ادب اور تخئیل
(۱)
ادب کی جتنی تعریفیں ملتی ہیں ان میں سب سے زیادہ زور تخئیل پردیا گیا ہے اور انیسویں صدی میں ادب کو تمام تر تخئیل ہی کا کرشمہ بتایا گیا ہے۔ نفسیات کی رو سے تخئیل ایک انسانی قوت ہے جس کے مطابق انسان اپنے دماغ میں آئندہ چہروں کے نقش کھینچ لیتا ہے۔
اس کے آئندہ سے تعلق پر کافی زور دیا جاتا ہے اور اس کو حافظہ سے اسی معنی میں مختلف کہا جاتا ہے کہ حافظہ کاتعلق تمام تر ماضی سے ہے مگر ہمارے حافظے میں جو چیزیں آتی ہیں وہ بھی کچھ نہ کچھ تخئیل کے رنگ میں ضرور رنگ جاتی ہیں کیونکہ ہم کو پرانی چیزیں بجنسہ یاد نہیں آتیں۔ ہمارا ان سے جذباتی تعلق ان کو کچھ نہ کچھ بنا یا بگاڑ ضرور دیتاہے اور پھر جس چیز کو ہم یاد کرتے ہیں، اس کے تمام جزئیات یاد نہیں آتے، ان کو ہم اپنی تخئیل سے پورا کرکے ایک مکمل مجسمہ بناتے ہیں اور اسی حالت میں یہ مجسمہ کافی تخئیلی ضرور ہوجاتا ہے۔ بہرحال تخئیل وہ قوت ہے جو مادیت سے بس اتنا تعلق رکھتی ہے کہ یہ اس کو رنگ دیتی ہے، ورنہ اس کو زیادہ تر روحانی چیز ہی کہا گیا ہے۔ ولیم بلیک تو اس حدتک پہنچا ہے کہ وہ تخئیل کو روح القدس کہتا ہے۔
ادب میں تخئیل کاوجود ضروری ہے ورنہ وہ ادب نہیں ہوگا مگر اس کے وجود کو سمجھنے کے لیے اسکول تخیّل سے مختلف کرنا ضروری ہے۔ اسی فرق کو سمجھنے کے لیے پہلے یہ جان لینا چاہیے کہ ’’تخیل‘‘ ہر شخص میں ہوتا ہے مگر تخئیل کے مالک کم ہی لوگ ہوتے ہیں۔ ہرشخص سوتے میں خواب دیکھتا ہے اور جاگتے میں عجیب عجیب خیالات اپنی خواہشات کے موافق اپنے ذہن میں دہراتا ہے او رمحض ایک خیالی دنیا بناتا ہے جو اس کو خوشی عطا کرتی ہے۔ کالج کا ہر لڑکا امتحان کو پاس کرنے، اس کے بعد ملازمت اور جدید معیار پر آرام کی زندگی بسر کرنے کے تخیّل میں گم ہوجاتا ہے۔
اکثر تصانیف میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ خام تجربہ رکھنے والے لوگ محض تخیّل کی ایک دنیا بناتے ہیں، جو کسی طرح قرینِ قیاس نہیں ہوتی۔ عبدالحلیم شررؔ کی ناول ’’دلچسپ‘‘ اس کی مثال ہے۔ اس میں جو قصہ بیان ہوا ہے کہ وہ محض تخیّلاتی ہے۔ تخیّل کی ضرورت محض ادب کے لیے ہی نہیں ہے بلکہ سائنس داں بھی اپنے تجربوں میں کامیاب نہیں ہوسکتا اگر وہ قوتِ تخیّل سے معمور نہیں ہوتا۔نتیجہ یہ نکلا کہ تخئیل، تخیّل اور حقیقت سے مل کر ظہور میں آتی ہے۔
کولرجؔ نے تخئیل کو ایک مرکب کرنے والی (synthetic) قوت کہا ہے جو ہر قسم کے تجربے کو اکٹھا کرکے ایک نئی ترکیب دیتی ہے۔ حقیقت کے جزئیات، ان سے وابستہ تخیلات اور جذبات اور اسی قسم کی تمام چیزیں مل جل کر ایک عجیب مجموعہ تخلیق کرتی ہیں جو تخئیل کانتیجہ کہلاتا ہے۔ کولرجؔ کی بیوگرافیہ میں تخیل پر طویل بحث ہے جو بے تکان بڑھتی چلی گئی اور خاص مقصد سے اکثر اور بیشتر ہٹ گئی ہے مگر اس سب کا حاصل تصوف کے نقطۂ نظر سے و ہی نکلتا ہے، جسے غالبؔ نے نوائے سرزش کہا ہے اور مابعد الطبیعات سے یہ نکلتا ہے کہ یہ وہ قوت ہے جو مختلف قوتوں کو ہم آہنگ کرکے ایک فن وجود میں لاتی ہے۔
کولرجؔ تخیُّل کی دوقسمیں یا دو درجے بتاتا ہے۔ ایک ابتدائی تخیل (Primary imagination) اور دوسری ثانوی تخیل (Secondary imagination)۔ مولانا شبلیؔ نے ان دونوں کو محاکات اور تخئیل کہا ہے اور ان دونوں کا فرق واضح کیا ہے۔ شبلی اس معاملے میں بھی محض طباع ہی ہیں اور ہر معاملہ کی طرح اس کو بھی سطحی طور ہی پر سمجھے ہیں مگر ان کے بیان سے کچھ نہ کچھ روشنی اس قوت تخیل پر پڑتی ہے جو ادب کی جان ہے اور قوموں میں روایات کی طرح قائم ہوجاتی ہے۔ اصل میں محض تصورات کو فنی جامہ پہنانا ہی تخیل کا کام نہیں ہے بلکہ یہ موضوع کو ایک نئے طریقے پر تخلیق کردیتی ہے جو اصل کی حقیقت کے اجزاء تو لیے ہوئے ضرور ہوتا ہے مگر اصل سے اس قدر دور ہوتا ہے کہ پہچاننا مشکل ہوجائے۔
تخیّلی عمل کی سب سے پہلی مثالیں اصنام ہیں۔ قدیم انسان نے عرصے تک کائنات کی مختلف چیزوں کو دیکھا، ان میں سے اسے ظاہری حقیقت کے علاوہ بھی کچھ نظرآیا اور پھر اپنی حقیقت کا کچھ عکس بھی دکھائی دیا۔ کائنات کی ہر چیز اسے اپنے سے بڑی دکھائی دی۔ اس سے ذرا زیادہ ماہرین انسانیت جذبہ خوف ہی کو قدیم مذہب کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ صحیح یہی ہے کہ خوف سے غالب آکر ہی اس نے پرستش شروع کی مگر اصنام بنانے میں خوف کے علاوہ دوسرے جذبات کا ہاتھ بھی ضرور ہے، بہرحال تخیل کو حرکت میں لانے کے لیے جذبہ ضروری ہے۔ جذبہ کا تخیل سے یہی تعلق ہے، پھر بھی عمل تخیل ایک مختلف چیز ہے۔ یہ ایک قسم کی صناعی ہے۔
نباتات کے تمام اثرات کو جمع کرکے ہی ایک پاروتی دیوی بنی، جو نباتات کی ہر شے سے بالکل مختلف تھی، مگر اس کی ہر صفت کو نباتات کی صفات سے تعلق تھا۔ مثلاً اس کے بڑے بڑے بال پیداوار کی طرف اشارہ کرتے تھے، اس کی مسکراہٹ اس اثر کی ترجمان تھی جو لہلہاتے ہوئے سبزہ زار کو دیکھ کر دل پر طاری ہوتا ہے۔ غرض تخیل نے ہمارے سا منے ایک مجسمہ بنادیا جو حقیقت کاترجمان ہونے پر بھی حقیقت سے نہایت درجہ دور ہے۔ اسی طرح آگے بڑھ کر انسان نے دیو اور پری اور اژدھے بنائے۔ یہ بھی قیاس سے بہت دور تھے مگر پھر بھی زندگی کی حقیقتیں ان میں نظر آتی تھیں، پھر اخلاقی صفات کو انسانوں کی شکل دی اور ان کو انسانوں کی طرح عمل پیرا دکھایا۔ جدید دور میں انسانی کردار لیے جن میں کسی مخصوص فرد کی کوئی صفت ضرور تھی مگر یہ بھی حقیقت کے بالکل چربے نہ تھے۔ اناکارینہ ہمیں بالکل زندہ عورت نظر آتی ہے، مگر جو تجربات اس کے ہیں اور جس طرح اس کے ذہن میں تین فرائض یعنی اولاد کی طرف، شوہر کی طرف اور عاشق کی طرف کشمکش دکھائی گئی ہے اور اس سے عجیب واقعات رونما ہوئے ہیں، وہ بالکل حقیقی نہیں ہیں۔ رومیؔ کہتے ہیں،
ہمہ آفتاب بینم ہمہ آفتاب گوئیم
نہ شبم نہ شب پرستم کہ حدیث خواب گوئیم
تخیل حدیث خواب ہے۔ ایک تصویر خیالی کو تخلیق کردینا تخیلی عمل ہے۔ شیکسپیئر کہتا ہے،
The poet's eye, in a fine frenzy rolling,
doth glance from heaven to Earth, from Earth to heaven;
and as imagination bodies forth the forms of things unknown, the poet's pen turns them to shape, and gives to airy nothing a local habitation and a name; such tricks hath strong imagination
That when it doth conceive a deed
It thinks a maker of the deed.
شیکسپیئر کے جس ڈرامے سے یہ الفاظ لیے گئے ہیں اس میں تخیل کے عجیب عجیب کرشمے ہمارے سامنے آتے ہیں۔ یہاں ایک پورا پرستان ہے جس میں بادشاہ اور ملکہ ہیں اور ان کاایک نہایت دلکش ملازم پکؔ ہے۔ یہ پرستانی صفات کے علاوہ مذاق کرنے اور انسانوں کو احمق بنانے میں بھی دلچسپی رکھتا ہے اور اس کی حرکات سے ڈرامے میں زبردست مزاح کا عنصر پید اہوجاتا ہے۔ پھر یہاں ایک اور دیہاتی بھی دکھایا جاتا ہے جس کے سر پر پکؔ گدھے کا سر لگا دیتا ہے اور اس کے ساتھی اسے دیکھ کر بھاگ جاتے ہیں۔ اس گدھ سرے سے پریوں کی ملکہ عشق کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور عجیب مزاحیہ اثر قائم ہوتا ہے۔ شیکسپیئر تخیل کی بے مثل مثالوں میں سے ایک ہمارے سامنے لاکر تخیل کی تعریف بھی کرتا ہے، جس سے بہتر کسی وجدانی چیز کو الفاظ کا جامہ پہنانے کی مثال ممکن نہیں ہے۔
شیکسپیئر کے بیان کا ایک اہم جزویہ ہے کہ وہ تخیل کومجسمہ بنانے کی قوت کے علاوہ ایسی قوت بھی بناتا ہے جو بے بنیاد چیزوں کو ایک مقام اور ایک نام دے دیتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ جن چیزوں کو حسیات محسوس نہیں کرتے، انہیں تخئیل اس طرح پیش کرتی ہے کہ وہ حسیات کو متاثر کرنے والے مجسمے میں تبدیل ہوجائیں۔ مثلاً ایک شاعر اپنے ممدوح کی فیاض کا یوں تاثر دیتا ہے،
درقعر دریاشد صدف برخجلت خود معترف
تاشہ لعلی از ابرکف شرقاو غرباریختہ
ہم کہیں گے کہ اس میں مبالغہ ہے مگر فی الحال اس کی طرف سے توجہ ہٹاکر جب ہم دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ موتی لٹانا فیاضی کی مثال ہے، موتی دریا سے نکلتے ہیں۔ دریا سے ابر اٹھتا ہے اور اس کی بارش کے قطرے سیپی کے منہ میں جاکر موتی بنتے ہیں۔ بادشاہ کا ہاتھ بھی ابر کی طرح ہے جو فیاضی کے موتی برساتا ہے مگر اس کی فیاضی سمندر کے ظرف سے کہیں اعلیٰ ہے۔ فیاضی کا ہم خیال کرسکتے تھے مگر شاعر نے اس خیال کو تصویر میں بدل دیا۔
اسی طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ کانتؔ اور گوئٹےؔ فکر کے ایک ہی درجہ پر تھے مگر شرکے بابت کانتؔ بحث اورتحلیل کرتا ہے اور اس کے تمام پہلوؤں کو واضح کرتا ہے۔ گوئٹےؔ ان سب پہلوؤں کو لے کر مفٹوفلیس کا کردار تخلیق کردیتا ہے۔ دونوں کو سروکار اسی چیز سے تھاجو حسیات سے بالاتر ہے مگر فلسفی کا کام اسے حسیات سے بالاتر ہی رکھنا مگر اس کو تحلیل کردینا ہے۔ شاعر کا کام اسے حسیات کے دائرے میں لاکر تخلیق کردینا ہے۔ اس لیے تحلیل کو تخلیق کا متضاد کہا جاتا ہے۔ انسانی ذہن دوطریقوں پر کام کرتا ہے۔ ایک یہ کہ کسی غیرمحسوس چیز کے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالے دوسرے یہ کہ کسی چیز کے الگ الگ ٹکڑوں کو جمع کرکے ایک نئی چیز بنادے، ایسی نئی جو پہلے کسی کے قیاس میں بھی نہ آئی ہو۔
تخئیل ایک نئی چیز ہی بناتی ہے۔ ہم کسی تخئیلی چیز کو دیکھ کر پھڑک اٹھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ بالکل نئی ہوتی ہے، ایسی نئی جیسی کبھی دیکھی نہ سنی۔ اس کی نوعیت ہی ہماری توجہ کو کھینچتی ہے اور دلچسپی کا باعث ہوتی ہے۔ اسی لیے کولرجؔ نے یہ کہا ہے کہ تخئیلی چیز حقیقت سے دور ہوتی ہے اور جس قدر دور ہو اتنا ہی اچھا۔ یہ ’’دوری‘‘ اس سلسلے میں ایک خاص معنی رکھتی ہے۔ مثلاً ایک اژدھے کاتصور لے لیجیے، بحیثیت ایک مجسمہ کے وہ حقیقت سے دور ہوتا ہے اور جتنا دور ہوگا اتنی ہی عجیب و غریب معلوم ہوگا مگر اس کے الگ الگ اعضا دیکھیے تو ہر عضو کسی نہ کسی حقیقی جانور کے عضو سے ضرور ملتا ہوگا۔ اسی طرح شیکسپیئر کے کیلی ہان کو لیجیے، اس کی ساخت کچھ بندر کی طرح اور کچھ مچھلی کی طرح ہے۔ وہ ایک ایسے دیوتا میں عقیدہ رکھتا ہے جس کا سر آسمان سے چھو رہاہے اور پیر زمین پر ہیں اور جسم پوری دنیا کو گھیرے ہے۔ اس کی حرکات اور اس کے گیت بھی عجیب و غریب ہیں۔ اس کا خوف، اس کی آزادی کی خواہش، اس کا مکر او راس کی سازش سب ہی عجیب و غریب ہیں۔ اس کی سی چیز کبھی وجود تو کیا خیال تک میں نہیں آئی مگر پھر بھی ہم محسوس کرتے ہیں کہ وہ آدمی ہے اور وحشی اور جنگلی انسان کا نمونہ ہے۔
ہماری ’’طلسم ہوشربا‘‘ کا عمر عیارلے لیجیے۔ اس کی زنبیل، جس میں وہ اڑن کھٹولے تک چھپالیتا ہے، حد سے زیادہ دور از قیاس چیز ہے۔ اس قسم کی چیزوں کو ہم مافوق البشر کہتے ہیں اور ان کی مافوق البشریت ہی تخئیل کاکرشمہ یا عمل ہے۔ زیادہ جدید دور کی تخلیقیں مافوق البشر ہوتی ہیں۔ جدید ناولوں میں خاص طور پر حقیقت کے پلّے کو بھاری رکھا جاتا ہے۔ مگر کوئی کردار تخلیق کہلانے کے قابل نہیں ہوتا، جب تک کہ اس میں کوئی عجیب بات نہ آجائے یعنی وہ عام بشریت کے معیار سے الگ نہ ہوجائے۔
ادب میں تخئیل کا عنصر لازمی ہے مگر اس کی مقدار میں فرق آتا گیا۔ سترویں صدی تک اس کی انتہا ہی کو ادب کے لیے ضروری مانا گیا۔ اسی لیے قصیدوں میں تعریف کو مبالغہ آمیزی کی حدتک پہنچایا گیا اور جتنا ہی زبردست مبالغہ ہوا، اتنا ہی شاعری کو کمال پر مانا گیا اور قصوں میں واقعات جتنے ہی دور از قیاس ہوئے اور اشخاص جتنے ہی مافوق البشر ہوئے اتنا ہی ان کو بہتر سمجھا گیا۔ مگر اٹھارویں صدی میں سائنس اور تجارت کے فروغ نے جو طبقہ پیدا کیا وہ ذہن اور عقل کی روشنی سے زیادہ معمور تھا۔ اس نے مافوق البشر معاملات سے بالکل انکار کردیا۔ وہ شاعری بھی ایسی پسند کرتا تھا جس میں تخئیل سے زیادہ ذکاوت کارفرما ہو اور افسانے بھی ا یسے پڑھنا چاہتا جس میں روزمرہ کی زندگی کے حالات ہوں۔ لہٰذا اس دور کے ادب میں حقیقت کا عنصر تخئیل پر غالب آگیا۔ شاعری نثریت میں دب گئی اور افسانے سوشل تاریخ ہوگئے۔
انیسویں صدی میں اس ادب کو پھیکا سیٹھا اور بے جان کہا گیا اور تخئیل پر زور دیا گیا۔ جرمن ادیبوں نے اس معاملے میں پیش قدمی کی۔ انگلستان میں دوشاعر ورڈزورتھ اور کولرجؔ ادب کو پھر تخئیل سے معمور کرنے بیٹھے۔ کولرجؔ نے اپنے دوست کی اس تحریک میں عملی حصہ کا جو بیان دیا ہے وہ تخئیل کو سمجھنے میں ہمیں مدد دیتا ہے۔ وہ بیان کرتا ہے کہ شاعرانہ اثر معمولی اور غیر معمولی اشیاء کے عناصر کو ملاکر قائم ہوتا ہے، لہٰذا اس کے دوست ورڈزورتھ نے اپنے سر یہ کام لیا کہ وہ معمولی چیزوں کو اپنی شاعری کا موضوع بنائے گا مگر ان پر تخئیل کی روشنی اس طرح ڈالے گا کہ وہ غیر معمولی معلوم ہوں۔
مثلاً وہ ایک عام دیہاتی مرد یا عورت، عام پھول یا عام چڑیا پر نظم لکھتا ہے مگر ان عام چیزوں میں ایسے عناصر اجاگر کرتا ہے کہ وہ بڑی غیرمعمولی معلوم ہونے لگتی ہیں۔ دوسری طرف کولرجؔ کا کام یہ تھا کہ وہ غیرمعمولی یعنی مافوق البشر چیزوں کو اپنی نظموں کا موضوع بنائے گا مگران کو اس طرح بیان کرے گا کہ پڑھنے والا ان کو حقیقی محسوس کرے، چنانچہ اس کی مشہور ترین نظم ایک جہازی کاقصہ سناتی ہے جس میں عجیب جانور، طوفان، بھوت اور جن، فقیر اور جادو سب ہی کچھ ہے مگر جو اس زور کے ساتھ ہمارے حسیات کو متاثر کرتا ہے کہ ہم اپنے ذہن کو برضا و رغبت التوا میں ڈال کر اس پر یقین کرنے لگتے ہیں۔ کولرجؔ کے زمانے والوں نے تخئیل ہی پر تمام تر زور دیا اور ہر فرد نے اسے اپنی انفرادیت کے موافق ایک نوعیت دی، مگر اہم بات یہ ہے کہ آج تک تخئیل ہی کو ادب کی روح رواں مانا جاتا ہے اور اس دوران میں اس کے معنوں میں بھی اتنا کافی اضافہ ہوگیا ہے کہ یہ فردبشر کے فہم کی چیز ہی نہیں رہ گیا۔
تخئیل کو محض وجدانی چیزوں کے دائرے سے باہر لاکر ایک فلسفی تصور اور پراسرار بھید کا درجہ دے دینے کا سہرا کولرجؔ کے سر ہے۔ اس نے اپنی معرکۃ الارا کتاب بیوگرافیہ لٹرریریہ میں تخئیل پر بڑی طویل بحث کی ہے اور جیسا کہ اس کا عام رویہ ہے، بہت جگہ بے تکان نکل گیا ہے اور اپنے موضوع سے ہٹ کر مابعد الطبیعات اور جرمن فلسفیوں کی غیبت میں گم ہوگیا۔ اس نے جو جنگل کاجنگل کھڑا کردیا ہے اس میں کچھ جڑی بوٹیاں ایسی ضرور ہیں جو ادیبوں کے لیے قوت حیات ہوسکتی ہیں۔ تخئیل کی تعریف اور اس کی تین اقسام پر تقسیم اگر مبہم نہیں تو بہت زیادہ وضاحت طلب ہے، اس کافقرہ (Esemplastic power) عالموں کے سمجھنے کی چیز ہے اور کسی طرح عام پڑھے لکھے آدمیوں کے پلے نہ پڑسکا۔ یہی فقرہ تخئیل کی تعریف ہے اور تخئیل کی جو اقسام کولرجؔ نے بنائی ہیں، وہ اصل میں اس فقرے کی تین پہلوؤں سے وضاحت کرتی ہیں۔
تمام بحث کا چند الفاظ میں یہ حاصل نکلتا ہے کہ تخئیل ایک شکل بنانے والی قوت ہے۔ ایک آگ ہے جو تجربات اور خیالات کے عناصر کو دہکاتی ہے، پگھلاتی ہے اور ان کو نئی بالکل اچھوتی ترتیب سے ملاکر انہیں ایک اتحاد اورایک مرکب میں تبدیل کرتی ہے۔ یہ عمل لاشعوری اور الہامی ہوتا ہے۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ یہ کوئی اٹکل پچو چیز ہے۔ اصل میں یہ قدرت اور روح انسانی کے درمیان ایک پراسرار رشتہ ہے۔ قدرت کی روشنی کی شعاعیں جو کائنات میں بکھری پڑی ہیں انسان کی روح کے نقطہ پر فوکس ہوجاتی ہیں۔ قوت تخئیل کا اپنے اعلیٰ ترین مدارج پر یہ کام ہوتا ہے کہ وہ ان شعاعوں کو جمع ہی نہ کرے بلکہ ان میں ان پوشیدہ چیزوں کو بھی ظاہر کردے جو فلسفی خیالات اور اخلاقی قدروں کا پتہ دیتے ہیں۔ تخئیل محض دلفریب خواب ہی نہیں ہے بلکہ اس طاقت سے محبت کاعمل ہے جس کو جرمن زبان میں (nature-geist) کہتے ہیں۔ یہ محبت لاشعوری طور پر محبوب کی نقل ہوتی ہے اس لیے اس سے جو فن وجود میں آتا ہے وہ مکمل طور سے قدرتی اور انسانی ہوتاہے۔
کولرجؔ کے زمانے میں مابعد الطبیعات اور عینیت حاوی تھے اور اس نے تخئیل کی وضاحت کے سلسلے میں جو اصطلاحیں استعمال کی ہیں، وہ ان فلسفوں ہی سے تعلق رکھتی ہیں مگر اس کی وضاحت میں خاص بات یہ ہے کہ وہ تخئیل کو الہام سے متعلق دکھانے میں اس لاشعور کانقشہ کھینچ دیتا ہے جو جدید نفسیات کی بنیاد ہے اور تخئیل کے اخلاقی قدروں اور فلسفی معنوں سے وابستہ دکھانے سے وہ اس مقام پر آجاتا ہے جہاں جدید دور کے اشاریت پسند ہیں۔ اس طرح وہ تخئیل کے جدید ترین معنوں کو بھی گھیر لیتا ہے اورتخئیل کا وہ روپ دکھاتا ہے جو دائمی طور پر وقیع رہے گا۔
جدید دور میں فلسفوں کی کثرت نے ادب کے بابت نظریات کی بھی کثرت پیدا کردی ہے۔ یہ تمام نظریات ادب کے سلسلے میں تخئیل ہی کو سب سے اہم ٹھہراتے ہیں اور اپنے اپنے طریقے پر اسے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ طریقے بہت ہیں اور ان کو دوہرانا دلچسپ ضرور ہے مگر ان سب سے جو بات نکلتی ہے وہ ایک ہی ہے۔ ایک طرف تخئیل کوایک الہامی قوت کہاجاتا ہے جو نئے خیالات اور تصورات کااحاطہ کرتی ہے اوراس کا کام خیالات کی تخلیق ہے۔ دوسری طرف اسے وہ طاقت بتایا جاتا ہے جو روحانی تجربات حاصل کرتی ہے اور اس لیے روحانی ادراک کی قوت ہے۔یہ دینی اور ذوتی دونوں ہے، اسی وجہ سے قدیم فلسفی شاعر اور پیغمبر میں فرق نہیں کرتے تھے اورانہوں نے دونوں کے لیے ایک ہی لفظ دیکھیں کافی سمجھا تھا۔ جدید دور میں انفرادیت کی ترقی نے دینی اور ذوقی قوتوں کو الگ الگ کردیا مگر ان کا بنیادی اتحاد اپنی جگہ پر دائمی حقیقت ہے۔
اس میں شک نہیں کہ ادب کو نشاۃ الثانیہ سے لادینی نوعیت حاصل ہوئی اور مذہبی تخئیل اور فنی تخئیل کو دو متضاد چیزیں کہاجانے لگامگر اسی دورمیں سنؔ ایسے شاعر گزرے جو دونوں کو ایک ہی گنتے رہے اور انیسویں صدی سے ورڈ زورتھ اور کولرجؔ نے پھر دنوں کو ایک کردیا۔ اس وقت ہم دیکھتے ہیں کہ دونوں روحانی تجربات سے سروکار رکھتے ہیں۔ دونوں پسپائی کے عالم میں ہوتے ہیں مگردونوں عمل تلاش کرتے ہیں اور ذرائع حاصل کرکے اپنے وجود کا مظاہرہ کرتے ہیں، فرق یہ ہے کہ دینی تخئیل عمل نیک سے اپنے تئیں واضح فنی تخئیل اپنے ادا کے لیے وہ ذرائع استعمال کرتی ہے جو فنون سے وابستہ چلے آئے ہیں جیسے ادب سے زبان۔ دونوں کے کمال زوال اور فقدان کی بھی صورتیں ہیں مگر یہ واضح ہے کہ ہر فنی کارنامہ دینی اثر ضرور رکھتا ہے اور فنی تجربہ دینی تجربے سے قریب ضرور آجاتاہے۔
فنی تخئیل ایک قسم کی روشنی اور ایک اندرونی قوت ہے جس کے اثر میں آکر ہم اس مادی دنیا کو بھول جاتے ہیں اور ایک روحانی عالم میں پہنچ جاتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے کوئی دینی آدمی عالم کیف میں آجائے۔ اس عالم کو حقیقت اور عقل کے منفی کہا گیا ہے اور اس بناپر عقل اور تخئیل کو متضاد قوتیں بتایا گیا ہے۔ عقل (reason) تجربات کی تحلیل کرتی ہے اور اس طرح اس کا علم حاصل کرتی ہے۔ تخئیل کو الہام سے سروکار ہے اور وہ مختلف اجزاء میں آہنگ پر توجہ دیتی ہے۔ فنی تخئیل عقل سے بالکل الگ ہوکر محض جذباتی بھی ہوسکتی ہے اور محض احتساسی تاثرات میں ہمیں ایسی تخئیل جلوہ نما نظر آتی ہے۔ مگر محض احتساسی شاعر کو ہم اعلیٰ مقام نہیں دیتے۔
جب فنی تخئیل عقل سے وابستہ ہوجاتی ہے تو اس کے تصورات اشاریاتی ہوجاتے ہیں اور اس کو اشاریاتی (Symbolic) تخئیل کہا جاتاہے۔ یہ تخئیل محض تصورات تک نہیں جاتی بلکہ ان میں ا یک گہرے فلسفی معنی بھی ڈھونڈ لیتی ہے، اس لیے اس کا علم اور عقل سے تعلق ہوجاتاہے۔ اشارہ محض دلکش چیز نہیں ہوتا بلکہ معنی خیز بھی ہوتاہے اور جدید ادب میں تمام تر اسی کی طرف توجہ اس نتیجہ پر لے جاتی ہے کہ ہم اشاریاتی تخئیل ہی کو سب سے زیادہ اہم مانتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ تخئیل وہی ہے جواس قدیم انسان میں تھی، جس نے موجودات کے مشاہدہ کے بعد اصنام تخلیق کیے۔ مگر جدید اشارات اور پرانے اصنام میں فرق یہ ہے کہ آخرالذکر پوری قوم کی ملکیت ہوتے تھے، یعنی پوری قوم ان کو سمجھتی تھی اور اپناتی تھی مگر اول الذکر افراد سے تعلق رکھتے ہیں او راکثر اتنے زیادہ کہ مبہم ہوجاتے ہیں۔
جدید ادب میں ابہام اور مشکل کی وجہ یہی ہے کہ جو تخلیق وہ پیش کرتا ہے وہ بغیر سمجھائے سمجھ میں نہیں آتی۔ ممکن ہے کہ جب کسی ایک فرد نے کوئی صنم بنایا ہوگا تو وہ اس کے قریب لوگوں ہی تک محدود ہوگا اور آگے بڑھ کر وہ زیادہ سے زیادہ مقبول ہوتا گیا ہوگا۔ یہاں تک کہ پوری قوم کی ملکیت ہوگیا ہوگا۔ اسی طرح اس بات کا بھی امکان ہے کہ جو اشارے ہم آج بنارہے ہیں وہ ایک وقت میں بالکل عام ہوجائیں اور ہر شخص ان کو سمجھنے لگے۔ بہرحال اشاریاتی تخئیل اس وقت زیربحث ہے او راس کی خوبیوں اور کمزوریوں پر بہت کچھ لکھا جارہا ہے۔ اس دور کے ادیب کو اس سے چھٹکارہ ممکن نہیں اور بڑے ادیب کا کام یہ ہے کہ اس میں سے وہ رستہ نکال لے جو زیادہ سے زیادہ مقبول ہوسکے۔
(۲)
یہاں تک تخئیل کو ایک قوت کی حیثیت سے دیکھا گیا جو ادبی تخلیق کی محرک ہوتی ہے مگر تخلیق بھی اسی قوت کاکرشمہ ہے اور ہمیں یہ دیکھنا ہے اس کرشمہ سے اس قوت کی کیا نوعیت واضح ہوتی ہے۔ اسی بات کو دوسرے الفاظ میں یوں ادا کیا جائے گا کہ ادب وجود میں آنے سے پہلے تخئیل ایک قسم کی چیز ہے اور اس کے وجود میں آجانے کے بعد دوسری چیز ہے۔ پہلی حالت میں وہ محض داخلی تجربہ ہے اور دوسری حالت میں وہ ایسی خارجی صورت اختیار کرلیتا ہے کہ ہر شخص اس سے مس ہوسکتا ہے۔ اس نئی حالت میں اسے (Expressive imagination) کہا جاتا ہے۔
یہ تخئیل ہی ادب کاخاص حصہ اور اس کے ذہن کاخاص سرمایہ ہے۔ کیونکہ لاتعداد لوگ ایسے ہیں جو جذباتی تجربوں میں گم ہو گر تخئیل کی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں مگر کم ایسے ہیں جو اپنے تجربوں کو الفاظ کاجامہ پہنا سکیں۔ فنی تخئیل روحانی حقائق کے تاثرات جمع کرتی ہے مگر ادا کرنے والی تخئیل ان تاثرات کو بدلتی ہے اور اکثر وہ صورت دے دیتی ہے جو ادیب کے خیال میں بھی نہ آتی تھی۔ اس حالت کا بہترین بیان ان نقادوں کے یہاں ملتا ہے جو خود ادیب تھے اور ایسے ہی لوگ اسے پوری طرح سمجھ سکتے ہیں۔
جو لوگ اس تخئیل کے اہل ہیں اور اس کو کامیابی سے برتنے میں تجربہ رکھتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ تحریر کرتے وقت الفاظ قلم سے کس طرح نکلتے ہیں اور جو کچھ ادیب کہنا چاہتا تھا اس کو کس طرح بدل دیتے ہیں۔ اکثر محسوس ہوتا ہے کہ الفاظ نا کافی ثابت ہوئے اور اس حالت میں سچا ادیب اپنی تصنیف کو رد کردیتا ہے جیسے کہ اسٹیونسؔ نے اپنی ناول کا پورا مسودہ سگریٹ سے جلاڈالا تھا۔ اکثر ادیب کو بڑی فکر کرنا پڑتی ہے اور کافی تلاش کے بعد موزوں الفاظ ملتے ہیں مگرزور دار قوت والے ادیب یہ دیکھتے ہیں کہ موزوں ترین الفاظ ہی آپ سے آپ نہیں آگئے بلکہ انہوں نے اصل تصور کو اس صفائی اور زور سے ادا کردیا جس تک ان کا خیال بھی نہ گیا تھا۔ اس سلسلے میں نفسیات کے ماہر لاشعور کالفظ استعمال کرتے ہیں اور لکھنے والے جانتے ہیں کہ کسی حدتک ان کی تخلیق کو وجود میں لانے کے لیے یہ قوت کارفرما ہوتی ہے۔
تخئیل رہتی وہی چیز ہے یعنی تشکیل کرنے والی یا شکل دینے والی قوت مگر اپنے عمل کے آخری مدارج میں وہ ذریعہ جو وہ اداکے لیے استعمال کرتی ہے تشکیل کے راستے میں آتا ہے، ایک کشمکش کی صورت پیدا کرتا ہے اور پھر پگھل کر تخئیل کا تابع ہوجاتا ہے۔ اس سے پہلے تخئیل ایک محض نفسیاتی یا روحانی چیز ہوتی ہے، اب وہ بیان، بدیع اور طرزِ ادا کی چیز ہوجاتی ہے۔ تخلیق کرنے والا محرک پس منظر میں ہوجاتا ہے اور تخئیل ادیب کے الفاظ سے نکلنے والے معنوں یا تصورات کا معاملہ ہوجاتی ہے۔ الفاظ ایک فضا قائم کرتے ہیں، ایک عالم خلق کرتے ہیں اور جب ہم کسی ادب پارے کے سلسلے میں تخئیل کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو ہماری مراد اسی فضا اور اسی عالم سے ہوتی ہے۔
صانع تخئیل (Expressive imagination) کے مطالعہ ہی سے ارسطو نے علم بیان (rhetoric) کی بنیاد رکھی او راگر ہم بالکل سیدھے سادے طریقے پر صانع تخئیل کی تعریف کریں تو یہ کہیں گے کہ یہ صنائع اور بدائع کے استعمال کا نفسیاتی نام ہے۔ بہت ہی عام بلکہ درمیانہ طریقہ پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ صنائع تخئیل تشبیہ اور استعارات کے استعمال کو کہتے ہیں۔ ادا (Expression) کی لاتعداد صورتیں ہیں مگر شروع سے اب تک تمام طرزوں کے مطالعہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کچھ صورتیں ایسی ہیں جو باربار سامنے آتی ہیں اور اس لیے ان کو نام دے دیے گئے ہیں۔ بیان و بدیع کی کتابوں میں ان ناموں کی فہرست اور مثالیں ملتی ہیں۔ ہر کتاب میں تعداد مختلف ہوتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ تمام ناموں کو دوسرخیوں یعنی مقابلہ اور تضاد کے ماتحت لے آیا جائے۔ ہمارے عالمان بیان نے صنائع لفظی اور صنائع معنوی کے دو دائرے قائم کیے ہیں مگر یہ دائرے اس زمانے کی یاد دلاتے ہیں جب لفظ اور معنی کو دوالگ الگ چیزیں سمجھا جاتا تھا یا ان کو الگ الگ رکھنے پر زور دیا جاتا تھا۔ اب اس فرض کو بے معنی سمجھا جاتا ہے۔
پرانے زمانے میں ہر انسانی تجربے کو منطق کے کانٹے پر لایا جاتا تھا، جس کے نتیجہ میں اقسام اور ان کے مختلف ناموں کا تقرر ہی صنائع تخئیل کی تشریح ہوجاتا تھا مگر آج کل نفسیات تحلیل سے زیادہ امتزاج پر زور دیتی ہے اور کوئی ایک ایسی چیز تلاش کرلیتی ہے جوتمام صورتوں پہلوؤں یا اقسام کو اپنے دائرے میں لے لے۔ اس لیے بیان کی جدید ترین تحریروں میں لفظ (image) یا تصور استعمال ہوتاہے۔ اس سلسلے میں جدید دور کی سب سے اہم کتاب شاعر سیل ڈے لیوس کی تصنیف (The Poetic Image) ہے اوراس میں میں صنعت استعارہ کو تمام صنائع کا نمائندہ لے لیاگیا ہے۔ پرانے زمانے میں کسی شعر کی تعریف یہ کی جاتی تھی کہ اس میں کیسی اچھی تشبیہ دی گئی یا کیسا موزوں استعارہ ہے اور یہیں پر صنائع تخئیل کا معاملہ ختم ہوجاتا تھا۔ آج کل استعاروں کو تصورات(imagery) کے اشاروں یا مثالوں کی حیثیت سے دیکھاجاتا ہے اور ان میں شاعر کے نفسیاتی حالات جو اس کے وقتی جذباتی اثر اس کی روایات اور اس کی انفرادیت وغیرہ کامجموعہ ہیں، جانچا جاتا ہے۔ اس طرح تخئیل (imagination) کا مطالعہ تصورات (imagery) کامطالعہ ہوگیا ہے۔
(Imagery)کوادب سے ویسا ہی تعلق ہے جیسا رنگوں کو مصوری سے یعنی جیسے بغیررنگوں کے تصویر وجود میں نہیں آسکتی ویسے ہی بغیر تصورات کے ادب ادب نہیں ہوتا۔ اس کاصحیح استعمال ہی ادیب کی قوت تخئیل کا اندازہ دیتا ہے۔ ادب مصوری اور موسیقی دونوں سے میل کھاتا ہے یعنی اسے رنگ اور راگ دونوں سے تعلق ہے۔ الفاظ صوری تاثرات بھی سامنے لاتے ہیں، سماعی بھی اس لیے ادب میں صوری تصورات (visual images) اور سماعی تصورات (auditory images) دونوں بیک وقت موجود ہوتے ہیں۔ ان کے استعمال کے بہت سے مدارج ہیں۔ سب سے نیچا درجہ محض رسمی روایتی یا مکانیکی استعمال کا ہے۔ یعنی صنائع کو محض سجاوٹ کے لیے استعمال کیاجائے۔ یہ ان ادوار میں ہوتا ہے جو تخریبی ہوتے ہیں اور جن میں زندگی اپنے معنے اور مقصد سے ہٹ کر محض وضع داری رہ جاتی ہے۔
ہمارے یہاں لکھنؤ اسکول کی شاعری، جس کے سب سے زیادہ نمائندہ شاعر ناسخؔ ہیں، اس درجہ کی مثال ہے۔ پھر ہر دور میں کچھ نہ کچھ ایسے شاعر بھی ہوتے ہیں جن کاشاعری کی طرف رجحان فطری یا قدرتی نہیں ہوتا مگر وہ کسی بناپر ادیب ہوجاتے ہیں اورزندگی بھر ادیب رہتے ہیں اور ادب کی تاریخ میں نام بھی چھوڑ جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ بیان و بدیع اورعروض کے اصول بن گئے ہیں اور ان کی پابندی سے جو کچھ وجود میں آتا ہے وہ ادب ہی ہوتا ہے۔ مگر جیسے ہر انسانی معاملے میں کھرے اور کھوٹے میں فرق ضروری ہے، ویسے ہی اس درجہ کا ادب صاف کھوٹا معلوم ہوتا ہے۔ (images) ضرور ہوتے ہیں مگر وہ جذبہ سے ہم آہنگ نہیں نظر آتے۔ مثلاً ناسخؔ کی شاعری میں بیانی اور عروضی اصول بڑی پختگی کے ساتھ نظر آتے ہیں مگر یہاں تخئیل کا سوال نہیں اٹھتا۔ وہ کہتے ہیں،
ازل سے دشمنی طاؤس ومار آپس میں رکھتے ہیں
دل پر داغ کو سوداہے کیوں اس زلفِ پیچاں کا
اس شعر میں صوری اور سماعی تصورات موجود ہیں، طاؤس اور مار ان کی دشمنی، دل پر داغ کی طاؤس سے مشابہت اور مار کی زلف پیچاں سے اپنی جگہ پر مسلم ہے، پھر شعر میں ایک شاندار راگ بھی ہے جو سماعت کو متاثر کرتا ہے۔ مگر عاشق کاجو سوال ہے وہ اس کے دل سے نہیں نکلا ہے۔ جس حالت کو وہ دکھانا چاہتا ہے اس کاتخئیلی نقشہ نہیں بنتا۔ یہی معلوم ہوتاہے کہ شاعر نے یہ شعر اس عالم میں جاکر نہیں کہا جو تخئیلی دنیا ہوتا ہے۔ علم اور مشق کی بناپر بالکل میکانیکی طریقے پر اس نے مصنوعی سی چیز بنادی ہے، جس پر ادب کا دھوکا ضرور ہوتا ہے مگر جو ادب کہلانے کے قابل نہیں ہے۔
شاعر جب انسپریشن جوش طبع کے ماتحت آجاتا ہے تب ہی اس کے تصورات ہم آہنگ ہوتے ہیں اور تخئیل کی دنیا میں لے جاتے ہیں۔ بہت سے شاعر ایسے ہوتے ہیں جو کبھی تخئیل کی دنیا میں آہی نہیں پاتے، مگر بڑے سے بڑے شاعر بھی ہمیشہ اس دنیا میں نہیں رہ پاتے۔ اکثر جگہ ان کا بھی جوش غائب ہوجاتاہے اور ان کی شاعری محض میکانیکی اصول کی پابندی رہ جاتی ہے۔ میرتقی میرؔ کے دیوان میں شترگربہ اس کی مثال ہے۔ بہرحال ادب میں تخئیل کا یہ بھی ایک درجہ ہے اور اس درجہ کاادب محض (rhetoric) ہوتاہے۔
اس سے اونچے درجہ کا تخئیلی عمل وہ ہے جب ادیب ایک دور یا ایک مدرسہ خیال کی روایت کے مطابق تصورات لاتا ہے۔ ہماری غزل کی شاعری اس سے بھری پڑی ہے۔ عاشق اور معشوق کے بابت کچھ فقرے ٹکے بندھے ہوگئے ہیں اور شاعری ان کو جوں توں جڑ دینے کانام ہے۔ انگلستان میں اٹھارویں صدی کی شاعری میں بھی زبان اور فقرے مخصوص ہوگئے تھے، شاعری ان کے جمع کردینے کا نام تھا۔ مگر ان روایتی تصورات کو برتنے والوں میں اکثر شاعر ایسے بھی نکل آئے جنہوں نے روایتی تصورات میں ایک نئی جان پیدا کردی اور اس طرح سچی تخئیل کا اپنے کلام میں ثبوت دیا۔ ہمارے غزل گو شاعروں میں میرؔ دردؔ، آتشؔ، غالبؔ، داغؔ اس کی مثال ہیں۔ ان شاعروں کی ایک انفرادیت بھی ہے جس کا آگے ذکر آئے گا۔ یہاں صرف یہ دکھانا ہے کہ سچی تخئیل قوت رکھنے والا آدمی روایات کی خشک ہڈیوں میں بھی جان ڈال دیتا ہے۔
ہوتا یہ ہے کہ ایک دور میں کچھ شاعر کچھ خاص تصورات کسی خاص صنف سے وابستہ کردیتے ہیں، ان شاعروں کا عمل تمام تر تخئیل ہوتا ہے مگر ان کے بعد آنے والے شاعر ان کے تصورات کو اٹل مان کر رائج کردیتے ہیں اور اس طرح ایک روایت قائم ہوجاتی ہے۔ روایت کاقائم ہونا بھی ایک لازمی چیز ہے، مگر اس میں پھنس کر رہ جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ شاعر قوت تخئیل سے بے نیاز ہے۔
روایات کو برتنے کے سلسلے میں ایک اور عمل آتا ہے جس کو تخئیلی عمل کا ایک زیادہ اونچا درجہ کہنا چاہیے۔ کچھ اصناف ایسی ہیں جن میں سجاوٹ یا مخصوص غیرمعمولی اثر قائم کرنے کے لیے کچھ (devices) استعمال کرنا ضروری ہوتی ہیں۔ مثلاً ہمارے یہاں قصیدہ میں گھوڑے یا تلوار کی تعریف جو مرثیوں میں بھی لازمی ہوگئی ہے، یا جیسے یورپ کی ایپک شاعری میں اس قسم کی تشبیہات کااستعمال جو ہومرؔ سے وابستہ ہیں اور (Homeric similiss) کہلاتی ہیں، ظاہر ہ ان چیزوں کا کسی قصہ میں لے آنا بالکل بناوٹ ہے اور اکثر شاعروں کے یہاں یہ بناوٹ ہوکر بھی رہ جاتاہے مگر بہترین شاعروں نے اس بناوٹ کو بھی اس طرح اپنالیا ہے کہ اس کے برتنے میں ان کی طبع کے جوہر کھلتے ہیں۔ مثلاً ملٹنؔ کی پیراڈائز لاسٹ (Paradise Lost) میں ہومری تشبیہات اس طرح آتی ہیں کہ ہر موقعہ کے اثر کو یا تو مقابلے سے تضاد سے گہرا کردیتی ہیں یا پھر وہ تنوع پیدا کردیتی ہیں جو موقعہ کے لحاظ سے ضروری ہوگیا تھا۔ معلوم یہ ہوا کہ تخئیل کو روایت سے بھی ہم کوسروکار ہے مگر یہاں بھی وہ اگر زوردار ہے تو روایت میں پھنس کر نہیں رہ جاتی بلکہ اس کو لے کر عالم بالا میں اڑجاتی ہے۔
اس طرح لاتعداد درجے قائم کیے جاسکتے ہیں، مگر سب سے اعلیٰ درجہ وہ ہے جب استعارات اور اوزان بڑے صاف اور واضح تصورات وجود میں لاتے ہیں اور یہ تصورات آپس میں ہم آنگ ہوکر تخئیل کاایک ایسا عالم پیدا کرتے ہیں جو اپنے کیف میں محو کرلیتا ہے اور یہ کیف ایسا ہوتا ہے کہ جتنا کہ اس سے مس ہوتے جائیے اتنا ہی لطف بڑھتا جاتا ہے تو اعلیٰ ترین ادب کامظاہرہ ہوتا ہے اور تخئیل اپنا مکمل کام کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ اس درجہ کے ادب کا اثر رومانی ہوتا ہے اور صانع تخئیل بنیادی طور پر رومانی چیز ہی ہے۔ یہ ہم کو روزمرہ کی زندگی کی بندشوں سے دور لے جاتی ہے مگر بھید کی دنیا میں گم نہیں کرتی۔ یہ ہمیں ایک ایسی جنت دکھاتی ہے جہاں لامحدودیت کا دورہ ہوتا ہے پھر بھی حدود صاف دکھائی دیتے ہیں۔ بھولی ہوئی، آدھی جانی ہوئی دور دراز کی چیزیں اپنی دلکشی کے ساتھ زندہ ہوجاتی ہیں۔ شاعر یا ادیب عالم کاتصور لے کر پیدا ہوتا ہے۔
ہنیرلٹؔ نے بیان کیا ہے کہ وہ ورڈ سورتھ کے ساتھ تھا اور شام ہو رہی تھی، ورڈ سورتھ نے کہا کہ شام کتنی خوبصورت ہے اور ہنیرلٹؔ نے اسے دیکھ کر دل میں کہا، ’’یہ شاعر قدرت کو کن آنکھوں سے دیکھتے ہیں؟‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ شاعروں کی آنکھیں کچھ اور ہی دیکھتی ہیں، وہ تخئیل کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ مگر اپنے اس خواب (vision) کو ادا کرنے کے لیے انہیں الفاظ کو تابع کرنا پڑتا ہے۔ کیٹسؔ کی مختصر زندگی اور اس میں کل چار برس (یعنی ۲۲ برس کے سن سے ۲۶برس کے سن تک) میں۔۔۔ اس کی قوت تخئیل کا ارتقاء ایک مثالی چیز ہے۔ وہ خالص تخئیل لے کر پیدا ہوا تھا اور ذہنی امور سے بالکل دور تھا مگر اول اول اس کے تصورات حسین ضرور تھے مگر مل جل کر کسی زبردست تخئیل کاثبوت نہ دیتے تھے بلکہ محض سنسنی پیدا کرکے رہ جاتے تھے۔ سب ہی شاعروں کو اس درجہ سے گزرنا پڑتا ہے۔ پھر رفتہ رفتہ اس کے احتساسی تصورات کی سنسنی کم ہوتی جاتی ہے۔ مکمل حسین تصویریں سامنے آتی جاتی ہیں۔اس کی آخری نظمیں تصورات کو کمال اثر تک ہی نہیں پہنچاتیں بلکہ تخئیل کی ایک ایسی دنیا بناتی ہیں کہ اقبالؔ کایہ شعر یاد آتا ہے،
بنوائے آفریدی چہ جہانِ دلفریبے
کہ عدم بچشم آمد چو طلسم سیمیائی
کسی شاعر کی قوت تخئیل کازبان پر قابو وقت کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ ایک مقام پر پہنچ کر تھم جاتااور کم بھی ہونے لگتا ہے۔ مشق عموماً قوت کی کمی کو پورا کردیتی ہے جیسے کہ میر انیسؔ نے کہا ہے،
گھٹا جوش مشق سخن بڑھ گئی ہے
بڑھاپے میں ہم کو جواں کردیا
تخئیل اپنی خالص حالت میں ایسے شاعروں کے یہاں ملتی ہے جیسے میرانیسؔ یا کیٹسؔ جو خالص حسن کی دنیا بناتے ہیں اور جس کی قدروں کے علاوہ قدروں سے کوئی سروکار نہیں رکھتے۔ مگر دوسرے شاعروں کے یہاں جیسے ورڈز ورتھ یا اقبالؔ یہ فکر سے ضرور وابستہ ہوجاتی ہے۔ رومیؔ اور گوئٹےؔ فکر اور تخئیل کے آہنگ کی بہترین مثال پیش کرتے ہیں۔ جب گوئٹےؔ کے فرشتے خدا کے حضور میں گاتے ہیں،
INR ANBLICK QIRT DEN ENGLEN STARKE
DA KEINER DICN ERGRUNDEN MAG
UND ALLES DEINE HOHEN WERKS
SIND HERRLICH WIE AM EARSTEN TAG.
تو تصورات بصری کانقشہ اور تصورات سماعی کا راگ ایک ایسی دنیا میں لے جاتا ہے جہاں خدا ہی خدا ہے، ازل اور ابد ایک ہے، پوری کائنات کاتصور ہی سامنے نہیں ہے بلکہ اس کے معنی بھی آئینہ کی طرح صاف ہیں۔
انیسویں صدی سے تخئیل ہی کو ادب کی بنیاد کہا جاتا ہے اور آج بھی اسی نظریہ کو ماننے والوں کی تعداد زیادہ ہے، حالانکہ ٹی۔ایسؔ ایلیٹ کے سے لوگ ذکاوت کی تخئیل کے ساتھ آمیزش ضروری سمجھتے ہیں تاکہ جدید دور میں زندگی کی پیچیدگی پورے طور پراداہوسکے۔ اٹھارویں صدی میں تمام تر زور ذکاوت ہی پر تھا اور اس لیے انیسویں صدی والوں نے اسے نثر کا دور کہا۔ نثر بھی ادب کی ایک شاخ ہے اور اگر وہ تخئیل کے بجائے ذکاوت پر مبنی ہے تو تخئیل سارے ادب کی بنیاد نہیں رہ جاتی۔ اصل میں وہ نثر جو علوم کو واضح کرنے کے لیے اور علم دینے کے لیے استعمال ہوتی ہے تخئیل سے بالکل بری ہوتی ہے مگر ادبی نثر بھی تخئیل سے ہٹ کر بے بنیادہوجاتی ہے۔ نثر میں ذہن کاتخئیل پر قابو ہوتاہے مگر اس ذہن کے ساتھ اگر تخئیل نہ ہو تو نثر پھیکی ہوجاتی ہے۔ اعلیٰ ترین نثر جس کی مثال انگریزی میں کارؔ لائل اور رسکن کی نثر ہے اتنی ہی تخئیلی ہے جتنی شاعری، اس میں شاعرانہ تصورات کے ساتھ ساتھ ایک مخصوص راگ بھی ہے جو خیالات سے ہم آہنگ ہے۔
ناول یا افسانہ کو بالکل واقعاتی چیز کہاجاتا ہے اور ان میں تخئیل سے زیادہ حقیقت پر زور دیا جاتا ہے مگر کامیاب ناولیں وہی ہیں جو واقعاتی امور کو تخئیل کی دنیا میں لے جاتی ہیں۔ کامیاب ترین ناولیں محض حقیقت کانقشہ نہیں ہوتیں بلکہ اس کے واقعات اور کردار ایک قسم کے تصورات ہوتے ہیں جو مل جل کر تقابل اور تضاد سے ہم آہنگ ہوکر ایک ایسی تخئیلی دنیا سامنے لاتے ہیں جو بنیادی طور پر شاعرانہ ضرور ہوتی ہے۔ ادب تخلیق کرتا ہے جس کامحرک تخئیل ہوتی ہے اور جس کا نتیجہ بھی تخیل ہی ہوتی ہے، ادب تمام تر تخئیل کا کرشمہ ہے جس کے مختلف پہلوؤں اور وابستگیوں کامطالعہ ہی ادب کا مطالعہ ہے۔
آج کل تخئیل کے ان دونوں معنوں کو جو اوپر ہم نے سمجھائے، ساتھ لے کر ادراک (SENSIBILITY) کالفظ بھی استعمال ہوتاہے۔ ہر شاعر کے سلسلے میں اس کے شاعرانہ ادیب (Poetic sensibility) کا ذکر ہوتا ہے اور اسی کی قوت پر اس کی حیثیت مقرر کی جاتی ہے۔ ادب غیر ادب سے ’’ادارک‘‘ ہی کی بنا پر نمایاں سمجھا جاتا ہے، ادراک ہی ادب کی نمایاں صفت ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.