذتوں کی آرزو نہیں۔ موت کے سکون کی ہوس ہے، مجازؔ گرم زندگی کے نشے سے چور اور موت کے سرد جمود سے سراسر بیزار ہے۔
مجھے پینے دے، پینے دے کہ تیرے جامِ لعلیں میں
ابھی کچھ اور ہے، کچھ اور ہے، کچھ اور ہے ساقی
یہی وجہ ہے کہ مجازؔ کے شعر میں تھکن نہیں مستی ہے، اداسی نہیں سرخوشی ہے۔ مجازؔ کی انقلابیت، عام انقلابی شاعروں سے مختلف ہے۔ عام انقلابی شاعر انقلاب کے متعلق گرجتے ہیں۔ للکارتے ہیں، سینہ کوٹتے ہیں، انقلاب کے متعلق گا نہیں سکتے۔ ان کے ذہن میں آمد انقلاب کا تصور طوفانِ برق ورعد سے مرکب ہے، نغمۂ ہزار اور رنگینئی بہار سے عبارت نہیں۔ وہ صرف انقلاب کی ہولناکی کو دیکھتے ہیں۔ اس کے حسن کو نہیں پہچانتے۔ یہ انقلاب کا ترقی پسند نہیں رجعت پسند تصور ہے۔ یہ برق و رعد کا دور مجاز پر بھی گزر چکا ہے۔ لیکن اب مجاز کی غنائیت اسے اپناچکی ہے۔
ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تو اس آنچل سے اک پرچم بنالیتی تو اچھا تھا
تقدیر کچھ ہو، کاوشِ تدبیر بھی تو ہے
تخریب کے لباس میں تعمیر بھی تو ہے
ظلمات کے حجاب میں تنویر بھی تو ہے
آمنتظرِ عشرت فردا ادھر بھی آ
برق ورعد والوں میں یہ خلوص اور تیقن تو ہے یہ لوچ اور نغمہ نہیں ہے۔ ان میں انقلاب کی قاہری ہے دلبری نہیں ہے، میں سمجھتا ہوں کہ مجازؔ کی ’خواب سحر‘ اور ’نوجوان خاتون سے خطاب‘ اس دور کی سب سے مکمل اور سب سے کامیاب ترقی پسند نظموں میں سے ہیں۔ مجازؔ انقلاب کا ڈھنڈورچی نہیں، انقلاب کا مطرب ہے، اس کے نغمہ میں برسات کے دن کی سی سکون بخشی خنکی ہے اور بہار کی رات کی سی گرم جوش تاثر آفرینی!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.