Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ادب اور جنسیات

سید مسعود زاہدی

ادب اور جنسیات

سید مسعود زاہدی

MORE BYسید مسعود زاہدی

    پادریوں کی عدالت کے روبرو گیلیئو نے کہا تھا۔ میری موت و زیست سے زمین کی گولائی اور گردش پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ جب مرا سر تن سے جدا ہوگا۔ زمین گردش میں ہوگی، زبان اوربیان کے مذہبی اور قانونی پہرے دار کبھی کے ختم ہوئے اور زمین بدستور اپنے محور پر گردش کر رہی ہے۔ نئے نظریہ حیات کے پنپنے کے لیے جدوجہد لازمی ہے۔ کوئی تحریک کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو۔ اسے مخالفتوں کا سامنا ضرور کرناپڑتا ہے۔ یہی کشمکش اس تحریک کے صحیح اور تندرست اصولوں کو توانائی اور استقامت بخشتی ہے۔ اور یہی کشمکش اس کی غیرپختہ نشوونما کو محدود رکھتی ہے۔ نئی تحریک کی برائیاں بھلائیاں مدت تک چھپی رہتی ہیں۔ مخالفین اس کی کورانہ مخالفت میں پھنس کر مذہبی۔ سماجی۔ اخلاقی اور قانونی حدبندیوں میں لگ جاتے ہیں۔ اور موافقین مخالف قوتوں کی روک تھام میں۔ گو اس طرح اچھی سے اچھی تحریک کی رفتار میں کمی تو ضرور آجاتی ہے۔ لیکن اس کا فنا ہوجانا دشوار ہوجاتا ہے۔ کیونکہ مخالف گروہ کی تنقیدیں تحریک کی مدافعانہ قوتیں۔ اور اس کے حامیوں کی نیک نیتیں ان میں عجیب قوت اور جان پیدا کردیتی ہیں۔ اگر ماحول اور سماجی کیفیات اس تحریک میں زور پیدا کردیں۔ تو اس کا اثر دنیا پر پڑنا ناگزیر ہوتا ہے۔ فی زمانہ ادب کے جنسی جھکاؤ پر بحثیں اور تنقیدیں ہو رہی ہیں۔ ادبی دنیا کئی گروہوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ اور ان کی آپس کی کھینچا تانی جاری ہے۔ مگر اس کشمکش کے اسباب و علل پر غور و فکر قطعی مفقود نظر آتا ہے۔

    ادب اور جنسی رجحانات پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور لکھا جارہا ہے۔ نئے ادب اور نئی زندگی کے باہمی تعلق۔ ان کے اہم مقاصد۔ ان کے نئے تقاضوں اور بدلے ہوئے نظریات ادب و حیات کو سوچنے سمجھنے کے بعد اس موضوع پر مزید بحث کی گنجائش نہیں رہتی۔ نئے اور پرانے ادب میں آگ پانی کا بیر نہیں گہرا تعلق ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ دونوں زندگی کی قوتوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ اور دونوں میں نبض حیات متحرک ہے۔ البتہ اصول تغیر کے ماتحت زندگی کی وہ قوتیں بدل چکی ہیں جو ایک مخصوص نوع کے ا دب کا باعث ہوئی تھیں اور گو ادب کے اساسی اصول تغیر مثلاً تخلیق و تحفظِ حسن و حقیقت بدستور جلوہ گر ہیں مگر ان قوتوں میں، جو ادبی اقدار کی تشکیل کرتی ہیں۔ بعدالقطبین واقع ہوچکا ہے۔ اور یہ کوئی تعجب یا حیرت کا مقام نہیں۔ حرکت زندگی کا جوہر ہے۔ اور چونکہ ادب اور زندگی کا قریبی اور دائمی ساتھ ہے۔ اس لیے ادب میں سکون او رٹھیراؤ کاپیدا ہونا تعجب اور تاسف کا باعث ضرور ہوسکتا ہے۔ جو فرق نئی اور پرانی دنیا میں نئی اور پرانی زندگی میں موجود ہے۔ وہی فرق نئے اور پرانے لکھنے والوں میں بھی نمایاں ہے۔ موجودہ فنکاروں کے رجحانات۔ نظریات اور مقاصد بالکل جداگانہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پرانے ادب کا دامن نہ چھوڑنے پر بھی زندگی اور عمل کی نئی راہوں پر چلنے والے پرانے لوگوں کے ہمنوا اور ہم خیال نہیں بن سکتے۔ زندگی اور ادب کی قدریں بدل گئیں۔ تصورات زندگی بدل گئے۔ انسانی ضرورتیں بدل گئیں۔ معاشری مسائل کی صورتیں بدل گئیں۔ حتی کہ طریقۂ فکر و نطر بھی بدل گیا۔ ایسی صورت میں دونوں کا ایک ہی مرکز پر نظر رکھنا، ایک ہی راستہ پر قدم اٹھانا، ایک ہی منزل کی جستجو کرنا ناممکن اور غیر فطری ہے۔ کیونکہ دونوں کی تعمیری قوتوں کی نوعیت جداگانہ ہے۔ اس لیے ان کے نصب العین کا اختلاف ایک قدرتی چیز ہے۔ یہاں پر ادب اور زندگی کے اس پہلو سے بحث کی گئی ہے جو جنس سے متعلق ہے۔ میں نے احتیاطاً پہلو کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ورنہ فی زمانہ جنس اور معاشیات زندگی کے سنگہائے بنیاد تصور کیے جاتے ہیں اور بجاطور پر۔

    ادب اور جنسیات کا تعلق کوئی نئی چیز نہیں۔ ان دونوں کا بہت طویل اور پرانا ساتھ ہے۔ اس وقت جب ادب نے ہوش بھی نہ سنبھالا تھا اور قلم زندگی کی صورت گری سے قاصر تھا۔ جنس کا تخیل زندگی سے اتنا ہی مربوط تھا جس قدر آج ہے۔ آدم و حوا اور وشنو اور لکشمی کا ساتھ اور آفرینشِ عالم کا حال لوگ ہمیشہ سنتے اور سناتے رہے ہیں۔ شیوجی کی پوجا کا انداز آج کا نہیں بلکہ بہت پرانا ہے۔ منٹو۔ مفتی۔ عصمت۔ مہندر یا کرشن چندر نے اس رویہ کو رواج نہیں دیا۔ ان فعلوں سے نہ صرف انسانی طبیعت کے فطری میلانات پر روشنی پڑتی ہے بلکہ جنسی اہمیت جس شدومد کے ساتھ لوگوں کے اذہان پر مسلط رہی ہے۔ اس کا اظہار بھی یہی رسمیں کرتی ہیں۔ کوئی تہذیب نئی یا پرانی ایسی نہیں۔ جو جنس کے تخیل سے تہی دامن ہو۔

    مصرِ، بابل، دادی سندھ اور یونان کی تہذیب سے لے کر۔ انگریزی۔ فرانسیسی۔ جرمنی اور روسی تہدیب تک مرد کا تخیل عورت کے خیال سے اور عورت کا مرد کے خیال سے آزاد نہیں ہوا۔ محمد علی کی تیسری جنس بھی گاہے گاہے رونما ہوتی رہی اور عصمت بی بی کے ہنگامہ ہائے درونِ لحاف بھی برپا رہے۔ فارسی ادب اس قسم کی وارداتوں سے بھرا پڑا ہے۔ اور فارسی ادب عالیہ میں جنسی معاملات کو جس بے باکی اور خوش معاملگی سے جگہ دی گئی وہ یقیناً تعجب خیز ہے۔ وہی فارسی نظم و نثر جسے ادب کے عاشقانِ زار عقیدت کے ہاتھوں اٹھائے پھرتے ہیں۔ عورت اور جانوروں کے باہمی اختلاط کی بھی حامل ہے۔ لڑکوں کا معاملہ بے ڈھب سہی مگر بزرگوں کاآزمودہ وطیرہ ہے۔ اور ان کے یار کے ساتھ ساتھ ادبی شہ پارے ان ماہ پاروں سے بھرے پڑے ہیں۔ امرد پرستی کی تاریخ اور اس کی وجوہات سے یہاں بحث نہیں۔ البتہ یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ مولانا روم سے لے کر شیخ سعدی۔ حضرت امیر خسرو۔ میر نظیر اور غالب تک معدودے چند کا دامن ہی اس آلودگی سے بچا ہے۔ دیوان اور تذکرے انہیں لونڈوں کے عشق میں گل و گلزار کے چسکوں سے پر ہیں۔ رہا سوال عورت کا سو کہنے کو تو کہہ دیا کہ،

    ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس

    آہ بیچاروں کے ا عصاب پہ عورت ہے سوار

    مگر تاریخ کا مطالعہ اس طرہ امتیاز کو صرف ہندوستان کی پیشانی پر ہی آویزاں نہیں کرتا۔ عورت کا عالمگیر تخیل اس مشاہدہ سے واضح ہوگا کہ موہن جوداڑو اور ہڑپا کے قدیم ظروف اور سکوں پر ہے تو عورت۔ اجنتا اور الورا کی دیواروں پر ہے تو عورت۔ یونان و مصر کے اصنام میں جلوہ نما ہے تو عورت۔ غرض یہ کہ شاعر کے کلام میں عورت، مغنی کی لے میں عورت، مصور کے رنگ میں عورت، بت تراش کے سنگ میں عورت، ادیب کے قلم میں عورت، نبی کے وعدہ میں عورت، دنیا کی کشمکش میں عورت، مافیہا کے تخیل میں عورت، آزادی کا مجسمہ عورت۔ تعلیم کا بت عورت۔ امن و آشتی کا روپ عورت۔ نیکی و راستی کی دیوی عورت۔ علم و حسن کی مشعل عورت۔ مریض کے سرہانے عورت۔ مجروح کے قریب عورت۔ تندرست کے آغوش و جسم و نظر میں عورت۔ آنکھیں کھلیں تو عورت۔ آنکھیں مندیں تو عورت کا خیال۔ خود عورت کے دل میں عورت۔ زبان پر عورت۔ جسم پر عورت۔ اور یہ صورت نئی نہیں بہت پرانی ہے۔ ادب سے زیادہ اور زندگی کی عمر کے برابر پرانی۔ مگر کل اور آج کے انسان میں فرق ہے۔ جو شعور انسانی کے ارتقا کا رہین منت ہے۔ وہ پہلے بھی پانی پیتا تھا۔ اور اب بھی پانی پیتا ہے۔ مگر پہلے وہ صرف اس کی ضرورت اور اہمیت سے واقف تھا۔ اور اصلیت اور اجزائے ترکیبی سے ناآشنا۔ آج کا انسان اس کی اہمیت اور اصلیت دونوں سے واقف ہے۔ وہ جانتا ہے کہ پانی میں ایک حصہ آکسیجن اور چار حصہ نائٹروجن شامل ہے۔ آکسیجن جلاتی ہے۔ اور نائٹروجن اس کی تیزی کم کرتی ہے۔ اسی طرح جنس کی اہمیت۔ اصلیت اور اس کی گہرائی سے نابلد اشخاص اس کے متعلق سنتے اور پڑھتے ہیں تو ژورڈان کی طرح جسے یہ سن کر بہت تعجب ہوا تھا کہ وہ تمام عمر نثر بولتا رہا۔ ششدر رہ جاتے ہیں۔ ان میں سے بعض ان حقیقتوں سے آشنا ہونا چاہتے ہیں۔ اور بعض حضرات جہل کی صورت میں فحش۔ بیہودہ۔ گندہ ذہنی کا نعرہ لگاتے ہیں۔ ان کی پیشانیوں پر موٹی موٹی شکنیں پڑجاتی ہیں۔ اور بڑے لطف کی بات یہ ہے کہ ماہرین نفسیات ان کی اس ادا کو بھی ایک جنسی بیماری قرار دیتے ہیں۔

    جنسی میلانات کے اس عالمگیر پھیلاؤ کے مشاہدے کے بعد موجودہ جنسی جھکاؤ کو نئی چیز یا بالشویک پیداوار سمجھنا اس کو نہ سمجھنے کے مترادف ہے۔ موضوع کے اعتبار سے اس سے زیادہ پیش پا افتادہ خیال سوائے الٰہیات کے شاید کوئی اور نہیں۔ عورت کے اس اساسی تخیل سے وابستہ دوسری جاذب نظر چیز شباب ہے۔ جو کہیں عریاں ہے اور کہیں نیم عریاں۔ شعر و ادب۔ مصوری۔ بت تراشی اور موسیقی میں جوانی اور ضعیفی کا تناسب انسان کے جبلی احساس جمال کا مظہر ہے۔ قدیم یا جدید فنکاری کے کسی بھی شاہکار میں ایسی عورت کی تصویر کشی شاذ ہی ملے گی جس کی آنکھیں چندھیا گئی ہوں۔ جس کے گال پچک گئے ہوں۔ بال گرنے لگے ہوں۔ پستان ڈھلک گئے ہوں۔ کمر خمیدہ ہوگئی ہو۔ رانیں سوکھ گئیں ہوں۔ جلد مرجھا گئی ہو۔ حالانکہ کسی ملک اور کسی زمانہ میں بھی ایسی عورتوں کی قلت نہیں تھی۔ بتوں اور مورتوں میں بھی عورت کو احتیاط سے ملفوف دکھانے کی کوشش کم ہی نظر آتی ہے۔ یہ کہنا کہ ان کی عریانی یا نیم عریانی میں لذتیت کو زیادہ دخل ہے یا آرٹ کو یا ترغیب جنسی کو، دشوار ہے۔ ممکن ہے محافظِ اخلاق و ضمیر کے نزدیک یہ ان سب کا مجموعہ ہویا کچھ بھی نہ ہو یا صرف فحاشی ہو۔ بہرکیف اتنا ضرور ہے کہ عریانی کا تخیل وقت اور مقام کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ ایک زمانہ میں لباس سترپوشی تک محدود تھا۔ اب جو حالت ہے سو ظاہر ہے۔ درمیانی دور میں اس کی نوعیت وضع قطع اور کانٹ چھانٹ میں تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ لیکن اس کے باوجود فن کار کا تخیل عورت کو ہمیشہ فطری یا نیم عریاں لباس ہی میں دیکھتا رہا۔ اسے نازک خیالی۔ تزئین حسن۔ ذوقِ جمال۔ سفلہ مزاجی۔ طبیعت کی گندگی۔ فحاشی جو چاہے سو کہہ لیجیے۔ لیکن ہے یہ بزرگوں کا ترکہ ہی جسے فنکار ابھی تک سرآنکھوں پراٹھائے پھرتے ہیں۔

    ہم میں بعض لوگ عصمت۔ عفت۔ اخلاق اور عورت میں چولی دامن کا ساتھ سمجھتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے۔ عصمت۔ پاکدامنی اور اخلاق کے نظریات وقت کی کرداروں اور زمانہ کے رسم و رواج کے ساتھ بدلتے رہے ہیں۔ آب وہوا عضویات کی ساخت۔ مردوزن کا تناسب اور شرح پیدائش نے کس طرح کثیر الازدواج۔ چند شوئی وغیرہ کو جائز قرار دیا ہے۔ تاریخ کے مطالعہ سے ظاہر ہے۔

    اس زمانہ میں تبت کی عورت کا چار پانچ یا اس سے بھی زیادہ شوہر رکھنا۔ اس کی عفت اخلاق اور ضمیر کے منافی نہ تھا۔ چین میں تیرھویں صدی کے اواخر تک کنواری لڑکیوں کو شادی سے پہلے پجاریوں اور سرکاری افسروں کو ایک معقول رقم کے ساتھ دینا۔ ان کی شادی کے لیے ضروری تھا۔ بغیر اس رسم کی ادائیگی کے کوئی نوجوان لڑکی سے شادی پسند نہیں کرسکتا تھا۔ جنوبی ہند میں عرصہ تک قبیلوں کے سردار اور کالی کٹ کے بادشاہ شادی سے قبل اپنی بیویوں کو پجاریوں اور غیرمردوں کے حوالہ کرتے رہے۔

    ان مثالوں کے پیش کرنے سے یہ مدعا تھا کہ اخلاق اور عفت کی قدریں زمانہ کے ہاتھوں بنتی بگڑتی ہیں۔ تہذیب کے موجودہ عروج پر پہنچنے کے بعد عورت، جنسی تصور اور مرد کی حیثیت میں تبدیلی پیدا ہونا حیرت کی بات نہیں البتہ یہ ضرور دیکھنا ہے کہ موجود جنسی نظریات ترقی معکوس تو نہیں۔ عورت کے عام تخیل اور جنس کے سمجھنے سے پیشتر ہمیں اپنے ذہنی و جسمانی ماحول کا جائزہ لیناازبس ضروری ہے۔

    بزرگوں کا قول ہے ’’سخن برہنہ نہ گفتن کمال گویائی ست‘‘ یعنی بات اس انداز سے کہو ’’کہ نہ ہم سمجھے نہ تم آئے کہیں سے‘‘ کا مصداق رہے اور مقصد پورا ہوجائے۔ لیکن دشواری یہ ہے کہ نصاب تعلیم۔ مطالعہ کے شوق۔ کتابوں کی بہتات اور ارزانی نے خود اس زمانہ کے لڑکوں اور لڑکیوں کی حالت بدل دی۔ ان کے فکر میں گہرائی پیدا ہوگئی۔ خرد میں گہرائی کا مادہ آگیا۔ نظر میں بے باکی اور ذہن کی قوت تحلیل و تشریح نے ان کے زاویہ ہائے نگاہ اور تصورات یکسر بدل دیے۔ گزشتہ اور موجودہ نسلوں میں یہی فرق نمایا ں ہے۔ دونوں کی طبیعتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ وقت کی دنیا کی رفتار کے ساتھ ہمارے میلانات بھی بدل گئے۔ طریقہ ہائے فکر و نظر بدل گئے۔

    نیند اس کی ہے، دماغ اس کا ہے، راتیں اس کی ہیں

    تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشان ہوگئیں

    پڑھ کر اور سمجھ کر دل ہی دل میں ہنس بھی لیے اور چپ ہوگئے۔ تو کیا نصاب تعلیم میں میر۔ نظیر۔ غالب۔ ذوق۔ اقبال کے علاوہ، ابنسن۔ زولا۔ رومان۔ رولا۔ کپرن۔ شا۔ لارنس۔ بٹیس۔ جوسٹیس بھی تو شامل ہیں۔ جن کا پڑھنا اور سمجھنا لازمی ہے اور ان سے بھی بڑھ کر نفسیات۔ عضویات۔ اجتمائیات۔ اقتصادیات۔ جمالیات اور نہ جانے کیا واہیات موجود ہیں۔ موجودہ لڑکی اور پچھلی لڑکی کے ذہنی ماحول میں جو فرق ہے۔ وہ اس طرح واضح ہوگا کہ موجودہ بالغ صاحبزادی کو یہ یاد کرنا پڑتا ہے کہ حیاتیاتی ارتقائیں حیاتیہ کا کیا فعل ہوتا ہے۔ حیوانات کے اوقات صحبت کیا ہیں۔ نباتات و حیوانات کے جنسی فعل میں کیا بنیادی فرق ہے۔ ہندوستان میں کثرت شرح پیدائش کے کیا اسباب ہیں۔ صغیر سنی کی شادی کے کیا مضر نتائج ہیں۔ کم سن بچوں کی اموات کی شرح یہاں اس قدر زیادہ کیوں ہے۔ فارسی اور اردو ادب (ابتدائی) میں امردپرستی کی جھلکیاں کیوں نظر آتی ہیں۔ اقبال کی نظر میں عورت کادرجہ کیا ہے۔ لارنس کا فلسفۂ حیات کس انفرادی نظریہ پر قائم ہے۔ اور سینکڑوں ایسی ہی باتیں جن کا شمار بہترین فحاشی میں کیا جاسکتا ہے۔

    دینیات کے ابواب میں شرعی طور پر غسل۔ نکاح۔ مباشرت طلاق وغیرہ کے متعلق اتنا کچھ پڑھایا جاتا ہے کہ عصمت و عسکری۔ منٹو اور ممتاز، کرشن چندر اور مہندرناتھ کی اشاریت اس حقیقت نگاری سے جھینپ جاتی ہے۔ مگر آج تک کسی بندۂ خدا نے دینیات۔ ہائیجین۔ سائیکولوجی۔ فیزیو لوجی۔ بائیولوجی، انتھرویو لوجی وغیرہ وغیرہ کے خلاف فتویٰ صادر نہیں کیا۔

    اب سے پندرہ بیس سال پہلے کی لڑکیاں سینا پرونا۔ کھانا پکانا۔ اور تھوڑی سی آرائش و زیبائش مرد کی خوشنودی اور گھر گرہستی کے لیے ضروری سمجھتی تھیں۔ مگر آج ان کے خیالات دوسرے ہیں۔ وہ نرس اور ڈاکٹر بننا چاہتی ہیں۔ ادیب اور شاعر ہونا پسند کرتی ہیں۔ فلم ایکٹرس بننا ان کامطمح نظر ہے۔ سیاسی رہنما ہونا ان کا دلچسپ مشغلہ ہے۔ گری پڑی حالت میں بھی دفتر کی کلرکی کچھ نہ ہونے سے ہونا بہتر ہے۔ ابتدا ہی سے مخلوط تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ نیکر اور بنیان پہن کر ہاکی اور کرکٹ اور ٹینس کھیلتی ہیں۔ تیرنے کے مقابلوں میں شریک ہوتی ہیں۔ دوڑوں۔ کودپھاند۔ نیزہ پھینکنے اور سائیکل چلانے میں میدان مارتی ہیں۔ لیکن جب ان ہی کی زندگی کی عکاسی کی جاتی ہے تو دنیا آنکھیں بند کرلیتی اور منہ کھول دیتی ہے۔

    موجودہ درسیات سے قطعِ نظر الف لیلیٰ۔ طلسم ہوش ربا۔ داستان امیرحمزہ۔ بوستان خیال۔ آرائش محفل۔ قصہ طوطا مینا میں بھی بکثرت ایسے حصے موجود ہیں جو عریانیت اور فحش گوئی کی حدسے بھی تجاوز کرجاتے ہیں۔ مگر پرانے گھروں میں بھی بچوں اور بچیوں کی تعلیم انہی سے شروع ہوتی ہے۔ اخلاق کے نام پر جہاد کرنے والوں نے ان تبرکات کو آج تک نذر آتش نہیں فرمایا۔ حقیقت یہ ہے کہ تنقید کے معاملہ میں طفلانہ مزاجی سے زیادہ اور سنجیدگی وغیرجانبداری سے کم کام لیا جاتا ہے۔ مثلاً یہ سوچنا کہ ادب عالیہ بچوں اور بچیوں کے لیے ہے غلط ہے۔ شعور و لاشعور کی گتھیاں۔ تحت الشعور کی کارفرمائیاں۔ نفسیاتی تحلیل و تشریح۔ جذباتی کشمکش۔ ذہنی زندگی کی تصویر کشی۔ ان سب کی پیچیدہ شکلیں۔ ان کا حل۔ ایک خاص نظریۂ زندگی کی ترجمانی قطعی موجودہ چیزیں ہیں۔ اور بسا اوقات سن رسیدہ انگریزی اور فارسی خواندہ بزرگوں کے لیے بھی مہمل و لایعنی ہوکر فحش و لغو بن جاتی ہیں۔ ان تمام چیزوں کا تعلق موجودہ تحقیقات و انکشافات سے ہے۔ جن سے نہ صرف وہ ناآشنا ہیں۔ بلکہ ناآشنا رہنا پسند فرماتے ہیں۔ اپنے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے ذہنی اور جسمانی ماحول کو فراموش کرنا ایک عام رواج ہوگیا ہے۔ وہ اس امر سے دیدہ دانستہ چشم پوشی کرتے ہیں کہ لڑکیاں لڑکوں کی نسبت جنس کے متعلق جبلی طور پر کتنا کچھ زیادہ جانتی ہیں۔ بالخصوص جب وہ اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم بھی پاتی ہوں۔

    بایں ہمہ وہ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ آخر گڑیوں اور گڈوں کی شادیاں کیوں رچائی جاتی ہیں۔ یا دودھ ابلتے دیکھتے رہنے پر کون سا خیال چند لمحوں کے لیے انہیں اٹھنے سے معذور رکھتا ہے۔ پھول کاڑھتے کاڑھتے ٹانکا بار بار غلط ہونے پر جس وقت وہ دانتوں سے انگلی کاٹتی ہیں تو کون سا جذبہ ان کے تحت الشعور میں کارفرما ہوتا ہے۔ خوشی اور آزادی (وقتی) سے تکلف کے پردے گرنے پر فحش گالیوں بھرے گیت شریف سے شریف ماں اور بہنوں کی آسودگی قلب کا باعث کیوں ہوتے ہیں۔ کیا یہ فطری جذبہ ہے؟ مگر ایک عارضی اظہار کے بعد یہی فطری جذبہ کہاں روپوش ہوجاتا ہے۔ یہ مرجاتا ہے۔ یا دبا دیا جاتا ہے۔ اور اگر یہ فطری جذبہ نہیں ہے تو اشراف اسے تھوڑی دیر کے لیے بھی کیوں روا رکھتے ہیں۔

    مندرجہ بالا حالات کے پیش نظر معلوم ہوتا ہے کہ رجعت پسند طبقہ جنسی تذکروں کو برا نہیں سمجھتا۔ بلکہ ایک حد تک اسے مفید اور ذریعہ اصلاح بھی تصورکرتا ہے۔ ورنہ دینیات کی تعلیم کبھی کی ختم ہوگئی ہوتی۔ مصوری کا رنگ بدل گیا ہوتا۔ تصویروں میں جوان عورت کی جگہ لنگوریاچھچھوندر نے لے لی ہوتی۔ پئیاں دپانؤں، پڑوں کی پلنگا (پلنگ پر چڑھونگی) کی دھن کی جگہ اشلوک کی گردان سننے میں آیا کرتی۔ آرائش محفل اور داستانِ امیرحمزہ ڈھونڈے سے بھی دستیاب نہ ہوتیں۔ مگر ایسا نہیں۔ یہ طبقہ رومانی طور پر ان موضوعات و تصورات سے قریب ہے۔ وہ خود ان وعدوں پر جیتا ہے۔ کہ ’’جنت کے سبزباغوں میں خوش خلق اور خوبصورت عورتیں ہوں گی۔ یہی خیموں میں چھپ کر بیٹھنے والی حوریں ہیں جنہیں کسی انسان نے چھوا تک نہیں۔ ان کی آنکھیں بڑی بڑی ہیں جیسے احتیاط سے رکھے ہوئے موتی۔ اور ان کی نظریں نیچی رہتی ہیں۔ انہیں وہ حوریں ملیں گی جنہیں ہم نے نت نیا پیدا کیا۔ اور انہیں پیاری پیاری ہمجولیاں بنایا۔‘‘ پاسبان اخلاق کے نزدیک یہ جنسی تذکرہ نہیں۔ اور نہ ان وعدوں میں جنسی ترغیب کا عنصر شامل ہے ان کے نت نئے اور خوبصورت ہونے سے ان کے دل و دماغ پر کچھ اثر نہیں پڑتا۔ ان کی نظریں نیچی ہونا ان کے نزدیک احساسِ جنس پر مبنی نہیں۔ پیاری پیاری ہمجولیوں سے مراد شاید اختلاط باہمی نہیں۔ مگر مخالفین ادب جدید یہاں تک پہنچ کر چپ ہوجاتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ انسانی فطرت کی گہرائیوں کو سمجھ کر جو صداقت ان الفاظ میں بھری گئی ہے۔ وہ کس قدر پر معنی ہیں۔ مگر جیسا کہ میں نے پیشتر عرض کیا، نئے اور پرانے آدمی کی مخالفت نظریاتی ہے۔ وہ موضوع سے زیادہ اس خیال پر حملہ کرتا ہے۔ جو ایک نئی تحریک کا باعث ہے۔

    اس کے نزدیک جنس یک طرفہ ہے۔ صرف مرد جنس کا مالک ہے۔ عورت اس سے محروم ہے۔ قدیم تصورات کی بناپر عورت غلام ہے اور مرد اس کا مالک۔ دنیا میں بھی اور جنت میں بھی۔ بہشت میں حوروں کی تقسیم اسی جذبۂ ملکیت کی آئینہ دار ہے۔ جنس کے پردہ میں عورت کو گھونٹ کر مرد کو سیاسی سماجی اور مذہبی آزادی حاصل ہے۔ جنسی آزادی اس کی برتری کی موت ہے۔ اس کے کھوکھلے پن کا اظہار ہے۔ اس لیے ادب میں جنسی عناصر محزب اخلاق ہیں۔ گندہ ذہنی۔ فحاشی اور گندگی کے مترادف ہیں۔ چنانچہ قدیم اور جدید لکھنے والوں میں جنس مشترک ہے۔ مگر زاویہ ہائے نگاہ مختلف۔ مقاصدبالکل ایک دوسرے کی ضد۔ ایک ذہنی، جسمانی اور سماجی آزادی کا خواہاں ہے اور دوسرا ذہنی، جسمانی معاشیاتی غلامی کا دلدادہ۔ ایک عورت کی اس لیے عزت کرتا ہے کہ وہ عورت ہے کمزور ہے۔ اس کے ترحم کی محتاج ہے۔ اس کی دست نگر ہے۔ اس کی تفریح کا سامان ہے۔ دوسرا اس لیے عورت کی عزت کرتا ہے کہ وہ اس کی طرح انسان ہے۔ رسمیات کی پابندیوں میں جکڑی ہوئی ہے۔ عرصہ سے مرد کی غلام ہے۔ محکوم ہے۔ مظلوم ہے۔ محتاج ہے۔ نئے اور پرانے زمانوں میں یہ تغیر کس طرح پیدا ہوا اور جنسی نظریات میں کس طرح تبدیلی پیدا ہوئی یہ سمجھے بغیر موجودہ جنسی کشمکش سے کماحقہ آگاہی ناممکن ہے۔ میں ذیل میں ان قوتوں کا مجملاً ذکر کروں گا۔ جو نئے نظریات ادب و حیات کی تشکیل میں زبردست ممدد و معاون ثابت ہوئیں۔

    خیال و عمل میں انقلاب پیدا کرنے والی قوتوں میں سے سب سے عظیم اور بے پناہ طاقت سائنس ثابت ہوئی۔ سائنسی انکشافات نے قلیل مدت میں عرصے سے جڑیں پکڑے ہوئے تصورات کو بہت جلد متزلزل کردیا۔ معاشرتی اور معاشیاتی قدروں پر جو بھرپوراثر سائنسی ایجادات نے ڈالا۔ اور اس کے ماتحت زندگی کی جو نئی صورت ظہور میں آئی اس کو بغیر سمجھے موجود ادبی قدروں اور موجودہ نسل کی نفسیات کا تجزیہ کو ناسعی لا حاصل ہے۔ سائنس نے ہمارے معتقدات کو مختلف طریقوں سے بدلا ہے۔ پہلے انسان خود کو مجبور محض تصور کرتا تھا۔ سفر کو سقر بتانے پر مجبور تھا۔ لیکن اب وہ خشکی اور تری پر حکمران ہے فاصلے گھل گئے۔ وقت کا تصور مٹ گیا۔ دنیا کے کونے مل گئے۔ ملکی حدود مٹنے اور انسانی دماغ ملنے سے آفاقیت اور انسانیت کے تصورات کا فکر پر مسلط ہونا لابدی تھا۔ اب وہ فصلوں کی تیاری کے لیے آسمان نہیں تکتا۔ بجلی اسے پانی اور روشنی دیتی ہے۔ اور اسی کی لہریں خوشوں کو پختہ کرتی ہیں۔ آندھی طوفان خشک سالی قہر آسمانی نہیں رہے۔ دنوں پہلے اسے معلوم ہوتا ہے کہ کب اور کتنی مقدار میں بارش ہونے والی ہے۔ دل کا حال مشین جانتی ہے۔ شعائیں جسم میں پیوست ہوکر ہڈیوں کے گودے اور ریشوں کی ساخت کا پتہ دیتی ہیں۔ اس کی آواز سیکنڈوں میں ملکوں کے کونے گھوم آتی ہے۔ اس کا ادنیٰ ارادہ پہاڑ اور سمندر ہٹا سکتا ہے۔ وہ بڑھاپے کا اضمحلال جوانی کی امنگوں میں گزارتا ہے۔ ایسی صورت میں انسانی طبیعت سے مجبوری۔ بے بضاعتی اور لاچاری کا احساس اٹھ گیا۔ کمزوری کے باعث جو تعلق اس کا مذہبی اداروں سے تھا۔ منقطع ہونے لگا۔ بہت بڑی حدتک وہ روزانہ کی زندگی میں ان دیکھی طاقتوں کا محتاج نہیں رہا۔ اس میں خود اعتمادی پیدا ہوگئی۔ اگر وہ کسی وبا کاانسداد کرنے سے قاصر ہوتا۔ تو بجائے دلسوزی کے دماغ سوزی سے کام لیتا۔ تعلق پرستی اس خوداعتمادی کا لازمی نتیجہ تھی۔

    سائنس کے کرشموں نے زندگی کو سہل بناکر اور لوگوں کے تصورات کو آزاد کرکے ایک طرف تو روحانی اداروں سے خلاصی دلائی، دوسری طرف سماجی نظام میں تبدیلیاں پیدا کرکے جماعتی تضاد کے خدوخال واضح کردیے۔ جماعتی احساس نے اس کی توجہ معاشیا ت کی طرف منعطف کردی۔ نتیجتہً فکری آزادی اور جماعتی غلامی کا ساتھ محال نظر آنے لگا۔ ان خیالات اور ذہنی و مادی تبدیلیوں نے انسان کو ان چیزوں کا جویا بنادیا جو اس کی زندگی اور اس کی دنیا کو حسین بناسکتی تھیں۔ اس کی نظریں آئندہ زندگی سے زیادہ موجودہ زندگی پر تھیں۔ موجودہ دنیا پر تھیں۔ اورموجودہ نظام پر تھیں۔ وہ سوچنے لگا کہ یہی دنیا جنت بھی بن سکتی ہے اور جہنم بھی۔ آزادی، خوشحالی حسن و محبت اس کے نزدیک بہترین زندگی کے لوازم بن گئے۔ اس طرح ہمارے معاشرتی۔ مذہبی اور معاشیاتی نظریے بدل گئے۔ لوگ دنیا کونئے زاویۂ نگاہ سے دیکھنے لگے۔ ان کے ادب اور زندگی کے مقاصد نظریات کے ساتھ بدل گئے۔ موجودہ ادب انہیں نظریات کا ترجمان ہے۔ انہی نئے خیالات و مساعی کی تفسیر ہے۔

    زمانہ کی تعقل پرستی اور آزادی کی عام چاہت نے ہر شعبہ زندگی پر گہرا اثر ڈالا۔ رفتہ رفتہ جنسی آزادی سماجی الجھنوں کے حل کا جزو نظر آنے لگی۔ سائنس کے معجزوں نے لوگوں کے دل دماغ پر عقل انسانی کی ہمہ گیری کا سکہ بٹھا ہی دیا تھا۔ چنانچہ انیسویں صدی کے اواخر میں جب سائیکولوجی نے تجربات کا جال پھیلایا۔ اور کلیات زندگی بنانا شروع کیے۔ تو ایک خاصہ گروہ نفسیاتی مشاہدوں کاقائل ہوگیا۔ علم النفس کے ماہرین نے مابعد طبیعیاتی مسائل چھوڑ کر شعور اور لاشعور کی مدد سے دنیا اور انسان کے جھگڑے چکانا شروع کردیے۔ فرائیڈ نے گزشتہ تصوراتِ زندگی کی یکسر بیخ کنی کردی۔ اس مدرسہ فکر کے نزدیک ہر انسانی فعل کی محرک جنس ہے۔ جنس سے مراد کلیتہً جذبہ شہوانیت نہیں۔ بلکہ افعال کی وجہ تحریک ہے۔ جس میں تلذذاتصال کششِ حسن و جمال۔ جذبہ محبت و نفرت سبھی شامل ہیں۔ یہ دعویٰ کچھ کم خطرناک نہ تھا لیکن جب عورت کو شعور۔ لاشعور۔ تحت الشعور کی تحریکات کے ماتحت معذور قرار دے کر ایک طرف تو اسے پاپ۔ گناہ اور نیک و بد کے رسمی تصورات سے آزاد کردیا۔ اور دوسری طرف مرد کی حکومت کا جُوا اٹھایا تو رجعت پسندوں میں ابتری پیدا ہوگئی۔ عورت ان انکشافات کے ماتحت کھلونا نہ رہی۔ اور اس طرح حاکم طبقہ کے خیالی جنتی محل بھی گرنے لگے۔ ان نت نئے خیالات کی مقبولیت کا باعث عام تعلیم۔ تعقل پرستی کے علاوہ خود عورت کی سماجی حیثیت تھی جو ہولے ہولے بدلنے کے باوجود ابھی تک سینکڑوں بندشوں میں جکڑی ہوئی تھی۔

    موجودہ ادب میں جنسیاتی کشمکش صرف ایک نظریہ کے ماتحت ہے۔ عورت کو اپنی صلاحیتوں کے اجاگر کرنے کا موقعہ دیا جائے۔ موجودہ عورت کا تخیل سمجھنے کے لیے اس کی حقیقت پر روشنی ڈالنا نامناسب نہ ہوگا۔ کیونکہ ایک حدتک موجودہ جنسی آزادی کا تصور اسی فعل کا ردعمل بھی ہے۔ مغرب ومشرق کی تفریق سے قطع نظر عورت کی مجلسی حالت تقریباً ہر ملک اور ہر زمانہ میں یکساں ملے گی۔ وہ زیادہ تر غلام۔ مردکی دست نگر اور پابند رہی ہے۔ تاریخ کے ناقابل قدر زمانہ کو چھوڑ کر مرد کی ملکیت کا دباؤ اس پہ ہمیشہ مسلط رہا ہے۔ مغربی تمدن کے آغوش میں بھی عورت کی قدر و منزلت محض عورت پن کی بنا پر ہے۔ وہ وہاں بھی پابند رسم و رواج اور غلام ذہنی ہے۔ بہ حیثیت انسان اسے کوئی رتبہ حاصل نہیں۔ مرد جنس کھوکر بھی اونچا درجہ رکھ سکتا ہے۔ لیکن عورت عمر اور جوانی کے ساتھ نظروں میں چڑھتی گرتی رہتی ہے۔ احساس نسائیت عورت کا جوہر تصور کیاجاتا ہے۔ شوہر اور یاراب بھی دو مختلف شخصیتیں سمجھی جاتی ہیں۔ خود عورت کے نزدیک اس کے جسم اور نسوانیت کے علاوہ اس میں کوئی وجہ دلکشی نہیں۔ مرد ان دونوں خوبیوں کے بغیر بھی جی سکتا ہے۔ اور عیش کرسکتا ہے۔

    عورت کے جسم اور نسائیت کا گہرا تخیل ہوٹلوں اور تھیٹروں میں اس کی آمدنی کا ایک عام ذریعہ بن گیا ہے۔ مغرب میں عورت کا جو احترام کیا جاتا ہے۔ وہ خود یہ کہتا نظر آتا ہے ’’دیکھو تم عورت ہو کمزور ہو۔ اسی لیے تو ہم پر تمہاری عزت واجب ہے۔ تم سہارا چاہتی ہو، ہم قوی ہیں۔ تمہیں سہارا دیں گے۔‘‘

    قدیم ہندوستان میں عورت کی یہ حالت تھی کہ چاہتے تو جانوروں کی طرح پانچ بانٹ لیتے۔ کسی فرد واحد کو پانچوں رکھنا مقصود ہوتا تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں تھا۔ ڈھورڈنگروں کی طرح خرید و فروخت کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اسی سال کا بڈھا چاہے تو آنکھ، دانت، چھاتیاں، ہاتھ پیر اونچائی نیچائی دیکھ کر جوان سے جوان جانور خرید کر پال سکتا ہے۔ اور خدمت کراسکتا ہے۔ بعض اوقات خرید و فروخت سکوں کی صورت کے بجائے سماجی وقار مذہبی حیثیت و اقتدار، مالی اختیارات کی شکل میں طے پاتی ہے۔ سن رسیدہ کو لڑکی مل سکتی ہے اور عورت کو نوعمرلڑکا دستیاب ہوسکتا ہے۔ پرانی رسم ستی صرف جبرد استبداد کی آئینہ دار ہی نہ تھی۔ بلکہ اس کے یہ بھی معنی تھے ’’بی بی تمہارا استعمال کرنے والا ختم ہوا۔ اب تم کس کام کی ہو۔ تمہاری قدر تو تمہارے استعمال سے تھی ’’چین و جاپان‘‘ میں عورت کی حالت ہمیشہ جائیداد جیسی رہی ہے۔ اور فسطائی تخیلات نے تو عورت کو بچہ جننے اور مرد کو خوش کرنے والی مشین سے زیادہ اہمیت ہی نہیں دی۔ لیکن اصول ارتقاء کے مطابق عورت کو قرون وسطی کی حالت میں پہنچانا ناممکن ہے۔

    آزادی کی عام لہر۔ تعلیم اور عورت کی غلامی کی تلخ کامیوں نے جنسی آزادی کے خیال کو رواج دیا۔ رفتہ رفتہ دوربین اور حقیقت شناس مردوں نے جنسی میلانات کو پاپ اور گندگی سے منسوب کرنا غلطی سمجھنا شروع کردیا۔ اس سلسلہ میں مارکس کے نظریہ حیات سے واقفیت نہایت ضروری ہے۔ مارکس نے تمام مذہبی اور سماجی قدروں کی بنیاد معاشیات پر قائم کی ہے، اس کے لیے سب سے اہم چیز معاشی آزادی ہے۔ جس کا حصول اسے یکسر آزاد رہ کر ہی ممکن ہے۔ واضح ہو کہ عورت جب اپنے جسم کے گوشت کو فروخت کرتی ہے، تو سب باتوں سے زیادہ اہم شے اس کے لیے پیسہ ہے۔ جو نہ صرف اسے زندہ رکھ سکتا ہے، بلکہ ایک خاصہ آرام اور سماجی وقار بھی بخش سکتا ہے۔ اس کلیہ سے یہ نتیجہ اخذ کرلینا کہ مارکس اور فرائیڈ کے نظریات اور تعلیمات ایک سی ہیں قطعی غلط ہے۔ مارکس اورفرائیڈ کے نظریوں میں بعدالمشرقین ہے۔

    مارکس کا جنسی نظریہ یہ تھا کہ عورت کاجنسی تخیل ایک گلاس پانی کے برابر ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ عورت کی کوئی حیثیت نہیں، یا یہ کہ وہ جزو غیر ضروری ہے۔ بلکہ اس کے بالکل برعکس وہ حقیقتاً اس جنسی خیال کا ہی مخالف تھا۔ جس نے عورت کو کمزور، نحیف، معذور اور محتاج بنادیا تھا۔ وہ اس جھوٹے نظریے اور غلط خیال کو مٹاکر اسے مرد کے برابر لانا چاہتا ہے۔ بالشویک انقلاب تک اور اس کے کچھ عرصہ بعد بھی اس نظریہ کے غلط تصور نے روس میں گندہ زندگی کا طوفان برپا کیے رکھا۔ لیکن جب عورت اپنے اصلی مرتبہ سے واقف ہوگئی۔ اور اس کی حیثیت نے سماج میں رنگ بدل دیا، تو گندہ زندگی کے ساتھ ہی ساتھ بناؤ سنگھار، آرائش، جنسی ترغیب کی تدابیر لباس کاخاص اہتمام بھی اسے بورژوائی اور زہرآلود نظر آنے لگا۔

    چنانچہ موجودہ روس میں عورت بالکل مرد کے برابر ہے۔ عورتیں انجینئر ہیں۔ پروفیسر ہیں۔ ڈاکٹر ہیں۔ فارم منیجر ہیں۔ کولنتائی کی طرح سفیر ہیں۔ سودا کی طرح سرخ فوج کی کمانڈر ہیں۔ بادام مالوٹوف کی طرح سرکاری مترجم ہیں۔ چھاپہ مار فوج کی رکن ہیں۔ البتہ وہاں کلبوں میں کسبیاں نہیں کوٹھں پر رنڈیاں نہیں۔ بازاروں میں جسم کی تاجر لڑکیاں نہیں۔ موجودہ چین ترکی اور مصر میں بھی یہی جنسی آزادی کا تخیل کارفرما ہے۔ اس طوفان کی ایک لہر ہمارے ملک میں بھی رقصاں نظرآتی ہے۔ ہمارا ادب اسی کاترجمان ہے۔

    نظریات کی ان تبدیلیوں نے ہمارے ادب کے مزاج پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ موجودہ ادب رقصوں اور کہانیوں کا ایک لامتناہی طومار نہیں رہا۔ اس کے کردار سیدھے سادے انسان نہیں رہے۔ ان کی سادگی میں پرکاری پنہاں ہے۔ قصہ کی روانی میں ان کرداروں کی ذہنی پیچیدگیاں شامل ہیں۔ ان کے ظاہری افعال سے زیادہ ان کے لاشعوری محرکات پر روشنی ڈالنا نہایت ضروری ہے۔ افسانے کا قصے کے ڈھچر کو سائنٹفک بنانا ازبس ضروری ہے۔ بیانات میں سائنٹفک ساؤنڈ نیس ہوئے بغیر موجودہ انسان اسے پسند نہیں کرسکتا۔ نیک وبد کے تصورات کے ماتحت جو جنگ اس کے تحت الشعور میں ہوتی ہے۔ اور اس کے خطرناک نتیجے جونیک نیتی اور صدق دلی پر مبنی ہوتے ہیں۔ ان کی عکاسی نفسیاتی نقطہ نظر سے کرنا ادیب کا پہلا فرض ہے۔ سماج کی گمراہیوں، کجرویوں، ظلموں کا آئینہ ادب کو بننا ہی ہے۔ اور ان تمام پابندیوں کے ساتھ ان مقاصد کا ہونا بھی اشد ضروری ہے۔ جو ہمیں بہتر سے بہترین حالت میں پہنچادیں۔ اگر سماجی اصلاح اور کسی اعلیٰ مقصد کے پیش نظر حقیقت نگاری اور عریانی کا امتیاز ایک حدتک ختم بھی ہوجاتے تو روا ہے۔ برخلاف اس کے اگر کسی اعلیٰ مقصد کی کمی ہے اور محض تلذذ کی خاطر حقیقت نگاری کی جاتی ہے تو وہ نفسیاتی طور پر ایک جنسی بیماری قرار دی جاسکتی ہے۔ لیکن ادب میں اسے جگہ لینے اور زندہ رہنے کا حق نہیں۔ اسی صورت میں گناہ کی راتیں۔ شرمناک افسانے اور کالج گرل کی سرگزشت و آرایش محفل اور قصہ طوطا مینا سے بھی کمزور اور لچر ہیں۔ کیونکہ زمانہ آگے بڑھ گیا اور وہ وہیں اپنی جگہ موجود ہیں۔ ہمیں یہ نہیں فراموش کرنا چاہیے کہ موجودہ سائیکولوجی نے عجیب و غریب جنسی وارداتوں اور کہانیوں کے ابواب کھول دیے ہیں۔ لیکن موجودہ ادیب ان عریاں سرگزشتوں اور جنسی فعلوں کا ذکر نہیں کرتے۔ وہ محض ایک اعلیٰ مقصد کے پیش نظر جنسی الجھنوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ اگر لذتیت اور عریانیت میں دلچسپی ہی ان کا مطمح نظر ہوتا تو موجودہ۔۔۔ پیش کرتے ہیں۔ مگر ایسا نہیں۔

    ہمارے ادب میں جنسی عناصر کی بہتات کاسبب عورت کا غلط تصور، جنسی دباؤ، عذاب و ثواب کے ضعیف تصورات۔ سماجی کجرویاں۔ معاشی ناہمواریاں اور پاسبانِ اخلاق و ضمیر کی چیرہ دستیاں ہیں۔ اگر ہمارا معاشرہ ہیجڑوں سے نوجوان لڑکیوں کی شادیاں جائز سمجھتا ہے تو لحاف اور تل پڑھنے میں بھی کوئی عیب نہیں۔ اگر سماج کے ٹھیکہ دار رنڈی کو تجارت جسم کی بناپر ذلیل اور حقیر سمجھتے ہیں۔ تو اخلاق کے خالقوں کے نہاں خانہ دل کی عکاسی بھی اسی طرح جاری رہے گی۔ جس طرح رنڈی اور کسبی کی آہ و زاری۔ اگر عورت میں عورت پن کا شعور پید اکرکے اسے گھونٹنے کی فکر کی جائے گی، تو اس کی تاکا جھانکی بھی ادب میں رنگ دکھاتی رہے گی۔ اگر مرد عورت کو اپنی تسکین کا ذریعہ سمجھتے رہیں گے تو ان کا یہ جبر ادب میں جلوہ گر رہے گا۔ خواہ مرد کی تعیش پرستی ہو۔ خواہ عورت کی بے حیائی، خواہ رنڈی کا کوٹھا ہو یا ڈرائنگ روم کی بنی سنوری شریف زادی۔ خواہ چمارن ہو یا برہمن زادی ان سب کے دل کی گہرائیوں۔ ان کی الجھنوں سے ادب کو سروکار رہے گا۔ ان تمام فحش نظاروں میں عورت کی روح کی تڑپ شامل ہے۔ اس کانغمہ ایک درد ہے۔ اس کے خلخالوں کی صدا ایک کراہ ہے۔ ایک ٹوٹے ہوئے دل کی پکار۔ پاسبانِ اخلاق و ضمیر رنڈی سے نفرت کرتے ہیں۔ سماجی حالت اور اپنے جذبۂ تقدس و احساسِ تفوق سے نہیں۔ فحش گوئی انہیں ناپسند ہے مگر اس کے اسباب و علل نہیں، ان کے ارادے برے ہیں، نیتیں خراب ہیں اور فحاشی کا تعلق ارادوں کے نیک و بد ہونے سے ہے۔ ادب میں یہ طغیان اس وقت تک جاری رہے گا جب تک مجلسی بساط کا نقشہ نہیں بدلے گا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے