ادب اور جنسیات
یونانی دیومالا کی ایک روایت ہے کہ قدیم دور میں اس دنیا میں ایسے لوگ بستے تھے جو نیم مرد اور نیم عورت تھے، ان لوگوں کو اپنی قابلیت پر بڑا ناز تھا، اور اسی ناز کے باعث وہ دیوتاؤں کے خلاف بغاوت کر بیٹھے۔ کہتے ہیں کہ دیوتاؤں کے بادشاہ رئیس نے ان کے اس غرور اور بغاوت سے خفا ہوکر ان لوگوں کے دو دو الگ ٹکڑے کرکے زمین پر پھینک دے۔ نیم مرد اور نیم عورت اس وقت سے لے کر آج تک مرد اور عورت کے یہ منقسم حصے، ایک دوسرے میں مدغم ہوکر تکمیل پانے کی کوشش کر رہے ہیں ایک دوسرے کے لیے یہی تڑپ اور کشش عشق ہے، اور ان کا اتصال ہی تکمیل عشق ہے۔
اب نامور انگریز شاعر سون برن (SWIN BURN) کی ایک نظم ملاحظہ فرمائیے،
Ah that my lips were luneless lips but pressed
To the bruised blossom of thy Dcouraged while breast!
Ah that my mouth for Muse’s milk were fed
On thy sweet blood thy sweet small wounds had bled!
That with my longue I felt them and could taste
The faint flakes from thy bosom to the waist!
That I could drink thy veins as wine and eat
Thy breasts like honey! That from face to feet
Thy body were abolished and consumed,
And in my flesh thy very flesh entombed.
جسموں کا ایک دوسرے میں مدغم ہوکر ایک کامل حسین پیکر بن جانے کا شعور پیش کرنے کے جرم اس سون برن کو کیا کیا نہیں سننا پڑا۔
An unclean fiery imp from pit… the libido nous” laureak of a pack of satyrs with a mind aflame with feverish carnality of a school boy over the dirtiest pages of dampriere.
(Saturday Review, 4 August, 1866)
اور انگریزی رسالہ پنچ نے سون برن کو سوائن بارن(Swine Born) یعنی خنزیر تک کا لقب دے دیا‘‘
عورت اور مرد کی باہمی جنسی کشش اور خواہش وصل جسے یونانی دیومالا نے تخیلی طور پر اور سون برن نے فنی طور پر پیش کیا ہے، اس کے خلاف تجرد کا یہ پرچار کیوں؟ تجرد پرستوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت نہیں کہ جنسی جذبہ فطری ہے اور خواہش وصل بھی فطری ہے، انہوں نے بھی جنسی ناآسودگی کی لذت ضرور محسوس کی ہوگی۔ لیکن انہیں یہ ذہن نشین کرانا ضروری ہے کہ جنسی جذبہ صرف انسانی نسل کی افزائش اور بقا کے لیے ہی نہیں بلکہ ادب اور فن کی انسپریشن بھی جنسی جذبہ ہے، دنیا کے ادب اور فن کے بیشتر اور بہترین حصے کا موضوع جنس ہی ہے پھر بھی جب اس قوتِ حیات کو ادب و فن میں پیش کیا جاتا ہے تو، ریاست، سماج، مذہب، اخلاق، روایت اور رائے عامہ سب حرکت میں آجاتے ہیں اور ایسے ادب کو مخرب اخلاق، فحش اور خلاف تہذیب قرار دے کر امتناع کا نعرہ لگاتے ہیں۔ یہ کیسی تہذیب ہے جس کی بنیاد نفس کشی ہے اور جس کی انتہا موت ہے، ہمارا سماج جنسی کشش کے اس فطری جذبہ کو ایک نورمل صحت مند نقطہ نظر سے سمجھنے میں نہ صرف ناکام رہا ہے بلکہ کسی مبہم خوف اور جھوٹے اخلاق کے باعث فرار اور کج روی کا شکار رہا ہے اور اب بھی ہے، حالانکہ تہذیب کا سب سے اہم اور تخلیقی فریضہ یہی ہے کہ وہ اس جذبے کا صحیح مقام متعین کرے اور اسے تکمیل شخصیت کے نقطۂ عروج پر پہنچادے۔
لیکن ہمارے معاشرے کی بدقسمتی ہے کہ جب بھی ادب میں جنس کا ذکر آیا تو روایت پرست دقیانوسی لوگوں نے جارحانہ رویہ اختیار کرلیا زیادہ سے زیادہ ایک مجرمانہ خاموشی اختیار کرلی، روایتی اخلاقی اقدار کے تحت زہد پرستی کا پرچار کیا جاتا ہے، پیوری ٹن معترضین اس حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں کہ انسانی شخصیت کی نشوونما میں جنسی جذبے کے لاشعوری اظہار کا بڑااہم حصہ ہے، اس لیے جب ہم جنس کی مسلمہ حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں تو ادب کے لیے لازمی ہے کہ وہ جنس کے موضوع پر سنجیدگی سے غور کرکے اور حسن و حیات کو تقویت پہنچائے، ادب برائے حسن ہو یا برائے زندگی، ہر حالت میں اس قوت حیات کی نمو کرتا رہے گا۔
یہاں ترقی پسند حضرات فوراً کہہ اٹھیں گے کہ انسانی بقاکے لیے بھوک کی تسکین کی اہمیت جنس کی تسکین سے زیادہ ہے، اس لیے ادب کا بنیادی موضوع بھوک ہونا چاہیے، یہ بحث بے سود ہے کہ بقائے حیات کے لیے بھوک اور جنس میں کس کی اہمیت زیادہ ہے، بھوک کی تسکین بقائے نفس کے جذبے کی مظہر ہے اور جنسی جذبہ کی تسکین بقاے نسل کی جذبہ کی مظہر ہے، لہٰذا انسانی زندگی کی بقا کے لیے اتنی ہی اہم ہے، لیکن ادب میں اس کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ اس جبلت کے ساتھ انسان کی روحانی اور جذباتی زندگی وابستہ ہے، جس کا براہ راست تعلق ادب سے ہے، اس لیے ادب کا مرکزی موضوع بھوک کے بجائے جنس رہا ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ ڈی ایچ، لارنس نے کہا ہے کہ میرا اعتقاد ہے کہ انسانی شعور کو اب جنس کے احساسات اور جذبات اور انسان کے جسمانی تعلق کے گہرے اثرات کا احاطہ کرنا چاہیے۔ بقول مانڈسلے اگر انسان کی جنسی خواہش اور ہر اس چیز کو جو ذہنی طور پر اس سے وابستہ ہے یا اس سے جنم لیتی ہے، ختم کردیا جائے تو زندگی سے شاعری اور شاید تمام اخلاقی جذبہ کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ ہر آدمی کسی نہ کسی روپ میں جنسی تحریک سے لذت اخذ کرتا ہے اور کیوں نہ کرے جب کہ جنسی جذبہ ہی ہماری زندگی میں حسن اور حرارت پیدا کرتا ہے اس حقیقت سے انکار خود فریبی ہے، جنس کے احترام کی عدم موجودگی میں ہی فحش ادب جنم لیتا ہے۔ کوئی شرم، کوئی تصنع، کوئی فریب، کوئی اخلاق، کوئی خوف ہمیں اپنے وجود کو جنسی طور پر مانع نہیں ہونا چاہیے۔
’’جنس اور حسن ایک ہی چیز ہے شعلہ اور آگ کی طرح، اگر تم جنس سے نفرت کرتے ہو تو تم حسن سے بھی نفرت کرتے ہو، اگر تم زندہ حسن سے پیار کرتے ہو تو تمہارے اندر جنس کے لیے احترام ہے بیشک تم سن رسیدہ اور مردہ حسن سے پیار کرسکتے ہو اور جنس سے نفرت، لیکن حسن سے پیار کرنے کے لیے جنس کا احترام لازمی ہے، جنس اور حسن ناقابل تقسیم ہیں، جیسے زندگی اور شعور، جو ذہانت جنس اور حسن سے وابستہ ہے اور جنس اور حسن سے جنم لیتی ہے، وہی وجدان ہے، ہماری شاندار تہذیب کے عظیم فنا کا باعث جنس سے مریضانہ نفرت ہے۔ اگر ہماری تہذیب ہمیں یہ سکھاتی کہ کیسے جنسی کشش کا صحیح اور نفیس اظہار ہوسکتا ہے، کیسے جنسی جذبہ کو پاکیزہ اور زندہ رکھا جاسکتا ہے، اظہار اور قوت کے گوناگوں پہلوؤں سے اسے روشن اور قائم و دائم رکھا جاسکتا ہے تو ہم سب پیار کی زندگی بسر کرتے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم میں زندگی کی حرارت ہوتی اور ہم ہر طرح سے ہر کام کے لیے شدت جذبہ سے مسحور ہوتے، لیکن اب زندگی سردراتوں کی طرح بجھی ہوئی ہے۔
میں اپنے جنسی خیالات سے شرمسار نہیں ہوں، وہ میرا وجود ہیں، وہ میری زندگی کا حصہ ہیں، میں اپنے آپ کو جنسی طور پر قبول کرتا ہوں، جیسا کہ میں اپنے آپ کو ذہنی اور روحانی طور پر جانتا ہوں۔ میری جنس میری ہے جیسے میرا ذہن میرا ہے، کوئی بھی اس کے باعث مجھے شرمسار نہیں کرسکتا، جنس کے خوف پر غلبہ حاصل کرو اور اس کے فطری اظہار کو بحال کرو، فحش، الفاظ تک کو بحال کرو، جو کہ اس کے فطری اظہار کا حصہ ہیں اگر ہم زندگی میں جنس کی حرارت شامل نہیں کرتے تو ہمیں وحشیانہ تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ہماری شاندار تہذیب میں جنسی جذبہ خود کاری کی طرف راغب ہوتا ہے اور ہمارے ہردل عزیز ادب کا بیشتر حصہ اور تفریح طبع کے زیادہ تر سامان خود کاری کے لیے موجود ہیں، اور شاید ایک دن عام لوگ بھی اس حقیقت کا سامنا کرنے کی خواہش کریں گے اور خود دیکھیں گے کہ خفیہ خودکاری، پریس قلم اور موجودہ مقبول ادب کی فحاشی اور یونانی دیس پینٹنگ اور پومپین آرٹ میں جنسی جذبہ کے اظہار میں کیا فرق ہے، جو کہ ہمارے شعور اور تکمیل کے لیے لازمی ہے۔‘‘
ڈی، ایچ، لارنس
ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ایمانداری سے جنس کی سادہ اور فطری تحریک سے نفرت کرتے ہیں، لیکن ایسے لوگ بیمار ذہن کے مالک ہیں جو درحقیقت زندگی سے نفرت کرتے ہیں۔ ایسے مایوس اور نامراد لوگ ہمیشہ تشنۂ تسکین رہتے ہیں، لیکن پوشیدہ طور پر جنس کی غیرفطری تسکین سے حظ اٹھاتے ہیں۔ جو لوگ جنس کے ہر مظہر کو حقارت سے دیکھتے ہیں اور اس کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں وہ غیرفطری طرز زندگی بسر کر رہے ہیں، جو تہذیب، ضبط نفس اور نفس کشی کی اقدار پر مبنی ہو، اس کا فنا لازمی ہے، ضبط نفس بیماریٔ ذہن اور نفس کشی، خواہش مرگ، جنسی جذبہ کا اظہار کسی نہ کسی روپ میں تو ضرور ہوگا، اگر اس جذبے کے فطری اظہار کے راستے مسدود کردیے جائیں گے تو یہ غیرفطری اور مریضانہ طور پر ظاہرہوگا۔
اس حقیقت کے باوجود کہ مفکرین، ماہر نفسیات اور ماہرین سماجیات نے جنسی جذبے کی بے پناہ قوت اور اس کی قلب ماہیت کے بارے میں ہمارے علم میں اصافہ کیا ہے، ہم ابھی تک جنس کے موضوع کو شجرممنوعہ کا درجہ دیتے آئے ہیں، اس کے باوجود کہ ہمارے سماج میں ایک گہری سازش ہے کہ ہم جنس کے بارے میں صاف گوئی، بے باکی اور ایمان داری سے بات چیت نہ کرسکیں، جنس کا موضوع ہر خاص و عام کا پسندیدہ موضوع رہا ہے، چھپے چوری اس سے ہزاروں داستانیں وابستہ ہوگئیں، جو سرگوشیوں کے اندام میں فحش لطیفوں اور داستانوں کی صورت میں لوگوں کی تسکین کا باعث بنتے رہے ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ انسانی زندگی میں فحاشی کا بھی ایک ضروری رول ہے، لیکن اگر جنسی جذبے کے صحت مندانہ اظہار پر غیرفطری بندشیں عائد کی گئیں تو یہی حرارت مریضانہ صورت اختیار کرکے زندگی میں زہر سرایت کردے گی۔
نیا ادب جسے ترقی پسند ادب کا نام بھی دیا گیا، جنس کے موضوع پر عائد کردہ روایتی اطلاق کی پابندیوں کے خلاف احتجاج تھا، لیکن ترقی پسندوں نے جب صفائی کی مہم شروع کی تو ان ادیبوں پر بھی برس پڑے، جن کی تخلیقات کا موضوع جنس تھا۔ وہ یہ بھول گئے کہ جب زندگی کی بنیادی جبلت جنس ہو تو ادب اس سے کیسے کنارہ کرسکتا ہے، ان کی اس زہد پرستی نے جنس کے موضوع کو فحش نگاروں کے ساتھ پہنچادیا جو حسن اخلاق، ادب اور زندگی کی ا قدار سے ناواقف ہیں، ادب میں جب مریضانہ جنس پرستی غالب آجائے تو دونوں قسم کا ادب، جنسی ادب اور غیرجنسی ادب نورمل اور مصنوعی ہوجاتا ہے۔ ادب نہ تو برائے زندگی رہ جاتا ہے اور نہ ہی برائے حسن، وہ بحیثیت ادب کے ہی ختم ہوجاتا ہے۔
ادب میں جب بھی جنس کا ذکر آئے گا تو محافظ اخلاق نوجوان قارئین کی دہائی دیں گے جن کے اخلاق پر ایسے ادب سے برااثر پڑنے کا خطرہ ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر کتاب ہر عمر اور ہرذوق کے لوگوں کے لیے نہیں ہوتی، ادب بالغ لوگوں کے مطالعہ کے لیے لکھا جاتا ہے۔
’’یہ حقیقت ایک فرانسیسی افسانہ نگار کے نزدیک پابندی ہے اور سوسیوا دلا ایسے مصنوعی حالات کے تحت لکھی گئی تحریروں پر سنجیدگی سے غور کرنے سے انکار کردے گا، نوجوان کنواری لڑکیوں کے لیے آدھی زندگی بند کتاب ہے اور اس ناول کی کیا وقعت ہے جو محض آدھی زندگی کو پیش کرتا ہے۔‘‘ ہنری جیمز۔
یہ درست ہے کہ ہمارے ملک میں لوگ طبعی عمر سے تو بالغ ہوجاتے ہیں لیکن ذہنی طور پر ان کی عمر بارہ اور سولہ سال کے درمیان ہی رہتی ہے، اس لیے جنسی ادب کا سوال اور بھی پیچیدہ ہوجاتا ہے، لیکن اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ بچوں اور خام عمر کے نوجوانوں کے لیے علیحدہ ادب کی تخلیق ضروری ہے اور اس کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ یہ نوجوان طبقہ (اور خام عمر کے بالغ لوگ) ہی سستا، فحش ادب پڑھتے ہیں، اس لیے جنس کے موضوع پر پابندی عائد کرنے کی بجائے ان لوگوں کے لیے ایسے ادب کی تخلیق کی جائے جو ان کی نشوونما میں ممد ثابت ہو۔
’’فن اور دوشیزاؤں کا ملاپ ممکن نہیں، لہٰذا ان کو یکجا کرنے کی کوششیں بے سود ہیں، اس سے کسی فن کار کو انکار نہیں ہوسکتا کہ نوجوانوں کو ان کی عمر اور ذوق کے مطابق صحیح ادب دیا جائے، میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کوئی ایسی راہ نکالی جائے جس سے ناول نگار کو یہ آزادی ہوکہ اپنے دور کے مذہبی اور اخلاقی احساسات کو جیسا وہ محسوس کرتا ہے بیان کرسکے اور اسے مجبور نہ کیا جائے کہ وہ والدین اور گارڈین کی مدد کے لیے یہ لکھے کہ وہ اپنے بچوں کی پرورش روایتی اعتقادات کے مطابق کس طرح کرسکتے ہیں۔‘‘
اس ساری بحث سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط ہوگا کہ ادب کا اخلاقیات سے کوئی تعلق نہیں، ادب کا اخلاقی پہلو ہے جس کے باعث وہ اقدار کا حامل ہوتا ہے، لیکن ادب میں ہم کسی مذہبی، روایتی اخلاق کے پابند نہیں ہوتے بلکہ اعلیٰ اخلاق کو پیش کرتے ہیں، اعلیٰ اخلاق سے مراد وہ اخلاق ہے جو کسی شئے کی تکمیل کرے یا اس کی تکمیل میں ممد ثابت ہو جس کے لیے اس شے نے جنم لیا ہو یا بنائی گئی ہے، یہ اخلاق ہر شئے کی اندرونی ماہیت کو پیش کرتا ہے، اور اس کے اندرونی جوہر کی تکمیل کے راستے میں جو رکاوٹیں درپیش ہوتی ہیں وہ چاہے مذہب یا روایتی اخلاق کی ہوں، غلط اخلاقی اقدار کی حامل ہیں، اس لیے اعلیٰ فن کار روایت سے بغاوت کرتے ہیں تو انہیں طنز و دشنام کا نشانہ بننا پڑتا ہے کیونکہ وہ اصلی اخلاق کو پیش کرنے کی جرأت کرتے ہیں، ایک فن پارہ اسی وقت حقیقی اور یقین آمیز ہوسکتا ہے اور فن کار سچا اور صحیح معنوں میں بااخلاق ہو، جب وہ اس اصلی اخلاق کو پیش کرتا ہے، چاہے یہ اقدار مذہب اور روایتی اخلاق اور رائے عامہ اور ریاست کے وجود کے خلاف ہوں ادب میں اخلاق، نفسیات کا پروردہ ہے ناکہ روایت کا۔ اس لیے فنی اخلاق اور روایتی اخلاق میں کشمکش ناگزیر ہے، جدید نفسیات نے اقدار کے شعور میں نئی راہیں واکردی ہیں۔ اور اب ہم جنسی نفسیات کے رول کا صحیح مقام معین کرسکتے ہیں۔
ادب میں جنس کے موضوع کا ایک پہلو اور بھی ہے، ادب جنس کے حیاتیاتی فعل کو پیش نہیں کرتا، یہ کام تو جنسیات پر لکھی گئی سائنٹفک کتابوں کا ہے لیکن جہاں تک جنس کے نفسیاتی اور جذباتی پہلو کا تعلق ہے، ادب کو اس سے دلچسپی ہے، فرائیڈ نے ادب و فن کو قلب ماہیت اور ارتفاع قرار دیا ہے، ادب جنسی جذبے کا ہی مظہر ہے۔
’’Historians of civilization‘‘ میں فرائیڈ نے اسی خیال کی وضاحت کی ہے کہ ا نسان کے فطری جذبے کو تعمیری، تہذیبی اور سماجی طور پر کارآمد ذریعے سے منتقل کرناہی قلب ماہیت ہے، انسانی تہذیب اسی قلب ماہیت کی مرہون منت ہے کہ ہم کس حدتک اپنی فطری جبلتوں کا ارتفاع کرسکتے ہیں، ادب اور فن اسی قلب ماہیت کا نتیجہ ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ تخلیق فن میں جنسی جذبہ ایک ا ہم اور قابل قدر فریضہ سرانجام دیتا ہے ظاہر ہے کہ تخلیق کا عمل اس وقت حرکت میں آتا ہے جب ہم انسان کے Genitals سے پرے مکمل جسم کو اپنی توجہ کا مرکز بناتے ہیں، لیکن بہرصورت جنسی تحریک کا نمایاں اثر رہتا ہے اور یہ طریقہ کار جنسی جذبے کو سماجی طور پر کارآمد اور نفیس طریقے سے پیش کرتا ہے۔
’’تخلیقی عمل کے بعد ایسا ہی جنسی اور جسمانی ردعمل ہوتا ہے جیسا کہ مباشرت کے بعد یا اس کے برعکس، یہ شاید جنسی جذبے کے ذریعے مظہر ہوتا ہے جس کی تسکین ضروری ہے، دونوں ردعمل سے ظاہر ہے کہ جنس فنکار کے تخلیقی عمل میں شامل ہے۔۔۔ لنڈیوردم
ہربرٹ ریڈ نے بھی تخلیقی عمل کی۔۔۔ اور تکمیل کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح شہوت کے عروج پر خود بخود انزال ہوتا ہے اسی طرح فنی تخلیق کی آدرد ہوتی ہے۔‘‘
جس ادب کو فحش ادب کا درجہ دیا جاتا ہے، اس میں جنسی جذبے کی قلب ماہیت نہیں ہوتی، بلکہ ادب کو جنسی تسکین کا براہ راست ذریعہ سمجھا جاتا ہے، ادیب جنسی جذبے کو تعمیری، حسین اور افادی ارتفاع کے ذریعے پیش نہیں کرتا بلکہ جنسی افعال کے تفصیلی تذکرے سے قاری کی جنسی تسکین کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن یہ مسرت باعث مسرت نہ ہوکر جنسی ترغیب کی طرف مائل کرتی ہے جو نہ صرف پہلے کی طرح ہی تشنہ تکمیل رہتی ہے بلکہ زیادہ ہیجان پیدا کرتی ہے اور اس طرح یہ مصنوعی عمل جاری رہتا ہے اور جب جنسی جذبے کے اظہار کی تمام راہیں مسدود ہوجاتی ہیں تو وہ مریضانہ شکل اختیار کرلیتا ہے۔ Nudeسے جمالیاتی حظ حاصل کرنے کے لیے تربیت یافتہ ذہن کی ضرورت ہوتی ہے، تصویر فحش بھی ہوسکتی ہے، جب کہ احساس حسن کے بجائے ننگے پن کا ہو، اس لیے بعض تصاویر جن میں لباس موجود بھی ہوتا ہے، فحش ہوسکتی ہے، کیونکہ ان میں برہنگی کے اسی احساس کو سرایت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اس احساس کو قبول کرنے میں ناظرین کی اپنی ذہنی ساخت بھی ذمہ دار ہوتی ہے۔ صحیح جنسی ادب جنسی جذبے کی اس کج روی کو روکتا ہے اور اسے مریضانہ ماحول سے نکال کر صحت مند منزل کی طرف لے جاتا ہے۔ درحقیقت ادب شخصیت کی سالمیت کو بحال کرنے اور برقرار رکھنے کا اہم فریضہ سرانجام دیتا ہے، جدید سماج کی روایتی اقدار کی پروردہ ذہنی کجروی سے بچنے کے لیے جنسی ادب کی ضرورت ہے۔ دراصل ایسا ادب Safety Valve کا کام کرتا ہے، ورنہ سماج میں افراتفری پیدا ہوجائے گی، لیکن یہ سوال محض جنسی ادب کی تخلیق سے ہی ختم نہیں ہوجاتا، بلکہ ہمارے کلچر اور ذوق کی ازسرنو تشکیل کی ضرورت ہے۔ قارئین کی ذہنی بلوغت شرط ہے، ورنہ جنس کے بارے میں سائنٹفک کتابوں سے بھی لوگ جنسی حظ حاصل کرتے ہیں۔
’’اگر نیوڈ (Nude) کو اس طرح پیش کیا جائے کہ یہ ناظرین میں جسمانی خیالات یا خواہشات پیدا کرتا ہے تو یہ جھوٹا آرٹ اور برا اخلاق ہے۔ (الیگزنڈر)
نیوڈ چاہے کتنی ہی تجریدی کیوں نہ ہو ناظرین میں کچھ شہوانی احساس ضرور پیدا کرتی ہے، چاہے وہ کتنا ہی مدھم کیوں نہ ہو، اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو وہ برا آرٹ اور جھوٹا اخلاق ہے۔‘‘ (کینتھ کلارک)
جنسی جذبے کا سب سے اعلیٰ مظہر عشق ہے۔ عشق تعلیم ادب کا موضوع رہا ہے، ہر دور میں عشق کی نفسیات اور فلاسفی کا تجزیہ مفکرین کا پسندیدہ مضوع رہا ہے، ادب اور زندگی کے دوامی حسن اور رفعت کار از عشق ہی میں مضمر ہے اور اگر یہ جذبہ مریضانہ صورت اختیار کرلے، کجروی کا شکار ہوجائے یا مردہ ہوجائے تو انسانی تہذیب کے عظیم المیے جنم لیتے ہیں، لیکن کچھ ادیبوں کی تخلیقات میں عشق کی نوعیت، غیرجنسی ہے اور انہیں اس بات پر فخر ہے کہ وہ عشق کی تقدیس کو قائم رکھے ہوئے ہیں، انہوں نے انسانی زندگی کی رفعت کے لیے تجریدی، جذباتی، اور رومانی طور پر جذبہ عشق کی پرستش کی ہے۔ ایسے لوگ جنس کو ذہنی سطح سے پیش کرتے ہیں، جو کہ نہ صرف نفسیاتی طورپر غلط ہے بلکہ تباہ کن بھی ہے، عشق کے جنسی پہلوپر روشنی ڈالنے اور اسے تسلیم کرنے سے عشق کی عظمت کم نہیں ہوگی، بلکہ اس کی رفعت اور شدت میں اضافہ ہوگا۔ جارج ایلیٹ اور جارج سینڈپر تو یہ الزام عائد کیا جاتاتھا کہ وہ عشق کا تذکرہ ایک عجیب غالب قوت کی صورت میں کرتے ہیں جو ہمارے حواس کے ذریعے ہماری روح کو مول لیتا ہے۔ عشق ایک تجریدی تخیل نہیں بلکہ اس کی جسمانی اہمیت ہے، ہندستانی فلموں میں رقیب روسیاہ سے مراد وہ آدمی ہے جو شہوت کا شکار ہے، جو ہیروئن سے جنسی، جسمانی رشتہ قائم کرنا چاہتا ہے جب کہ ہیرو جنسی جذبے سے آزاد کوئی پارسا ہے، یعنی اسے سچا عشق ہے اور اسے جسم کی خواہش نہیں، ایسے لوگ غیرفطری زندگی بسر کرتے ہیں۔ اور رقیب کے مقابلے میں کم ایماندار ہیں۔
جن فلموں میں ہیرو sexless عشق کا قائل ہے وہ فحش ہیں کیونکہ وہ مصنوعی طریقے سے جنسی ترغیب تو دیتی ہے لیکن اس کے فطری اظہار کے خلاف پاکیزگی کا غیرفطری معیار پیش کرتی ہیں۔
عشق کی تکمیل عورت اور مرد کا جذباتی روحانی اور جسمانی اتصال ہے۔ مرد اور عورت کے باہمی ملاپ کا مقصد محض افزائش نسل ہی نہیں اور نہ صرف کسی سماجی آدرش کی تکمیل ہے بلکہ شخصیت کی تکمیل ہے۔ یہ ملاپ ایک جدوجہد ہے کہ زندگی کی سالمیت اور کا ملیت کو حاصل کیاجائے، انسانی زندگی کی تکمیل اسی میں ہے کہ نیم عورت اور نیم مرد کے حصے جو رئیس نے الگ الگ کرکے اس دنیا میں بکھیر دیے تھے ان کو یکجا کرکے ایک حسین توانا اور صحت مند شخصیت کی نمو کی جائے اور انسانی زندگی کو حسن اور حسن کو دوام عطا کیا جائے۔ کیا ادب اور فن کا اس کے علاوہ کوئی دوسرا مقصد ہوسکتاہے؟
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.