ادب اور انقلاب
ادب اور انقلاب کے درمیان کیا رشتہ ہے؟ ادب کو انقلاب کے کام میں معاون ہونا چاہئے، یا نہیں؟ اگر ہونا چاہئے تو کس حد تک؟ یہ سب سوال ایسے ہیں جن کا جواب سوچنے سے پہلے ہمیں انقلاب کے مفہوم کا تعین کرنا چاہئے کیونکہ عموماً جو لوگ انقلاب پسند ہوتے ہیں انہیں خود پتہ نہیں ہوتا کہ انقلاب کسے کہتے ہیں اور ہم اس سے کیا مراد لیتے ہیں۔ ادب ہی میں نہیں، سیاست میں بھی بہت سی خرابیاں اس لفظ کو صحیح طور سے نہ سمجھنے کی وجہ سے واقع ہوتی ہیں۔ اوپر سے مشکل یہ ہے کہ تمام اصطلاحی الفاظ کی طرح اس لفظ کے مفہوم کا تعین ایک فرد کے حسیاتی تجربے کے ذریعے اتنا نہیں ہوتا جتنا سیاسی یا عمرانی عقیدوں کی بنیادوں پر قائم ہونے والی جماعتوں کی ضرورتوں اور بعض اوقات سہولتوں کے لحاظ سے۔ بہر حال لفظ انقلاب کو الٹیے پلٹییے تو اس کے بھی کئی مفہوم نظر آتے ہیں۔
سب سے پہلے جس چیز سے ہم دوچار ہوتے ہیں وہ انقلاب کے بارے میں ایک عام آدمی کا تصور ہے۔ چونکہ ہر انقلابی عمل کے ساتھ ساتھ کچھ طاقت کے استعمال کے مظاہرے بھی دیکھنے میں آتے ہیں، خونریزی بھی ہوتی ہے، لوگ لوٹ مار سے بھی باز نہیں رہتے،ایسے تماشے چھوٹے بڑے پیمانے پر ہرقوم دیکھ چکی ہے۔ چنانچہ انقلاب کا نام لیتے ہی سب سے پہلے خونریزی کی تصویر سامنے آتی ہے۔ چونکہ زیادہ تر یہی ہوتا ہے کہ حکمران افراد یا طبقے آسانی سے اپنی جگہ چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے اور انہیں طاقت استعمال کر کے ہٹانا پڑتا ہے۔ اس لئے انقلاب کے لئے کام کرنے والی جماعتیں خود انقلاب کے اس تصور کی ہمت افزائی کرتی ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ انقلاب کے بعد یہ تصور خود ان کے گلے میں پھندا بن جاتا ہے، مگر انقلاب سے پہلے عوام کو طاقت کے استعمال کے لئے آمادہ کرنے کی خاطر انہیں اس تصور کو براہ راست یا محض چشم پوشی کر کے پھیلانا پڑتا ہے۔
انقلاب سے پہلے جو سیاسی اور معاشی انقباض کاعالم ہوتا ہے وہ خود طبیعتوں میں ایذا رسانی کا رجحان پیدا کر دیتا ہے۔ چنانچہ انقلاب میں حصہ لینے والے یا حمایت کرنے والے ’’انقلاب زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے سب سے پہلے یہ نہیں سوچتے کہ انقلاب ہمیں حکمران بنا دے گا، اس کے بجائے ان کے ذہن میں سب سے پہلے یہ خیال آتا ہے کہ ہمیں موجودہ حکمرانوں کو غارت کرنے کا موقع ملے گا۔انقلاب کایہ تصور صرف عوام ہی تک محدود نہیں، انقلاب کے زمانے میں ایسے ایسے لوگ اس سے متاثر ہو جاتے ہیں جوعام حالات میں بڑے امن پسند ہوتے ہیں، بلکہ شاعر اور ادیب تو اس تصور کو اور بھی جلدی قبول کرتے ہیں، کیونکہ انہیں اپنے زمانے کی غیر شعوری خواہشوں سے بڑا قریبی تعلق ہوتا ہے۔ اور تو اور خود شیلی، جو انقلابیوں کو مشورہ دیتا ہے کہ ظلم کا مقابلہ اہنسا کے ذریعے کرو، وہ بھی عموماً انقلاب کا ذکر قتل و غارت گری کے بغیر نہیں کر سکتا۔
یہ ضرور ہے کہ بعض اوقات اسے ایسے انقلاب ہی سے وحشت ہونے لگتی ہے جس میں انسانوں کو قتل کرنا ضروری ہو، مگر خونی مناظر سے لطف لینے میں وہ کسی سے کم نہیں ہے۔ شیلی کیا معنی، انقلاب فرانس کے بعد سے لے کر یورپ بھر میں جتنی انقلابی شاعری ہوئی ہے اس میں خون بہانے کا ذکر کافی ہے۔ بلکہ ٹھیٹ مارکسیت کے زیر اثر جو انقلابی نظمیں لکھی گئی ہیں وہ بھی اس سے خالی نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ ڈے لوئیس، اسپینڈر، آڈن جیسے سنجیدہ لوگوں کی نظموں میں بھی یہ بات ملتی ہے۔ خود ہمارے یہاں اردو میں بھی یہی حال رہا ہے۔ اب سے دس سال پہلے کی سیاسی نظمیں یاد کیجئے، ان میں خنجر و شمشیر، آگ اور خون کا کتنا ذکر ہوتا تھا۔ خصوصا احسان دانش کی ایک نظم میں تو انتہا ہوگئی ہے۔۔۔ وہ نظم جس میں شاعر انقلاب کے متعلق خواب دیکھتا ہے۔ ادب کے علاوہ آرٹ میں بھی یہی رنگ ہے۔ بہترین مثال دلاکروا کی ہے۔ وہ تو ایک لمحے کے لئے بھی خونریزی اور انقلاب کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کر سکتا۔ غرض کہ اگر ہم ادب میں انقلاب کے اس تصور کی مثالیں ڈھونڈنا چاہیں تو سیکڑوں صفحے جمع کر سکتے ہیں۔
مگر کیا یہ ادب بڑا تصور پیش کر سکتا ہے؟ اس سے تو مارکسی لوگ تک انکار کریں گے۔ ادب بنفسہ ایک نئے توازن کی تلاش ہے اور انقلاب کے اس تصورمیں توازن کی جگہ ہی نہیں رکھی گئی۔ ادب نیا توازن چاہتا ہے۔ کیونکہ ادب بنیادی اعتبار سے تعمیر اور تخلیق کا حامی ہے اور متذکرہ بالا تصور میں تخریب برائے تخریب اور سب چیزوں پر حاوی ہے، اس لئے اس تصور کے ذریعے مؤثر ادب تو پیدا ہوسکتا ہے مگر بڑا ادب پیدا نہیں ہو سکتا، عموما ایسے موقعوں پر لکھنے والا محض خطابت پیش کرتا ہے ادب نہیں، یہ خطابت انقلابی زمانہ گزرنے کے بعد بڑی پھیکی، کھوکھلی سی، بلکہ بعض اوقات تومضحکہ خیز معلوم ہونے لگتی ہے۔
ییٹس نے کہا ہے کہ آدمی اپنے آپ سے جنگ کرے تو شاعری پیدا ہوتی ہے، اوروں سے جنگ کرے تو خطابت پیدا ہوتی ہے۔ جس طرح کی انقلابی شاعری کا ہم اس وقت ذکر کر رہے ہیں، اس میں تو لڑائی دوسروں کی روحوں یا اصولوں سے بھی نہیں ہوتی بلکہ دوسروں کو محض اشیا سمجھ کر۔۔۔ اور ایسی اشیا جنہیں ہم صرف توڑ پھینکنا چاہتے ہیں۔ جس چیز کو آپ صرف محض توڑ پھینکنا چاہتے ہوں، اس کے متعلق آپ کا رویہ کسی اعتبار سے تخلیقی ہوہی نہیں سکتا۔ جتنی دیر تک آپ کے دماغ پر چند چیزوں کو (انسانوں یا اصولوں کو نہیں، چیزوں کو) محض توڑ پھینکنے کی خاطر توڑ پھینکنے کا جذبہ مسلط رہے گا، آپ بڑا ادب تخلیق ہی نہیں کر سکیں گے۔ یہ رویہ تو سرے سے غیر انسانی ہے اور انسان اپنی انسانیت کھو کر انسانی معنویت رکھنے والی چیز تخلیق نہیں کر سکتا۔
البتہ ایک بات ضرور ممکن ہے۔ ہو سکتا ہے کہ تخریب برائے تخریب کا جذبہ آہستہ آہستہ تخریب کو معروضی طور سے یا بڑی دلچسپی کے ساتھ مشاہدہ کرنے کے جذبے میں تبدیل ہو جائے اور فنکار تخریبی عمل کی بڑی اچھی تصویر پیش کردے۔ ایسی صورت میں وہ واقعی قابل قدر ادب اور آرٹ پیدا کر سکتا ہے۔ اس کی سب سے اچھی مثال دلاکروا کی تصویریں ہی ہیں۔ بہرحال یہ کام آدمی انقلاب کے بعد تو کر سکتا ہے انقلاب سے پہلے نہیں۔ خصوصاً وہ فنکار جو انقلابی عمل میں مدد بھی کرنا چاہتا ہو اور اس کے دماغ پر خون ریزی بھی مسلط ہو۔
جن فنکاروں کے دماغ پر انقلابی خون ریزی غالب آجائے ان کی شخصیت کو جنسی پیچیدگیوں سے خالی نہیں سمجھنا چاہئے، مجھے پھر دلاکروا ہی کی ایک تصویر یاد آتی ہے۔۔۔ آزادی کی دیوی مورچے پر۔۔۔ اس تصویر میں صرف دلاکرواہی کی نہیں اس قسم کے سب انقلابی فنکاروں کی نفسیاتی سوانح عمری واضح طور پر بیان ہو گئی ہے۔ آزادی کی دیوی بڑی چوڑی چکلی اور توانا قسم کی عورت ہے، جس کا سینہ خوب بھرا ہوا ہے۔ اس قسم کی عورت مصور کی توجہ کا مرکز ہے، مگر وہ جسمانی اعتبار سے ایسی عورت پر قابو پانے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ اس لئے اس کی بے قراری اور ناآسودگی سادیت اور مساکیت میں تبدیل ہو جاتی اور وہ لاشوں کے ڈھیر اور زخموں کے انبار کے بغیر ایسی عورت کا تصور کر ہی نہیں کر سکتا۔ اگر ایسا فنکار سیاست سے بھی دلچسپی رکھتا ہو تو وہ فوراً انقلابی خون ریزی کا شیدائی بن جاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اس جنسی پیچیدگی کی وجہ سے سیاسی تخریب برائے تخریب کی شدت کم ہو جاتی ہے اور فنکار کی تخلیق میں نفسیاتی مسائل داخل ہوکر اسے غیر ادب یا غیر آرٹ بن جانے سے بچا لیتے ہیں۔ چنانچہ اس جنسی الجھن کے اچھے بھی پہلو ہیں اور برے بھی۔ اس کے بغیر دلاکروا کی تصویریں کامیاب ہی نہیں ہو سکتی تھیں۔
(2) انقلاب کا دوسرا مفہوم زیادہ گہرا ہے۔ انقلابیوں میں جو لوگ سمجھدار ہوتے ہیں وہ شروع ہی سے اس مفہوم سے واقف ہوتے ہیں۔ دوسرے لوگ بھی انقلاب کے بعد معاملے کی تہہ کو پہنچ جاتے ہیں یا پھر دنیا کے دھندوں میں ایسے لگتے ہیں کہ انہیں فکرہی نہیں ہوتی انقلاب کیا ہوتا ہےکیا نہیں۔ انقلاب کا اصلی مفہوم خونریزی اور تخریب نہیں، نہ محض کسی نہ کسی طرح کی تبدیلی کو در اصل انقلاب کہتے ہیں۔ یہ تو ہیں انقلاب کے سب سے سستے معنی، اصلی انقلاب تو بغیر خون بہائے بھی ہو سکتا ہے۔۔۔ حالانکہ عموما ًخون بہتا ضرور ہے۔ انقلاب کے معنی حقیقت میں یہ ہیں کہ نظام زندگی جو ناکارہ ہو چکا ہے بدل جائے اور اس کی جگہ نیا نظام آئے جو نئے حالات سے مطابقت رکھتا ہو، اصلی انقلاب صرف سیاسی یا معاشی نہیں ہوتا بلکہ اقدار کا انقلاب ہوتا ہے، انقلاب میں صرف سماج کا ظاہری ڈھانچہ نہیں بدلتا بلکہ دل و دماغ سب بدل جاتا ہے۔ اصلی انقلاب نفسیاتی انقلاب ہوتا ہے۔ اس سے نیا انسان پیدا ہوتا ہے (ظاہر ہے کہ نیا میں صرف بہت محدود معنوں میں کہہ رہا ہوں۔)
اس قسم کے انقلاب میں ادب ہمیشہ معاون ہوتا ہے بلکہ ایسے انقلاب سے چار قدم آگے چلتا ہے۔ بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت کا احساس سب سے پہلے ادب ہی دلاتا ہے۔ ان تبدیلیوں کے نفسیاتی پہلوؤں کی تشکیل ادب ہی کرتا ہے۔ اپنے آپ کو انقلابی کہے بغیر ادب ہر بڑے اور بنیادی انقلاب کا نقیب ہوتا ہے۔ ڈی ایچ لارنس نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ جب تک ادیب انسانی شعور کی بنیادی تبدیلیوں کی عکاسی نہ کرے وہ بڑا ادیب بن ہی نہیں سکتا۔۔۔ حالانکہ اپنے آپ تولارنس سیاست سے بیزاری کا اعلان کرتا ہے، مگر اس نے تسلیم کیا ہے کہ انسان کے سیاسی شعور میں چندتبدیلیوں کی تصویر دکھلانے کی وجہ سے شیکسپئر اتنا بڑا بنا ہے، حالانکہ شیکسپئر کے بارے میں مجھے یہ بیان پوری طرح قبول نہیں ہے، مگر بنیادی اعتبار سے لارنس نے ٹھیک بات کہی ہے۔ بلکہ جوئس تک کے یہاں شعور کی تبدیلیوں اور نئے انقلابوں کے آثار ملتے ہیں۔ اس اعتبار سے ہم جوئس کو بھی انقلابی ادیب کہہ سکتے ہیں۔
خیر، فی الحال انقلاب کے مفہوم کو پھیلایئے نہیں، سیاسی اور معاشی تبدیلیوں تک محدود رکھئے۔ کیونکہ یہی تبدیلیاں اکثر انسان کو سب سے ضروری معلوم ہوتی ہیں اور سب سے نمایاں شکل میں یہی تبدیلیاں ظاہر ہوتی ہیں۔ جب ایسی تبدیلیوں کی ضرورت پیش آتی ہے تو ادب ہمیشہ ان تبدیلیوں کی حمایت کرتا ہے۔ ایک آدھ یا دس بارہ ادیب اگر ان تبدیلیوں کے مخالف ہوں تو اس سے کچھ نہیں ہوتا۔۔۔ من حیث المجموع ادب ان کے حق میں ہوتا ہے۔ چونکہ ادب قوم کے ہاتھ میں ایک آلہ ہے نئے توازن کی جستجو کا، اس لئے تبدیلیوں کی حمایت ادب کے لئے ناگزیر ہے، ہمیشہ سے یہی ہوتا چلا آیا ہے اور ہمیشہ یہی ہوتا رہے گا۔
اس میں شک نہیں کہ ادیب کی شخصیت میں رجعت پسندی کا پہلو بھی بہت ہوتا ہے۔ بات یہ ہے کہ ادیب صرف ایسی چیزوں کے بارے میں لکھ سکتا ہے جو اس کے حسیاتی اور ذہنی تجربے میں آچکی ہوں۔ یہ وہی چیزیں ہوتی ہیں جو ایک خاص وقت میں موجود ہوں۔ جو چیزیں آگے چل کر وجود میں آئیں گی، اس کے بارے میں ادیب کچھ نہیں لکھ سکتا۔ کیونکہ وہ اس کے تجربے سے خارج ہیں۔ چنانچہ وہ موجودہ چیزوں کو قائم رکھنا چاہتا ہے، اس کی یہ حیثیت غیر انقلابی ہے اور ایک حد تک مستقل ہے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ جب حالات انسان کو بدلنے پر مجبور کرتے ہیں تو ادب بھی حالات کا ہم آواز ہو جاتا ہے۔
تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرنے والا ادب دو طرح کا ہوتا ہے، ایک گروہ تو ان ادیبوں کا ہوتا ہے جو مختلف طریقوں سے یہ دکھاتے ہیں کہ پرانا نظام اور پرانی اقدار کیوں ناکافی اور ناکارہ ہیں، بعض دفعہ ایسے ادیبوں کو پرانی چیزوں سے انتہائی محبت ہوتی ہے اور وہ انہیں بدلنا نہیں چاہتے، مگر ادیب کی حقیقت بیں روح اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ پرانی چیزوں کا ناکارہ پن دیکھے۔ ایسے ادیب بھی انقلاب کی خدمت کرتے ہیں، ان کا ادب تخریب برائے تخریب نہیں ہوتا، بلکہ تخریب برائے تعمیر۔ دوسرا گروہ ایسے لوگوں کا ہے جنہیں شعوری طور سے معلوم ہوتا ہے کہ پرانی اقدارکے بجائے اب کون سی اقدار کو رواج پانا چاہئے۔ کم سے کم وہ غیر شعوری طور پر نئی اقدار کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہ لوگ صحیح انقلابی ادیب ہیں خواہ ان میں تشدد پسندی ہو یا نہ ہو، چاہے آپ انہیں انقلابی نہ کہیں تب بھی انقلاب کم سے کم نفسیاتی اعتبار سے ان کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا۔
دوسرے ہر ادب کی طرح اردو ادب نے بھی ہمیشہ اس قسم کی انقلابی تبدیلیوں۔۔۔ یعنی انسانی شعور کی تبدیلیوں۔۔۔ کا ساتھ دیا ہے۔ سر سید کی تحریک میں بھی چند انقلابی عناصر تھے، چاہے وہ بظاہر سوفیصد اصلاح پسند ہی معلوم ہوتی ہو۔ بہر نوع اس تحریک نے مسلمانوں کے شعور میں جو تبدیلیاں کیں، ان میں ادب برابر کا شریک رہا۔ بلکہ وہ تبدیلیاں بڑی حد تک ادب کے ذریعے ہوئیں، اس کے بعد ہمارے شعور کو اپنی روتبدیل کرنے کی ضرورت ۳۶ء کے قریب پیش آئی، اس وقت بھی ہمارا ادب مجموعی حیثیت سے نفسیات کے اس انقلاب میں سیاست سے آگے رہا۔ یہ نفسیاتی تبدیلیاں صرف ان ادیبوں کی مدد سے نہیں ہوئیں جو شعوری طور پراقدار کا انقلاب پیدا کرنے کے حق میں تھے، بلکہ اس میں ان ادیبوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے جو شعوری طور سے ادب کو انقلابی مطالبوں سے آزاد رکھنا چاہتے ہیں، ان ادیبوں نے تو روح انقلاب کو سیاست اور معاشیات سے بھی آگے زندگی کے چھوٹے چھوٹے گوشوں تک میں پہنچا دیا ہے۔
(3) انقلاب کے یہ دو بڑے مفہوم تو ہو گئے مگر انقلاب کے معنی بعض دفعہ سیاسی جماعتوں کی سہولت کی خاطر بھی بدل جاتے ہیں۔ اس بات کی دو حالیہ مثالیں فرانس کے فلسفی ادیب ژاں پال سارتر نے ادب اور انقلاب کے تعلق پر بحث کرتے ہوئے پیش کی ہیں۔ فرانس پر جرمنوں کے قبضے کے دوران میں بہت سے سیاسی لوگ جرمنوں کے ساتھ جا ملے تھے۔ ایسے ایک صاحب تھے جنہوں نے فرمایا کہ ملک کی موجودہ حالت کے پیش نظر انقلاب کا مطلب یہ ہے کہ جو چیز جیسی ہے اسے ویسا ہی برقرار رکھا جائے۔ دوسری تعریف ایک کمیونسٹ نے پیش کی ہے کہ انقلاب کے معنی ہیں پیداوار بڑھانا۔
یہ دوا یسی تعریفیں ہیں جن سے انقلاب کا سارا تصور ہی الٹ پلٹ ہو جاتا ہے۔ یہ بات مانی جا سکتی ہے کہ ہر وقت انقلاب کی ضرورت نہیں ہوتی، جب ایک مرتبہ پرانا نظام اقدار ختم ہو جائے تو لازم ہوتا ہے کہ تخریبی کارروائیاں بند کر کے نئی اقدار کو مستحکم بنیادوں پر قائم کیا جائے۔ مگر یہ عمل انقلاب نہیں کہلا سکتا اور اس کی ضرورت ہے۔ مگر بات یہ ہے کہ انقلاب بڑا دلکش لفظ ہے جسے سن کر ہر آدمی کو تھوڑا بہت جوش ضرور آ جاتا ہے اور سیاسی جماعتیں اپنے حامی جوش و خروش ہی کے ذریعے حاصل کرتی ہیں تو پھر وہ ایسے کارآمد لفظ کو کیسے چھوڑ سکتی ہیں؟ مگر چونکہ انقلاب کے بعد ایک نئی جماعت برسراقتدار آجاتی ہے، اس لئے انقلاب کا اصلی مفہوم اس کے مفاد کے خلاف ہوتا ہے، دوسری طرف اس لفظ کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرنا بھی لازمی ہے۔ چنانچہ لفظ کا مفہوم ہی بدل دیا جاتا ہے۔ اب انقلاب کے معنی بدلنا نہیں رہتے بلکہ قائم رکھنا ہے، یہ ہماری بیسویں صدی کی سیاست کا کرشمہ ہے۔ بے ایمانیاں تو پہلے بھی ہوتی آئی ہیں مگر لفظوں کے مفہوم کو اتنی آسانی سے توڑ مروڑ لینا لوگوں کو نہیں آتا تھا۔
ادب تو انقلاب کا ساتھ اس وقت دیتا ہے جب خود زندگی کو انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے۔ مذکورہ بالا انقلاب چونکہ ایک مہمل اصطلاح ہے، اس لئے ادب اس کا ساتھ دے ہی نہیں سکتا۔ اگر ادیب کو یہ سمجھا یا جائے کہ اب انقلاب کی ضرورت ختم ہوگئی تو وہ مان لے گا۔ لیکن غیر انقلابی عمل کو انقلاب کہہ کر اس سے حمایت طلب کی جائے تو اس کے اعصاب اس مفہوم کو قبول کرنے سے انکار کر دیں گے۔ البتہ یہ دوسری بات ہے کہ کسی ملک کے ادیب بالکل سیاسی لوگوں کے غلام بن گئے ہوں اور ہربات بے چوں وچرا مان لیتے ہوں، مگر اپنے حسیاتی تجربے کے بر خلاف حقیقت کی کوئی تفسیر قبول کرنے کے معنی یہ ہیں کہ وہ قابل قدر ادب پیدا کر ہی نہیں سکیں گے۔ روس میں آج کل یہی ہو رہا ہے۔
انقلاب کے یہ سب مفہوم تو کم و بیش سیاسی تھے۔ چونکہ انقلاب کا لفظ سب سے زیادہ سیاسی اور معاشی اداروں کے بارے میں استعمال ہوتا ہے، اس لئے سیاسی جماعتوں نے اسے اپنا کھلونا بنا رکھا ہے اور وہ ادیبوں سے بھی یہ توقع کرتی ہیں کہ ہم انقلاب کے جس تصور کو رواج دینا چاہیں اسے قبول کر لو۔ مگر آخر ادب یہ پابندی کیوں گوارا کرے؟ انقلاب صرف سیاسی چیز نہیں ہے۔ سیاسی سے کہیں زیادہ تو یہ ایک نفسیاتی مظہر ہے۔ تو ہم ادب کا ذکر کرتے ہوئے انقلاب کا وسیع ترین مفہوم کیوں نہ ذہن میں رکھیں؟
اگر انقلاب کے معنی نئے حالات سے مفاہمت پیدا کرنے کے لئے اپنے آپ کو بدلنے کے ہیں تو ایسی مفاہمت کی ضرورت تو زندگی کے چھوٹے چھوٹے شعبے میں ہر لمحے پیش آتی رہتی ہے اور ادب عموما انہیں لمحوں کی عکاسی کرتا ہے۔ حقیقت کے مطالبات سے ہم آہنگی پیدا کرنے کا عمل خود ایک مسلسل انقلاب ہے اور ادب سب سے پہلے اس انقلاب کا آئینہ دار ہے، بلکہ اسی وجہ سے انسان کی بقاکے لئے ضروری ہے۔ ادب کا انقلابی عمل ہے حقیقت سے ہم آہنگی پیدا کرنا اور اس کا ذریعہ ہے حقیقت کی بدلتی ہوئی شکلوں کے ساتھ ساتھ زندگی کی اوضاع کو مناسب حدوں تک بدلنا۔ زندگی میں صرف سیاسی اور معاشی سطح پر ہی جدلیاتی عمل نہیں ہو رہا، بلکہ جدلیاتی عمل کے بیسیوں میدان ہیں۔ ادب جدلیاتی عمل کے ہرچھوٹے بڑے مظہر کا احاطہ کرتا ہے۔ میر کا یہ مشہور شعر دیکھئے،
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
میاں خوش رہو ہم دعا کر چکے
کیا اس شعر میں کچھ کم جدلیات ہے۔۔۔؟ بلکہ اصلی جدلیات تو روز مرہ کے انسانی تعلقات ہی کی ہے۔ میر کے مندرجہ ذیل شعر میں کیا کچھ انقلاب۔۔۔ نفسیاتی اور اخلاقی انقلاب۔۔۔ چھپا ہوا ہے،
وجہ بیگانگی نہیں معلوم
تم جہاں کے ہو واں کے ہم بھی ہیں
اگر لوگ میر کے اس شعر کی جدلیات کو سمجھ لیں تو اس سے جو انقلاب رونما ہوگا، وہ مارکس کے انقلاب سے کہیں بڑا ہوگا۔ یہ ٹھیک ہے کہ انسانوں کی اکثریت اس جدلیات کو نہیں سمجھ سکتی اور اسی لئے میر کا تصور کردہ انقلاب کبھی رونما نہیں ہوگا، مگر بہرحال ادب کا کام تو یہی ہے کہ وہ انسانوں کے سامنے انقلاب کی نئی سے نئی شکلیں پیش کرتا رہے اور انقلاب کے مفہوم کو وسیع سے وسیع تر اور عمیق تر بناتا رہے۔ بڑا ادیب ہی سب سے بڑا انقلابی ہوتا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.