Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آشوب آگہی

وزیر آغا

آشوب آگہی

وزیر آغا

MORE BYوزیر آغا

     

    انسان کے ہاں آگہی کی ابتدا کب ہوئی؟ اس سوال کا کوئی حتمی جواب مہیا کرنا مشکل ہے۔ خودعلم الانسان بھی قیاسیات سے آگے نہیں جاسکا۔ البتہ اگر یہ خیال ملحوظ رہے کہ انسان اپنی حیات مختصر میں زندگی کی پوری داستان کو دہرا دیتا ہے توپھر آگہی کے نمود کے واقعہ کو ایک حد تک نشان زد کرنا ممکن ہے۔

    مثلاً یہ دیکھئے کہ زندگی کے تخم کی طرح انسانی تخم بھی سب سے پہلے سمندر (رحم مادر) میں نشوونما پاتا ہے۔ حیاتیات کی رو سے یہ زندگی کے نباتاتی دور کا مرحلہ ہے۔ رحم مادر سے باہر آنے پر انسانی زندگی پہلے چمٹنے پھر رینگنے کے دور میں داخل ہوتی ہے۔ اس کے بعد پاؤں پر کھڑے ہونے کا زمانہ آتا ہے اورآخر میں چلنے کا دور۔ اس آخری دور کے لگ بھگ ایک ایسا واقعہ نمودار ہوتا ہے، جسے آگہی کی ابتدا کا نام دینا چاہئے۔ یعنی جب بچہ پہلی بار اپنی زبان سے کوئی لفظ ادا کرتا ہے۔ مصر کے اہراموں میں سے ایک پر یہ بات لکھی ہوئی ملی ہے کہ کائنات کی ابتدا لفظ سے ہوئی اور پرانا عہد نامہ بھی اس کی توثیق کرتا ہے۔ پہلا لفظ نام ہے۔ جب تک بچہ رحم مادر میں تھا یا پیدائش کے بعد جب تک وہ محض اپنی ماں سے چمٹا رہا تو ماں کواس بے خدوخال کائنات سے الگ نہ کرسکا جواس کے چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی لیکن اس کے بعد جب وہ ’’پہچان‘‘ کے مرحلے میں داخل ہوا اوراس نے پہلی بار ماں کوماں کہہ کر پکارا تو گویا ماں کوکائنات سے الگ کرکے ایک پوری شخصیت تفویض کردی۔ تشخص کا یہ عمل ہی آگہی کی ابتدا کا عمل تھا۔

    واضح رہے کہ پیدائش کے وقت انسانی دماغ کا حجم ۳۳۰ کیوبک سینٹی میٹر سے زیادہ نہیں ہوتا اور یہ حجم وہی ہے جو ایک گوریلا کے بچہ کا ہوتا ہے۔ لیکن لورین ایز لے کہتا ہے کہ انسان کا یہ دماغ زندگی کے پہلے ہی برس میں تین گنا ہوجاتا ہے۔ یہی وہ جست ہے جو حیوانوں میں ظاہر نہیں ہوتی لیکن جو انسان کو انسانی اوصاف عطا کردیتی ہے۔ اگریہ جست ناکام ہوجائے توبچہ ’’احمق‘‘ کے درجے سے اوپر نہیں جاتا۔ 1 مراد یہ ہے کہ انسانی زندگی کے پہلے ہی برس میں جب انسانی دماغ کا حجم معاً تین گنا ہوجاتا ہے تو اس کے ہاں آگہی کی وہ پہلی کرن جاگتی ہے جس کے طفیل ماں سے اس کا انقطاع وجود میں آتا ہے۔ اس سے قبل بچے پر جھکا ہوا ماں کا چہرہ اسے اپنے ماحول ہی کا ایک حصہ محسوس ہوتا تھا مگراس کے بعد اسے یہ ایک الگ ہستی کے روپ میں دکھائی دیا اور اس نے اپنی توتلی زبان میں اسے ماں کہہ کر پکارا۔ دیکھنا چاہئے کہ آسٹریلوپیتھکس سے گرومیگنان مین تک آتے آتے انسان نے کس مقام پر اپنی ماں کوپہچانا کہ یہی اس کی آگہی کی ابتدا تھی۔

    وقت اور مقام کے تعین کے لیے انسانی زندگی کے پورے پس منظر کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ ویسے تودودھ پلانے اور بچہ جننے والے جانوروں کا وہ سلسلہ جس سے انسان بھی متعلق ہے، ارضی وقت کے تقریباً سات کروڑ سالوں پر پھیلا ہوا ہے تاہم جس دور میں آدمی نما ہستی نے پہلی بار اپنے ہونے کا احساس دلایا، علمی زبان میں PILOCENEکہلاتا ہے۔ یہ گرم اورمرطوب زمانہ تھا جوآج سے تقریباً ایک کروڑ دس لاکھ پہلے شروع ہوا اورپھر آج سے تقریباً دس لاکھ پہلے اپنے انجام کو پہنچا۔ اس دور کا آخری حصہ (یعنی آج سے تقریباً بیس لاکھ سال پہلے) اس اعتبار سے اہم ہے کہ اس میں اس آدمی نما ہستی کی ہڈیاں ملی ہیں جسے ریمنڈڈارٹؔ نے آسٹریلو پیتھکس کا نام دیا ہے۔ یہ مخلوق چار پنجوں کے بجائے صرف دو ٹانگوں پر چلتی تھی۔ اس کا قدچار فٹ اور وزن سوامن کے لگ بھگ تھا اور وہ ہتھیار استعمال کرتی تھی جبکہ اسی زمانے میں ایک اور مخلوق جیسے بیرنؔ تھروپس کا نام ملا ہے، قداور وزن میں اس سے بڑی تھی مگرہتھیار استعمال نہیں کرتی تھی۔ یہ دوسری مخلوق جس کادماغ گوریلا کے دماغ سے بڑا نہیں تھا، بالآخر حرف غلط کی طرح مٹ گئی جبکہ آسٹریلوپیتھکس کا سلسلہ نسب جاری رہا۔ مگر یہ آدمی نما ہستی بھی ان اوصاف سے ابھی متصف نہیں ہوئی تھی جن سے انسان کی پہچان ہوتی ہے۔ لہٰذا انسانی شعور کی ابتدا کے سلسلے میں اسے کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں۔

    آج سے تقریباً دس لاکھ سال قبل وہ دور شروع ہوا جسے ماہرین نے PLEISTOCENEکا نام دیا ہے اورجس میں انسانی دماغ نے وہ جست لگائی جس کا مظاہرہ ہر انسانی بچے کی زندگی کے پہلے برس میں ہوتا ہے۔ اس دور سے پہلے کا زمانہ (جس کا اوپر ذکر ہوا) گرم اور مرطوب زمانہ تھا جس میں سست الوجود اور ٹھنڈے خون والے جانوروں کی فراوانی تھی مگر PLEISTOCENEکے دوران میں جب زمین نے جھرجھری سی لی اور کوہ ہمالیہ سے ALPSالپس تک پہاڑوں کا ایک عظیم الشان سلسلہ وجود میں آگیا اور اس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ اور برصغیر ہند وپاک کے وسیع علاقے بارانی طوفانوں کی زد میں آگئے توزمین کے موسم میں تبدیلی آنا شروع ہوئی۔ وہ پہلے گرم یا گرم مرطوب تھا، اب ٹھنڈا ہونا شروع ہوا۔ اس کا پہلا نتیجہ ہی یہ نکلا کہ کریہہ صورت سست الوجود، زمین پر رینگنے والے جانورمر گئے اورکرۂ ارض پر گرم خون والے جانوروں کا تسلط قائم ہوگیا۔

    کم لوگوں نے اس بات پر غور کیا ہے کہ زمین کی کروٹ یا جھرجھری سے سطح زمین پر رہنے والی مخلوق پر کیا گزرتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہماری زمین کوئی مردہ اور ٹھنڈا تودہ خاک نہیں بلکہ ایک زندہ اور اندر سے پگھلے ہوئے گرم مواد کی حامل ایک ’’ہستی‘‘ ہے۔ یہ ہستی جب کسی وجہ سے جھرجھری لیتی ہے تواس کی سطح پر بسنے والی مخلوق یا توصفحہ ہستی ہی سے مٹ جاتی ہے، یا اس قدر تبدیل ہوجاتی ہے کہ پہچانی تک نہیں جاتی۔ اسی طرح بعض اوقات ایک ایسی مخلوق جو پہلے قطعاً پس منظر میں تھی، نئے موسمی حالات میں لپک کر سامنے آتی اور پھلنے پھولنے لگتی ہے۔ بس یہی کچھ PLEISTOCENE دور کے آغاز میں ہوا، جب زمین کی جھرجھری کے باعث پہاڑوں کا ایک پورا سلسلہ وجود میں آگیا۔ پھر برف کی ایک دبیز چادر روئے زمین کے ایک بڑے حصے پر بچھ گئی۔

    قدرت نے برف کی یہ چادر بچھائی اورہر بار اسے لپیٹ کر پرے رکھ دیا۔ آخری بار آج سے تقریباً بارہ ہزار برس پہلے اسے لپیٹا گیا۔ چادر کے بچھانے اور ہٹانے کے درمیانی وقفوں میں سے ہر ایک تقریباً چالیس ہزار برس پر محیط تھا، سوائے ایک کے جو نسبتاً زیادہ عرصہ تک جاری رہا۔ ہماری ساری انسانی تہذیب آخری برفانی مراجعت کے بعدآنے والے بارہ ہزاربرس کے عرصہ میں پروان چڑھی ہے مگرابھی سے پانچویں برفانی یلغار کے شواہد نظرآنے لگے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ آج موسم کے اعتبار سے ہم وہاں ہیں جہاں ۶۵۰۰ ق م میں تھے۔ گویا مزید ساڑھے تین ہزار برس تک پانچویں برفانی یلغار کے شروع ہوجانے کا امکان ہے۔ اگرایسا ہوا تواس کے نتیجے میں سمندر کا پانی کم ہوجائے گا۔ بارانی علاقے خط استوار کی طرف سمٹ جائیں گے اور زمین کا بہت بڑا حصہ کئی ہزار فٹ گہری برف کے نیچے دب جائے گا۔ چونکہ اس وقت تک انسانی آبادی بہت بڑھ چکی ہوگی، لہٰذا انسانوں کے سواد اعظم کا جوحشر ہوگا اس کا ابھی سے کچھ اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

    یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ پہلی برفانی یلغار نے اس دنیا کو ایک بڑی حد تک ملیامیٹ کردیا جو PILOCENEدور میں تقریباً ایک کروڑ برس تک پھلتی پھولتی رہی ہے مگرجب یہ برفانی یلغارختم ہوئی اور نسبتاً گرم زمانے کا آغاز ہوا تو زندگی کے وہ نمائندے جو اس یلغار سے بچ گئے تھے، پر پرزے نکالنے لگے۔ انسان کے آباواجداد انہیں بچ جانے والوں میں سے تھے۔ جب دوسری برفانی یلغار نے مراجعت کی اورایک بارپھر سردی کی شدت کم ہوئی توانسانوں کی جو نسل سامنے آئی، وہ اب آسٹریلوپیتھکس نسل سے بالکل مختلف تھی۔ ماہرین نے اسے HOME ERECTUS کا نام دیا ہے اوراس کے نمائندوں میں جاوامینؔ اور پیکنؔ مین کا بطو ر خاص ذکر کیا ہے۔

    دلچسپ بات یہ ہے کہ پانچ لاکھ قبل مسیح سے ایک لاکھ قبل مسیح کے مختصر سے عرصہمیں انسانی دماغ نے ایک حیرت انگیز جست بھری۔ لورین ایزؔلے اور این جی بیرلؔ اور بعض دوسرے ماہرین نے انسانی دماغ کی اس تبدیلی کو اچانک اورحیرت انگیز قرار دیا ہے اور گو نظریہ ارتقا کے عاشق ابھی تک تدریجی ارتقا کے قائل ہیں، تاہم اب کچھ آوازیں ابھر کر یہ کہنے لگی ہیں کہ ارتقاء نپے تلے قدم اٹھانے کا نہیں بلکہ غیرمتوقع طورپرجست بھرنے کا عادی ہے۔ چنانچہ آسٹریلوپیتھکس اور ہوموایریکٹس کے درمیان ایک بہت بڑا خلا ہے۔ آسٹریلوپیتھکس زیادہ سے زیادہ ایک APE-MANہے جبکہ پانچ لاکھ سال قبل مسیح کے لگ بھگ ہوموایریکٹس اورپھر HOMOSAPIEN جس کے نمائندوں میں ننٹیددرتھلؔ مین اور گرومیگنانؔ مین قابل ذکر ہیں، انسانی اوصاف سے متصف ہے اوراس کا دماغ جملہ قدیم نیم انسانی دماغوں سے حجم میں بڑا اورمختلف ہے۔

    چنانچہ جو صورت حال ابھرتی ہے، وہ مذہبی اعتقادات سے کسی طورپر بھی متصادم نہیں یعنی جس طرح مذاہب کے مطابق آدمؔ کو کسی سابقہ نمونے کے مطابق نہیں بلکہ ایک بالکل نئی صورت میں خلق کیا گیا تھا، اسی طرح علم الانسان اب اس بات کا اعلان کر رہا ہے کہ پانچ لاکھ سے ایک لاکھ قبل مسیح کے درمیانی عرصہ میں انسان کی وہ صورت نمودار ہوئی جو سابقہ تمام صورتوں سے بنیادی طورپر مختلف تھی۔ دیکھنا چاہئے کہ یہ فوری اور انقلابی تبدیلی کیوں کر رونما ہوئی۔

    زمین کے ابھار (جو PLEISTOCENEدور کے آغاز میں ہوا) اورپہلی برفانی یلغار کے درمیانی عرصہ میں انسان کے ’’آباواجداد‘‘ آوارہ گرد تھے اورمشرق وسطیٰ اورجنوب مشرقی ایشیا کے گھاس کے میدانوں میں دوسرے جنگلی جانوروں کے ساتھ رہتے تھے۔ اس وقت تک انہوں نے ہتھیار استعمال کرنے میں ایک حد تک مہارت حاصل کرلی تھی مگر جب دوسری برفانی یلغار ختم ہوئی اور دوسرا اور طویل ترین گرم زمانہ شروع ہوا تو ہم یہ دیکھ کر حیران ہوتے ہیں کہ اب انسان کا دماغ بھی اچانک بڑا ہوچکا ہے اوراس کی صلاحیتیں جن میں بولنے کی صلاحیت بھی شامل ہے معاً سطح پر آگئی ہیں۔

    انسانی دماغ کی اس اچانک تبدیلی اور اس کے نتیجے میں آگہی کی نمو کی کئی وجوہ ہوسکتی ہیں۔ بنیادی وجہ وہ چیلنج ہے جس کا سامنا اسے برف کی یلغار اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال کے باعث کرنا پڑا۔ قدیم انسانی دماغ اشیا میں تفریق اور تمیز نہیں کرتا بلکہ زندگی کو ایک ناقابل شکست اکائی قرار دیتا ہے حتیٰ کہ وہ وقت کو بھی ماضی، حال اورمستقبل کے خانوں میں تقسیم نہیں کرتا بلکہ ایک مستقل ’’اب‘‘ کی فضا میں رہتا ہے۔ دوسری طرف ذہن کی ترقی سے منطقی انداز فکر کو مہمیز لگتی ہے اور امتیازات سطح پر آجاتے ہیں۔ کہنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ برفانی یلغاروں میں ظاہر ہونے والے دوسرے گرم زمانے میں (جب ہوموایریکٹس کو عروج حاصل ہوا) انسان منطقی سوچ کے دور میں داخل ہوگیا تھا، اس نے وقت کو ادوار میں تقسیم کرلیا تھا بلکہ صرف اس قدر کہ اب انسان کے ہاں ایک ایسا ’’ذہنی فراز‘‘ نمودار ہوا جس پر کھڑے ہوکر اسے اپنے اورماحول کے درمیان ایک موہوم سی خلیج نظرآنے لگی۔

    عجیب بات ہے کہ پہاڑوں کا سلسلہ اپنی سطح پر ہی نمودار نہ ہوا بلکہ ذہنی سطح پر بھی معرض وجود میں آیا۔ گو اس سلسلے میں اس کی ایک ارضی سطح بھی ظاہر ہوئی۔ مثلاً این جی بیرل نے لکھا ہے کہ انسانی سر کے بائیں جانب ایک ابھار ہے جس کی مدد سے وہ جسم کے دائیں حصہ کو کنٹرول کرتا ہے۔ بالخصوص دائیں ہاتھ اور دائیں آنکھ کویہی ابھار زبان کی ان حرکات کو بھی کنٹرول کرتا ہے جو گفتگو سے متعلق ہیں۔ یہ ابھار انسانی سر کے بائیں طرف نہیں ہے۔ اب صورت یہ مرتب ہوتی ہے کہ PLETSTOCIN دور کے کسی مقام پر انسانی سر کے بائیں طرف ایک ابھار سا ظاہر ہوا اوریکایک انسان کا دایاں بازو اور دائیں آنکھ توانا ہوگئی، نیز اسے تکلم کی صلاحیت بھی حاصل ہوگئی۔ مگرانسانی دماغ کی یہ ترقی اس ارضی چیلنج کے باعث تھی جو اول اول برفانی یلغاروں کی صورت میں روئے زمین پر نازل ہوا اورجس کے پیش نظر انسان کو جسم وجان کا رشتہ برقرار رکھنے کی اشد ضرورت پڑی۔

    ایک اورمصیبت یہ آئی کہ برفانی یلغاروں کے باعث سست الوجود جانور تو ختم ہوگئے اور گھوڑوں، بیلوں اور ہرنوں وغیرہ کی ایسی نسلیں وجود میں آگئیں جن کی رفتار بہت زیادہ تھی۔ چنانچہ انسان جوپہلے خوشہ چینی کے عمل میں مبتلا تھا اور محض ہاتھ بڑھاکر اپنے لیے غذا حاصل کرسکتا تھا، اب اسے تیزرفتار جانوروں کا شکار کرنے کے لیے ذہنی طورپر چاق وچوبند ہونے کی ضرورت پڑی اوراس کا دماغ ترقی کر گیا۔ پھر ایک عجیب بات یہ بھی ہوئی کہ انسان کا جسم جسے دوسرے جانوروں کی طرح موٹی کھال کا لباس عطا نہیں ہوا (اوراسی لیے وہ نسبتاً زیادہ حساس ہے) جب برفانی یلغاروں کی زد میں آیا تواس نے موسم کے ہروار کو بڑی شدت سے محسوس کیا اور اعصاب کے ذریعے دماغ کو قدم قدم پر اپنے نت نئے تجربات کی رپورٹیں پیش کرنے پر مجبور ہوا۔ نتیجتاً دماغ کو بھی اپنا سکریٹریٹ بڑا کرنا پڑا تاکہ ان تمام پیغامات اور رپورٹوں کو قبول کرسکے جو انسان کا ننگا بدن اسے گویا تار برقی کے ذریعے پہنچا رہا تھا۔

    یوں دیکھئے توانسان کا ننگاپن بھی اس کی ذہنی ترقی میں ممدثابت ہوا۔ اگروہ دوسرے جانوروں کی طرح کھال کے موٹے لبادوں میں ملبوس ہوتا تواس کا دماغ بھی جانور کے دماغ ہی کی طرح موٹا رہتا اور اس میں شعور کی چمک دمک پیدا نہ ہوسکتی۔ اسی دوران میں ایک بات اور بھی ہوئی۔ جب برفانی یلغاروں کے باعث سست الوجود جانوروں کے بجائے تیزرفتار جانور پیدا ہوگئے تو ان کے ساتھ ہی تیزرفتار اور تنومند گوشت خور جانور بھی نمودار ہوگئے اورآدمی کو اپنی حفاظت کے لیے مزید چاق و چوبند ہونا پڑا۔ جسمانی طورپر آدمی کمزور ہے۔ بالخصوص اس کا طویل بچپن ایک نہایت نازک اورخطرناک زمانہ ہے۔ لہٰذا اپنی بقا کے لیے جہاں اس نے قسم قسم کے ہتھیار استعمال کرنا شروع کیے اور ذہنی چالاکی کا مظاہرہ کرنے لگا، وہاں اس نے گروہوں کی صورت میں بھی رہنا شروع کیا تاکہ سب لوگ شکار اور فطرے کی صورت میں یک جان ہوسکیں۔

    اس اشتراکی عمل کی کامیابی کا تمام تر دارومدار اس بات پر تھا کہ گروہ کے سارے افراد ایک دوسرے سے افہام وتفہیم کا سلسلہ قائم کرسکتے۔ یہی وہ مقام تھا جہاں قوت گویائی کی ضرورت پڑی اور ایک لڑھکتی لڑکھڑاتی ہوئی زبان وجود میں آنے لگی۔ چنانچہ یہ کہنا ممکن ہے کہ انسانی دماغ کی انقلابی تبدیلی کی سب سے بڑی وجہ وہ چیلنج تھا جو برفانی یلغاروں نے مہیا کیا اورجس کے نتیجے میں انسان کے بصری دماغ (EYE BRAIN)کی قلب ماہیت ہوگئی۔ بے شک بصری دماغ بن مانسوں کے ہاں بھی ملتا ہے لیکن وہ مکمل بصری دماغ جس میں تکلم کا بعد بھی شامل ہو، صرف انسان ہی کو ودیعت ہوا ہے۔

    چنانچہ دیکھ لیجئے کہ ہماری ساری یادداشت بصری ہے۔ ہمارے خواب بھی تمام تر بصری ہیں اوریہی حال ہماری علامات کا ہے۔ ہم آوارہ گرد تو پچھلے کئی لاکھ برسوں سے ہیں مگریہ آوارہ گردی بھی زیادہ تر بصری ہے۔ آج ہماری آنکھیں نہ صرف پورے ماحول بلکہ پوری کائنات کو ٹٹول رہی ہیں۔ حد یہ کہ چہروں کے خدوخال کو دیکھ کر باطن کے جہان پراسرار میں بھی اتر رہی ہیں۔ ہم فطری طورپر تاریکی سے ترساں ہیں اور اسے زیادہ دیرتک برداشت نہیں کرسکتے۔ سنا ہے اب بعض ممالک میں قیدی کی شخصیت کو توڑنے کے لیے آلات اور ادویات کے بجائے تاریکی کواستعمال کیا جارہا ہے۔ یعنی جب قیدی کو ایک عرصہ تک مکمل تاریکی میں رکھا جاتا ہے تو وہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے۔ اخلاقی اور مذہبی سطح پر بھی ہم نے تاریکی کو شر اور روشنی کو خیر کا نام دیا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کو کامل نور کہہ کر پکارا ہے (کوہ طور کا واقعہ ملحوظ رہے) اسی طرح جملہ مذہبی صحیفوں میں کائنات کا آغاز روشنی کی آمد سے دکھایا گیا ہے۔

    روشنی کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ وہ امتیازات اور تضادات کو سامنے لاتی ہے۔ گویا روشنی میں ہم ایک شے کو دوسری شے سے الگ کرتے ہیں۔ دوسری طرف تاریکی کا ایک ہی رنگ ہے جس میں تمام امتیازات اور تضادات مٹ جاتے ہیں اور یک رنگی کا تسلط قائم ہوجاتا ہے۔ روشنی میں نظردور تک جاسکتی ہے جب کہ تاریکی میں وہ سمٹ کر ایک نقطہ پر مرتکز ہوجاتی ہے۔ مگرروشنی کی دنیا میں انسان کے علاوہ حیوان بھی بستے ہیں۔ انسان کا امتیازی وصف یہ ہے کہ اسے آج سے چند لاکھ سال پہلے بصارت کے علاوہ بصیرت بھی حاصل ہوگئی اور یہ بصیرت اس کے دماغ کا عطیہ تھا مگراصل معجزہ اس وقت رونما ہوا جب بصارت اور بصیرت کسی ایک نقطے پر آکر ملیں اور ’’زبان‘‘ نے اس اتصال سے ابھرنے والے کوندے یعنی آگہی کولفظوں میں سمیٹ لیا۔ گویا اس تمثیل میں تین کرداروں نے حصہ لیا۔ بصارت، بصیرت اور تکلم۔

    ان میں سے بصارت کا ذکر اوپر ہوا۔ اس سلسلے میں مزید یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ انسان کا سلسلہ نسب ان جانوروں سے ملا ہوا ہے جن کے ہاں باصرہ نسبتاً زیادہ تیز ہے۔ مثال کے طورپر PALAEOCENE دور میں جو چوہانما جانور مثلاً SHREWSاور TARRIERSپروان چڑھے۔ وہ ناک سے نہیں بلکہ آنکھ سے شکار کرتے تھے یعنی سونگھ کر نہیں بلکہ دیکھ کر اپنے شکار پر لپکتے تھے۔ گلہری آج بھی اپنی غذا کو ہاتھ میں تھام کر اور اسے دیکھ دیکھ کر کھاتی ہے۔ بعدازاں جانوروں سے پیدا ہونے والے بندر اور بن مانس بھی ’’آنکھ‘‘ کے وسیلے ہی سے زندہ تھے۔ یہ ضروری بھی تھا کیونکہ ان کا گھر درخت کا وہ چھتنار تھا جہاں باصرہ کی توانائی کا ہونا ز ندہ ہونے کے لیے ناگزیر تھا۔ ایک شاخ سے دوسری شاخ پر کودنے کے لیے نہ صرف آنکھ پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے بلکہ دوشاخوں کے درمیانی فاصلے کا اندازہ کرنا بھی ضروری ہے۔ چنانچہ اسی لیے درخت کے ان باسیوں کے ہاں نہ صرف باصرہ کو تقویت ملی بلکہ تیسری جہت THIRD DIMENSION بھی ابھرآئی تاکہ مکان SPACE کی گہرائی کا اندازہ ہوسکے۔

    پھر درخت کا سارا چھتنار رنگوں اور روشنیوں کا ایک میلہ تھا۔ ہزاروں رنگوں کے پھول اور پھل شاخوں پر مزین تھے، جنہیں ہاتھ میں لے کر آنکھوں کے سامنے باربار لانے سے اس مخلوق کے ہاں رنگوں میں تمیز کرنے کی صلاحیت بھی پیدا ہوگئی۔ باقی بیشتر جانور COLOUR BLIND ہیں۔ پھر ان کی آنکھیں بھی آپس میں پوری طرح منسلک 2 نہیں جبکہ انسان اور اس کے سلسلہ نسب کے دوسرے جانوروں کے ہاں دونوں آنکھیں ایک ساتھ حرکت کرکے شے پر مرتکز ہوجاتی ہیں۔ 3 چنانچہ صورت کچھ یوں ابھرتی ہے کہ انسان نے تیسری جہت کا احساس باصرہ کی توانائی، رنگوں میں امتیاز کرنے کا وصف اور دونوں آنکھوں کو ایک نقطے پر مرتکز کرنے کی صلاحیت، یہ سب کچھ وراثت میں حاصل کیا۔ لہٰذا اس کا دماغ بھی دوسرے جانوروں سے مختلف ایک بصری دماغ ہے۔

    اس بصری دماغ کے عقبی حصے میں بصارت کا خانہ ہے جس کے ساتھ ہی یادداشت کا حصہ ہے۔ (وہ حصہ جس میں بصری دماغ اپنی جملہ یادداشتوں کو تصویروں کی صورت میں محفوظ کرتا چلا جاتا ہے۔) اسی طرح اس کے دماغ کا سامنے والا حصہ خوابوں کی آماجگاہ ہے جہاں وہ سوچ بچار کرتا اور آگے کی طرف بڑھنے پر خودکو مائل پاتا ہے۔ یوں اس کے دماغ میں ماضی اور مستقبل کے خانے ابھر آئے ہیں۔ دوسرے جانوروں کے ہاں ’حال‘ کے لمحے پر رکنے کا میلان نہایت قوی ہوتا ہے حتیٰ کہ انسان کے سلسلہ نسب کے جانوروں میں بھی حال کے دائیں یا بائیں زیادہ دور تک جانے کی صلاحیت موجود نہیں جبکہ انسان بیک وقت ماضی اورمستقبل میں دوردور تک آجاسکتا ہے اور ’حال‘ سے بھی بے نیاز نہیں ہوتا۔ یہ سہ پہلو خصوصیت بنیادی طورپر اس کے بصری دماغ کا کرشمہ ہے۔

    انسان کے ہاں آگہی کے وجود میں آنے کا باعث ایک تو اس کا بصری دماغ تھا جو اس نے وراثت میں حاصل کیا۔ دوسری وجہ اس کے ہاں بصیرت کی نمود تھی۔ یہ بصیرت اس طورپر وجود میں آئی جیسے کوئی جزیرہ یکایک سمندر کی سطح پر ابھر آتا ہے۔ قدیم مصر میں یہ عقیدہ رائج تھا کہ کائنات کی تخلیق ایک ٹیلے پر ہوئی تھی۔ چنانچہ یہی مقدس تصور اہرام مصر کی تعمیر کا باعث ثابت ہوا۔ حضرت موسیٰ نے کوہ طورپر روشنی کا کوندا دیکھااور اتنا پشٹمؔ اور پرومیتھس کی کہانیوں کے مطابق پہاڑ کی چوٹی ہی سے دنیا کی ازسرنو ابتدا ہوئی۔ مقدس مقامات بالخصوص مندر (مثلاً امرناتھ) عام طور سے سطح زمین سے خاصی بلندی پر ہیں کیونکہ ’’فراز‘‘ کا آگاہی سے ایک ایسا گہرا تعلق ہے جس کی تاریخ، انسانی زندگی کے تقریباً پانچ لاکھ سالوں اور ارض کی زندگی کے دس لاکھ سالوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ مراد یہ کہ جب PLEISTOCENE دور سے ذرا پہلے زمین میں ابھار پیدا ہوا (ہمالیہ سے الپس تک کے پہاڑوں کا سلسلہ) تو گویا زمین کی قلب ما ہیت ہوگئی۔ پھر جب آج سے تقریباً پانچ لاکھ سال پہلے انسان کے سر کے دائیں طرف ابھار سا نمودار ہوا تو آدمی کی کایاکلپ ہوگئی مگر سب سے بڑا معجزہ اس کے دماغ کی داخلی سطح سے متعلق ہے جہاں لاشعور کے بے رنگ اور بے صورت سمندر سے شعور کا جزیرہ برآمد ہوگیا۔

    فرائڈ اور ینگ دونوں نے داخلی سطح کے اس جزیرے کو ایغو EGO کا نام دیا ہے۔ مگر وہ سمندر جس میں سے یہ جزیرہ نمودار ہوا فرائڈ اور ینگ کے لیے مختلف صفات کا اعلامیہ تھا۔ فرائڈ نے اس سمندر میں معاشرے کی ساری گندی نالیوں کو خالی ہوتے ہوئے دیکھا جبکہ ینگ نے محسوس کیا کہ اس سمندر میں معاشرے کی اجتماعی شخصیت کے سارے دریا گرتے ہیں۔ مگر ذکر سمندر کا نہیں اس جزیرے (ایغو) کا تھا جو اس سمندر سے برآمد ہوا۔ فرائڈ نے شخصیت کی تین پرتوں کی نشان دہی کی ہے۔ ID جو شخصیت کی جبلی سطح ہے، ایغو جو اس کی نفسیاتی سطح ہے اور سپرایغو (SUPER EGO)جو اس کی معاشرتی سطح ہے۔ اڈ وہ دائرہ ہے جس کے اندر ایغو اور سپرایغو ایک دوسرے سے متمیز ہوتے ہیں۔ اڈؔ نفسی قوت کا منبع ہے۔ یہ داخلی تجربات کی ایک ایسی دنیا ہے جو ’باہر‘ کے وجود کو تسلیم نہیں کرتی۔ اس کا تعلق صرف اس بات سے ہے کہ کوئی تجربہ پرلطف ہے یا تکلیف دہ۔

    غور کیجئے تواڈ انسان کی اس دنیا کے مماثل ہے جس پر جبلت کا راج ہے اور جس میں رہتے ہوئے انسان اپنے ماحول اور اس کے باسیوں یعنی جانوروں، پودوں اورپرندوں وغیرہ سے پوری طرح ہم آہنگ تھا۔ یہ ایک ایسا باغ عدن تھا جس میں اب کے سوا وقت کا کوئی بعدابھی پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔ اس وقت آدم کی ساری پسلیاں ابھی سلامت تھیں۔ اس نے برہنگی کو پہن رکھا تھا لیکن ابھی اس کے سامنے کوئی ایسا شفاف آئینہ نہیں ابھرا تھا جس میں اسے اپنی برہنگی دکھائی دیتی۔ اس کے بعد یکایک آدمؔ کے جسم سے ایک اورجسم پیدا ہوا (وہی ابھار جس کا اوپر متعدد بار ذکر ہوا) آدمؔ کو یکایک اپنے ننگے پن کا احساس ہوا اور آگہی کی چکاچوند چاروں طرف پھیل گئی۔ فرائڈ لکھتا ہے ہے کہ اڈ کے اندر ایغونمودار ہوتا ہے اور نمودار ہوتے ہی ذہن کے اندر کی اشیا کو خارجی زندگی کی اشیاء سے متمیز کردیتا ہے۔ ایغو یہ سوال نہیں کرتا کہ کوئی شے پرلطف ہے یا تکلیف دہ بلکہ یہ پوچھتا ہے کہ شے سچ ہے یا جھوٹ اوریوں وجود کی جبلی ضروریات اور اردگرد کے ماحول میں دلالی کا فریضہ سر انجام دیتا ہے۔

    سپرایغو شخصیت کی تیسری سطح ہے اور معاشرے کے قدیم اقدار کی نمائندگی کرتا ہے۔ سپرایغو شخصیت کا اخلاقی پہلو ہے جو سچ اورجھوٹ میں تمیز نہیں کرتا بلکہ تجربے کے بارے میں یہ جاننا چاہتا ہے کہ وہ نیک ہے یا بد! مگرسپر ایغو کا ذکر ابھی قبل از وقت ہے۔ آگہی کی ابتدا کے سلسلے میں فرائڈ کے حوالے سے یہ جان لیناہی کافی ہے کہ اڈ کے بے نام اور بے صورت جہان میں ایغو کی نمود سے تقویت کا پہلا بھرپور احساس جاگا۔ احساس جس نے انسان کی داخلی دنیا اور خارجی دنیا کے مابین ایک ہلکی سی لکیر کھینچ دی۔ یہ لکیر سپیدۂ سحر کی لکیر بھی تھی کہ اس کے بعد آگہی کی چکاچوند میں امتیازات اور تضادات کے ایک طویل سلسلے کو معرض وجود میں آنا تھا مگرآگہی کی نمود میں بصارت اور بصیرت کے علاوہ تکلم نے بھی شرکت کی۔

    تکلم کا آغاز ’’نام رکھنے‘‘ کے عمل سے ہوا۔ قدیم انسان کے گرد اشیاء اور مظاہر کا ایک غدر سا برپا تھا۔ رنگوں، آوازوں اور جسموں کے اس جنگل میں انسان بھی دوسرے جانوروں کی طرح محض جبلت کے سہارے راستہ بنانے پر قادر تھا مگرپھر یوں ہوا کہ کسی عجیب و غریب شے یا واقعہ نے اس کی ساری توجہ اپنی طرف مبذول کرلی اورانسان کے اندر ایک ایسا جذباتی تشنج پیدا کردیا جو اس شے یا مظہر کو نام عطا کرنے پر ہی فرو ہوسکا۔ ’’نام‘‘ عطا کرنے کا مطلب یہ تھا کہ انسان نے شے یا واقعہ کواشیاء اور واقعات کے جنگل سے الگ کرلیا اوراسے ایک خاص کردار یا انفرادیت تفویض کردی۔ یہی زبان کا آغاز بھی تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ زبان نے ’’نام عطا کرنے‘‘ کی صلاحیت کے باعث ہمت کے بے کنار اور بے صورت سمندر میں ننھے ننھے جزیرے پیدا کردیے۔ بعدازاں جب نام کے ساتھ وابستہ انسان کا وہ تجربہ ذہن سے محو ہوگیا جس نے اس نام کو وجود میں لانے کا کارنامہ سرانجام دیا تھا تو بھی نام یا لفظ اپنی جگہ قائم رہا۔ گویا ہر نام یا لفظ ابتداءً کسی تجربے یا تصویر سے منسلک تھا مگر تجربے کے فراموش ہونے اور تصویر کے مٹ جانے کے بعد بھی اپنی تجریدی صورت میں باقی رہا۔

    یوں زبان بتدریج جذباتی سطح سے تجریدی سطح پر آتی چلی گئی اوراس میں ارتکاز کے بجائے تعقلات CONCEPTS کے لامتناہی سلسلوں کوجنم دینے کا میدان قوی ہوتا چلا گیا۔ چنانچہ زبان کے انہیں دو مختلف نوعیت کے پہلوؤں کے پیش نظر کینیر نے کہا کہ زبان کے دو روپ ہیں۔ منطقی اور تخلیقی۔ منطقی رخ کے تحت زبان شعور کی حدود کو وسیع کرتی ہے۔ یہ ایسے ہی جیسے کوئی شخص لالٹین کی بتی کو آہستہ آہستہ اونچا کرتا چلا جائے اور لالٹین کی روشنی کا دائرہ بتدریج زیادہ سے زیادہ جگہ کو روشن کرنے میں کامیاب ہوجائے مگر چونکہ تاریکی کا سلسلہ لامحدود ہے، لہٰذا زبان کا منطقی رخ کوشش بسیار کے باوجود شعور کی روشنی سے تاریکی کوشکست نہیں دے سکتا۔ دوسری طرف زبان کا تخلیقی رخ ہے جو کسی شے یا واقعہ پر مرتکز ہوکر پلک جھپکنے میں ’’کل‘‘ کو دریافت کرلیتا ہے۔ لہٰذا ہر قدم پر شعور دو صورتیں اختیار کرتا ہے۔ ایک توتدریجی ارتقاء کی صورت جو تضادات کودریافت کرتی ہے۔ دوسری ارتکاز کی صورت جو شے کا تشخص کرنے، اسے پہچاننے پر قادر ہے۔

    آگہی کا آشوب اس بات میں ہے کہ وہ کبھی تو خود کو ایک لمحہ پر مرتکز کرکے اپنے تخلیقی روپ کو بروئے کار لاتی ہے اورکبھی خودکو چاروں طرف پھیلاتی چلی جاتی ہے۔ پھر جب وہ اس قدر پھیل جاتی ہے کہ رقیق سی ہوکر معدوم ہونے لگے تودوبارہ ایک نقطے پر خود کو مرتکز کرکے ایک نئے (اور پہلے سے ارفع) تخلیقی روپ کو جنم دے ڈالتی ہے اور یہ روپ تضادات کے ایک نئے سلسلے کو دریافت کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ گویا انسان کی آگہی ہر قسم پر ’’جاننے اور پہچاننے‘‘ کے ایک نئے دائرے کووجود میں لاتی ہے۔ تاہم جب تضادات کا نیا سلسلہ وسیع اورپیچیدہ ہوکر اس کی گرفت سے نکل جاتا ہے تو وہ پھر سے سمٹنے لگتی ہے تاکہ ایک نقطہ پر مجتمع ہوکر دوبارہ ’’زرخیز‘‘ ہوسکے۔ یوں انسان کا کبھی نہ ختم ہونے والا آشوب جاری رہتا ہے۔

    تاہم اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ آگہی کے تخلیقی رخ کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب قدیم انسان نے ماحول کی بے کنار اور سیال فضا میں اشیاء کو نام دینے شروع کیے تھے۔ یعنی اس بات کا اعلان کیا تھا کہ وہ اب اشیاء کو ’’پہچاننے‘‘ لگا ہے۔ ابتداءً انسان کے ہاں آگہی کا مظاہرہ ’’نام رکھنے‘‘ یا دوسرے لفظوں میں تخلیقی رخ سے ہوا اور تعلقات قائم کرنے کی روش بہت دیر بعد ظاہر ہوئی۔ آج بھی انسان کے ہاں ادب، مصوری اور دوسرے فنون لطیفہ اس کی آگہی کے تخلیقی رخ کی پیداوار ہیں جبکہ سائنس، ریاضی اور کاروباری مسائل آگہی کے منطقی رخ کا ثمر ہیں۔

    قدیم انسان کے ہاں جب آگہی کا نزول ہوا تو اول اول اس کا وہبی پہلو ہی منظرعام پر آیا۔ یہ پہلو جوہر یا معنی کا وہ ادراک تھا جس کی انسان نے ’’نام‘‘ سے نشاندہی کی۔ نام گویا شے یا واقعہ کی غالب ترین اوراہم ترین خصوصیت یا جوہر کا تشخص تھا۔ یوں وہبی سوچ نے تمام تر روشنی کوایک نقطہ پرمرتکز کردیا۔ مگر بعدازاں جب منطقی سوچ نے جنم لیا تو روشنی کا دائرہ بتدریج پھیلتا چلا گیا اورآگہی کی حدود پھیل کر تعقلات اور تجریدی تصورات تک چلی گئیں۔ وائٹ ہیڈ نے اس سلسلے میں تین مدارج کا ذکر کیا ہے یعنی قریبی ماحول کا شعور IMMEDIACY PERCEPTION معنی کا شعور MEANING PERCEPTION اور تعقلات قائم کرنے کی روش CONCEPTUAL ANALYSIS حالانکہ قریبی ماحول کا شعور تو حیوانی سطح کا غماز ہے اوراس لیے اسے آگہی کے دائرے میں شامل نہیں سمجھنا چاہئے۔

    انسان کے علاوہ جانور بھی تو اردگرد کے ماحول کا شعور رکھتے ہیں یعنی اس کا نوٹس لینے پر قادر ہیں ورنہ ان کے لیے زندہ رہنا ہی مشکل ہوجائے مگر انسان کی آگہی کی ابتدا اس وقت ہوتی ہے جب وہ معنی دریافت کرتا ہے لہٰذا آگہی کے سلسلے میں اسی کو پہلا درجہ متصور کرنا چاہئے۔ رہی تعقلات قائم کرنے کی روش تو یہ معنی دریافت کرنے کے عمل کا ایک ثمر ہے اور زود یا بدیر معنی کے مدھم پڑنے پر رقیق ہوجاتی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کلچر معاشرے کا تخلیقی رخ ہے مگر جب کلچر چاروں طرف پھیل جاتا ہے توتہذیب میں ڈھل جاتا ہے اوراگر اسے اپنے بطون سے کوئی تازہ کروٹ نصیب نہ ہو تو پامال اور پیش پا افتادہ تصورات میں ڈھل کر روبہ زوال ہوجاتا ہے۔ مطلب یہ کہ آگہی کا وہ حصہ جو تعقلات قائم کرنے سے متعلق ہے، تہذیب کی طرح ہے جبکہ آگہی کا وہ حصہ جو معنی کی تلاش اور دریافت پر منتج ہوتا ہے، کلچر کی طرح خالصتاً تخلیقی ہے۔

    پھر یہ بات بھی ہے کہ آگاہی کا یہ تخلیقی رخ مجتمع کرتا ہے اور جزو میں کل کو دریافت کرکے اسے ایک الگ حیثیت تفویض کردیتا ہے مگر آگاہی کا دوسرا رخ ازسرنو تضادات کودریافت کرتا ہے۔ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ آگاہی کا پہلا مرحلہ کائنات کی بے صورتی اور سیال کیفیت سے صورتوں کو جنم دیتا ہے (گویا انہیں پوری کائنات سے الگ کرکے ان میں سے ہر ایک کا تشخص کرتا ہے) اور دوسرا مرحلہ ان صورتوں کے باہمی تضادات کودریافت کرتا ہے۔ انسان آگہی کی ابتدا سے ایک عجیب سے مخمصے میں گرفتار ہے۔ وہ خود کو مجتمع کرتا ہے تاکہ اپنی ذات کا تشخص کرسکے مگرجلد ہی اس کے اندر نئی حاصل کردہ قوت کے باعث کائنات کواپنے تصرف میں لانے اور اپنی ذات کے نقطے سے چاروں طرف پھیل جانے کی آرزو کروٹیں لینی لگتی ہے۔ پھر جب وہ پھیلتا ہے توقدم قدم پر نئے سے نئے تضادات پیدا ہونے لگتے ہیں اور ا سے اس بات کی اشد ضرورت لاحق ہوتی ہے کہ وہ اپنے پھیلاؤ کوروک کردوبارہ اپنی ذات میں یکجا ہوجائے۔

    مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر بار جب وہ اپنی ذات سے باہر آتا ہے تواس کا دائرہ عمل پہلے سے زیادہ وسیع ہوجاتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی آگاہی کا دائرہ بتدریج پھیل رہا ہے اوراس کے باعث ہست کا پورا نظام بتدریج منور ہوتا جارہا ہے۔ تاہم پھیلنے اور سمٹنے کا یہ آشوب جس میں انسان مبتلا ہے، سسی فس ؔ کی اس روایت ہی سے مشابہ ہے کہ چٹان کو لڑھکاکر پہاڑ کی چوٹی پر لے جایا جائے اور وہ شام تک لڑھک کر دوبارہ نیچے آجائے۔ وجہ یہ کہ ہست بے کنار اور لامحدود ہے اورانسان کی آگہی کا پھیلاؤ لامحدود کواپنے تصرف میں کبھی نہیں لاسکتا۔

    حقیقت یہ ہے کہ انسان ایک ایسا ذی روح ہے جسے روشنی کی مشعل (آگاہی) تو حاصل ہوگئی ہے مگرجسے ابدی تاریخی زود یا بدیر اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہے اور روشنی کا یہ ننھا سا نقطہ بجھ کر رہ جاتا ہے۔ تاہم انسان جس مشعل کو جلاتا ہے اس کی لو تصورات، خیالات اور تخلیقی مظاہر کی صورت میں مشعل کے بجھ جانے کے بعد بھی باقی رہتی ہے۔ جیسے جیسے انسانوں کا کارواں اس اندھیری کائنات میں آگے ہی آگے بڑھتا ہے اور مشعلیں نمودار ہوتی اورپھر بجھتی چلی جاتی ہیں، ایک پراسرار سی لو میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ یوں کائنات آہستہ آہستہ ایک مستقل نوعیت کی پراسرار روشنی سے منور ہورہی ہے یعنی اسے اپنی ہی ذات کی آگاہی حاصل ہونے لگی ہے۔ چونکہ اسے یہ آگاہی انسان کی وساطت سے حاصل ہورہی ہے، اس لیے یہ کہنا غلط نہیں کہ ہم انسان ہی اس کائنات کی آگاہی ہیں مگر اس کی سزا ہمیں یوں ملی ہے کہ ہم آگاہی کے آشوب میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ آپ چاہیں تواس کی سزا کی ابتدا کو زوال آدم خاکی کے واقعہ سے بھی منسوب کرسکتے ہیں۔

    (۲)
    آدم خاکی ابتداءً باغ بہشت کا ایک مستقل باسی تھا بلکہ وہ توخود باغ بہشت تھا کیونکہ ابھی اس کے سامنے تضاد اور تفریق کی کوئی صورت نہیں آئی تھی مگر پھر ایک روز آدم کی پسلی سے حوا نے جنم لیا۔ واضح رہے کہ حوا کہیں باہر سے نہیں آئی بلکہ آدم کے جسم ہی کا ایک حصہ الگ ہوکر حوا کہلایا۔ تاہم آغاز کار میں ابھی آدم کو اس انقطاع کی خبر نہیں تھی۔ علم الانسان کے مطابق زمین پر پروان چڑھنے والی زندگی میں یہ وہ مرحلہ تھا جب انسان کا دماغ باقی سب جانوروں کے دماغ سے مختلف ہوگیا۔ یوں اس کے اورجنگل کی دوسری مخلوق کے درمیان دوئی سی پیدا ہوگئی۔ مگرانسان کو ابھی اس بات کا علم نہیں تھا کہ اس کی قلب ماہیت ہوچکی ہے اور وہ ایک بالکل مختلف مخلوق بن چکا ہے۔ لہٰذا وہ دوسرے جانوروں کی معیت میں حسب سابق زندگی بسر کرتا چلا گیا۔

    ادھر باغ بہشت میں بھی کوئی زلزلہ نہیں آیا۔ آدم اور حوا ایک جان دوقالب تھے اور انہیں اس بات کا احساس تک نہیں تھا کہ وہ اب مثبت اور منفی جسموں کے مالک ہیں مگر پھر ایک روز آدم اورحوا دونوں کی آنکھوں میں ’’پہچان‘‘ کا کوندا لپک گیا۔ آدم نے دیکھا کہ حوا اس سے مختلف ہے اور حوا کو محسوس ہوا کہ آدم اس جیسا نہیں۔ تب دونوں کی آنکھیں پہلی بار ’حیا‘ سے آشنا ہوئیں اور انہوں نے انجیر کے بڑے بڑے پتوں سے اپنے اپنے جسم کو چھپا لیا۔ دیکھئے کہ آگہی کے نزول کا پہلا ثبوت ہی حیا کا یہ عنصر تھا۔ وجہ یہ کہ پلکیں پہچان کے بعد جھپکتی ہیں تاکہ آنکھوں کو وہ کچھ نہ دیکھنے دیں جو وہ دیکھ رہی ہیں۔ عام زندگی میں بھی جب حیا رخصت ہوتی ہے تو دوشیزہ عورت بن جاتی ہے اورنوجوان مرد کے لبادے میں ظاہر ہوجاتا ہے۔ زمینی زندگی میں یہ وہ مرحلہ تھا جب انسان کواپنا وجود حیوان سے الگ محسوس ہوا۔ اب گویا اس نے پہلی بار اردگرد کے اشیاء کو دیکھا اور پہچانا اور اس کی حیرت کی کوئی حد نہ رہی۔

    آج بھی بچہ، جوانسانی زندگی کے اسی دور کا باسی ہے، ہر شے کوحیرت سے دیکھتا ہے کیونکہ وہ پہلی بار اس سے آشنا ہوتا ہے مگرجیسے جیسے وہ بلوغت کے مراحل کو طے کرتا ہے، حیرت کے اس تحفہ سے محروم ہوتا جاتا ہے حتیٰ کہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب وہ اپنے اردگرد کے ماحول کو جانورکی طرح محض بے معنی نظرو ں سے دیکھنے لگتا ہے۔ ہائڈگر نے اس کیفیت کو موجودکوفراموش کرنے 4 کا نام دیا ہے اوراس سے بیدار ہونے ہی کو انسان کا سب سے بڑا کارنامہ قرار دیا ہے بلکہ اس نے تو یہ تک کہا ہے کہ انسان موت کو سامنے پاکر ہی صحیح معنوں میں ’’بیدار‘‘ ہوتا ہے۔ اسی طرح آدمنؔ کا یہ خیال ہے کہ جنگ ہزاربری سہی، اس کا ایک یہ فائدہ ضرور ہے کہ وہ انسان کو بے حسی کی کیفیت سے جگا دیتی ہے۔

    بیسویں صدی میں انسان کوجس بوریت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ دراصل آگہی کے نہ ہونے کا ہی نتیجہ ہے۔ پرانے زمانے میں صوفی اور یوگی خود کو بیدار رکھنے کے لیے اپنے جسموں کو سزا دینے سے بھی نہیں ہچکچاتے تھے (مثلاً چلہ کشی یا یوگ کے آسن وغیرہ) کیونکہ وہ جانتے تھے کہ انسانی جسم اورذہن کی یہ فطرت ہے کہ وہ موقعہ پاتے ہی نیم غنودگی کے عالم میں چلا جاتا ہے۔ لہٰذا آگاہی یا عرفان کے حصول کے لیے ذہن اور جسم کو بیدار رکھنا ضروری ہے۔ سارترے ؔ، ہکسلے ؔ اور کولنؔ ولسن نے ’’مسکالن‘‘ سے جو تجربات کیے، ان کا مقصد بھی یہی تھا کہ روزمرہ کی اس یکسانیت اور بے حسی سے نجات پائی جائے جوانسان کوآگہی کی سطح سے نیچے اتارکر حیوان کی سطح پر لے آتی ہے۔

    مگر ذکرقدیم انسان کا تھا، جس کے ہاں پہچان کے مرحلے ہی سے آگہی کی ابتدا ہوئی۔ پہچان کی یہ صورت آگہی کے اس پہلو کا نتیجہ تھی جو مزاجاً وہبی ہے۔ یعنی جب انسان آن واحد میں کسی شے کی ماہیت یا جوہر کو دریافت کرکے اسے نام عطا کردیتا ہے۔ تاہم اس پہلے مرحلے کے بعداشیاء یا نام ایک دوسرے سے متمیز ہونے لگتے ہیں اور شعور کی شعاع قدم بہ قدم پھیلتی چلی جاتی ہے۔ قدیم انسان جب آگہی کے اس دوسرے پہلو سے آشنا ہوا جو مزاجاً سائنسی یا منطقی ہے تو اس نے ساری کائنات میں تقسیم، تفریق اور تضاد کوکارفرما پایا۔ سائنسی سوچ کا یہ طریق کار ہے کہ وہ شعور کی شعاع کو ایک نقطے پر مرتکز کرتی ہے مگرپھر اس شعاع کوپھیلانے لگتی ہے۔ یوں کہ دریافت شدہ ’نقطہ‘ اردگرد کے ’نقطوں‘ کے پھیلتے ہوئے منطقوں سے ہم رشتہ ہوجاتا ہے جبکہ وہبی سوچ کا یہ طریق ہے کہ وہ شے کو منطقی سوچ کی طرح گرفت میں نہیں لیتی بلکہ اس کے گرد پروانہ وار طواف کرتی ہے اور ایک نقطہ میں پوری کائنات کو دریافت کرلیتی ہے۔ 5

    سائنسی سوچ سیدھی سڑک پر سفر کرتی ہے اور اپنے اس سفر میں تعقلات CONCEPTSقائم کرتی جاتی ہے جبکہ وہبی سوچ دائروں میں سفر کرتی ہے۔ چنانچہ سائنسی سوچ مزاجاً امتزاجی SYNTHETIC ہے جبکہ وہبی مزاجاً تخلیقی ہے۔ سائنسی سوچ تعقلات کی توسیع کا نام ہے۔ اس قدر کہ آخرآخر میں یہ محض تعقلات کوجوڑنے والے قواعد و ضوابط کادوسرا نام بن کر رہ جاتی ہے۔ جبکہ وہبی سوچ پھیلاؤ کے بجائے ارتکاز کے عمل کی خوگر ہے مگر اس کا ارتکاز شے پر براہ راست نہیں ہوتا بلکہ اس دائرے پر ہوتا ہے جس میں شے مقید ہے۔ شے کے ساتھ تو وہ آنکھ مچولی کھیلتی ہے۔ اسی طرح جیسے ایک موسیقار تاروں سے اور شاعر لفظوں سے آنکھ مچولی کھیلتا ہے یعنی انہیں چھونا، چھوڑ دینا، دائرہ میں گھوم کر آنا اور دوبارہ چھیڑنا، پھر چھوڑ دینا علی ہذالقیاس۔

    قدیم انسان نے جب وہبی سوچ کے تحت اول اول شے کو نام عطا کیا تو گویا شے کا وہ جوہر دریافت کرلیا جو اس وضع کی تمام اشیاء میں ایک قدر مشترک کی حیثیت رکھتا تھا۔ یوں آگہی کے وہبی رخ کی ابتدا ہوئی۔ مگرپھر قدیم انسان کی زندگی کے اس طویل دور کا آغاز ہوا جس میں اس نے ایک شے کو دوسری شے سے، ایک نام کو دوسرے نام سے اور ایک واقعہ کو دوسرے واقعہ سے متمیز کرنا شروع کیا۔ گویا آگہی کے پہلے مرحلے میں انسان نے شے کے اندر جوہر تلاش کیا اور یہ آگہی کا وہبی پہلو تھا۔ جبکہ دوسرے مرحلے میں اس نے ایک شے کو دوسری سے متمیز کیا اور یہ عمل مزاجاً سائنسی اورمنطقی تھا۔

    واضح رہے کہ جب میں کہتا ہوں کہ قدیم انسان کا یہ عمل مزاجاً سائنسی تھا تواس سے میری یہ مرادہرگز نہیں کہ اس نے اپنی سوچ کو پوری طرح منطقی انداز کے تابع کرلیا تھا اورپھر اس کی مدد سے وہ ماحول کومعروضی نقطہ نظر سے دیکھنے کے قابل ہوگیا تھا۔ ایسا ہرگز نہیں تھا کیونکہ قدیم انسان ابھی اپنے ماحول (فطرت) سے ایک بڑی حد تک منسلک تھا اوراشیاء کو IT کہنے کی صلاحیت اسے عطا نہیں ہوئی تھی۔ منطقی یا سائنسی سوچ اس وقت پروان چڑھتی ہے جب انسان اور اس کی کائنات میں ناظر اور منظور کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے۔ یعنی جب انسان اپنے ماحول کوایک مناسب فاصلے سے دیکھنے پر قادر ہوجاتا ہے اور اسے اپنی اس حیثیت کا شعور بھی ہوتا ہے۔ بایں ہمہ مجھے اس بات کے اظہار میں تامل نہیں کہ قدیم انسان جب آگہی کے دوسرے مرحلے میں داخل ہوا تو اسے سب سے پہلے لاتعداد اشیا کے وجود کا احساس ہوا اور وہ انہیں ایک دوسری سے الگ کرنے میں مصروف ہوگیا۔

    یوں اسے اپنا ماحول گڈمڈ حالت میں نظر نہ آیا جیسا کہ حیوان کے سلسلے میں عام ہے بلکہ اسے محسوس ہوا کہ اس کے ماحول کی ہر شے اپنا ایک الگ وجودرکھتی ہے اور دوسری اشیا سے مختلف ہے۔ ساتھ ہی قدیم انسان کو یہ موہوم سا احساس بھی ہوا کہ وہ خود بھی (بحیثیت ایک شے) ایک الگ وجود رکھتا ہے مگر آگہی کے اس دوسرے مرحلے کا پھیلاؤ غالباً اس سے زیادہ نہیں تھا۔ بحیثیت مجموعی یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اشیاء کو ایک دوسری سے متمیز کرنے کے عمل نے قدیم انسان کو کل کے بجائے جزو کے وجود کا احساس دلایا یعنی اسے ماحول کی اکائی کے اندر لاتعداد اکائیوں کے وجود کا شعور بخشا اور یوں اسے بکھراؤ کی اس حالت میں لاکھڑا کیا جسے زیادہ دیر تک برداشت کرنے کی تاب آج کے مہذب اور ترقی یافتہ انسان کو بھی نہیں ہے۔ کچھ عجب نہیں کہ سوچ کے اس مبہم سے سائنسی پہلو نے قدیم انسان کو ماحول سے منقطع ہونے کے کرب انگیز احساس سے دوچار کیا اور وہ ردعمل کے طورپر دوبارہ مجتمع ہونے کی غیرشعوری کوشش کرنے لگا۔

    انسانی زندگی میں مجتمع ہونے کی یہ کوشش مانا (MANA) یا واکان (WAKAN)یا اورنڈا (ORENDA)کے تصور میں ظاہر ہوئی۔ کوڈرنگٹن کا خیال ہے کہ یہ مانا کسی ایک شے میں مقید نہیں۔ بعض قبائل میں واکانؔ (مانا) کے بارے میں یہ خیال رائج ہے کہ ساری زندگی ہی واکان ہے۔ وہ تمام اشیاء جو قوت کا مظاہرہ کرتی ہیں، مثلاً تندوتیز ہوائیں یا گرجتے ہوئے بادل یا سڑک کے کنارے کے توانا اور بھاری پتھر، یہ سب مانا ہی کا اعلامیہ ہیں۔ اسی طرح اورنڈا کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ چٹانوں، پانیوں، لہروں، پودوں، حیوانوں اور انسانوں سب میں ایک جوہر کے طورپرموجود ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ماناکا یہ تصور ایک ایسی پراسرار اورلازوال قوت کا تصور تھا جو پوری کائنات میں جاری وساری تھی۔ یہ قوت ایک رقیق سی شے تھی جو بجلی کی چمک، سیلاب کی تندی، سمندر کے خروش، آتش فشاں پہاڑ کی وحشت، ہوا کے بہاؤ، پھول کی چٹک اور انسان کی حرکات ان سب پر محیط تھی۔

    گویا مانا کا تصور بنیادی طورپر ایک وہبی تصور تھا جس نے کثرت میں وحدت کا نظارہ کیااور اشیاء کی فراوانی اور بکھراؤ کے پس پشت ایک بے پایاں قوت کو کارفرما پایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مانا کے تصور نے اس لازوال، بے پایاں اور جاری وساری قوت کو کسی شخص یا شے میں مرتکز نہیں بلکہ اسے پورے ماحول میں اسی طرح رواں دواں دیکھا جیسے سارے جسم میں خون پھیلا ہوتا ہے۔ گویا یہ قوت کائنات سے باہر کہیں نہیں تھی اورنہ باہر سے کائنات پر حکمراں تھی بلکہ ایک بے صورت انداز میں تمام اشیاء اور مظاہر میں رچی بسی ہوئی تھی۔ چنانچہ قدیم انسان بار بار یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا تھا کہ اشکال ومظاہر کی کثرت، بوقلمونی اور تضادات کے اندر ایک ایسی قوت موجود ہے جس میں یہ سارے تضادات حل ہوجاتے ہیں۔

    یہ ایک طرح کا سریانی تصور تھا، گوابھی اس نے فکر کا لبادہ نہیں اوڑھا تھا بلکہ یوں کہنا بھی شاید غلط نہ ہوگا کہ ماناؔ کا تصور، انسان کی منطقی سوچ کے ابتدائی اظہار کا ردعمل تھا۔ وہ یوں کہ انسان جنگل سے برآمد ہوا تواس نے جنگل سے خودکو منقطع نہ کیا بلکہ اسے اپنے جسم اورلاشعور میں باقی رکھا۔ جسم کی سطح پر اس کا بہترین اظہار ابوالہول کے مجسمے میں ہوا ہے یعنی مجسمے کا سرتوانسان کا ہے اور باقی سارا جسم حیوان کا، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس دور میں انسان کے ہاں جنگل کی زندگی توبدستور موجود تھی مگر اب اس میں انسانی زندگی کا ایک بعد بھی شامل ہوگیا تھا۔ نفسیات نے اسی چیز کو یوں بیان کیا ہے کہ انسان کے شعور کے پیچھے لاشعور کا ایک پورا جنگل موجود ہے جس میں جبلت کا سکہ چلتا ہے۔

    گویا انسانی زندگی کے اس مرحلے میں شعور نے تضادات دریافت کرنے توشروع کردیے تھے مگرانسان کے ہاں اس جنگل کی یاد ابھی بہت توانا تھی جو ایک کل کی حیثیت میں اپنا وجود رکھتا تھا اورجسے انسانی روایت ’’باغ بہشت‘‘ کے نام سے آج بھی جانتی ہے۔ مراد یہ کہ آگہی کی پہلی ہی چکاچوند میں جب انسان اشیاء کی پہچان کے مرحلے میں داخل ہوا توآخر آخر میں اسے مشاہدات کی ایک مزاجی کیفیت CHAOS OF PERCEPTIONکا سامنا کرنا پڑا جو اس کے لیے سوہان روح سے کم نہ تھا۔ وہ یوں کہ تضاد اور تفریق کے علم نے خوداسے یہ احساس دلایا کہ وہ ایک اجنبی ماحول میں یکہ وتنہا کھڑا ہے۔ اب اس کی حالت اس بچے کی تھی جو بھرے میلے میں ماں سے بچھڑ گیا اوراجنبی اور ڈراؤنے چہروں کے سیلاب میں گھرا اپنی ماں کی تلاش کرتا پھرے۔ چنانچہ اس موقعہ پر اس نے اپنی ماں کی آغوش میں پناہ لینے کی جو خواہش کی وہ ماناؔ کے تصور میں ظاہر ہوئی یعنی ایک ایسی قوت کی تلاش پر منتج ہوئی جس کی گود میں ہر شے ملی ہوئی تھی۔

    ماناؔ کے سلسلہ میں مزید دوتین باتوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ ایک یہ کہ ماناؔ جس شے کا نام ہے وہ کبھی تو ایک قوت کی روپ میں نظرآتی ہے اور کبھی محبت اور خیر کے روپ میں۔ تاہم قوت کا تصور زیادہ قدیم ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ قدیم انسان کو اول اول ان قوتوں نے خوف زدہ کیا جو عناصر کی یورش بن کر سامنے آتی تھیں۔ اوریہ بہت بعدکی بات ہے کہ اس نے ماناؔ کوخیراورمحبت کا اعلامیہ تصور کیا۔ سو ابتداء ماناؔ نے قدیم انسان کو ایک غیرارضی قوت کی صورت میں متاثر کیا اوراسے احساس دلایا کہ یہ قوت اشیاء میں جاری وساری ہے۔

    واضح رہے کہ ہر چند ماناؔ کا تصور انسانی زندگی کے ایک خاص دور میں ظاہر ہوا اور اس کا نہایت گہرا رشتہ اس قدیم ترین دور سے تھا جب انسان جنگل کے ’کل‘ کا حصہ تھا۔ تاہم بعدازاں جب ایک بے پایاں روح کل کے بجائے لاتعداد روحوں کا تصور رائج ہوگیا تو بھی یہ تصور قدیم قبائلی زندگی میں ایک زیریں لہر کی طرح موجزن رہا۔ ویسے بھی ہر انسان بلکہ ہرسوسائٹی میں انسانی زندگی کے جملہ ادوار کسی نہ کسی صورت میں ضرور موجود رہتے ہیں۔ لہٰذا اگر دورافتادہ قبائل کے ہاں ماناؔ یا اورنڈاؔ کا یہ تصور آج بھی رائج ہے تو یہ اس تصور ہی کے باقیات میں ہے جو کسی زمانے میں ہر شے پر محیط تھا۔ ڈورتھی نے لکھا ہے کہ قدیم قبائل میں سے بعض کے ہاں خدا کا بھی تصور ملتا ہے مگریہ خدا ان کی عام زندگی سے اتنے فاصلے پر ہے کہ خاص خاص موقعوں کے سوا یہ تصور شاذ ہی ان کے شعور میں باقی رہتا ہے مگرانہیں قبائل میں ایک پراسرار، ان دیکھی اور ان جانی قوت سے روحانی روابط کے شواہد عام ہیں۔ یہ شواہد عاجزی، احترام، ممنونیت یا خوف کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ مراد یہ کہ قدیم قبائل کی زندگی کی زیریں سطح آج بھی ماناؔ کے اس تصور سے عبارت ہے، جوایک پراسرار قوت کو ہر شے میں جاری وساری دیکھتا ہے۔

    ماناؔ کے سلسلے میں دوسری بات یہ ہے کہ چونکہ یہ قوت ماحول کے رگ وپے میں خون گرم کی طرح جاری تھی، اس لیے قدیم انسان اس کی نشان دہی نہیں کرسکتا تھا۔ چنانچہ اسے یہ محسوس ہوتا تھا کہ یہ قوت فطرت کے اندرموجود ہے نہ کہ فطرت سے باہر۔ مگر پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انسان کے ہاں منطقی سوچ کے رجحان کو مہمیز مل گئی اوراسے یہی قوت جگہ جگہ اکٹھی ہوتی نظرآنے لگی۔ قدیم انسان کی زندگی میں ایسے کئی واقعات رونما ہوتے تھے جواسے ایک عجیب سے جذباتی تشنج کے سپرد کردیتے تھے۔ مثلاً بادوباراں کا طوفان یا زلزلہ وغیرہ۔ اساسی سطح پر توقدیم انسان جانتا تھا کہ یہ ماناؔ ہی کی قوت ہے جو ہوا کو چلاتی یا زمین کو ہلاتی ہے مگرجب وہ خودطوفان میں گھرجاتا یا زلزلے کی زد میں آجاتا تو ایک بحرانی کیفیت میں مبتلا ہوکر زلزلے یا طوفان کوایک الگ حیثیت دینے پر مجبور ہوجاتا۔ الگ حیثیت تفویض کرنے کا مطلب یہ ہوتا کہ وہ اس واقعہ کو معمول کے دیگر واقعات سے الگ کرکے اس کا تشخص کر رہا ہے۔ یعنی اسے کل سے الگ کرکے ایک جزو کی حیثیت میں پہچان رہا ہے۔

    خود ماناؔ کے تصور کے سلسلے میں بھی وہ ہر روز محسوس کرتا کہ یہ قوت بعض اشیاء یا شخصیتوں میں جمع ہوگئی ہے۔ مثلاً بادشاہ یا پیر میں اور مزے کی بات یہ ہے کہ یوں جمع ہوجانے والی اس قوت میں دونوں خصائص موجود ہوتے یعنی خیر اورشر دونوں۔ چنانچہ بادشاہ یا پیر کریم بھی ہوتا اور قہار بھی۔ تاہم اب ماناؔ محض ایک رقیق بے پایاں قوت کے طورپر نہیں بلکہ ایک خاص شے یا جسم میں مرتکز دکھائی دینے لگی اور آگہی کے منطقی روپ کوپھیلاؤ کے امکانات میسرا ٓگئے۔ واضح رہے کہ آگہی کے وہبی پہلو کے تحت انسان تحفہ وصول کرتا ہے جب کہ آگہی کے سائنسی پہلو کے تحت وہ اپنی ہمت سے اشیاء جمع کرتا ہے۔ مقدم الذکر کیفیت میں مبتلا ہونے والے انسان کی حیثیت اس سیپ کی سی ہے جو بارش کے قطرے کو خود میں جذب کرکے موتی بنا دیتا ہے۔ یہ طریق شاعری اور آرٹ میں عام ہے جہاں خیال کی جھولی میں سارے مضامین غیب سے (یا اوپر سے) وارد ہوتے ہیں۔

    موخرالذکر کیفیت کے تحت انسان منفعل نہیں رہتا بلکہ آگے بڑھ کر تعقلات قائم کرتا ہے اور اجزا کو اینٹوں کی طرح جوڑ کر اپنے لیے راستہ بناتا ہے۔ مگراس کا یہ سفر وہبی سوچ کی مہیا کردہ قوت MOTOR FORCE ہی کا دست نگر ہے۔ جب یہ قوت صرف ہوجاتی ہے اور انسان ایک حد تک پھیل چکتا ہے توسفر کے اگلے پڑاؤ تک پہنچنے کے لیے اسے دوبارہ خود میں سمٹنا پڑتا ہے تاکہ مزید قوت حاصل کرسکے۔ چنانچہ آگہی کا آشوب جاری رہتا ہے۔ قدیم انسان کو اول اول مشاہدات کے جس غدر کا سامنا کرنا پڑا تھا اوراس پر تضادات کا احساس جس بری طرح چھانے لگا تھا، اس کا یہ تقاضا تھا کہ وہ اجزا کی دنیا کوخیرباد کہہ کر کل کے بے پایاں اور بے نہایت سمندرمیں غواصی کرتا۔ چنانچہ اس پر ماناؔ کا تصور وارد ہوا اور وہ کثرت کی وحدت میں منتقل کرنے کے قابل ہوگیا۔ مگرپھر اسی وحدت کے بطون سے ماناؔ کے مختلف شخصیتوں میں بٹ جانے کی صورت ابھری اور یوں تضادات کا ایک پورا سلسلہ وجود میں آگیا اورانسان ازسرنوآگہی کے منطقی روپ کی زد میں آگیا۔ گویا وہ اب ایک نئی سطح پر آگہی کے آشوب میں مبتلا ہوگیا۔


    حاشیے
    (۱) CRISIS OF CONSCIOUSNESS
    (۲) PANORANIC VISION
    (۳) BINOCULAR VISION
    (۴) FORGET FULNESS OF EXISTENCE
    (۵) قطرہ میں دجلہ

     

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے