Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ادب اور ادیب کی زندگی

فضل حق قریشی

ادب اور ادیب کی زندگی

فضل حق قریشی

MORE BYفضل حق قریشی


    جولائی
    علامہ صدیقی کاخط ملا۔ اپنے رسالے کے خاص نمبر کے واسطے ایک دلچسپ افسانہ طلب فرماتے ہیں۔ خدا کی پناہ! میری طرز نگارش اور اسلوب بیان کے متعلق کس قدر بلند آہنگ تعریفی الفاظ قلم بند کیے ہیں کہ خود میرے جذبۂ انانیت کو میری اس رومانی شخصیت پر رشک آنے لگا۔ جسے ضرورت سے زیادہ عروج دے دیا گیا ہے۔ لیکن آخر کیوں؟ 

    علامہ صاحب نے میری تعریف کی ہے۔ تاکہ ہر اس مولوی کی طرح جو تعویذ گنڈوں کے ذریعہ جمع کیا ہوا روپیہ بطور معاوضہ ادا کرکے اپنی شان میں اخبارات کے اندر توصیفی مقالے لکھواتا ہے۔ اور برخود غلط ذہنیت کے ان اوہام خیالی میں مگن ہوکر پھولا نہیں سماتا۔ اسی طرح میں بھی خوش ہوجاؤں۔ اور کسی نہ کسی طرح ایک افسانہ لکھ ماروں۔ اور حقیقتاً مجھے افسانہ لکھنا ہی پڑے گا۔ کیونکہ فیاض علامہ صاحب میرے ہر افسانے کے معاوضے میں ہر مہینے پانچ آنہ کا رسالہ پیش کرتے ہیں جس کی قیمت ایجنٹوں کی کمیشن وضع کردینے کے بعد پونے چار آنے ہوا کرتی ہے۔ یہ لالچ میری قلم کو جنبش دینے کے لیے کافی سے زیادہ ہے۔ اور پھر میں ان کی دل شکنی بھی تو گوارا نہیں کرسکتا۔ انہوں نے اس پوری توقع کے ساتھ کہ میں انہیں افسانہ بھیج دوں گا، میری حمد و ثنا کا گیت گایا ہے۔ 

    مدیرانِ رسائل بالکل سوتیلی ماؤں کی طرح مضمون نگاروں سے برتاؤ کرتے ہیں۔ اگر ذاتی منفعت کی امید ہو تو ظاہری قدر و منزلت ورنہ تذلیل و تضحیک۔ علامہ صاحب کے قول کے مطابق میں عہدِ حاضر کا سب سے بڑا افسانہ نگار ہوں۔ اور جانتاہوں کہ اگر ان کی فرمائش کی تعمیل نہ کی گئی تو یقیناً مجھ سے زیادہ ناکارہ ادیب ان کی حقیقت شناس نگاہ میں اور کوئی نہ رہے گا۔ 

    اپنے ہاتھوں اپنی ناک کاٹنی ہو تو مجھے چاہیے کہ ان کے لیے ایک لفظ بھی نہ لکھوں۔ لیکن یہ خیال غلط ہے۔ افسانہ تو لکھنا ہی پڑے گا۔ کیونکہ دن بھر کی کوفت دور کرنے کے لیے میں شام کے چند لمحے یار دوستوں کی محفل میں بسر کیا کرتا ہوں جہاں محض زبانی حرف و حکایت کے سوا کسی اور فرحت افزا شے کا دور ممکن نہیں ہوسکتا۔ میری اس غیرحاضری میں میری بیوی اسی رسالے سے اپنا دل بہلاتی ہے۔ جو علامہ صاحب ہر مہینے ’’بالکل مفت‘‘ میرے نام بھیجتے ہیں۔ اور اس طرح وہ عارضی طور پر میری طرف سے خالی الذہن ہوجاتی ہے۔ اگر افسانہ نہ لکھا تو رسالہ بند ہوجائے گا۔ اور شام کے وہ چند لمحے میری بیوی کے لیے کٹھن گھڑیاں بن جائیں گے۔ وہ خالی وقت میں اس امر پر غور کرنے لگے گی کہ اپنے عزیز شوہر کو یاردوستوں کی پرلطف محفل میں جانے سے کس طرح باز رکھا جائے۔ خواہ مخواہ بدمزگی پیدا ہوگی۔ اور ازدواجی زندگی پر ناگوار اثر پڑنے لگے گا۔ لہٰذا تمام اونچ نیچ پر غور کرنے کے بعد قرار پایا کہ افسانہ ضرور لکھا جائے گا۔ 

    لیکن اب ایک اور مشکل آن پڑی۔ علامہ صاحب نے افسانہ کے ساتھ ساتھ میری تصویر بھی طلب کی ہے۔ فرماتے ہیں کہ ان کے رسالے کے وہ قارئین جو میرے ہر نوشتے کو صحیفۂ قدرت کا ایک جزو سمجھتے ہیں۔ حد سے زیادہ متمنی ہیں کہ میرے خدوخال کی زیارت کا بھی شرف حاصل کرلیں۔ مجھے اس کی پروا نہیں کہ میرے پچکے ہوئے کلوں، دھنسی ہوئی آنکھوں، موٹی سی ناک اور بے رونق چہرے کو دیکھ کر ناظرین کرام کیا رائے قائم کریں گے۔ کیونکہ خالقِ حقیقی نے ہر انسان کی طرح میرے بھی یہ تمام نقش و نگار خود اپنی صورت کے مطابق بنائے ہیں۔ لیکن غور طلب مسئلہ یہ ہے کہ فوٹو گرافر چھوٹی سے چھوٹی تصویر کھینچنے کی اجرت کم سے کم دو روپے مانگیں گا اور اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دو روپے فوٹو گرافر کو دی جائیں یا دو روپے کا چھ سیر آٹا خریدا جائے جو چار دن تک بال بچوں کا پیٹ بھرسکے۔ تصویر نہ بھیجی تو خود مولانا اور ان کے رسالے کے قارئین کی دل شکنی ہوگی۔ جومروت اور رواداری کی دنیا میں بالکل غیرمناسب بات ہے۔ آٹا نہ خریدا تو بس یہی نا کہ بچے بھوکے مرجائیں گے اور بیوی بگڑ کر اپنے میکے کی راہ لے گی۔ بیوی کو منالینا کچھ مشکل نہیں۔ رہا بچوں کا سوال۔ سو ایک غریب گھر میں خدا کی صرف اسی ایک دین کی افراط ہوتی ہے۔ وہ اور پیدا ہوجائیں گے۔ لہٰذا تمام اونچ نیچ پر دوبارہ غور کرنے کے بعد قرار پایا کہ افسانہ ضرور لکھا جائے گا۔ 

    جولائی
    صبح سے شام تک چھٹی کا سارا دن یہی سوچنے میں تمام ہوگیا کہ آخر کیا لکھوں۔ آپ بیتی یا جگ بیتی، ترجمہ یا طبع زاد، حزینہ یا مزاحیہ۔ علامہ صاحب کا معیارِ ادب بھی عجیب ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہر افسانے میں بہ یک وقت تمام کیفیات موجود ہوں۔۔۔ حددرجہ مذاقیہ ہوں، لیکن ایک پیغام لیے ہوئے۔ وہ زندگی کی ایک تصویر ہو لیکن حزن و ملال سے پاک۔ کسی مغربی تحریر کا ترجمہ ہو لیکن ہندوستانی ماحول کے ساتھ یعنی ایک حدتک طبع زاد۔ سماج کی دکھتی ہوئی رگوں کو چھیڑا جائے لیکن اس طرح کہ کسی کی دل شکنی نہ ہو۔ عبارت حد درجہ رنگین ہو۔ لیکن عورت کا ذکر بڑی احتیاط سے کیا جائے۔ نثر میں کہیں کہیں اشعار یا کم سے کم مصرعے ضرور استعمال ہوں تاکہ قارئین کو نثر پڑھتے وقت نظم کا بھی لطف آسکے۔ اس کی مثال یوں سمجھنی چاہیے کہ جس طرح آج سے پچاس سال پہلے کی تھیٹریکل کمپنیاں سین سینری اور لباس تیار کرانے، اداکاروں کا انتخاب کرنے اور گیت وغیرہ مرتب کرلینے کے بعد ’’منشی جی‘‘ سے درخواست کرتی تھیں کہ اس تمام کائنات کے مطابق مکالمے لکھے جائیں۔ لیکن اس طرح کہ شروع سے آخر تک ڈرامائی کشمکش میں کسی قسم کی خامی یا جھول پیدا نہ ہو۔ اسی طرح علامہ صاحب ہم لوگوں سے اپنے معیار کے مطابق مضمون نگاری کرانا چاہتے ہیں۔ 

    بڑا مزا ہو، اگر ایک مضمون افسانے کے پیرائے میں خود علامہ صاحب کے متعلق لکھ ڈالوں۔ لیکن جانتا ہوں کہ وہ قیامت تک اسے شائع نہیں کریں گے۔ محنت رائیگاں جائے گی۔ آج حکومت کے خلاف تو زہر اگلا جاتا ہے کہ ہندوستانیوں سے قلم کی آزادی چھین لی ہے۔ خیالات و افکار پر احتساب کی مہریں لگا رکھی ہیں۔ لیکن یہ مدیر اپنے رسائل واخبارات کے آئینہ میں اپنی جھلک دیکھیں کہ خود ان کا طرزِ عمل کیا ہے۔ 

    آج ان کی خود غرضانہ ذہنیت کے باعث تنقید کا معیار جس قدر پست اور متبذل ہوگیا ہے۔ وہ بیان سے باہر ہے۔ ان کی نگاہیں الفاظ تک محدود رہتی ہیں۔ ان کی روح تک وسیع نہیں۔ اور ان تمام باتوں کے باوجود وہ مدعی ہیں کہ ادب کے ذریعہ سماج کو سدھار لیں گے۔ کیونکہ ادب اور زندگی میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کج فہم، مجہول العقل، حماقت کے پتلے۔ ان کے وجود ادب کے چہرے پر بدنما داغ ہیں۔ 

    *

    ترقی پسند ادب کا غلط تصور جب سے نئی پود کے نام نہاد ادیبوں کے دماغوں پر حاوی ہوا ہے، ان کے رشحاتِ قلم میں حد درجہ رکاکت پیدا ہوگئی ہے۔ لیکن دراصل سارا قصور ان خود ساختہ حاملانِ ادب کا ہے جو بدقسمتی سے ادبی رسائل کے مدیر ہیں۔ یہ لوگ خدمتِ ادب کے روایتی نام پر اس کے محض تاجرانہ پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے ہرقسم کے رطب و یابس کو اپنے رسالے کے لیے جائز سمجھ لیتے ہیں، حالانکہ ان کا سطحِ نظراس کے سوا کچھ نہیں ہوتا، ہراشاعت کی زیادہ سے زیادہ کاپیاں بک جائیں اور اس میں شک نہیں کہ وہ اپنے مقصد میں خوب کامیاب رہتے ہوں گے۔ کیونکہ اکثر میری چیزیں بظاہر جاذب نظر ہوا کرتی ہیں۔ لیکن اس کاروبارِ معصیت سے قطع نظر کاش کبھی ٹھنڈے دل سے وہ اتنا بھی سوچ لیں کہ خالص ادبی حلقوں میں ان کے رسالے کی قدر و منزلت کس قدر ہے۔ 

    اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اردو افسانہ نگاری کا وہ دور جب رنگین خیالات اور حسین الفاظ کی ساحرانہ قوتوں سے ادب میں گل کاری کی جاتی تھی، قریب قریب دم توڑچکا ہے او ردنیا اس حقیقت و واقعیت کو بے نقاب دیکھنے کی متمنی ہے جس کا براہِ راست زندگی سے تعلق ہوتا ہے۔ لیکن اس کے یہ معنیٰ نہیں کہ محبوب کے چہرے سے خالی الذہن ہوکر اس کو برہنہ کردیا جائے۔ 

    شاعری کے ضمن میں بہت سے سخنوروں نے محبوب کے سراپے قلم بند کیے ہیں لیکن کسی نے آج تک ناف سے نیچے اترنے کی جرأت نہیں کی اور اگر کسی نے پستی کی طرف نظر دوڑائی بھی تو اس کو شعر وسخن کی دنیا میں کوئی درجۂ قبول حصال نہ ہوسکا۔ عام طور پر شاعروں اور نثر نگاروں کے اسپِ خیال کی جولا نگاہ محبوب کے چہرے اوراس کے خدوخال تک رہی۔ یا زیادہ سے زیادہ سینہ وبازو کی رعنائیوں تک۔ لیکن نام نہاد ترقی پسند مصنفین ان گڑھوں تک میں گرجانے سے نہیں چوکتے، جن میں لطافت کی بجائے کثافت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ وہ پنڈلیوں، گھٹنوں اور رانوں کی تعریف کرتے کرتے ذرا اور آگے بڑھ جاتے ہیں اور اس بے راہ روی کو اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتے ہیں۔ اس قسم کے لوگ یہ بھی نہیں سمجھتے کہ ایک افسانے یا ڈرامے کے عناصر ترکیبی کیا ہیں۔ ان کے نزدیک ہر واقعہ ایک افسانہ ہے۔ اور ہر گفتگو ایک ڈرامہ۔ 

    وہ شاہدانِ بازاری کے کوٹھوں پر ہونے والے کاروبارِ جنسی کو موضوعِ افسانہ بناکر ایسے تمام واقعات پیش کرتے ہیں جن سے ہرشخص پہلے سے بخوبی واقف ہوتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ روزانہ موٹریں، تانگے اور بگھیاں بازارِ حسن میں چکر لگاتی ہیں، دلالوں سے گفتگو ہوتی ہے اور عورت کا جھوٹا حسن اور کچلی ہوئی جوانی چاندی کے سکوں کے عوض یا کاغذی نوٹوں کے عوض خریدی جاتی ہے۔ ان واقعات کو اگر لکھنے کے لیے کوئی آمادہ ہو تو سال کے کم سے کم تین سو پینسٹھ واقعات لکھے جاسکتے ہیں۔ 

    لیکن کیا روزمرہ کے ان تمام حادثوں اور ضرورتوں کو افسانہ کہا جاسکتا ہے اور اگر کہا جاسکتا ہے تو مجھے یقین ہے کہ اس قسم کی ادب نوازی کے لیے ترقی پسند ادیبوں سے زیادہ بازارِ حسن کا وہ گھاگ دلال مناسب ہو سکتا ہے جس کی نگاہوں کے سامنے گوشت اور خون کے بنے ہوئے ساغر و مینامیں تمام رات شراب ڈھلتی رہتی ہے۔ اور جس کی شخصیت کو یہ نام نہاد ادیب محض ایک ضمنی کردار کے طور پر اپنے افسانوں میں پیش کرتے ہیں۔ 

    *

    شام کے وقت جب محفل احباب میں پہنچا تو وہاں ’’ادب اور ادیب کی زندگی‘‘ کا موضوع زیر بحث تھا۔ دوست اظہارِ افسوس کر رہے تھے کہ ہندوستان کاوہ سب سے بڑا مزاح نگار جسے دنیائے ادب میں شہنشاہِ لطافت، مصورِ ظرافت اوراسی نوع کے خدا جانے کن کن بلندآہنگ خطابات سے یاد کیا جاتا تھا۔ افلاس اور تنگ دستی کے باعث محض اس لیے مرگیا کہ اس کی جیب خالی تھی اور وہ اس طبیب کو جس کی مسرت و شادمانی منحصر ہوتی ہے وبائی امراض کی افراط پر، مشورے کی فیس ادا نہ کرسکنے کے باعث قدرت کے رحم و کرم پر پڑا رہا کہ کب اس کی زندگی کا پیمانہ چھلکے اور وہ اطمینان کی نیند سوئے۔ وہ جس کی بے شمار تصانیف کی محض ایک ایک جلد جمع کرکے اگر کسی شخص کے کندھوں پر لاد دی جائے تو وہ اس طرح جھکنے لگے گویا کوئی دو شیزہ بارِ شباب سے یا کوئی مولوی گناہوں کے بوجھ سے دبا جارہا ہو۔ 

    ادب اورادیب کی زندگی کی یہ کشمکش اس وقت تک جاری رہے گی تاوقتیکہ ادبی ادارے یہودی صنف سرمایہ دار ناشروں کے چنگل سے نگل کر خود ادیبوں کے ہاتھ نہ لگ جائیں۔ اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ خود ادیب اس کی کوشش نہ کریں۔ لہٰذا تمام واقعات پر غور کرنے کے بعد فیصلہ کیا کہ علامہ صاحب کے لیے افسانہ نہ لکھاجائے۔ 

    *

    فروریء
    ایک ہفتے کے بعد آج مطالعے کے کمرے میں گیا تو وہاں کارنگ ہی عجیب دیکھا۔ بعض کتابوں پر خاک جمنی شروع ہوگئی تھی۔ علامہ صاحب کے بھیجے ہوئے رسالے کے سرورق پر چھوٹی صاحبزادی نے پنسل سے کچھ ایسے بے ترتیب خطوط کھینچے تھے کہ وہ سب مل ملاکر چغتائی آرٹ کا بے مثل نمونہ بن گئے تھے۔ اور خود علامہ صاحب کا خط چوہوں کے کترے جانے کے باعث قندیل کے کاغذ کی طرح ایک عجیب دلکش چیز بن گیا تھا۔ میری شان میں لکھے ہوئے تمام توصیفی الفاظ کاغذ میں خلاء پیدا کرکے کہیں غائب ہوگئے تھے۔ میں نے محسوس کیا کہ خود میری زندگی میں بھی ایک خلاء پیدا ہوچلا ہے۔ میں نے سات دن کوشش کی کہ زندگی کے ان ہنگاموں میں میں اپنے آپ کو گم کردوں جن میں نہ افسانوی رنگ ہوتا ہے اور نہ شعریت لیکن مجھے کامیابی نصیب نہ ہوسکی۔ ہر دلچسپی نے مجھے پکارا، مجھے اپنی طرف کھینچ لینے کی کوشش کی۔ لیکن میں ان سب کے درمیان اس طرح بے حس وحرکت کھڑا رہا۔ جیسے لوہے کے کسی ٹکڑے کے گرد یکساں قوت کے مقناطیس بالکل یکساں فاصلے پر رکھ دیے جائیں اور وہ ٹکڑا کسی ایک طرف نہ کھنچ سکے۔ دوستوں کی محفل میں بھی جہاں میرے قہقہے دوسروں کی ہنسی کو دباکر زیادہ بلند ہوجاتے تھے، میں ایک ناقابل فہم کشمکش میں مبتلا نظر آنے لگا۔ 

    دنیا کی ہر عورت متمنی ہوتی ہے کہ اس سے محبت کی جائے صرف اس لیے نہیں کہ وہ اپنے آپ کو حسین و جمیل یا قبول صورت تصور کرتی ہے۔ بلکہ اس لیے بھی کہ وہ جانتی ہے کہ اگر اس سے محبت نہ کی گئی تو اس کی نسائیت پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچے گی۔ اسی طرح ہر ادبی ذوق رکھنے والا شحص چاہتا ہے کہ وہ خود بھی کچھ لکھے۔ شہرت و نیک نامی کے لیے نہیں بلکہ اس لیے کہ وہ اس کمی کو پورا کردے جو پردوں میں منہ چھپائے دوسروں کی نگاہوں سے اوجھل ہے۔ 

    محبت کا سبب سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ محبت فنا ہوجائے گی۔ اسی طرح یہ معلوم کرنا بھی غیرممکن ہے کہ ایک ادیب کی ادبی زندگی کااصل راز کیا ہے۔ خود محبت کرنے والا نہیں جانتا کہ محبوب کی وہ کون سی ادا تھی، جس نے اس کا دل موہ لیا ہے اور ادیب بھی نہیں سمجھتا کہ اس کی تمام کاوشیں کیوں اور کس لیے ہیں۔ 

    حقیقی محبت غیرفانی ہوتی ہے۔ اس طرح افسانہ نگاری بھی ایک ایسا مرض ہے جو لاحق ہوجانے کے بعد دور نہیں ہوسکتا۔ بالکل ناسور کی مانند ہے۔ اسے بند کرنے کی کوشش کیجیے وہ زیادہ نقصان پہنچانا شروع کردیگا۔ 

    خیالات میں تبدیلی ہوچکی ہے۔ سوچ رہا ہوں کہ کم سے کم خاص نمبر کے لیے ایک افسانہ لکھ دوں اور اس کے بعد کوشش کرکے ہمیشہ کے لیے خاموش ہوجاؤں۔ خیر دیکھا جائے گا۔ 

    *

    فروریء
    میں نے کھڑکی کے ٹوٹے ہوئے شیشے میں سے جھانک کر دیکھا، میرے مکان کے برآمدے میں بیٹھے ہوئے چند بچے صابن کے بلبلے بنا بناکر کھیل رہے ہیں۔ رنگ برنگ کی نلکیاں ان کے ہاتھوں میں ہیں۔ ایک سراصابن کے پانی میں ڈبو کر وہ پھونک مارتے ہیں اور بلبلہ دائرہ وجود میں آنے لگتا ہے۔ بہت سے شعراءء اور مفکرین نے صابن کے بلبلوں کو حیاتِ انسانی سے تشبیہ دی ہے۔ اور حقیقتاً یہ تشبیہ بڑی حدتک مکمل اور جامع ہے۔ وجود میں آنا، پروان چڑھنا، زندہ رہنے کے لیے مصیبتیں جھیلنا اور انجام کار فنا ہوجانا۔ تمام عرصۂ حیات میں اس کے سوا اور کیا رکھا ہے۔ وہ زندگی خواہ ایک تیتری کی ہو یا ایک انسان کی۔ ڈالی پر کھلنے والے پھولوں کی ہو یا آسمان پر چمکنے والے ستارے کی۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ تمام نوع انسان سے قطع نظر صابن کے بلبلوں کا کھیل ہر ادیب کی زندگی کا ایک عکس لطیف ہے۔ میں نے چشم تصور کھول کر دیکھا۔ ایسا معلوم ہوا گویا خود علامہ صدیقی صاحب اپنے رسالے کو لپیٹ کر نلکی بنائے ان بچوں کے درمیان بیٹھے ہیں۔ اس نلکی کا ایک سراان کے منہ میں ہے اور دوسرے سرے پر بہت سے ادیب بلبلوں کی صورت میں لٹک رہے ہیں۔ ان میں سے بعض جدا ہوکر فضا میں تیرنے لگے ہیں۔ اور بعض اسی سرے پر چپکے پڑے ہیں۔ کیونکہ علامہ صاحب ان کو اپنے ہی رسالے سے وابستہ رکھنا چاہتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ میرے نام کا ایک بلبلہ بھی اس نلکی کے سرے پر ابھی تک موجود ہے۔ تاہم اس کا بہت سا پانی سمٹ کر نیچے کی طرف ایک سیاہ حلقے کی شکل میں جمع ہونا شروع ہوگیا ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ بلبلہ اب چند لمحے کا مہمان ہے۔ لیکن علامہ صاحب نے ہلکی سی پھونک مار کر تمام جمع شدہ پانی کو دوبارہ بلبلے کی وسعتوں میں گم کردیا۔ اور وہ سب سے زیادہ بڑا نظر آنے لگا۔ چنانچہ سہ پہر کی ڈاک سے ان کا ایک اور خط ملا۔ افسانے کاتقاضہ بڑی بڑی خوشامدوں کے درمیان ہلکی ہلکی دھمکیوں سے کیا گیا ہے۔ یہ خلش کسی طرح کم نہ ہوئی کہ افسانہ لکھوں یا نہ لکھوں۔ یہی سوچتا ہوا سوگیا۔ اور اسی قسم کے خواب رات رات بھر نظر آتے رہے۔ 

    *

    فروریء
    خلش انتظار سے تنگ آکر علامہ صاحب نے یاد دہانی کی ضروت محسوس کی۔ خط کے الفاظ اس درجہ منت و سماجت سے لبریز ہیں کہ اب میرے لیے اجتناب کی کوئی صورت ممکن نہیں رہی۔ ان کا خیال ہے کہ میرا شاہکار افسانہ ان کے رسالے کی جان ہوگا۔ جس کے بغیر وہ خاص نمبر شائع ہی نہیں کریں گے۔ خواہ دوسال کیوں نہ گزر جائیں صرف میرے ہی افسانے کی خاطر انہوں نے اشاعتِ خاص کی زحمت گوارا کی ہے۔ وہ یہاں تک تیار ہیں کہ اگر میں نے جلدی ہی ان کی فرمائش کی تعمیل نہ کی تو وہ خود بنفسِ نفیس میرے ’’دولت کدے ‘‘ پر آن دھمکیں گے اور جب تک میں افسانہ نہ لکھ کر انہیں پیش کردوں وہ میرے مہمان رہیں گے۔ ان آخری الفاظ کو پڑھ کر میری روح کپکپا اٹھی۔ مجھے اب تک افسانہ نویسی کے ضمن میں صرف ڈیڑھ سو فی صدی کا نقصان رہا۔ لیکن اگر خدانخواستہ، شیطان کے کان بہرے، علامہ صاحب موصوف نے نزول فرمادیا تو خالص خسارے کا تناسب پانچ سو فی صدی سے کسی طرح کم نہ رہے گا۔ کیونکہ ان کا قیام چار پانچ روز کے لیے یقینی ہوگا۔ یہ تو ظاہر ہے کہ وہ ڈھائی سو میل کا سفر صرف میرے افسانے کی خاطر کریں گے۔ تاہم اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ ان تاجروں سے ملاقات ہی نہ کریں جن سے معقول معاوضے پر اشتہارات مل سکتے ہیں۔ یا ان حضرات کو جو تھوڑا بہت ذوقِ ادب رکھتے ہیں خریداری قبول کرنے کے لیے ’’اغوا‘‘ نہ کریں۔ اور اس تمام کاروبار معصیت میں پانچ دن گزرجانے کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ میں نے ایک اچٹتی ہوئی سی نظر اپنے بوسیدہ لحاف اور پھٹی ہوئی توشک پر ڈالی کہ اگر واقعی علامہ صاحب تشریف لے آئے اور وہ بھی بغیر بستر کے جو آج کل کا فیشن ہے تو قیام کا انتظام کیونکر ہوسکے گا۔ لہٰذا تمام اونچ نیچ پر آخری بار غور کرکے فیصلہ کرنا پڑا کہ بہت جلد ایک افسانہ لکھا جائے اور ساتھ ہی تین پیسے کا پوسٹ کارڈ روانہ کردیا۔ جس کامضمون یہ تھا کہ افسانہ تو کبھی کا قلم بند کیا جاچکا ہے۔ صرف نظر ثانی کے بعد صاف مسودہ تیار کرنے کی دیر ہے۔ انشاء اللہ دو تین دن میں فرمائش کی تعمیل ہوجائے گی۔ مطمئن رہیں۔ اور تصویر کے مسئلے کو اس طرح پی گیا گویا اس کا کوئی ذکر ہی نہیں ہوا۔ پھر بھی یہ تہیہ کرلیا کہ اگر علامہ صاحب نے اصرار کیا تو کسی ایسے دوست کی تصویر بھیج دوں گا جسے اس پرکیف دنیا کو خیرباد کہے آٹھ دس سال گزر چکے ہوں۔ علامہ صاحب کے فرشتوں کو بھی اس کا علم نہیں ہوسکتا کہ تصویر دراصل کس کی ہے۔ کیونکہ حسن اتفاق سے آج تک میری ان کی ملاقات نہیں ہوئی ہے۔ 

    *

    بزمِ ادب کا جلسہ کافی مدت کے بعد کل شام کو منعقد ہوا۔ سرگرم کارکنوں کو فکر معاش سے فرصت ہی نہیں ملتی تھی کہ اس کی طرف توجہ کرتے۔ اجتماع کافی تھا لیکن سب کے چہروں پر کچھ افسردگی سی چھا رہی تھی۔ صدرمحترم نے کارروائی شروع کرنے کی اجازت دی ہی تھی کہ ساجد پشاوری دخل درمعقولات کرتے ہوئے ایک دم بول پڑا۔ 

    ’’جناب صدراور معزز حضرات! آج کے جلسے کی باقاعدہ کارروائی شروع ہونے سے قبل میں آپ کی توجہ ایک خاص موضوع کی طرف منعطف کرانی چاہتا ہوں۔ مجھے قوی امید ہے کہ آپ اس پر اچھی طرح غور فرمائیں گے۔ کیونکہ اس کا مقصد واحد اور ہم سب کے لیے مشترک ہے۔ حضرات! آپ بخوبی واقف ہیں کہ اس پرآشوب زمانے میں یعنی جب سے لڑائی شروع ہوئی ہے تمام ارباب علم و فن اور خصوصاً ادیبوں کے سوا ہر چیز کی قیمت بڑھتی چلی گئی ہے۔ تمام ضروریات کی اشیاء چار چھ گنی قیمت پر بک رہی ہیں۔ اور مزدور طبقہ بھی خوب مزے کر رہا ہے۔ ہم ان کی حمایت اور فلاح و بہبود کے لیے روزانہ بے شمار نظمیں، افسانے اور مضامین قلم بند کرتے ہیں۔ درانحالیکہ خود ہماری حالت اس وقت ناقابل بیان ہے۔ ہماری نگارشات کے مجموعے ناشروں کے پاس طاق نسیان کی زیب و زینت بنے جوں کے توں پڑے رہتے ہیں۔ کاغذ کی کمیابی کے باعث ان کی اشاعت کی نوبت ہی نہیں آتی۔ ہم سب کے پاس گذر اوقات کا لے دیکے صرف یہی ایک ذریعہ ہے کہ ہم خدمتِ ادب کے روایتی نام پر خدمتِ شکم کریں مگر راہیں مسدود ہوجانے کے باعث سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مقررہ کوٹے کے مطابق جب تھوڑا بہت کاغذ ناشروں کو مل جاتا ہے تو وہ ایسے لوگوں کی کتابیں شائع کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جنہیں کچھ معاوضہ دینا نہ پڑے تاکہ وہ اپنے کاروبار میں پورے نفع کے خود ہی مالک رہیں۔ ظاہر ہے کہ ہم لوگ اپنے مسودے کسی ناشر کو بلامعاوضہ نہیں دے سکتے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک طرف ہماری آمدنی کا سلسلہ ختم ہوگیا اور دوسری طرف ہماری بنی بنائی شہرت زمانے کے فراموش کار رویہ کے ماتحت خاک میں ملتی جارہی ہے۔ شہرت کا فی الحال اتنا ملال نہیں کیونکہ وہ ہمارے مرنے کے بعد یوں بھی زوال پذیر ہوجائے گی۔ البتہ دوزخِ شکم کی آسودگی کا سوال اہمیت رکھتا ہے۔ لہٰذا آج کی صحبت میں ہمیں سب سے پہلے اس مسئلے پر غور کرنا ہے کہ گزر اوقات کی کیا سبیل پیدا کی جائے۔ حضرات! آپ جانتے ہیں کہ میری صاف گوئی اپنے احباب کے حلقے میں ایک مثالی درجہ رکھتی ہے، اس لیے میں بالکل بیباکی کے ساتھ اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے دو وقت سے کھِیل کا ایک دانہ بھی نہیں کھایا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ مالک مکان نے کئی ماہ سے کرایہ وصول نہ ہونے کے باعث بلاتاخیر انخلا ءکا نوٹس دیدیا ہے۔ جی چاہتا ہے کہ ان مشکلات سے نجات پانے کے لیے فوراً خودکشی کرلوں مگر پھر سوچتا ہوں کہ بقول غالبؔ

    اب تو گھبراکے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے 
    مرکے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے 

    ساجدؔ پشاوری کی تقریر اس درجہ دردناک اورموثر تھی کہ محفل میں اکثر احباب کی آنکھیں پرنم ہوگئیں۔ جنابِ صدر کی حالت خصوصیت کے ساتھ ناگفتہ بہ تھی۔ ان کا دل اس قدر بھر آیا کہ ہچکیاں لے لے کر رونے لگے۔ بعد کی تحقیقات سے یہ راز منکشف ہوا کہ موصوف تین وقت سے بالکل بھوکے تھے۔ نیز بیوی بچوں کی مسلسل علالت نے طبیعت سخت پریشان کر رکھی تھی۔ چونکہ سب کی حالت ایک حمام برہنہ لوگوں کی طرح بالکل یکساں تھی، اس لیے بڑی سنجیدگی کے ساتھ زندگی کے زیر بحث مسائل پر غور کیاجانے لگا۔ اس وقت یعنی شام کے چھ بجے تک چپڑاسی کے سوا سب اراکین صبح سے نہار منہ تھے، لہٰذاخلوئے معدہ کے باعث دماغ اپنی پوری قوتِ فکر کے ساتھ کام کرتا رہا۔ نت نئی تجاویز پیش ہوئیں لیکن سب رد ہوتی چلی گئیں۔ حتی کہ بالکل غیرمتوقع طور پر ایاز امرتسری کہیں سے گھومتا گھامتا آنکلا۔ وہ نشے میں بری طرح دھت تھا۔ اس کے لباس تک سے شراب کی بدبو آرہی تھی کیونکہ حسب دستور جیب میں رکھی ہوئی ٹھرے کی بوتل کسی ضرب شدید سے ٹوٹ گئی تھی۔ وہ سب کی بپتا اورزیر بحث مسئلے کی تفصیل سن کرمسکرادیا۔ اور بولا۔ 

    ’’دوستو! میری روش اختیار کرو۔ کسی قسم کی پریشانی اور مصیبت تمہارے قریب بھی نہ پھٹکے گی۔ البتہ ذرا سا بے غیرت بننا پڑے گا۔ میرا معمول ہے کہ علی الصبح گھر سے نکل کرپورا تانگہ کرایہ پرلیا اور کسی دوست کے گھر جادھمکا۔ کرائے کی رقم اس سے دلوائی، وہیں ناشتہ کیا اور دوچار غزلیں سناکر اجازت طلب کرلی، وہاں سے کسی بار روم میں جاپہنچا۔ شراب کا ایک پیگ منگایا اور مزے لے لے کر آہستہ آہستہ پینے لگا۔ مے خانے کے ملازم میری عادت سے واقف ہوگئے ہیں۔ وہ مجھے کافی دیر اسی حالت میں رہنے دیتے ہیں۔ اس اثناء میں کوئی نہ کوئی جانا پہچانا ادھر آنکلتا ہے۔ بس اسے دیکھتے ہی فوراً شریک شراب و کباب کرلیا۔ نشے میں جھوم جھوم کر خوب اس کے دھپ لگائے تاکہ زیادہ بے تکلفی محسوس ہونے لگے پھر ایک دو غزلیں سنائیں اور اسے خوش کردیا۔ نتیجہ یہ کہ بل کی رقم اسے ادا کرنی پڑی اور بندہ گلاسوں کی بچی کھچی شراب اپنی بوتل میں ڈال وہاں سے چل کھڑا ہوا۔ یہ اپنا معمول ہے اور زندگی اس طرح بھی گذر جاتی ہے۔ ‘‘

    ایازؔ امرتسری کی گفتگو اس درجہ پرمعنی اور مفید مطلب تھی کہ چند ضرورت سے زیادہ خود دار لوگوں کے سواباقی سب نے اس کی ہمت کو سراہا اور اس کے نقوشِ قدم پر چلنے کے لیے آمادگی ظاہر کی۔ 

    مجھے رہ رہ کر حیرت ہو رہی تھی کہ ہمارے ادیبوں اور شاعروں کی ذہنیت اس قدر پست اور متبذل کیوں ہوتی جارہی ہے۔ خصوصاً شعراء ءپر غصہ آ رہا تھا کیونکہ وہ مشاعروں میں شریک ہونے کے لیے فرسٹ کلاس کا کرایہ لے کر جب سے تیسرے درجے میں سفر کرنے کے عادی ہوئے ہیں، ان کا معیار اخلاق بری طرح گرگیا ہے۔ 

    غرض یہ کہ ڈیڑھ گھنٹے کی نشست کے بعد جب بزم کا جلسہ اصل کارروائی کے بغیر ختم ہوا تو صدر سمیت ا کثر کے چہروں پر بشاشت کی جھلک موجود تھی۔ وہ اس طرح خوش تھے گویا تفریح دل و دماغ کے ساتھ ساتھ آسودگی شکم بھی نصیب ہوگئی ہے۔ میں لاحول پڑھتا اپنے گھر لوٹا اور تہیہ کرلیا کہ آئندہ اس بزم کے جلسے میں کبھی شریک نہیں ہونگا۔۔۔ 

    *

    اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بقول عبادتؔ بریلی ’’فنونِ لطیفہ کی طرح شاعری بھی ہمیشہ ایک حالت پر نہیں مل سکتی۔ اس میں بھی سماجی تغیرات کے ساتھ ساتھ صوری و معنوی دونوں اعتبار سے تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ ‘‘ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ یہ تبدیلیاں اصول اور قواعد کی حدود میں ہو رہی ہیں یا ان سے باہر نکل کر۔ مثال کے طور پر موصوف نے میراجیؔ کی ایک نظم ’’سرسراہٹ‘‘ کا کچھ حصہ پیش کیا ہے جس کا چوتھا مصرع ہے،

    ’’اچانک جاگ اٹھتی ہے۔‘‘

    اس ’’رودِقلیل‘‘ کے مقابلے میں ’’بحرِطویل‘‘ بھی قابل غور ہے۔ آٹھواں مصرع لکھتے ہیں،

    ’’مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ لہریں ابھی تک ساحلی منظر سے ناواقف ہیں، یونہی ایک بہانہ کر رہی ہیں۔ ایک بہانہ کس کو کہتے ہیں؟ بہانے ہی بہانے ہیں!‘‘

    یہ کسی خطبۂ صدارت کی تمہید نہیں بلکہ میراجیؔ کی نظم کا ایک مصرع ہے۔ صرف ایک مصرع۔ اور عبادتؔ بریلوی کو اس لیے پسند ہے کہ اس کے ذریعے اردو شاعری میں ہیئت کا ایک کامیاب تجربہ کیا گیا ہے۔ وہ میراؔجی کے پرستار ہونے کے علاوہ کمنگسؔ کے بھی شیدائی ہیں اور محض اس لیے شیدائی ہیں کہ وہ ’’نہ صرف اپنی نظموں کے اشعار اور سطروں بلکہ الفاظ تک کو توڑ مڑور کر لکھتا ہے۔ ‘‘ (شاید اسی طرح جیسے بلی کبوتر کی گردن مڑوڑ کر رکھ دیتی ہے) دوسرے الفاظ میں یوں سمجھنا چاہیے کہ اگر عبادتؔ بریلوی کا تعارف کمنگسؔ سے کرا دیا جائے اور وہ توڑ مروڑ کر ان کا ذکر حقیر اپنی سطروں میں کرے تو اس کے مخصوص طرز کے مطابق ’’عبادتؔ بریلوی‘‘ پر ہیئت کا ایک کامیاب تجربہ مندرجہ ذیل میں سے کسی ایک صورت میں ہوگا:

    ’’تدابع یوسیرب‘‘ یا ’’عبادت بریلوی‘‘ یا ’’برت عبادیلوی‘‘ یا ’’برعبایلوی دت‘‘ اور نہ جانے کیا کیا۔

    موصوف کی یہ بھی رائے ہے کہ مختارؔ صدیقی ’’خیال درباری بلمپت میں ‘‘ پھیلاؤ کو اس طرح پیش کرتا ہے کہ اس کی ہیئت سے پھیلاؤ کی کیفیت محسوس ہونے لگتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’خیال درباری بلمپت میں ‘‘ کس طرزِ شاعری کا نام ہے۔ مثال کے طور پر جو نمونہ انہوں نے پیش کیا ہے، وہ شاید کسی دلہن کے شرمانے لجانے کا ذکر ہے شمعوں اور فانوسوں کی روشنی میں۔ اصل الفاظ تو یاد نہیں رہے، البتہ اس کے تیور کچھ اس قسم کے تھے،

    ’’ایک

    ایک لڑکی

    ایک لڑکی بگھاڑتی ہے 

    ایک لڑکی بگھارتی ہے دال

    ایک لڑکی بگھارتی ہے دال اور دال

    ایک لڑکی بگھارتی ہے دال اور دال کرتی ہے 

    ایک لڑکی بگھارتی ہے دال اور دال کرتی ہے عرض یوں 

    ایک لڑکی بگھارتی ہے دال اور دال کرتی ہے عرض یوں احوال

    *

    اگستء
    قبل از وقت سوجانے کے باعث آدھی رات سے نیند اچاٹ ہوگئی۔ کچھ دیر کروٹیں بدلتا رہا کہ شاید دوبارہ آنکھ لگ جائے۔ لیکن جب اس کی کوئی امکانی صورت پیدا نہ ہوئی تو اٹھ کر کھڑکی کے قریب بیٹھ گیا۔ ہوا میں کسی قدر خنکی تھی۔ اور دور بھونکنے والے کتوں کی عف عف اور مینڈکوں کی ٹرواس کے سوا ساری فصا پرسکون تھی۔ تپ دق کے مریض کی مانند پیلا چاند بادلوں کی اوٹ میں کبھی چھپتا، کبھی نکلتا ایک ایسی منزل کی طرف سرگرم سفر تھا، جس کے درمیانی فاصلے کو پیمائش کا کوئی آلہ ناپ نہیں سکتا۔ کالے اور بھورے بادلوں میں عجیب و غریب قسم کی شکلیں بن بن کر بگڑ رہی تھیں۔ 

    ایک طرف ایسا معلوم ہوا کہ کوئی ننگ دھڑنگ سا آدمی ذرا سی لنگوٹی باندھے زمین پر کچھ بکھیر رہا ہے۔ وہ شاید آسمانی دنیا کا کسان تھا۔ جو اپنے کھیت میں بیج ڈال رہا تھا۔ بادلوں کے چھٹ جانے کے بعد جب تارے نکل آئیں گے تو کہا جائے گا کہ اس کی فصل تیار ہوگئی۔ اور محنت کا ثمر مل گیا۔ اتنے میں ایک اور سفید ٹکڑا غضبناک انسان کی صورت بنائے اس کے پیچھے لپکا۔ وہ یقیناً زمیندار تھا۔ اور چاہتا تھا کہ کھیت کا باقی ماندہ لگان وصول کرنے کے طور پر کسان کی لنگوٹی بھی چھین لے تاکہ اس غریب کے تن پر کچھ رہنے نہ پائے۔ کچھ فاصلے پر ایک نوجوان بیوہ اپنی زلفیں بکھیرے غمگین صورت بنائے آہ و زاری میں مصروف تھی۔ قریب ہی کھڑا ہوا ایک پنڈت اسے للچائی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ بظاہر وہ اسے تاکید کر رہا تھا۔ کہ دوسری شادی نہ کیجو۔ لیکن اشاروں ہی اشاروں میں یہ بھی کہتا معلوم ہو رہا تھا کہ اگرمیری کٹیا میں آنا چاہے تو ابھی ساتھ چلی چل۔ اس میں ایک ہستی کی گنجائش باقی ہے۔ کسی بھٹکے ہوئے پرندے کی پرواز کے ساتھ میری نگاہیں دوسری طرف پلٹ گئیں۔ ایک حسین مریضہ کے سرہانے اس کا سچا عاشق مدقوق چہرے پر نظرجمائے اس انتظار میں بیٹھا تھا کہ یہ کب مرے اور میں نرس کو ساتھ لے کر کہیں فرار ہوجاؤں۔ 

    میں حیران تھا کہ کارکنانِ قدرت کو آج یہ کیا سوجھی ہے کہ سارے آسمان کو کسی ترقی پسند مصنف کی نگارشات کا مصور ایڈیشن بنادیا ہے اور اگر یہ دل لگی کرنی ہی مقصود تھی، تو اس ناکارہ ادیب کو بھی آسمان پر اٹھا لیا ہوتا۔ تاکہ ایک طرف اس کی تصویر تصنیف کے ساتھ رہتی اور دوسری طرف یہ دنیا اس کے وجود سے پاک ہوجاتی۔ 

    یہ ترقی پسند ادیب بھکارنوں، مہترانیوں، سڑک پر کنکر توڑنے والیوں، مزدورنیوں، کا چھنوں اور بازاری عورتوں وغیرہ سے متعلق افسانے ڈرامے اور مضامین صرف اس لیے لکھتے ہیں کہ انہیں اس مخلوق کی استعمال شدہ بچی کھچی زندگی چار چھ آنے کے عوض مل جاتی ہے۔ اور چونکہ ہمیشہ اس ماحول میں زندگی بسر کرتے ہیں، اس لیے اپنی تحریروں میں وہ رنگ بھرے بغیر رہ نہیں سکتے جوآج کل سب سے زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔ ورنہ جہاں تک فن ادب کا تعلق ہے وہ اس کا مقصد نہ سمجھے ہیں۔ اور نہ کبھی سمجھ سکیں گے۔ وہ اپنی کاوشوں کا حاصل اس سے زیادہ کچھ نہیں چاہتے کہ جب ان کا کوئی افسانہ شائع ہو تو ایک ہم عصر خاتون انہیں یہ لکھ بھیجیں۔ کہ ’’بھائی! تم تو ملیریا ہو۔ ‘‘ اورصاحب خوش ہوکر جواب دیں۔ ’’نہیں۔۔۔ بہن! میں تو کونین ہوں۔ ‘‘ اور بس ان کی زندگی کے کھیل میں ایک درمیانی وقفہ ہو، تماشائی اس اجیرن ڈرامے سے اکتا کر باہرنکلیں اور واپسیاں بیچ بیچ کر اپنے گھروں کی راہ لیں۔

     

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے