علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی کسی ادبی مجلس میں زبان کھولناآسان کام نہیں ہے۔ ہر باہر سے آنے والے کو اس کا احساس ہوتا ہے کہ یہ سید احمد خاں، حالی، شبلی، حسرت موہانی کی فکر اور ان کے تخلیقی سرچشموں کا مرکز ہے۔ اور اس کے قیام سے لے کرآج تک اردو نثر ونظم کی بیش بہا اصناف ادب ہمیں علی گڑھ سےمہیا ہوتی ہیں۔
رشید احمد صدیقی، مجنوں گورکھ پوری، ڈاکٹر عبدالعلیم، آل احمد سرور، اختر انصاری، جذبی اور ذوقی جیسے مستند اساتذہ آج یہاں موجود ہیں، خورشید الاسلام، منیب الرحمن، خلیل الرحمن اعظمی، وحید اختر، قاضی عبدالستار، راہی معصوم رضا کی ہستیاں ایسی ہیں جنھوں نے اپنی ادبی کاوشوں سے جدید اردو ادب کے ایوان میں قابل قدر مقام حاصل کرلیا ہے۔ اور پھر نوجوان تر اور تازہ تر ادیبوں اور شاعروں کا ایک اچھا گروہ یہاں پر موجود ہے جن سے ہمارے ادبی مستقبل کی امیدیں وابستہ ہیں۔ میں نے علی گڑھ کے قدیم اور جدید لکھنے والوں کی تحریروں سے تحصیل علم اور کسب فیض کیا ہے، اور امید کرتا ہوں کہ باقی عمر تک طلب علم، تربیت شوق اورتسکین ذوق کا یہ سلسلہ، جس کا تعلق اس دارالعلوم سے ہے، جاری رہے گا۔ مجھے توقع ہے کہ موجودہ مذاکرات، میرے لیے اسی سلسلے کا ایک گراں قدر حصہ ثابت ہوں گے۔
آج میں اس گفتگو کا آغاز اس مسئلے سے شروع کرنا چاہتا ہوں کہ فن یا آرٹ کی (اردو ادب جس کاایک جزو ہے) ہماری زندگی میں ضرورت کیا ہے۔انسان کی بحیثیت انسان کے دوخصوصیتیں ہیں جو اسے دوسرے حیوانوں سے ممیز کرتی ہیں۔ پہلے تو یہ کہ وہ اوزار بناسکتا،جن کےوسیلے سے اس نے قدرت کی قوتوں کو معیشت اور اپنے تحفظ کے لیے استعمال کرنا سیکھا، دوسرے یہ کہ اوزار بنانے اور کام کرنے کے دوران میں اپنی جبلی صداؤں اور چیخوں کو زبان کی شکل میں بدل سکا۔ اور اپنامطلب اور مفہوم ادا کرنے کے لیے اور انسانی زندگی کی بڑھتی ہوئی پیچیدگیوں کےاظہار کے لیے بامعنی الفاظ اور جملوں کااختراع کرسکا۔
پہلا فن کار: تصورات، خیالات، مفاہیم کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا،جو انسانی زندگی کے ارتقا کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا۔ انسان کے ذہن اور دماغ کا ارتقا بھی اوزاروں کے ذریعہ سے اس کی کام کرنے کی صلاحیت اور زبان کے ذریعہ سے اس کے فہم اور شعور کی ترقی کے ساتھ ساتھ ہی ہوا ہے۔ انسانی تہذیب کی قدیم ترین تاریخ، نیز علم حیاتیات (انتھروپالوجی) کے ماہروں نے ہمیں بتایا ہے کہ انسانوں نے اپنے قدیم ترین گیت، باوزن الفاظ کے ساتھ دہرانا، ناچ اور تصویر کشی، غالباً آج سےدس ہزار سال سے بھی پہلے جب انسان ابھی تک دور وحشت، یا پتھر کے عہد میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ ایجاد کیے۔
کہا جاتا ہے کہ پہلا فن کار غالباً وہ انسان تھا یا انسانوں کا وہ گروہ تھا جس نے سب سے پہلے معمولی کھرے پتھر کو اوزار کی شکل میں ڈھالا، ایک حربہ جس سے وہ اپنی غذا حاصل کرنےکے لیے جانوروں کاشکار کرسکے۔ اور جب انسانوں نے ایک طرح کے بہت سےاوزار بنالیے ہوں گے،تب ہی اس اوزار کو بہتر طور سے سمجھنے، پہچاننے اور اس کے استعمال پر مہارت حاصل کرنے کے لیے ان کے ذہن میں پتھر کے کلہاڑے کامجرو تصور بھی پیدا ہوا ہوگا۔ اور وہ لفظ بااسم وجود میں آیا ہوگا جس سے پتھر کے کلہاڑے کوعام طور سے پہچانا جاسکے۔ اس طرح الفاظ انسانی عمل اور اس عمل کے مادی آثار کی تشبیہ بھی ہیں اور اپنے مفہوم کے وسیلے سے دوسرے انسانوں کے ساتھ رشتہ بھی قائم کرتے ہیں۔ لفظ کی قوت کااندازہ کیجیے، جس کے اختراع سے تاریکی میں جیسے روشنی ہوجاتی ہے، انسان خود کو زیادہ طاقت ور محسوس کرتاہے،قدرت کی اندھی طاقتوں اور اپنے مشکل ماحول پر قابو پانے کی زیادہ صلاحیت اس میں پیدا ہوتی ہے۔
ایک طرف قدرت کی بے پناہ اندھی طاقتوں، گرمی، سردی، طوفان، بارش اور سیلاب ،تاریکی، وحشی درندے اور زہریلے سانپ، وہ طاقتیں اور چیزیں جن کے قوانین ابھی تک انسان نے سمجھے نہیں تھے اور جس ناسمجھی کے سبب سے انسان کو اپنی سخت بے بسی کا احساس ہوتا تھا، اور دوسری طرف انسان کا عمل، اس کے دوہاتھوں کی طاقت اس کی اوزار بنانےکی اور رفتہ رفتہ ذہن اور زبان، تصور اورخیال کے ذریعہ چیزوں، حادثات، انسان اور قدرت اور انسان اور انسان کے مابین رشتوں اور تعلقات کو سمجھنے اور پھر سمجھانے کی صلاحیت، لاچاری اور بے بسی اور صلاحیت، بس، اور ابھرتے ہوئے شعور کے درمیان سخت نفسیاتی تناؤ اور تشنج پیدا کرتے ہوں گے، ایسا ذہنی اور روحانی ہیجان پیدا کرتے ہوں گے جو انسان کو اس مخمصے سے نجات دلانے کے لیے نئی راہوں اور نئے طریقوں کی دریافت پر اکساتا ہوگا۔
لفظوں کاجادو: ایسے ماحول اور ذہنی اورنفسیاتی کیفیت میں انسان نے لفظوں کی طلسمی کیفیت محسوس کی۔ لفظ جو شعور اور معنی،تخئیل اور فکر کا صوتی اظہار کرتے تھے، اسم اعظم جس کے دہرانے سےاپنے ماحول اور حالات زندگی اور جہد حیات پر قدرت حاصل کرنے کے لیے نفسیاتی، ذہنی اور روحانی طور پر وہ اپنے کو زیادہ مضبوط اور طاقت ور بناسکتا تھا۔ پھر قدرت کے مظاہر، موت اور زندگی، روشنی اور آگ، جنس کی کشش، ان سب سے پیدا ہونے والا تحیر، انسان کی اجتماعی زندگی سے ان کاتعلق، تمام ان چیزوں کو اور ان کے قوانین اور اصل کو سمجھنے کی کوشش، زندگی کو بہتر،زیادہ کامیاب اور بار آوار بنایا جا سکے۔اسی کاوش اور کوشش،اور اس کے تجربے، شعور اور خیال کے اتحاد سے انسانی گروہوں کے ابتدائی مذہبی عقائد، دیوی دیوتا، جادو اور انھیں کے ساتھ ساتھ اجتماعی ناچ اور گیت (متوازن عمل اور الفاظ کے صوتی اور تخئیل اثر کا امتزاج) نیز غاروں اور گپھاؤں کی قدیم ترین تصویر کشی، یعنی فنون لطیفہ وجود میں آئے۔
لیکن قدیم اشتراکی معاشرت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ انسانوں کے اجتماعی عمل، اجتماعی زندگی اور فن کی وحدت بھی باقی نہیں رہی۔ طبقاتی معاشرت میں، جہاں ایک طرف نئے وسائل اور ذرائع پیداوار کی دریافت کی وجہ سے، انسان کے مادی وسائل میں زبردست اضافہ ہوا، تہذیب اور مدنیت وجود میں آئے، آبادی میں اضافہ کے لیے وسائل فراہم ہوسکے۔ اسی کے ساتھ مالک اور غلام، اہل دول اور مفلس ،محنت کش طبقوں کاوجود، اپنے تمام تضادات کے ساتھ بھی ظاہر ہوا۔ حکمراں، مالک اور استحصال کرنے والے طبقوں کے فنون اپنی خاص خصوصیت رکھنےلگے، اور ان طبقوں کا فن جن کا استحصال ہوتا تھا، جن کے دست دبازو کی محنت سے معاشرت کی تمام وہ پیداوار اور زائد پیداوار وجود میں آتی تھی، جس پر تہذیب و تمدن کی بنیاد اور چمک دمک تھی، ان کے فنون مثلاً لوک گیت، ناچ، مروجہ مذہبی عقائد کے اندر رہتےہوئے بھی ایک طرح کا فلسفیانہ انحراف، ان کی دست کاری ان کابھی وجود رہااور ان کا ارتقا ہوتاتھا۔
شاعر ادیب ، فن کار اس طبقاتی سماج سے باہر نہیں تھا۔ دربار اور استحصال کرنے والے طبقوں سے وابستگی اسے کبھی ایک طرف کو کھینچتی تھی، کبھی وہ عوامی محنت کش طبقوں سے وابستگی محسوس کرتا تھا (جن کا بیشتر وہ ایک فرد ہوتا تھا) کبھی وہ اس گم شدہ جنت،کھوئی ہوئی اجتماعیت کے خواب دیکھتا تھا، جب سب انسان مفلس سہی، لیکن برابر تھے، اور کبھی وہ یہ سوچتا تھا کہ مصائب اور مظالم کا یہ لامتناہی سلسلہ شاید موت کے بعد، کسی دوسری زندگی میں ختم ہوجائے گا اور دنیا کے جہنم سے نکل کر اسے ایسی جنت میں پناہ ملے گی، جہاں ظلم، جھوٹ غرور اور نخوت، نفرت، حسد، جنگ اور خونریزی کانام و نشان نہ ہوگا، اور انسان امن، محبت، عیش و عشرت کے ماحول میں ابدی زندگی گزارسکیں گے۔
سماج کی طبقاتی کش مکش: سرمایہ داری کے جدید نظام میں، جو انیسویں صدی کےصنعتی انقلاب کے بعد رفتہ رفتہ امپریالزم کی شکل میں ساری دنیا پر حاوی ہوگیا، اگر ایک طرف دنیا کو انواع اقسام کی مادی ضرورتوں کو پوری کرنے والی اشیا سے بھردیا، اور جس کی وجہ سے سائنس اور ٹیکنالوجی کی غیرمعمولی اور تیزرفتار ترقی ہوئی، اور جس کے سبب سے بڑی مشینی صنعتوں میں اجتماعی طور سے کام کرنے والا، نیا صنعتی محنت کشوں کا طبقہ وجود میں آیا، جس کا اس کے پہلے کے جاگیری یا تاجر سرمایہ دار معیشت میں وجود نہیں تھا، تو دوسری طرف سرمایہ داری نے سماج کی طبقاتی کش مکش، محکوم اور حاکم استعماری ملکوں کی کش مکش کو بہت زیادہ تیز کردیا، اور ایسے معاشرتی حالات اور کیفیتیں پیدا کیں جن میں بحیثیت فرد کے انسان کی بے گانگی (Alienation) کا احساس شدید اور جاں گداز بن گیا۔ یہ کیفیت بنیادی طور پر اس لیے پیدا ہوتی ہے چونکہ سرمایہ دارانہ سماج میں محنت کش مزدور اور اس کے عمل اور سلسلہ عمل میں بے گانگی ہوتی ہے۔ مارکس نے اس کیفیت کی تشریح یوں کی ہے:
کام، مزدور سے علاحدہ ہوتا ہے، یعنی وہ اس کی فطرت کا حصہ نہیں ہوتا، نتیجہ کے طور پر وہ کام کرکے یہ نہیں محسوس کرتا کہ اپنی تکمیل کر رہا ہے، بلکہ وہ اسے ایک قربانی سمجھتا ہے، اسے اپنی لاچاری کا نہ کہ خوش حالی کا احساس ہوتا ہے،اس کے ذریعہ سے اس کا جسمانی اور ذہنی فروغ نہیں ہوتا، بلکہ وہ جسمانی طور سے تھکاوٹ اور ذہنی طور سے گراوٹ محسوس کرتا ہے۔ اس وجہ سے صرف اپنے فرصت کےاوقات میں مزدور اطمینان محسوس کرتا ہے، کام کے اوقات میں اسے اپنی بے نوائی کا احساس ہوتا ہے۔ اس کا کام اس کی مرضی کا نہیں، وہ اسے کرنے کے لیے مجبور کیا گیا ہے، کام خود اس کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ ایک وسیلہ ہے جس کے ذریعہ سے وہ اپنی دوسری ضرورتیں پوری کرتا ہے۔ کام کی یہ بے گانہ خصوصیت اس بات سے صاف طور پر ظاہر ہوتی ہے کہ جب کوئی جسمانی یا دوسری مجبوری نہیں ہوتی تب وہ طاعون کی طرح اس سے گریز کرتا ہے۔ اور آخر میں کام کی بے گانہ خصوصیت اس بات سے بھی صاف ظاہر ہوتی ہے کہ کام خود اس کے لیے نہیں، بلکہ کسی اور کے لیےہے، یعنی کام کرتے وقت وہ اپنا مالک نہیں ہوتا، کسی دسرے شخص کامحکوم ہوتا ہے۔ بالکل اس طرح جیسے مذہب میں، انسانی تخئیل کے عمل، یعنی انسانی دماغ اور ذہن کے عمل کا آزادانہ ردعمل ہوتا ہے، اور یہ دیوتاؤں اور شیطانوں کاایک فرد بے گانہ عمل معلوم ہوتا ہے، اسی طرح مزدور کا عمل اس کا اپنا عمل نہیں ہوتا، اس کے برخلاف کسی دوسرے کا عمل معلوم ہوتا ہے اس کی اپنی بے ساختگی کااتلاف ہوتا ہے۔
دوسری جگہ بے گانگی کے متعلق مارکس نے کہا ہے:
’’مزدور، شئے (جسے وہ بناتاہے)میں اپنی جان لگادیتا ہے، اس طرح اس کی جان اپنی نہیں بلکہ اس شئے کی ملکیت ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ جتنا زیادہ عمل کرتا ہے، اتنا ہی کم اس کی ملکیت ہوتی ہے۔ اس کے عمل سے بنی ہوئی شئے میں جتنا زیادہ اس کا عمل ہوتا ہے، وہ اس کی ملکیت نہیں ہوتا۔ چنانچہ یہ شئے جتنی بڑی ہوگی اتنا ہی وہ خود کم ہوگا۔ اس کی بنائی ہوئی شئے سے مزدور کی یہ بے گانگی، نہ صرف اس کے عمل کو ایک شئے بناتی ہے، یہ شئے، اس سےعلاحدہ اپنی ایک مطلق ہستی رکھنے لگتی ہے۔ اس کا وجود اس کی ہستی سے باہر ہوتا ہے، اس سےبے گانہ ہوتا، اور یہ ایک خود مختار قوت بن کراس کی مخالفت میں سامنے آکھڑی ہوتی ہے۔ اپنی جان جو اس نے اس شئے میں لگائی ہے۔ اب ایک بے گانہ اور مخالف قوت بن کر اس کے سامنے آن کھڑی ہوتی ہے۔‘‘
سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی: اس نفسیاتی بے گانگی کے ساتھ ساتھ جدید عہد کی بعض دوسری خصوصیتوں پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ ہمارا زمانہ سائنس اور ٹکنالوجی کی غیر معمولی اور تیز رفتار ترقی کا زمانہ ہے۔ جن کی مدد سے اور جن کو استعمال میں لاکر انسانوں کے بڑے بڑے گروہوں نے، افلاس، بیماریوں اور بہت سی دوسری محرومیوں سے، جو قبل کے زمانوں میں انسانوں کی قسمت تھی، نجات حاصل کرلی ہے۔ اور اس کا امکان پیدا ہوگیا ہے،کہ ساری نوع انسان کو تکلیف دہ مشقت، افلاس، بیماری، ناخواندگی، پس ماندگی سے چھٹکارا دلاکر مادی خوش حالی فراہم کی جاسکے۔ ترقی کی اس تیز رفتاری کااندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ممالک متحدہ امریکا کے ایک سائنسی ادارے کےصدر گل برٹ وڈمین نے کہا ہے؛
’’۱۹۵۰-۵۶ء کے درمیان سائنس اور انجینئرنگ کے شعبوں میں علم کی مقدار دگنی ہوگئی، اور غالباً اس کے بعد کی مدت میں پھر دگنی ہوگئی۔ اس وقت جن اشیاء کی پیداوار ہو رہی ہے، ان میں سے پچاسی فیصدی ایسی ہیں جو ۱۹۵۶ء میں تجرباتی مرحلے میں بھی نہیں تھیں۔ دنیا میں اس وقت جتنے سائنس داں اور انجینئر زندہ ہیں، وہ پوری انسانی تاریخ کے نوے فیصد ہیں۔‘‘
یہ بات گزشتہ سال کہی گئی تھی (۱۹۶۷) اور میں نہیں کہہ سکتا کہ مسٹروڈمین کا یہ تخمینہ صحیح ہے یا نہیں، پھر بھی اگر اس تخمینے میں کسی قدر مبالغہ سےبھی کام لیا گیا ہے، فی الجملہ ایسے عہد کی غیرمعمولی تیز رفتار ترقی سےانکارنہیں کیا جاسکتا، جب انسان کے قبضے میں ایٹمی اور نیوکلیائی طاقت آگئی ہے اور اس کااستعمال بھی شروع ہوگیا ہے، اور جب آٹومیشن، الکٹرونک مشینوں اور سائبرٹیکنکس کا استعمال صنعتی اعتبار سے ترقی یافتہ ملکوں میں پھیلتا جارہا ہے، اور ان کے ذریعہ سے گنتی کے افراد، اتنا کام کرسکتے ہیں جو پہلے سیکڑوں ہزاروں آدمی کرتے تھے، اور جب انسان ارضی بندش کو توڑ کر خلا اور بیرونی خلا میں پرواز کرنے لگا ہے، جب چاند اور زہرہ پر اس نے اپنی نشانیاں اتاردی ہیں۔
یقینی یہ تبدیلیاں اتنی بڑی اور بنیادی ہیں کہ ان سے پوری نوع انسانی، معیشت، معاشرت اور اس کے سبب سے انسانوں کی نفسیات، ان کے اجتماعی اور انفرادی تعلقات، فن اور آرٹ اور ادب پر گہرا اثر پڑے گا، اور اس وقت بھی پڑ رہا ہے، لیکن قبل اس کے کہ ہم اس کا ذکر کریں، اس تصویر کے ایک دوسرے پہلو پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔
تصویر کا دوسرا رخ: ٹھیک ایسے زمانے میں جب انسان کے علم اور اس کی عملی صلاحیت نے اتنی زبردست ترقی کی ہے کہ اس دنیا کو جنت بنانے کی حقیقی صلاحیت رکھتے ہیں، ٹھیک اسی زمانے میں اور اس تابناک امکان اور صلاحیت کے ساتھ ساتھ پوری نوع انسانی کی نیوکلیائی بربادی اور ہلاکت، یعنی اس دنیا کو یکایک، چند گھنٹوں کے ہی اندر ایٹمی خاک کے جہنم اور تہذیب و تمدن کی ہیبت ناک تباہی کا خطرہ بھی ہمارے سروں پر منڈلانے لگا ہے۔ وہ طاقت جو اس کرۂ خاکی اور اس پر بسنے والی مخلوق کو لامحدود خوش حالی دےسکتی، اس کا ہی علم اور نیوکلیائی آلات حرب کی شکل ہے، اس کاذخیرہ، اگر نیوکلیائی جنگ چھڑجائے، تو ماہروں کے اندازے کے مطابق پوری نوع انسانی، اس کی تمام بستیوں، آبادیوں، تمام تمدنی اور تہذیبی مظاہر کوایک بارنہیں، بیس مرتبہ مکمل طور سے ہلاک و برباد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انسانی زندگی کے موجودہ بڑے اور بنیادی تضادات جن کا ہم نے ابھی ذکر کیا، یعنی ایک طرف بڑی مشینی صنعت، سائنس اور ٹکنالوجی کی غیرمعمولی ترقی، یعنی نئے وسائل و ذرائع پیدا وار کی دریافت اور ان کی وجہ سےانسانی سماج کی غیر معمولی ترقی، دوسری طرف سرمایہ دار دنیا میں ان وسائل و ذرائع پیداوار کی ذاتی ملکیت، استعمار، اجارہ داری، نوآبادیاتی نظام اور نوآبادیاتی اور استعماری جنگیں، اور عالم گیر نیوکلیائی ہلاکت کا خطرہ، اس کا متقاضی ہے کہ ان تضادات کو حاصل کرکے نوع انسانی کے راستے سے اس کی لامحدود ترقی کے راستے کی رکاوٹوں کو جلد از جلد دور کردیا جائے، اور ایک نظام معاشرت کی تشکیل کی جائے، جس کی موجودہ اجتماعی محنت خود متقاضی ہے، اور جس کی عملی شکل کے ابتدائی نقوش ہمیں دنیا کے ایک تہائی سوشلسٹ حصے میں نظر آنےلگے ہیں،دنیا کا وہ حصہ جہاں ذرائع اور وسائل پیداوار پر ذاتی،منافع خور ملکیت کو ختم کردیا گیا ہے، جہاں محنت کش طبقہ ذرائع و وسائل پیداوار کا مالک اور مختار ہے اور جہاں ریاست کا نظم و نسق محنت کش طبقوں کے ہاتھ میں ہے۔
لیکن جیسا کہ قدیم اور جدید عہد دونوں کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے، استحصال کرنے والے حکمراں طبقے، اس وقت بھی جب تاریخ کی جانب سے ان کو موت کا پروانہ مل چکتا ہے، اور جب ان کا وجود نئی ترقی پذیر قوتوں اورطبقات کےراستے میں ایک ناقابل برداشت رکاوٹ بن چکا ہوتاہے، خود بہ خود، اپنے انجام کاادراک حاصل کرکے پرامن طریقے سے سیاست اور معاشرت کےاسٹیج سے ہٹ کر پس پردہ نہیں چلے جاتے، انھیں بے دخل کرنے کے لیے زندگی کی ترقی کےعلم بردار طبقوں اور گروہوں کو سخت انقلابی جدوجہد کرنا ہوتی ہے،اور یہ جدوجہد محض سیاسی یا معاشی میدان میں نہیں، بلکہ نظریاتی، فلسفیانہ، ادبی اور فنی محاذوں پر بھی جاری ہوتی ہے۔
اہم ترین ذہنی اور روحانی تقاضا: نظریاتی میدان میں دنیا کا جمہوری اور اشتراکی انقلاب آج اس کا متقاضی ہے کہ ہم انسان کی اس نفسیاتی بیگانگی کو ختم کرنے کی کوشش کریں، جو انسان کو اجتماعیت، اجتماعی عمل اور عوامی انقلاب سے ذہنی اورروحانی طور پر دور کرتی ہے۔ جو انسان کو صرف ہلاکت، مایوسی، شکست اور موت کا پیغام دیتی ہے، اور ان رجحانات کے برخلاف، جو استحصال کرنے والے حکمراں طبقوں اور ان کے حواریوں کے ذریعہ عوام میں بے دلی، انتشار اور شکست خوردگی پھیلانے کے لیے بالالتزام منتشر کیے جاتے ہیں، ان میں انسان کی عظمت، وقار، رفاقت اور یگانگت کےایسے جذبات اور حوصلوں کو پیدا کریں،جن کی انفرادیت اس طرح ابھرے کہ وہ من و تو کے فرق کو بھول کر انسانی شرافت کی بلند تر سطح پر پہنچ سکیں۔ یہ اس دور کا اہم ترین ذہنی اورروحانی تقاضاہے، اور ترقی پسند ادبی تحریک، اپنی تمام خامیوں اور کوتاہیوں کے باوجود، ہندستان کی تمام زبانوں کے ادب میں اور عالم گیر پیمانے پر، اسی مقصد کا اظہار کرتی ہے۔
مجھے ان لوگوں کی خام خیالی پر افسوس آتا ہے، جو ترقی پسند تحریک کی بعض غلطیوں یا اس کے چند افراد کی تنگ نظری یا موقعہ پرستی، یا اس کی تنظیمی کمزوریوں کو پیش کرکے یہ بنیادی رویہ اختیار کرتے ہیں کہ اب اس تحریک کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر علی گڑھ میں اس کی ضرورت ہے، تو میں اس تحریک کے ایک سربراہ کی حیثیت سے تمام گزشتہ فرو گذاشت کے لیے معافی کا خواست گارہوں۔ لیکن میں یا کوئی بھی وہ شخص جو ہندوستان میں اور ہندستانی عوام میں ایک نئی جمہوری اور اشتراکی معاشرت اور تہذیب کی تعمیر کاخواہش مند ہے کس طرح یہ پوزیشن قبول کرسکتا ہے کہ ہمیں ادب اور فن کے اہم ترین میدان کو چھوڑ کر ہندوستانی عوام کے شریف ترین اور بلندترین، حیات پرور اور انقلابی جذبات،احساسات اور شعور کی بھرپور اور منظم کوشش نہ کرنا چاہیے۔
فرقہ پرستی رجعتی، سرمایہ پرست رجعتی، دقیانوسی جاگیری تاریک خیال عناصر، بیرونی امریکی اجارہ داروں کے ایجنٹ، سب منظم ہیں اور اپنے لامحدود وسائل کے ساتھ ایسا زہر ہمارےملک میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیلا رہے ہیں، لیکن ادب اور فن کی آزادی کے نام پر، اور کہیں ہماری غلطیوں کی دہائی دےکر،ہم سے کہاجاتا ہے کہ ہم ترقی پسند ادب کی ترویج اور ترقی پسند تحریک کی تنظیم نہ کریں۔ ظاہر ہے کہ یہ نہیں ہوسکتا۔ جب تک ہندوستانی عوام اور ان کی انقلابی جدوجہد زندہ ہے اور وہ ہمیشہ زندہ رہے گی اور مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جائے گی، ہم میں سے بعض افراد کی پراگندہ خیالی یا پسپائی کے باوجود ہمیشہ نیے اور بہتر ترقی پسند ادیب اٹھتے رہیں گے اور محنت کش عوام کے شانہ بشانہ ایسے نغمے اور ترانے گاتے رہیں گے، اور ایسی کہانیاں سناتے رہیں گے، جن سے ہماری روح کی بالیدگی ہو، اور ہمارے شعور کی جلا۔ مجھے اپنی قوم اور خاص طور پر اس کے محنت کش عوام اور ان کےہمراہی ترقی پسند دانشوروں پر اعتماد ہے، اور اپنے وطن کے درخشاں اشتراکی مستقبل پر یقین۔ اور اس پر بھی اعتماد ہے کہ علی گڑھ کا نیا اردو اور ہندی کا دانشور اس نظریاتی جدوجہد میں وطن کے کسی دوسرے حصے کے دانشور سے پیچھے نہیں رہے گا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.