Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آج کی اردو کہانی: زبان اور ساخت

طارق چھتاری

آج کی اردو کہانی: زبان اور ساخت

طارق چھتاری

MORE BYطارق چھتاری

    اب تک اردو افسانہ انسانی زندگی کی سنگلاخ زمین پر ایک طویل سفر طے کر چکا ہے۔ اس نے کہیں رومانیت کے عالی شان خیمے لگائے، تو کہیں حقیقت نگار بن کر معاشرے کے روشن و تاریک پہلوؤں کو اجاگر کیا۔ یہی نہیں اس نے بنجر زمینوں کو ہموار کرکے شاداب و سرسبز بھی بنایا اور انسان کی ترقی کے راستے کھول دیے اور خود ترقی پسند کہلایا۔

    جب اس کا سفر جدید انسان کے باطن کی طرف ہوا تو نہایت پیچیدہ اور پوشیدہ رازوں کی گتھیاں سلجھانے میں مصروف ہو گیا۔ یہ وہ منزل تھی جہاں اردو افسانہ اتھاہ گہرائیوں، گہری تاریکیوں اور بےپناہ پیچیدگیوں میں خود الجھ کر رہ گیا تھا۔ وہ آگے بڑھنا چاہتا تھا مگر اپنے محور پر ہی گھومتے رہنا اس کا مقدر بن گیا۔ غالباً وہ اپنی راہ سے بھٹک چکا تھا کہ وہاں سے ایک قافلہ گذرا۔ قافلے کے کچھ افراد کے ہاتھوں میں مشعلیں تھیں، حالانکہ ابھی ان مشعلوں کی روشنی کے دائرے اتنے وسیع نہیں ہوئے تھے کہ تہہ درتہہ جمے اور دور تک پھیلے اندھیرے پر فتح پا سکیں۔

    وقت گزرتا گیا، روشنی بڑھتی گئی اور بھٹکے ہوئے افسانے کو راستہ مل گیا۔ جدیدتر نسل کے جو فنکار اردو افسانے کو تنگ وتاریک اور پرپیچ راہوں سے نکال کر زندگی کی شاہراہ پر لانے میں پیش پیش تھے، ان میں سے چند ہیں، سلام بن رزاق، انور خاں، علی امام نقوی، انور قمر، ساجد رشید، انیس رفیع، شوکت حیات، عبدالصمد، حسین الحق، شموئل احمد، شفق، بیگ احساس، نورالحسنین، انجم عثمانی، ابن کنول، سید محمد اشرف، پیغام آفاقی اور غضنفر۔

    ایک بار منٹو نے بیدی کو لکھا تھا کہ تم لکھنے سے پہلے سوچتے ہو، لکھتے وقت سوچتے ہو اور لکھنے کے بعد بھی سوچتے ہو۔ آج انیس رفیع، پیغام آفاقی، سید محمد اشرف اور خالد جاوید جیسے افسانہ نگار بھی بےسمتی کے شکار لایعنی معاشرے کی عکاسی کرنے کے لیے غور و فکر کی ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہوتے ہیں۔ لہٰذا بیشتر تخلیق کاروں کے افسانوں میں کردار بھی سوچتے ہیں، راوی بھی کسی گہری سوچ میں غلطاں و پیچاں نظر آتا ہے، اردو افسانے کی پوری فضا غور و فکر میں ڈوبی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ نتیجتاً سنجیدہ اور Genuine نقاد یا باذوق قاری افسانے کے عنوان سے ہی غور و خوض کے عمل سے گزرنے لگتا ہے اور افسانہ ختم ہونے کے بعد بھی اس کی فکر کا عمل جاری رہتا ہے۔

    بس بعض پیشہ ور اور رجعت پسند ناقدین کو کچھ سوچنے کی ضرورت نہیں پڑتی، چلیے اس کام سے بھی بچے۔ ہاں اگر وہ کبھی از راہ کرم سوچنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں اور نئے افسانوں کو اپنی بندھی ٹکی تھیوریوں اور محض نظریات کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو افسانوں کے اصل موضوع، ان کی تہہ میں موجود معانی اور افسانہ نگار کے وژن تک رسائی کرنے لگتے ہیں۔ خود بھی الجھتے ہیں اور قارئین کو بھی الجھاتے ہیں۔ یوں بھی آج کل اردو کے دانش اور نقاد کثرت سے یہ فرمان جاری کر رہے ہیں کہ نئے تخلیق کاروں کو صحیح اور اچھی زبان نہیں آتی۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ جسے ہم غلطی اور نقص سمجھتے ہیں، وہ تبدیلی بھی تو ہو سکتی ہے۔ یہ سبھی جانتے ہیں کہ وقت اور زمانے کے ساتھ ساتھ زبان کا تبدیل ہونا ناگزیر ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو آج بھی ہم فضلی اور ملا وجہی کے زمانے کی ’’معیاری‘‘ اردو بول رہے ہوتے۔ میں سمجھتا ہوں آج کے افسانہ نگاروں کی فکر اور ان کے افسانوں کے موضوعات، کردار، واقعات، مناظر اور مسائل کا ساتھ وہی زبان دے سکتی ہے جو وہ لکھ رہے ہیں۔ اردو کے بعض عالم محض زبان کی اوپری سطح کو بنیاد بناکر افسانہ پرکھنے پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک خستہ، رواں، رنگین، روایتی اور مہذّب زبان میں ہی اچھّے افسانے لکھے جاسکتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر ایک تجربہ کرکے دیکھیے۔ مشرف عالم ذوقی کے افسانوں کو سیّد محمد اشرف کی زبان میں لکھیے اور سید محمد اشرف کے افسانوں کو مشرف عالم ذوقی کی زبان میں۔ کیا حشر ہوگا؟ غالباً آپ ایسا کیے بغیر ہی اچھی طرح اندازہ لگا سکتے ہیں۔

    جب یہ کہا جاتا ہے کہ اس افسانے کی زبان بہت اچھی ہے تو یہاں اچھی زبان سے مراد ہوتی ہے، موضوع کے لحاظ سے مناسب ترین زبان۔ ہم اسے تخلیقی نثر بھی کہہ سکتے ہیں۔ تخلیقی نثر کو Define کرنا آسان نہیں ہے، اس لیے کہ تخلیق سے الگ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ پروفیسر قاضی عبدالستار جو خود بہت اچھے نثر نگار ہیں، فرماتے ہیں،

    ’’تخلیقی نثر کا کوئی فرمہ نہیں ہوتا۔ وہ موضوع کے بیچ سے درخت کی طرح پھوٹتی ہے اور شاخ پر پھول کی طرح پھولتی ہے۔ تخلیقی نثر کسی رنگ کی بھی پابند نہیں ہوتی۔ تخلیقی نثر پہاڑوں کی وہ برف ہے جو موضوعات کے سورج کی ہر کرن سے رنگ مانگ لیتی ہے اور صدرنگ ہو جاتی ہے۔ رنگ کی طرح لفظ بھی اپنی ذات سے نہ خوبصورت ہوتے ہیں اورنہ بدصورت۔ لفظوں کا مصور اپنی ضرورت کے مطابق رنگ استعمال کرتا ہے یعنی لفظوں کو برتتا ہے۔ لفظوں کی یہ طلسم کاری محمد حسین آزاد کی دربار اکبری، پریم چند کے کفن، قرۃ العین حیدر کے ہاؤسنگ سوسائٹی میں دیکھی جا سکتی ہے۔ تینوں نثر پاروں کی نثر اپنے موضوع کی پابند ہے اور ایک کے موضوع سے دوسرے کی نثر نہ صرف یہ کہ انصاف نہیں کر سکتی بلکہ تخلیق کاخون کر دےگی۔‘‘

    ’’فکشن کے موضوعات دنیا کی کثیر آبادی کی طرح کثیر ہیں۔ حیات و کائنات کی طرح لامحدود ہیں۔ انسان نے کوئی خواب ایسا نہیں دیکھا جو فکشن کی دسترس سے دور رہ سکا۔ انسانیت کی کوئی کروٹ ایسی نہیں ہے جس کا عکس اپنے آئینے میں موجود نہ ہو۔ کائنات کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جس کا مطالعہ ہماری کتابوں میں نہ کیا جا سکتا ہو اور اگر یہ سچ ہے اور یقیناً سچ ہے تو بھی تخلیقی نثر کی تصویر کسی فریم میں گرفتار نہیں کی جا سکتی۔ اگر ہمارا موضوع نازک کیفیات، نازک ترجذبات اور نازک ترین احساسات پر حاوی ہے تو پھر ہماری نثر بھی اتنی ہی نازک اتنی ہی دلکش پر تاثیر اور بےمحابہ ہوگی۔‘‘

    (تخلیقی نثر، اردو فکشن، ص، 284)

    قاضی عبدالستار کے خیال کی روشنی میں اگر ہم موجودہ عہد کے افسانوں کی زبان کا جائزہ لیں تو ہمیں موضوع سے زبان کی مناسبت اور ہم آہنگی کا تجزیہ کرنا ہوگا۔ ابھی کچھ عرصے قبل تک اردو ہندی افسانے کا تقابل کرتے وقت یہ بات کہی جاتی تھی کہ اردو افسانہ تکنیک کے تجربوں، فنی باریکیوں، فلسفیانہ اور نفسیاتی پیچیدگیوں اور معنی کی تہہ داریوں کے لیے مشہور ہے تو ہندی افسانہ موضوعات کے تنوع کے لیے۔ چونکہ ہندی کہانی کاروں کا سنسکرت ڈرامے کے علاوہ سوانگ اور نوٹنکی جیسے عوامی تھیٹر، رام لیلا اور راس لیلا جیسے مذہبی کھیل اور ہندوستانی رسم ورواج سے براہِ راست تعلق تھا، اس لیے ہندی کہانی کے موضوعات، پیش کش اور شلپ میں تنوع پیدا ہوا۔

    سماج سے مضبوط اور گہرا رشتہ ہونے کے سبب ہندی کا ادیب زمین سے جڑ گیا اور اس کی تخلیقات میں مختلف علاقوں کے رنگ بھرنے لگے۔ کہانی کسی مخصوص طبقے کی جاگیر نہیں رہی بلکہ پس ماندہ طبقے نے اپنا حق مانگنے کے لیے قلم کا سہارا لیا اور مراٹھی کے ’’دلت ادب‘‘ کی طرح ہندی میں بھی اسی نوع کے موضوعات نے جگہ پائی۔ نتیجتاً ہندی کہانی کا دامن بہت وسیع ہو گیا۔ ہندی کے مصنف ہمیشہ سے ہندوستان کے مختلف صوبوں، شہروں، قصبوں اور دیہی علاقوں میں آباد تھے اور بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے مسئلے کو کہانیوں کا موضوع بنا رہے تھے۔

    لہٰذا یہ لازمی تھا کہ ہندی کہانی میں وسعت اور تنوع پیدا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ چندر دھرشرما گلیری، جے شنکر پرساد، ینیندر، یش پال، رانگے راگھو، پھینشورناتھ رینو، نرمل ورما، راجندر یادو، موہن راکیش، کملیشور، منو بھنڈاری، شری کانت ورما، امرکانت، گیان رنجن، بھیشم ساہنی، کاشی ناتھ سنگھ، رویندرکالیا، کرشن بلدیو، دھرم ویر بھارتی، دودھ ناتھ سنگھ، ممتا کالیا، سلیش مٹیانی، امرت رائے، اصغر وجاہت، سوئم پرکاش، مدراکشش اور اودے پرکاش وغیرہ کی کہانیوں کے موضوعات، اسالیب اور فنی تجربے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔

    اردو کی صورتِ حال اس سے کچھ الگ تھی۔ پریم چند، راجندر سنگھ بیدی اور احمد ندیم قاسمی کے بعد اردو افسانے سے دیہات آہستہ آہستہ غائب ہونے لگا اور جدیدیت کا دور آتے آتے اردو افسانہ صرف شہروں تک محدود ہو گیا۔ لہٰذا موضوعات کا دائرہ تنگ ہوکر فرد اور فرد کی ذات تک سمٹ گیا مگر افسانے میں فکر، فلسفے، انسانی نفسیات اور زندگی کی مختلف جہتوں کو اس طرح پیش کیا جانے لگا کہ موضوعات کا تنوع نہ ہوتے ہوئے بھی اس کی اہمیت اور عظمت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

    انسانی ذات کی گہرائیوں، فلسفے کی گتھیوں، نفسیات کی باریکیوں اور جدید زندگی کی پیچیدگیوں کو سماجی حقیقت نگاری اور سادہ بیانی کے پیرایے میں پیش کرنا ممکن نہیں تھا، اس لیے اردو کے افسانہ نگاروں نے اسلوب کے نیے سانچے ڈھالنے اور فنی نزاکتوں کا خیال رکھتے ہوئے تکنیک کے نئے نئے تجربے کرنے پر اپنی پوری توجہ اور تخلیقی صلاحیت صرف کی۔ نتیجتاً اُردو افسانے میں 1960ء کے بعد بیانیہ اسلوب کی بجائے علامت نگاری اور تجریدیت کا رجحان عام ہوا۔ اس رجحان کے نمائندہ افسانہ نگار انور سجاد، بلراج مین رااور سریندر پرکاش نے کئی کامیاب افسانے بھی لکھے۔ اُس دور میں ادیب سماج کی بجائے فرد اور خارجی مسائل کی جگہ داخلی مسائل پر زور دیتے تھے۔ ذات کو کئی حصّوں میں تقسیم کرنے کا رویہ عام تھا۔

    جدید افسانہ نگار اپنی تخلیقات میں فرد کی ذہنی اور داخلی کیفیات کو تمثیلیں بناکر پیش کر رہے تھے اور سماجی یا سیاسی انتشار کی بجائے فرد کی ذات کا کرب جدید افسانوں کا موضوع بن رہا تھا۔ حالانکہ بیشتر افسانہ نگار ذات کے اس کرب کا سبب سماج یا سیاسی نظام میں ہی تلاش کرتے تھے۔ بالخصوص سریندر پرکاش کے افسانوں میں اپنے دور کے نظام سے بیزاری صاف طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ ’’بجوکا‘‘ اور ’’بازگوئی‘‘ اس کی واضح مثالیں ہیں۔ ’’رونے کی آواز‘‘ میں بھی مصنف نے ایک فرد کی منقسم ذات اور اس کی داخلی کیفیات کی تمثیلوں کے ذریعے آزاد ہندوستان کے معاشرے کی عکاسی کی ہے۔ افسانے کا پہلا جملہ انگریزی گیت کا ایک ٹکڑا ہے،

    ’’فلاور انڈر ٹری از فری۔۔۔‘‘ یعنی پھول درخت کے سائے تلے آزاد ہے۔

    یہ گیت مرکزی کردار کے گھر آنے والا ایک شخص، جو غالباً مرکزی کردار کی ذات کا ہی ایک حصہ ہے، سامنے کرسی پر بیٹھا گا رہا ہوتا ہے۔ کہانی کا آغاز یوں ہوتا ہے،

    ’’سامنے والی کرسی پر بیٹھا ابھی ابھی وہ گا رہا تھا۔ مگراب کرسی کی گدی پر اس کے جسم کے دباؤں کا نشان ہی باقی ہے۔ کتنا اچھا گاتا ہے وہ۔ مجھے مغربی موسیقی اور شاعری سے کچھ ایسی دل چسپی تو نہیں ہے، مگر وہ کم بخت گاتا ہی کچھ اس طرح ہے کہ میں کھو سا جاتا ہوں۔ وہ گاتا رہا اور میں سوچتا رہا، کیا پھول درخت کے سائے تلے واقعی آزاد ہے؟‘‘

    یہیں سے ایک سوال جنم لیتا ہے، پھر اس سوال کے بطن سے مختلف سوالات پیدا ہونے لگتے ہیں اور مصنف افسانے کے مرکزی کردار کے حوالے سے خود اپنی ذات کے ہر پہلو کو کھنگالنا شروع کر دیتا ہے۔ افسانے کی نیم تاریک فضا قاری کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور وہ بھی اس عمل میں برابر کا شریک ہو جاتا ہے۔ پھول کے آزاد ہونے کا اشارہ تو کچھ کچھ سمجھ میں آتا ہے مگر گھنا اور پیچیدہ درخت قاری کے ذہن میں مزید تناور ہونے لگتا ہے اور اس کا سایہ بہت دور تک پھیلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ کبھی وہ ہندوستانی معاشرے کی شکل اختیار کر لیتا ہے تو کبھی اس سیاسی نظام کی جس کی بنیاد انگریزی طرز پر رکھی گئی ہے اور یہ سیاسی نظام انگریزوں کے جانے کے بعد بھی ان کی موجودگی کا احساس دلاتا رہتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے مغربی دھن پر انگریزی گیت گانے والے شخص کے چلے جانے کے بعد بھی کرسی کی گدی پر اس کے جسم کے دباؤ کا نشان باقی تھا۔

    اپنے افسانے ’’بجوکا‘‘ میں بھی سریندر پرکاش نے ’’بجوکا‘‘ کو موجودہ سیاسی یا جمہوری نظام کی علامت بنانے کے لیے جو ہیئت عطا کی ہے، اس سے ان کا نقطۂ نظر واضح ہو جاتا ہے،

    ’’ارے تم کو میں نے کھیت کی نگرانی کے لیے بنایا تھا۔ بانس کی پھانکوں سے اور تم کو اس انگریز شکاری کے کپڑے پہنائے تھے جس کے شکار میں میرا باپ ہانکا لگاتا تھا اور وہ جاتے ہوئے خوش ہوکر اپنے پھٹے ہوئے خاکی کپڑے میرے باپ کو دے گیا تھا۔ تیرا چہرہ میرے گھرکی بے کار ہانڈی سے بنایا تھا اور اس پر انگریز شکاری کا ٹوپ رکھ دیا تھا۔ ارے تو بے جان پتلا میری فصل کاٹ رہا ہے۔‘‘

    بجوکا کسان کے ہاتھوں بنایا گیا ایک ایسا بےجان ڈھانچہ ہے، جسے وہ اپنے کھیت کی نگرانی کے لیے تیار کرتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے موجودہ جمہوری نظام میں عوام حکومت اپنے ہاتھوں سے بناتے ہیں اور حکومت عوام کے تحفّظ کے لیے ہوتی ہے۔ ہمارے موجودہ جمہوری نظام کی تشکیل کس طرح ہوئی ہے، اس کا علامتی اظہار سریندر پرکاش نے اس افسانے میں بڑی خوبی سے کیا ہے۔ افسانہ نگار اس نظام کے Symbol یعنی بجوکا کو انگریزوں کا اتارا ہوا لباس پہنادیتا ہے اور اپنے گھر گھر کی ہانڈی سے بنے ہوئے سرپر انگریز شکاری کا ٹوپا رکھ دیتا ہے۔ شکاری سے مراد انگریز حاکم ہے۔ ظاہر ہے انگریز حاکموں کا رویّہ شکاریوں جیسا ہی تھا اور کچھ ہندوستانی ماتحت اس کے شکار میں ہانکا لگانے جیسے کام پر معمور تھے۔

    ’’رونے کی آواز‘‘ میں بھی سریندر پرکاش نے درخت اور اس کے سائے تلے آزاد پھول کو اسی نقطۂ نظر سے دیکھا ہے۔ آگے چل کر افسانہ نگار درخت کے معنی کھولتا ہے اوروہ اسے سماج یا سیاسی نظام کہنے کی بجائے تہذیب کی علامت بتاتا ہے،

    ’’اگر درخت تہذیب کی علامت ہے تو ہم اس کے سائے میں روتے ہوئے آزاد پھول ہیں۔‘‘

    یہاں لفظ ’’تہذیب‘‘ شاید اس لیے استعمال ہوا ہے کہ اس کا دائرہ سماج یا سیاسی نظام کے مقابلے میں وسیع ہے اور پھر اس طرح مصنّف وضاحتی اسلوب سے بچ کر اتنا ابہام قائم رکھنے میں کامیاب ہو گیا ہے جتنا افسانے کے حسن کے لیے ضروری تھا۔

    اردو میں سریندر پرکاش کے علاوہ بلراج مین را، انور سجاد، خالدہ حسین اور احمد ہمیش نے بھی علامتی، تجریدی، تمثیلی اور استعاراتی اسلوب میں متعدد کامیاب افسانے تخلیق کیے مگر اب صورت حال تبدیل ہو چکی ہے۔

    ہندی کے کہانی کاروں کی طرح آج اردو کے افسانہ نگاروں کی بھی خاصی تعداد چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہات میں قیام پذیر ہے۔ اب افسانہ صرف دہلی، بمبئی یا لکھنؤ میں نہیں لکھا جا رہا ہے بلکہ یوپی، بہار، پنجاب، مہاراشٹر، آندھرا، کرناٹک اور راجستھان کے قصبات اور دیہات سے تعلق رکھنے والے افسانہ نگار اپنے اپنے علاقے کے مسائل کو اپنی تخلیقات میں پیش کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے جب وہ کسی مخصوص علاقے کے کسی مخصوص مسئلے کو اپنے افسانوں کا موضوع بنائیں گے تو زبان میں بھی اس علاقے کا مخصوص رنگ صاف نظر آئےگا اور اگر ایسا ہوتا ہے تو زبان تبدیل ہوگی، اس کا Sophistication ختم ہوگا اور وہ درباری زبان کی بجائے عوامی زبان کی شکل میں نمو پائےگی۔ اس نوع کی تبدیلی فطری بھی ہوگی اور ادب کو بامعنی، موزوں، برمحل، تروتازہ، زندہ جاوید، متحرک اور سچا بنانے کے لیے ضروری بھی۔ البتہ زبان کی تبدیلی کو قبول کرنے کا مطلب قواعد کے لحاظ سے غلط زبان یا کم علمی کی بنا پر زبان کے غلط استعمال کی وکالت نہیں ہونا چاہیے۔ بدلی ہوئی زبان کی مثال میں سلام بن رزاق کے افسانے ’’انجام کار‘‘ کی چند سطریں ملاحظہ ہوں،

    ’’سانجھ کی پرچھائیاں گھِر آئی تھیں۔۔۔ ٹین کی کھولیوں کے چھجوں سے نکلتا ہوا دھواں، ادھر ادھر بہتی نالیوں کی بدبو اور ادھ ننگے بھاگتے دوڑتے بچوں کا شور۔۔۔ میں جب اپنی کھولی کے سامنے پہنچا تو دیکھا کہ میرے دروازے کے سامنے گندے پانی کی نکاسی کے لیے جو نالی بنی تھی، اس میں شامو دادا کا ایک چھوکرا دیسی شراب کی کچھ بوتلیں چھپا رہا ہے۔ ’’دادا نے یہ چھے بوتلیں یہاں چھپانے کو بولا۔۔۔‘‘

    ’’یہ بوتلیں یہاں سے ہٹاؤ۔ یہ گٹر تمھاری بوتلیں چھپانے کے لیے نہیں بنی ہے۔‘‘

    ’’اپن کو نہیں معلوم، دادا نے یہاں چھپانے کو بولا تھا۔‘‘

    ’’ساب! جاستی ہوسیاری دکھائےگا تو بھاری پڑےگا۔‘‘

    ’’میں نے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ اس آوارہ چھوکرے کے منھ لگنا بےکار تھا میں کھاٹ پر لیٹ گیا۔۔۔ اس قسم کے دنگے یہاں تقریباً روز ہی ہوا کرتے تھے مگر اتوار کا دن ہفتے بھر کے چھوٹے موٹے جھگڑوں کا فیصلہ کن دن ہوتا، کیوں کہ اس دن اِن عورتوں کے شوہروں، بیٹوں اور دوسرے عزیز رشتے داروں کی چھٹی کا دن ہوتا جو موٹرورک شاپوں، ملوں اور دیگر چھوٹے موٹے کارخانوں میں کام کرتے تھے۔ اس دن شنکر پاٹل کا مٹکے کا کاروبار بھی کلوز رہتا۔‘‘

    (نیا اردو افسانہ، ص:220)

    یہاں مکالموں کی زبان کا معیاری اردو سے مختلف ہونا تو فطری ہے مگر مصنف کی زبان یعنی Narrative کا بھی علاقے، زمانے اور ماحول کے لحاظ سے مختلف ہونا افسانے کو زیادہ روشن اور حقیقی بناتا ہے۔ مثلاً مٹکے کا کاروبار بھی ’’بند رہتا‘‘ لکھنے کی بجائے مصنف نے ’’کلوز رہتا‘‘ لکھنا پسند کیا، کیوں کہ بمبئی کے عوام میں یا ایک خاص طبقے میں مٹکے کے کاروبار کے ساتھ ’’بند‘‘ کی جگہ لفظ ’’کلوز‘‘ زیادہ رائج ہے۔ لہٰذا مقامی الفاظ سے پر اس عوامی زبان کے استعمال کی وجہ سے افسانے کو ایک زمین مل گئی، ایک علاقہ مل گیا اور مصنف کو مقام، ماحول اور زمانہ بتانے کے لیے الگ سے تفصیلات بیان کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ اس طرح تخلیق کار بےجا طوالت سے گریز کرتے ہوئے افسانے کے پلاٹ کو زیادہ چست اور Compact بنانے میں کامیاب ہو گیا۔

    شوکت حیات کے افسانے ’’سرخ اپارٹمنٹ‘‘ کا ایک اقتباس،

    ’’ابھی ابھی اس کی نظر دور سے آتی ہوئی کار کے شیشے سے جھانکتے ہوئے دیرینہ رفیق عامر کے چہرے پر پڑی تھی۔۔۔ وہ احتجاجی مظاہرے کی قیادت کر رہا تھا۔۔۔ شریانوں اور اعصاب کے نسیجی نظام میں گہماگہمی اور اتھل پتھل ہوئی لیکن بانہوں پر کالی پٹیاں باندھے نپے تلے قدموں سے وہ آگے بڑھتا رہا۔ اس کے پیچھے پیچھے بہت سارے لوگ اس جلوس میں اس کے ہم قدم تھے۔

    کچھ ہی دنوں پہلے اونچی سرخ عمارت منہدم ہوئی تھی۔

    مکینوں کی ناعاقبت اندیشی نے اسے اس حال تک پہنچایا تھا۔۔۔ دودھیا روشنی کی عادی آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی رنگ برنگی روشنی قطعی پسند نہ تھی۔ تکرار اور بحث لازمی تھی۔ اس جھگڑے کے تدارک کے لیے یا شرارت سے کسی نے مین سوئچ ہی آف کر دیا۔ ہرطرف اندھیرا پھیل گیا۔‘‘

    (شب خون، جون، جولائی 1995، ص، 184)

    اگر ہم زبان کی بنیاد پر اس افسانے کا تقابل سلام بن رزاق کے افسانے سے کریں تو معاملہ بالکل برعکس نظر آئےگا۔ سلام بن رزاق کی زبان کے متعلق پیش کی گئی Thesisکے مطابق شوکت حیات کے اس افسانے میں عربی فارسی الفاظ کی گنجائش نہیں تھی۔ جس مخصوص علاقے کی یہ کہانی ہے، اسے depict کرنے کے لیے ثقیل اردو کی جگہ ہندی اور علاقائی زبان کے لفظوں کی تعداد زیادہ ہونی چاہیے تھی۔

    مگر چوں کہ یہ افسانہ خالص حقیقت پسند افسانہ نہیں ہے بلکہ حقیقت اور علامت کا امتزاج ہے، اس لیے شوکت حیات جب قاری کے ذہن کو حقیقی فضا سے کہیں دور لے جاکر افسانے کے علامتی ہونے کا احساس کرانا چاہتے ہیں یا اس کے کسی علامتی مفہوم سے روشناس کرانا چاہتے ہیں تو اردو کے مشکل اور نسبتاً غیر مانوس الفاظ استعمال کرتے ہیں تاکہ علاقائیت کی بجائے آفاقیت کا گمان ہو سکے اور جب وہ قاری کو حقیقی واقعے کی طرف واپس لانا چاہتے ہیں تو عام فہم الفاظ بلکہ ’’مین سوئچ‘‘ اور ’’آف‘‘ جیسے انگریزی کے لفظوں کا بےتکلف استعمال کرتے ہیں۔ ان انگریزی الفاظ کا اردو متبادل پوری سچویشن کو غیر فطری اور مصنوعی بنا سکتا تھا۔ زبان کے استعمال کا یہ شعور نئی نسل کی ایک اہم خصوصیت ہے۔

    لسانی سطح پر ’’ٹ‘‘ اور ’’ڈ‘‘ جیسے خالص ہندوستانی حروف کا ایسے افراد کے نام میں داخل ہو جانا، جن کے اجداد باہر سے آئے تھے، اس بات کا ثبوت ہے کہ اب ان کی جڑیں ہندوستان کی مٹی میں بہت گہرائی تک پیوست ہو چکی ہیں، اسی لیے اب اگر کوئی انھیں باہری کہتا ہے تو تکلیف ہوتی ہے اورنام پوچھے جانے پر جواب میں وہ ان حروف کو بہت زور دے کر ادا کرتے ہیں۔ اس احساس کی جانب غضنفر نے اپنے افسانے ’’تانا بانا‘‘ میں نہایت معنی خیز اشارہ کیا ہے۔ اقتباس،

    ’’کیوں بے! تمھاری یہ ہمت ہو گئی کہ محلے کے بچوں پر ہاتھ چھوڑنے لگے؟‘‘

    ’’قصور وار میں نہیں بلکہ یہ ہے۔۔۔‘‘ بٹو نے اس لڑکے کی طرف اشارہ کیا جس کی حقارت آمیز آواز سے بات بڑھ گئی تھی۔

    ’’اس نے کیا قصور کیا ہے؟‘‘

    ’’اس نے مجھے گالی دی تھی۔‘‘

    ’’کیا گالی دی تھی؟‘‘

    ’’اسی سے پوچھ لیجیے۔‘‘

    ’’گڈو! تم نے اسے گالی دی تھی؟‘‘

    ’’نہیں، میں نے تو کیول باہری کہا تھا۔‘‘

    ’’کیا نام ہے تمھارا؟‘‘

    ’’کامران علی عرف بٹو‘‘

    ’’کس کے بیٹے ہو؟‘‘

    ’’لڈن علی خاں کا۔‘‘

    ایسا محسوس ہوا جیسے اس نے ’’ٹ‘‘ اور ’’ڈ’’پر کافی زور دیا ہو۔‘‘

    (نیاورق، ص، 25-24)

    Nudeاور Naked حقیقت نگاری کے دور میں جہاں مسائل کی پیشکش کا طریقۂ کار براہِ راست ہوگا وہیں افسانے کی زبان کا Straightforward ہونا فطری بھی ہے اور اسلوب کی سب سے بڑی ضرورت بھی۔ لہٰذا نئے کہانی کاروں نے بالواسطہ انداز اور علامتی اسلوب سے حد درجہ پرہیز کیا اور جرات سے کام لے کر مقامات، افراد، اداروں یا سیاسی پارٹیوں کے اصل نام کے ساتھ تفصیلات بیان کرنے کی حتی الامکان کوشش کی۔ جب کہ ایسا کرنے میں افسانوی فضا مجروح ہونے اور صحافتی راست گوئی کا الزام لگنے کا خطرہ لاحق تھا۔ یہ نئے افسانے نگاروں کی اپنے موضوعات اور اپنے عہد کے مسائل سے بےپناہ وابستگی ہی ہے جس کی وجہ سے ان کی تخلیقات میں کسی قسم کی صناعی کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی اور زبان ایک مختلف پیکر اختیار کر لتی ہے۔ شموئل احمد کا افسانہ ’’چھگمانس‘‘ اس کی بہترین مثال ہے۔ اقتباس،

    ’’کپور چند ملتانی کو شنی کی ساڑھے ساتی لگی تھی۔ وہ کبھی بھاگ کر مدراس جاتا کبھی جےپور۔۔۔ ان دنوں کٹھمنڈو کے ایک ہوٹل میں پڑا تھا اوررات دن کبوتر کی مانند کڑھتا تھا۔ کبھی اپنا خواب یاد آتا کبھی جیوتشی کی باتیں یاد آتیں، کبھی یہ سوچ کر دل بیٹھنے لگتا کہ آگ اس نے لگائی اور فائدہ بی جے پی نے اٹھایا۔

    وہ الیکشن کے دن تھے۔ ملتانی پرانا کانگریسی تھااور متواتر تین بار ایم ایل اے رہ چکا تھا۔ لیکن اب راج نیتک سمی کرن بدل گئے تھے۔ منڈل اور کمنڈل کی سیاست نے سماج کو دو حصّوں میں بانٹ دیا تھا۔ دلت چیتنا کی لہر زور پکڑ رہی تھی۔ سیاسی اکھاڑوں میں سماجک نیائے کا نعرہ گو نجتا تھا۔ کپور چند ملتانی ذات کا برہمن تھا اور اب تک بیک ورڈ کے ووٹ سے جیتتا رہا تھا۔ لیکن اس بار امید کم تھی۔ زیادہ سے زیادہ اس کو فاورڈ کے ووٹ ملتے، بیک ورڈ اس کے خیمے میں نہیں تھے۔ وہ چاہتا تھا کسی طرح قلیت اس کے ساتھ ہو جائے لیکن آثار نہیں تھے اور یہی اس کی پریشانی کا سبب تھا اور یہی وہ دن تھے جب اس نے دو خواب دیکھے۔

    اس نے پہلی بار دیکھا کہ چھگمانس چھت کی منڈیر پر بیٹھا اس کو پکار رہا ہے۔ اس کے ناخن کرگس کے چنگل کی طرح بڑھ گئے تھے۔ اس نے جیوتشی سے خواب کی تعبیر پوچھی۔ جیوتشی نے خواب کو نحس بتایا اور اس کا زائچہ کھینچا۔ ملتانی کی پیدائش برج ثور میں ہوئی تھی اور طالع میں عقرب تھا۔ زحل برج دلو میں تھا لیکن مریخ کو سرطان میں زوال حاصل تھا۔ مشتری زائچہ کے دوسرے خانے میں تھا۔ عطارد، شمس اور زہرہ سبھی جَوزَا میں بیٹھے تھے۔

    جیوتشی نے بتایا کہ شنی میکھ راشی میں پرویش کر چکا ہے۔۔۔ ملتانی نے ساڑھے ساتی کا اپچار پوچھا۔ جیوتشی نے صلاح دی کہ وہ گھوڑے کی نعل اور تانبے کی انگوٹھی میں ساڑھے سات رتی کا نیلم دھارن کرے اور یہ کہ دونوں انگوٹھیاں شنی وار کے دن ہی بنیں گی۔‘‘

    (القمبوس کی گردن، ص، 04)

    اس افسانے کی نثر میں جیوتش کی اصطلاحات کے علاوہ عربی فارسی انگریزی اور سنسکرت کے وہ الفاظ شامل ہیں جو عموماً فکشن کی زبان میں استعمال نہیں ہوتے تھے مگر ان کو اس روانی اور فطری انداز میں برتا گیا ہے کہ کہیں کسی لفظ کا کوئی بدل رکھنا تقریباً ناممکن معلوم ہوتا ہے۔ اس روانی اور فطری انداز کے پیدا ہونے کا سبب یہ ہے کہ افسانے کا موضوع انہی الفاظ کا متقاضی تھا۔ دراصل آج کے افسانہ نگار کو واقعے کی صداقت کا راز زبان کے فطری استعمال میں مل گیا ہے۔ اس کے نزدیک زبان کی خوبصورتی کی معراج یہ ہے کہ کردار، واقعات اور مناظر تمام تر سچائیوں کے ساتھ پیش ہوں۔ وہ ایسے لفظ تلاش کرتا ہے جوواقع کی صداقت کو ثابت کریں نہ کہ محض خارجی سطح پر خوبصورت، شائستہ اور شیریں ہوں۔ ان کا سنسکرت، انگریزی، عربی یا فارسی کا ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔

    اس نقطۂ نظر سے اگرہم اس نسل کے ممتاز فکشن نگار عبدالصمدکے افسانوں کے عنوانات پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ جہاں ان کے ایک افسانے کا عنوان ’’عجوبۂ روزگار‘‘ ہے وہیں ’’میوزیکل چیئر‘‘ اور ’’اپ ہرن‘‘ بھی۔ ’’اپ ہرن‘‘، ’’سیتاہرن‘‘ کی طرح کوئی تلمیح نہیں ہے بلکہ دور حاضر کی ایک تلخ حقیقت ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ طرزِ تحریر کسی ایک یا چند افسانہ نگاروں نے اتفاق سے اختیار کر لیا ہو بلکہ یہ اسلوب مشرف عالم ذوقی، شفق، بیگ احساس، قاسم خورشید، ساجد رشید، خورشید اکرم اور سید محمد اشرف سبھی کے یہاں ایک مشترک خصوصیات کے طوپر نمایاں ہوا ہے۔ حسین الحق کے افسانے ’’وہ بات‘‘ کے چند ابتدائی جملے ملاحظہ ہوں،

    ’’دھیرے دھیرے شام اتر رہی ہے۔ درختوں پر، درختوں کے پتّوں پر، چاندی کی طرح چمکتے ہوئے مناظر پر، شاہراہوں، گلیوں اور محلوں پر، بالکل ایسے ہی جیسے میرے من پر ایک بےنام اداسی جس کا کوئی نام نہیں، کوئی رنگ نہیں، دھندلا دھندلا ملگجا غم جو چاروں اور پھیلے ہوئے سارے کچھ کو دھیرے دھیرے ا ترتی شام کے سمان کر دے۔‘‘

    (مطلع، ص31)

    درحقیقت زبان کے ساتھ یہ رویہ اسلوب کی خارجی سطح کو اہمیت دینے کی بجائے اس کے معنوی تاثر کو اہمیت دینے کی وجہ سے اختیار کیا گیا ہے۔ آج کا افسانہ نگار محض تفنن طبع کے لیے ادب تخلیق نہیں کرتا بلکہ اس نے اپنے اوپر پرانے لکھنے والوں سے کچھ مختلف ذمے داریاں بھی عائد کرلی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے عہد کے بیشتر افسانہ نگاروں کی طرح پیغام آفاقی کا افسانوی مجموعہ اردو فکشن کی وسیع و عریض چہار دیواری میں ایک نیا باب وا کرتا ہے۔ جتنی سنجیدگی اور فہم و ادراک کے ساتھ وہ لکھتے ہیں، قارئین سے بھی اتنے ہی غور و فکر اور سنجیدگی کا تقاضا کرتے ہیں۔ زندگی کی پیچیدگیوں، مسائل کی باریکیوں اور سیاسی، سماجی، معاشی اتھل پتھل کے متعلق غورو فکر کرنے والے فنکاروں پر زبان کے کھردرے ہونے یا زبان کی روایتی جمالیات سے منحرف ہونے کے الزامات ہمیشہ لگتے رہے ہیں۔ بیدی بھی چوں کہ بہت سوچ بچار کر لکھتے تھے، اسی لیے سب سے پہلے یہ الزام ان ہی پر لگاتھا۔ اب یہی الزام نئے افسانہ نگاروں پر لگایا جاتا ہے۔

    اگر ہم پیغام آفاقی کے مجموعے ’’مافیا‘‘ کے دیباچے پر غور کریں تو محسوس ہوگا کہ انھوں نے اپنی طرف سے بلکہ پوری نسل کی طرف سے الزام لگانے والوں کو بہت صاف گوئی اور وضاحت کے ساتھ جواب دے دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں،

    ’’میری کہانی اس قاری کے لیے ہوتی ہے جسے آج کی زندگی کی پیچیدگیوں میں اترکر اس کے اسرار کو سمجھنے میں دلچسپی ہو۔ جن قارئین کو ادب کے اس پہلو میں دلچسپی نہ ہو، مثلاً جنھیں ادب برائے زبان وبیان، ادب برائے تفریح، ادب برائے مشغلہ، ادب برائے پیشہ، ادب برائے تحفظ تمدن، ادب برائے انکشاف تمدن یا ادب برائے ادب میں دلچسپی ہو، ان کے لیے میری کہانیاں نہ لکھی گئی ہیں اورنہ ان کی دلچسپی کو قائم رکھ سکتی ہیں۔‘‘

    (مافیا، پیش لفظ)

    پیغام آفاقی کی یہ آواز، جو صرف ان کی نہیں بلکہ ہمارے عہد کے بیشتر افسانہ نگاروں کے دل کی آواز ہے، اب قارئین اور ناقدین تک پہنچ گئی ہے اور نئے افسانے کی ان امتیازی خصوصیات کو کشادہ ذہن ادبی حلقے نے تسلیم بھی کر لیا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے